آج پاکستان کا مطلب کیا
شروع میں تو لکھنے والوں نے بھی یہی تاثر دیا کہ مشرقی صوبے والے غدار تھے
اس دلخراش سانحے کو نصف صدی بھی نہیں بیتی، اگرچہ ابتدا میں اتنے سمجھ دار نہ تھے کہ ملک دولخت ہوا ہے یا آزادی کے لیے اپنی جوانیاں قربان کرنے والے محض 24 سال بعد ہی آزادی کو اپنی حق تلفی یا اکثریت کو استحصال سمجھنے پر مجبور ہو گئے یا کر دیے گئے۔ (یہ سوال آج تک ہم سے جواب طلب کر رہا ہے) بہرحال شعور آنے پر دسمبر ہمیشہ ہی اداس کر جاتا ہے۔
شروع میں تو لکھنے والوں نے بھی یہی تاثر دیا کہ مشرقی صوبے والے غدار تھے، ہم سے مل کر رہنا ہی نہیں چاہتے، ان کے مظالم کی داستانیں بھی لرزہ خیز تھیں، مگر اب تو قلمکار بھی مسلسل حقائق کو منظرعام پر لانے کی جرأت کر رہے ہیں (شاید جن کا خوف تھا سچ کہنے لکھنے میں وہ اب نہیں رہے)۔ غرض سقوط ڈھاکا کے کچھ ایسے عوامل رفتہ رفتہ سامنے آ رہے ہیں کہ کہیں نہ کہیں اس سانحے کے ذمے دار ہم بھی کچھ کم نہیں ہیں۔ اس پر مستزاد اتنے بڑے سانحے سے ہم نے نہ کچھ سیکھا، ذرا نہ سنبھلے، ذرا رویہ نہ بدلا۔ دسمبر کا مہینہ اس دکھ کو ہمیشہ ہی تازہ کردیتا ہے۔
اب گزشتہ دو برس سے اسی ماہ کی وہی سولہ تاریخ ہمارے دکھ کو مزید کئی گنا بڑھادیتی ہے۔ مشرقی پاکستان کا بنگلہ دیش بن جاتا تو ہماری نااہلی، عاقبت نااندیشی، خودغرضی اور سیاسی چالبازی بھی کہی جاسکتی ہے۔ اپنی جاگیریں بچانے، پگڑی اونچی رکھنے، خود کو طرم خان اور دوسروں کو حقیر سمجھنے کے باعث ہمارا مقدر بنا۔ مگر اے پی ایس پشاور کے معصوم طلبا پاکستان کے مستقبل کو کس نے کس کے اشارے پر درندگی کا نشانہ بنایا؟ وہ کون سی منحوس گھڑی تھی جب ہم دوسروں کی جنگ اپنے گھر اٹھا لائے۔
مشرقی پاکستان میں بہار (انڈیا) اور دوسری مشرقی شہروں سے پاکستان کی محبت اور آزادی کی خاطر ہجرت کرنے والوں کو اس المیے کے بعد پاکستانی ہونے کی جو سزا ملی وہ تمام محب وطن افراد کے لیے مقام عبرت ہے، ملک دولخت ہونے کے بعد سے اب تک کئی حکمران حکمرانی کر کے جا چکے مگر پاکستان سے محبت کرنے کے مجرموں کو 44 سال کیمپوں میں محصور زندگی گزارنے کے باوجود اپنا سب کچھ دوبار پاکستان پر قربان کرنے کے بعد بھی کسی نے ان کو موجودہ پاکستان منتقل کرنے کے لیے اقدام نہ کیے۔
پاکستان کا خواب دیکھنے والی جانے کتنی آنکھیں پاکستان کو بنگلہ دیش بناتا دیکھ کر ہمیشہ کے لیے بند ہو چکیں۔ پاکستان سے محبت کرنے والوں کی تیسری نسل اب تک اپنے بزرگوں کے مشق کی سزا کیمپوں میں کاٹ رہی ہے۔ اب معاملہ لاکھوں کا نہیں چند ہزار کا رہ گیا ہے، مگر پورے پاکستان میں ان کے لیے جگہ نہیں۔ البتہ اندازاً 40 لاکھ افغان باشندوں کے لیے نہ صرف جگہ، بلکہ روزگار، شناختی کارڈ، پاسپورٹ سب کچھ ہے۔
