فکر نہ کریں سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا آخری حصہ
یہ بات کامیاب افراد مثلاً خود مسٹر فرائیڈ مین کے لیے ہوش اڑا دینے والی ہو سکتی ہے
یہ بات کامیاب افراد مثلاً خود مسٹر فرائیڈ مین کے لیے ہوش اڑا دینے والی ہو سکتی ہے۔ 1978ء میں وہ اپنی خبریں بھیجنے کے لیے برٹش ٹیلی فون بوکس کے سامنے لائن لگایا کرتے تھے مگر اب وہ افریقہ میں کسی دور دراز مقام سے ای میل کر سکتے ہیں جو آناً فاناً ٹائمز کی ویب سائٹ پر نمودار ہو جاتا ہے اور فوراً ہی چین کی طرف سے اس کا ردعمل بھی موصول ہو جاتا ہے۔
اس کتاب کے لیے مسٹر فرائیڈ مین نے تقریباً ڈھائی سال ریسرچ کی اور اس دوران انھیں تمام چیدہ چیدہ ٹیکنالوجسٹوں سے کم ازکم دو بار انٹرویو کرنے پڑے، کیونکہ چیزیں بڑی تیزی سے تبدیل ہو رہی تھیں، تمام دوسرے لوگوں کی طرح انھیں سوچنے سمجھنے کا موقع ہی نہیں ملتا تھا۔
کتاب کا ٹائٹل درحقیقت اپنے ایک دوست پر ان کا تبصرہ ہے، جس کی سستی اور کاہلی فکرمندی کے لیے کچھ ہی منٹ کی مہلت دیتی تھی، اس میں کوئی شک نہیں یہ کتاب غلط یا صحیح وضاحت کرنے کے معاملے میں کمال کی چیز ہے، اس کے ساتھ ہی بڑے موضوعات کو انسانیت کے دائرے میں لانے اور ان کا ابال کم کرنے پر مسٹرفرائیڈ مین پر تنقید کرنا ایسا ہی ہے جیسے یہ شکایت کی جائے کہ مک جیگر اپنے گیتوں کی ریٹنگ بڑھانے کے لیے سیکس کا سہارا لیتے ہیں۔ چیزوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کی بھی اپنی قدر و قیمت ہے، مثلاً خارجہ پالیسی کو موسم کی تبدیلی کے قریب تر لایا جائے۔
بلکہ کتاب پر تبصرہ کرنے والے کو گلہ یہ ہے کہ وضاحت کرنے کا انداز خاصا متاثرکن اور قائل کرنے والا ہے، مثلاً ان کو سن کر وہ اسباب آپ پر آشکارا ہوجاتے ہیں کہ دنیا کیوں اتنی تیزی سے حرکت کر رہی ہے، مگر سب کچھ مایوس اور غمزدہ کرنے والا نہیں ہے ہم اسی دوران یہ بھی دریافت کرتے ہیں کہ اے ٹی ایم نے بینکوں میں زیادہ فل ٹائم ٹیلر Teller ملازمتیں پیدا کی ہیں، کیونکہ ان مشینوں کی وجہ سے بینکوں کو اپنی شاخوں کی تعداد بڑھانی پڑی ہے۔
ایسی کمیونٹیز کی انسپائر کرنے والی کہانیاں بھی ہیں جنھوں نے اس چیلنج کو قبول کیا ہے، بل گیٹس جیسی شخصیتیں بھی سامنے آئی ہیں اور ایسے نعرے بھی مقبول ہوئے کہ خواتین کو بااختیار بنایا جائے، بچوں کو ہر قیمت پر صحتمند رکھا جائے۔
مگر ان تیز رفتاریوں کا علاج اور نجات کیا ہے؟ یہ رفتار کم ہونے والی نہیں ہے، ٹرمپ جیسے لوگوں نے اگر اس پر بند باندھنے کی کوشش کی تو فائدے کے بجائے مزید نقصان ہو جائے گا۔ یہیں خود کو یہ یقین دلانا مشکل لگنے لگتا ہے کہ بالآخر سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہو جائے گا۔ مسٹر فرائیڈ مین اس سلسلے میں کامن سینس پر مبنی 18 ایسے اقدامات کی فہرست پیش کرتے ہیں جو ان کے خیال میں امریکی حکومت کو کرنے چاہئیں، جو سنگل Payer ہیلتھ سسٹم سے لے کر فری ٹریڈ معاہدے کرنے اور انفرااسٹرکچر بنانے کے بارے میں ہیں۔
اگر سیاستداں ان کی فہرست کے صرف ایک چوتھائی حصے پر عمل کر لیتے ہیں تو امریکا آنے والی تبدیلیوں سے نمٹنے کی بہتر پوزیشن میں ہو گا۔ مگر فرائیڈمین سچی بات ہے ایک ایماندار رپورٹر ہیں اس لیے وہ یہ دعویٰ نہیں کرتے کہ یہ سب کچھ جلدی ہو جائے گا۔
جب یہ سوال کیا گیا کہ بعض حیاتیاتی نظام کیوں زیادہ پھلتے پھولتے ہیں؟ تو ماحول کے ماہر آموری لوونیز نے یہ جواب دیا کہ ان میں خود کو اردگرد کے حالات کے مطابق ڈھالنے کی بھرپور صلاحیت ہوتی ہے۔ مسٹر فرائیڈ مین کے بے انتہا پرامید ہونے کا ایک سبب یہ ہے کہ حال ہی میں وہ منی سوٹا کے سینٹ لوئی پارک ہو کر آئے ہیں۔ بقول ان کے وہاں کی اچھی باتیں جو وہ بچپن میں دیکھ کر آئے تھے اب تک سروائیو کرگئی ہیں۔
مگر کچھ اچھے دن غائب بھی ہوگئے ہیں مثلاً بیس بال ایسا کھیل ہوتا تھا جسے دیکھنا ہر ایک افورڈ کر لیتا تھا، جب مسٹر فرائیڈ مین جیسے لڑکے یو ایس اوپن دیکھنے چلے جاتے تھے جب ان کے قصبے کا ہر فرد پبلک اسکولز میں جاتا تھا۔
تاہم کتاب پڑھنے کے بعد یہ احساس بھی ہونے لگتا ہے جیسے ''مغموم مغرب'' کے لیے ہر چیز اوکے ہونے والی نہیں ہے، نگلنے کے لیے کوئی آسان گولی نہیں ہے اور انتہا پسند جس قسم کی ٹیبلٹ بنا رہے ہیں وہ زیادہ تر زہریلی ہیں۔ البتہ ڈاکٹر فرائیڈمین کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کے بعد آپ کو ان طاقتوں کے بارے میں بہتر آئیڈیا ہوجاتا ہے جو آپ کی دنیا کو الٹ پلٹ کر رہی ہیں۔ وہ کس طرح مل کر کام کرتی ہیں اور یہ بات بھی کہ لوگ، کمپنیاں اور حکومتیں خوشحال ہونے اور پھلنے پھولنے کے لیے کیا کرسکتی ہیں۔
سچی بات ہے آپ کو ایک مربوط تجزیہ مل جاتا ہے ایک ایماندارانہ ترتیب وار وضاحت اس بات کی کہ یہ دنیا ویسی کیوں ہے جیسی نظر آتی ہے؟ اور انھوں نے یہ سب کچھ ہمیں کوئی معجزاتی علاج تجویز کیے اور کوئی جواز پیش کیے بغیر بتایا ہے۔ ہاں کہیں کہیں یہ شکوہ ضرور ملتا ہے کہ مغرب گلوبلائزیشن کے ذریعے دوسری تیسری دنیاؤں کو ایک چھت کے نیچے تو لے آیا ہے لیکن اس نے محروم لوگوں کے مسائل حل کرنے کے بجائے انھیں اور سنگین مشکلات سے دوچار کردیا ہے۔