اب تو وہ صاحب جائیداد بھی ہیں، ان کے لیے پاکستانی شہریت کا مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے، یہاں قیام کے جواز پیش کرکے واپسی کی تاریخ بار بار آگے بڑھائی جا رہی ہے۔ وہ جن کی یلغار میں دہشتگرد بھی پاکستان میں داخل ہوئے اور آج بھی کے پی کے اور بلوچستان میں دہشتگردی کی آگ بھڑکی، کراچی سے خیبر تک بم دھماکوں، خودکش حملوں میں کتنے ہی شہری اور فوجی جوان شہید اور جانے کتنے لاپتہ ہوچکے ہیں۔ حکمرانی کے نشے میں لوگ جو کچھ کرجاتے ہیں، کسی کے آلۂ کار بن کر اپنے ہی ملک کی خود مختاری اور آزادی کے خلاف اقدامات کرتے ہیں ان کی زندگی میں نہ سہی تاریخ اپنے سینے میں دفن یہ راز کبھی نہ کبھی اُگل ہی دیتی ہے۔
جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو کوئی پنجابی، بلوچی، پختون، بنگالی یا سندھی نہ تھا، سب پاکستانی تھے۔ قیام پاکستان کے بعد بانیٔ پاکستان، جنھوں نے اپنی انتہائی خراب صحت کے باوجود نہ صرف پاکستان کے تصور کو حقیقت بناکر دکھایا بلکہ اس کے مستقبل کے تمام اہم فیصلے بھی مختصر مدت میں کردیے۔
یہ نوزائیدہ ملک کی بدنصیبی تھی کہ وہ جو تقسیم ہند کے مخالف اور قائد اعظم کو کافراعظم کہتے تھے اپنے مذموم ارادوں کی تکمیل کے لیے پاکستان منتقل ہوگئے اور سیاسی یا مذہبی لبادے میں ملک کے خیر خواہ بھی بن بیٹھے اور کچھ عرصہ بعد اس قدر مستحکم ہوگئے کہ تقسیم سے قبل ہندو مسلم تنازعہ اتنا نہ تھا اور مسلمانوں کے تمام مسالک کے درمیان ایسی خلیج نہ تھی جو ان ڈیڑھ اینٹ کی مسجد والوں نے اپنے مسلک اور فرقے کی اشاعت کو تبلیغ دین کا نام دے کر مسلمانوں (پاکستانیوں) کے درمیان پیدا کردی۔
آج وہ پاکستان جس کو اسلام کا قلعہ، دین کا گہوارہ اور پاکستان کا مطلب کیا لا الٰہ الااﷲ کہا جاتا تھا، وہاں اسلام کا مطلب دہشتگردی، بدعنوانی، تعصب، انتہاپسندی، خودغرضی، رشوت، اقرباپروری، لوٹ مار اور دھوکا دہی قرار پایا ہے۔ پاکستان تو تمام مکاتب فکر کو آزادانہ اپنے عقائد کے مطابق جینے اور دوسروں کے عقائد کا احترام کرنے حتیٰ کہ غیر مسلموں کو بھی تمام انسانی حقوق کے ساتھ بحیثیت پاکستانی بھرپور انداز میں جینے کے لیے عالم وجود میں آیا تھا۔ مگر یہاں بات بات پر ریلیاں، جلوس، دھرنے، دھمکیاں، ایک دوسرے کو کافر کہہ کر قتل کرنا اپنے عقیدے کے سوا باقی سب کو گمراہ قرار دینا گویا آئین پاکستان قرار پاگیا ہے۔
اﷲ اکبر کا نعرہ لگاکر جس کو چاہو قتل کردو، یہی تبلیغ دین ہے؟ جب کہ رسول مقبولؐ کی حیات مبارکہ میں کہیں ایسا کوئی واقعہ نہیں ملتا کہ کسی کی گردن پر تلوار رکھ کر قبول اسلام پر مجبور کیا گیا ہو، جب کہ اسلام کا پیغام ہے ''لا اکراہ فی الدین'' غزوات میں قید ہونے والے مشرکین اور غیر مسلموں کو بھی بلاوجہ قتل کرنے کے بجائے ان کے علم یا ہنر سے استفادہ کی مثال ملتی ہے، اگر فدیہ نہ دے سکیں تو دس مسلمانوں کو پڑھنا لکھنا سکھادیں اور آزاد ہوجائیں۔
اسوۂ حسنہ اور اسلام کی حقانیت سے متاثر ہوکر وہ نہ صرف مسلمان ہوئے بلکہ اصحاب رسولؐ بن کر رہے۔ آج تبلیغ دین کے نام پر دوسروں پر زندگی تنگ کی جارہی ہے، غیر مسلموں کی عبادت گاہوں پر حملے ہورہے ہیں، انھیں خوفزدہ کیا جارہاہے۔ اس کی وجہ قرآن مجید اور حضورؐ کی ہدایت سے روگردانی ہے، اب تو ہم ایک دوسرے کو خود ہی جنتی و جہنمی قرار دے کر صاحب کتاب کر لیتے ہیں، روز قیامت کا انتظار کون کرے۔ نوبت یہ آ گئی ہے کہ اسلام کے قلعہ میں ''دفاع اسلام'' کی ضرورت پیش آ گئی ہے۔