اس طرح دنیا واضح طور پر دو حصوں جنت اور دوزخ میں تبدیل ہوگئی ہے اور ٹیکنالوجی کی ترقی کی بدولت ایک دوسرے کا بہت قریب سے جی بھر کر نظارہ کر رہی ہے جب دوزخ میں رہنے والے جنت کا رخ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو انھیں اس کی بڑی بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے جس کے افسوسناک مناظر دنیا میں کئی ملکوں میں دیکھے جا سکتے ہیں۔
اس کتاب کے لیے مسٹر فرائیڈ مین نے تقریباً ڈھائی سال ریسرچ کی اور اس دوران انھیں تمام چیدہ چیدہ ٹیکنالوجسٹوں سے کم ازکم دو بار انٹرویو کرنے پڑے، کیونکہ چیزیں بڑی تیزی سے تبدیل ہو رہی تھیں، تمام دوسرے لوگوں کی طرح انھیں سوچنے سمجھنے کا موقع ہی نہیں ملتا تھا۔
کتاب کا ٹائٹل درحقیقت اپنے ایک دوست پر ان کا تبصرہ ہے، جس کی سستی اور کاہلی فکرمندی کے لیے کچھ ہی منٹ کی مہلت دیتی تھی، اس میں کوئی شک نہیں یہ کتاب غلط یا صحیح وضاحت کرنے کے معاملے میں کمال کی چیز ہے، اس کے ساتھ ہی بڑے موضوعات کو انسانیت کے دائرے میں لانے اور ان کا ابال کم کرنے پر مسٹرفرائیڈ مین پر تنقید کرنا ایسا ہی ہے جیسے یہ شکایت کی جائے کہ مک جیگر اپنے گیتوں کی ریٹنگ بڑھانے کے لیے سیکس کا سہارا لیتے ہیں۔ چیزوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کی بھی اپنی قدر و قیمت ہے، مثلاً خارجہ پالیسی کو موسم کی تبدیلی کے قریب تر لایا جائے۔
بلکہ کتاب پر تبصرہ کرنے والے کو گلہ یہ ہے کہ وضاحت کرنے کا انداز خاصا متاثرکن اور قائل کرنے والا ہے، مثلاً ان کو سن کر وہ اسباب آپ پر آشکارا ہوجاتے ہیں کہ دنیا کیوں اتنی تیزی سے حرکت کر رہی ہے، مگر سب کچھ مایوس اور غمزدہ کرنے والا نہیں ہے ہم اسی دوران یہ بھی دریافت کرتے ہیں کہ اے ٹی ایم نے بینکوں میں زیادہ فل ٹائم ٹیلر Teller ملازمتیں پیدا کی ہیں، کیونکہ ان مشینوں کی وجہ سے بینکوں کو اپنی شاخوں کی تعداد بڑھانی پڑی ہے۔
ایسی کمیونٹیز کی انسپائر کرنے والی کہانیاں بھی ہیں جنھوں نے اس چیلنج کو قبول کیا ہے، بل گیٹس جیسی شخصیتیں بھی سامنے آئی ہیں اور ایسے نعرے بھی مقبول ہوئے کہ خواتین کو بااختیار بنایا جائے، بچوں کو ہر قیمت پر صحتمند رکھا جائے۔
مگر ان تیز رفتاریوں کا علاج اور نجات کیا ہے؟ یہ رفتار کم ہونے والی نہیں ہے، ٹرمپ جیسے لوگوں نے اگر اس پر بند باندھنے کی کوشش کی تو فائدے کے بجائے مزید نقصان ہو جائے گا۔ یہیں خود کو یہ یقین دلانا مشکل لگنے لگتا ہے کہ بالآخر سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہو جائے گا۔ مسٹر فرائیڈ مین اس سلسلے میں کامن سینس پر مبنی 18 ایسے اقدامات کی فہرست پیش کرتے ہیں جو ان کے خیال میں امریکی حکومت کو کرنے چاہئیں، جو سنگل Payer ہیلتھ سسٹم سے لے کر فری ٹریڈ معاہدے کرنے اور انفرااسٹرکچر بنانے کے بارے میں ہیں۔