شروع میں تو لکھنے والوں نے بھی یہی تاثر دیا کہ مشرقی صوبے والے غدار تھے، ہم سے مل کر رہنا ہی نہیں چاہتے، ان کے مظالم کی داستانیں بھی لرزہ خیز تھیں، مگر اب تو قلمکار بھی مسلسل حقائق کو منظرعام پر لانے کی جرأت کر رہے ہیں (شاید جن کا خوف تھا سچ کہنے لکھنے میں وہ اب نہیں رہے)۔ غرض سقوط ڈھاکا کے کچھ ایسے عوامل رفتہ رفتہ سامنے آ رہے ہیں کہ کہیں نہ کہیں اس سانحے کے ذمے دار ہم بھی کچھ کم نہیں ہیں۔ اس پر مستزاد اتنے بڑے سانحے سے ہم نے نہ کچھ سیکھا، ذرا نہ سنبھلے، ذرا رویہ نہ بدلا۔ دسمبر کا مہینہ اس دکھ کو ہمیشہ ہی تازہ کردیتا ہے۔
اب گزشتہ دو برس سے اسی ماہ کی وہی سولہ تاریخ ہمارے دکھ کو مزید کئی گنا بڑھادیتی ہے۔ مشرقی پاکستان کا بنگلہ دیش بن جاتا تو ہماری نااہلی، عاقبت نااندیشی، خودغرضی اور سیاسی چالبازی بھی کہی جاسکتی ہے۔ اپنی جاگیریں بچانے، پگڑی اونچی رکھنے، خود کو طرم خان اور دوسروں کو حقیر سمجھنے کے باعث ہمارا مقدر بنا۔ مگر اے پی ایس پشاور کے معصوم طلبا پاکستان کے مستقبل کو کس نے کس کے اشارے پر درندگی کا نشانہ بنایا؟ وہ کون سی منحوس گھڑی تھی جب ہم دوسروں کی جنگ اپنے گھر اٹھا لائے۔
مشرقی پاکستان میں بہار (انڈیا) اور دوسری مشرقی شہروں سے پاکستان کی محبت اور آزادی کی خاطر ہجرت کرنے والوں کو اس المیے کے بعد پاکستانی ہونے کی جو سزا ملی وہ تمام محب وطن افراد کے لیے مقام عبرت ہے، ملک دولخت ہونے کے بعد سے اب تک کئی حکمران حکمرانی کر کے جا چکے مگر پاکستان سے محبت کرنے کے مجرموں کو 44 سال کیمپوں میں محصور زندگی گزارنے کے باوجود اپنا سب کچھ دوبار پاکستان پر قربان کرنے کے بعد بھی کسی نے ان کو موجودہ پاکستان منتقل کرنے کے لیے اقدام نہ کیے۔
پاکستان کا خواب دیکھنے والی جانے کتنی آنکھیں پاکستان کو بنگلہ دیش بناتا دیکھ کر ہمیشہ کے لیے بند ہو چکیں۔ پاکستان سے محبت کرنے والوں کی تیسری نسل اب تک اپنے بزرگوں کے مشق کی سزا کیمپوں میں کاٹ رہی ہے۔ اب معاملہ لاکھوں کا نہیں چند ہزار کا رہ گیا ہے، مگر پورے پاکستان میں ان کے لیے جگہ نہیں۔ البتہ اندازاً 40 لاکھ افغان باشندوں کے لیے نہ صرف جگہ، بلکہ روزگار، شناختی کارڈ، پاسپورٹ سب کچھ ہے۔
اب تو وہ صاحب جائیداد بھی ہیں، ان کے لیے پاکستانی شہریت کا مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے، یہاں قیام کے جواز پیش کرکے واپسی کی تاریخ بار بار آگے بڑھائی جا رہی ہے۔ وہ جن کی یلغار میں دہشتگرد بھی پاکستان میں داخل ہوئے اور آج بھی کے پی کے اور بلوچستان میں دہشتگردی کی آگ بھڑکی، کراچی سے خیبر تک بم دھماکوں، خودکش حملوں میں کتنے ہی شہری اور فوجی جوان شہید اور جانے کتنے لاپتہ ہوچکے ہیں۔ حکمرانی کے نشے میں لوگ جو کچھ کرجاتے ہیں، کسی کے آلۂ کار بن کر اپنے ہی ملک کی خود مختاری اور آزادی کے خلاف اقدامات کرتے ہیں ان کی زندگی میں نہ سہی تاریخ اپنے سینے میں دفن یہ راز کبھی نہ کبھی اُگل ہی دیتی ہے۔
جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو کوئی پنجابی، بلوچی، پختون، بنگالی یا سندھی نہ تھا، سب پاکستانی تھے۔ قیام پاکستان کے بعد بانیٔ پاکستان، جنھوں نے اپنی انتہائی خراب صحت کے باوجود نہ صرف پاکستان کے تصور کو حقیقت بناکر دکھایا بلکہ اس کے مستقبل کے تمام اہم فیصلے بھی مختصر مدت میں کردیے۔
یہ نوزائیدہ ملک کی بدنصیبی تھی کہ وہ جو تقسیم ہند کے مخالف اور قائد اعظم کو کافراعظم کہتے تھے اپنے مذموم ارادوں کی تکمیل کے لیے پاکستان منتقل ہوگئے اور سیاسی یا مذہبی لبادے میں ملک کے خیر خواہ بھی بن بیٹھے اور کچھ عرصہ بعد اس قدر مستحکم ہوگئے کہ تقسیم سے قبل ہندو مسلم تنازعہ اتنا نہ تھا اور مسلمانوں کے تمام مسالک کے درمیان ایسی خلیج نہ تھی جو ان ڈیڑھ اینٹ کی مسجد والوں نے اپنے مسلک اور فرقے کی اشاعت کو تبلیغ دین کا نام دے کر مسلمانوں (پاکستانیوں) کے درمیان پیدا کردی۔
آج وہ پاکستان جس کو اسلام کا قلعہ، دین کا گہوارہ اور پاکستان کا مطلب کیا لا الٰہ الااﷲ کہا جاتا تھا، وہاں اسلام کا مطلب دہشتگردی، بدعنوانی، تعصب، انتہاپسندی، خودغرضی، رشوت، اقرباپروری، لوٹ مار اور دھوکا دہی قرار پایا ہے۔ پاکستان تو تمام مکاتب فکر کو آزادانہ اپنے عقائد کے مطابق جینے اور دوسروں کے عقائد کا احترام کرنے حتیٰ کہ غیر مسلموں کو بھی تمام انسانی حقوق کے ساتھ بحیثیت پاکستانی بھرپور انداز میں جینے کے لیے عالم وجود میں آیا تھا۔ مگر یہاں بات بات پر ریلیاں، جلوس، دھرنے، دھمکیاں، ایک دوسرے کو کافر کہہ کر قتل کرنا اپنے عقیدے کے سوا باقی سب کو گمراہ قرار دینا گویا آئین پاکستان قرار پاگیا ہے۔
اﷲ اکبر کا نعرہ لگاکر جس کو چاہو قتل کردو، یہی تبلیغ دین ہے؟ جب کہ رسول مقبولؐ کی حیات مبارکہ میں کہیں ایسا کوئی واقعہ نہیں ملتا کہ کسی کی گردن پر تلوار رکھ کر قبول اسلام پر مجبور کیا گیا ہو، جب کہ اسلام کا پیغام ہے ''لا اکراہ فی الدین'' غزوات میں قید ہونے والے مشرکین اور غیر مسلموں کو بھی بلاوجہ قتل کرنے کے بجائے ان کے علم یا ہنر سے استفادہ کی مثال ملتی ہے، اگر فدیہ نہ دے سکیں تو دس مسلمانوں کو پڑھنا لکھنا سکھادیں اور آزاد ہوجائیں۔
اسوۂ حسنہ اور اسلام کی حقانیت سے متاثر ہوکر وہ نہ صرف مسلمان ہوئے بلکہ اصحاب رسولؐ بن کر رہے۔ آج تبلیغ دین کے نام پر دوسروں پر زندگی تنگ کی جارہی ہے، غیر مسلموں کی عبادت گاہوں پر حملے ہورہے ہیں، انھیں خوفزدہ کیا جارہاہے۔ اس کی وجہ قرآن مجید اور حضورؐ کی ہدایت سے روگردانی ہے، اب تو ہم ایک دوسرے کو خود ہی جنتی و جہنمی قرار دے کر صاحب کتاب کر لیتے ہیں، روز قیامت کا انتظار کون کرے۔ نوبت یہ آ گئی ہے کہ اسلام کے قلعہ میں ''دفاع اسلام'' کی ضرورت پیش آ گئی ہے۔