اگر سیاستداں ان کی فہرست کے صرف ایک چوتھائی حصے پر عمل کر لیتے ہیں تو امریکا آنے والی تبدیلیوں سے نمٹنے کی بہتر پوزیشن میں ہو گا۔ مگر فرائیڈمین سچی بات ہے ایک ایماندار رپورٹر ہیں اس لیے وہ یہ دعویٰ نہیں کرتے کہ یہ سب کچھ جلدی ہو جائے گا۔
جب یہ سوال کیا گیا کہ بعض حیاتیاتی نظام کیوں زیادہ پھلتے پھولتے ہیں؟ تو ماحول کے ماہر آموری لوونیز نے یہ جواب دیا کہ ان میں خود کو اردگرد کے حالات کے مطابق ڈھالنے کی بھرپور صلاحیت ہوتی ہے۔ مسٹر فرائیڈ مین کے بے انتہا پرامید ہونے کا ایک سبب یہ ہے کہ حال ہی میں وہ منی سوٹا کے سینٹ لوئی پارک ہو کر آئے ہیں۔ بقول ان کے وہاں کی اچھی باتیں جو وہ بچپن میں دیکھ کر آئے تھے اب تک سروائیو کرگئی ہیں۔
مگر کچھ اچھے دن غائب بھی ہوگئے ہیں مثلاً بیس بال ایسا کھیل ہوتا تھا جسے دیکھنا ہر ایک افورڈ کر لیتا تھا، جب مسٹر فرائیڈ مین جیسے لڑکے یو ایس اوپن دیکھنے چلے جاتے تھے جب ان کے قصبے کا ہر فرد پبلک اسکولز میں جاتا تھا۔
تاہم کتاب پڑھنے کے بعد یہ احساس بھی ہونے لگتا ہے جیسے ''مغموم مغرب'' کے لیے ہر چیز اوکے ہونے والی نہیں ہے، نگلنے کے لیے کوئی آسان گولی نہیں ہے اور انتہا پسند جس قسم کی ٹیبلٹ بنا رہے ہیں وہ زیادہ تر زہریلی ہیں۔ البتہ ڈاکٹر فرائیڈمین کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کے بعد آپ کو ان طاقتوں کے بارے میں بہتر آئیڈیا ہوجاتا ہے جو آپ کی دنیا کو الٹ پلٹ کر رہی ہیں۔ وہ کس طرح مل کر کام کرتی ہیں اور یہ بات بھی کہ لوگ، کمپنیاں اور حکومتیں خوشحال ہونے اور پھلنے پھولنے کے لیے کیا کرسکتی ہیں۔
سچی بات ہے آپ کو ایک مربوط تجزیہ مل جاتا ہے ایک ایماندارانہ ترتیب وار وضاحت اس بات کی کہ یہ دنیا ویسی کیوں ہے جیسی نظر آتی ہے؟ اور انھوں نے یہ سب کچھ ہمیں کوئی معجزاتی علاج تجویز کیے اور کوئی جواز پیش کیے بغیر بتایا ہے۔ ہاں کہیں کہیں یہ شکوہ ضرور ملتا ہے کہ مغرب گلوبلائزیشن کے ذریعے دوسری تیسری دنیاؤں کو ایک چھت کے نیچے تو لے آیا ہے لیکن اس نے محروم لوگوں کے مسائل حل کرنے کے بجائے انھیں اور سنگین مشکلات سے دوچار کردیا ہے۔
اس طرح دنیا واضح طور پر دو حصوں جنت اور دوزخ میں تبدیل ہوگئی ہے اور ٹیکنالوجی کی ترقی کی بدولت ایک دوسرے کا بہت قریب سے جی بھر کر نظارہ کر رہی ہے جب دوزخ میں رہنے والے جنت کا رخ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو انھیں اس کی بڑی بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے جس کے افسوسناک مناظر دنیا میں کئی ملکوں میں دیکھے جا سکتے ہیں۔