آقائے نام دارﷺ ہر مظلوم و محروم کی پکار
ذات خداوندی نے انسانوں پر رحم و کرم فرماتے ہوئے انسانوں میں اس ہستی کو بھیجا۔
انسانیت پستیوں کی عمیق گہرائیوں میں غرق ہوتی جارہی تھی، کفر و شرک و بت پرستی کا دنیا پر غلبہ ہوا جاتا تھا، ظالموں اور ستم گروں کے ستائے ہوئے نجات دہندہ کے انتظار میں تھے، ذات پات، کفر و شرک، خواتین کی تذلیل اور برائیوں پر تفاخر جیسی بیماریوں کا شکار دم توڑتا معاشرہ مسیحائی کو ترس رہا تھا کہ ذات خداوندی نے انسانوں پر رحم و کرم فرماتے ہوئے انسانوں میں اس ہستی کو بھیجا جس کی بشارتیں آدم ؑ سے عیسٰی ؑ تک تمام نمائندگان خدا دیتے چلے آئے تھے۔ محمد مصطفیٰ ﷺ ہر مظلوم اور محروم کے دل کی پکار اور صدا بن کر دنیا میں آئے اور انسان اپنے مقدر پر ناز کرنے لگا اور آسمانی مخلوقات بھی انسانوں کے مقدر پر رشک کرنے لگیں۔
حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ جب آنحضرتؐ کی ولادت ہوئی تو کعبے کے گرد رکھے ہوئے تمام بت منہ کے بل گر پڑے اور شام ہوتے ہی آسمان سے آواز آئی '' حق آیا اور باطل مٹ گیا اور بے شک باطل مٹ جانے والا ہی تھا۔ '' اس رات تمام دنیا روشن ہوگئی۔ پتھر اور درخت بہ زبان حال خوشی کا اظہار کرنے لگے۔ زمین و آسمان میں موجود ہر شے خدا کی تسبیح کرنے لگی اور شیطان حواس باختہ ہوکر بھاگا بھاگا پھرنے لگا۔
جب رسالت مآب ؐ دنیا میں تشریف لائے تو حضرت عبدالمطلب نے اونٹوں کی قربانی کا حکم دیا۔ چناں چہ اونٹ ذبح کیے گئے اور قریش کے تمام لوگوں کو دعوت دی گئی۔ حضرت عبدالمطلب نے '' شانِ کبیر میرا یہ فرزند عظیم مرتبے والا ہے'' کہہ کر پہلی نعت کہی۔ حضرت ابوطالب نے پہلی محفل میلاد کا انعقاد کرکے تمام اہل مکہ کو دعوت دی۔
حضرت ابوطالب نے شانِ مصطفوی ؐ میں ایک نعت ارشاد فرمائی جو سیرتِ ابن ہشام سمیت تمام عربی تاریخ کی کتب میں مرقوم ہے۔
ترجمہ: محمد ؐ ایسے خوش جمال شخص ہیں جن کی برکت سے ابر پانی برساتا ہے جو یتیموں کے لیے جائے پناہ ہے اور بیواؤں کا پردہ ہے۔
بنی ہاشم میں جسے ہلاکت کا خطرہ ہو وہ ا س کے پاس پناہ لیتے ہیں، وہ اس کے پاس رہ کر خدا کی رحمت اور نعمت پاتے ہیں۔
میں نے اس سے ہمیشہ دوست داروں او ر مُحبّوں کی طرح محبت رکھی ہے، وہ ہمیشہ ہی اپنے محبت کرنے والوں کی سربلندی کا موجب بنا ہے۔
آنحضرت کے اس اعجاز کو صاحب ملل و نحل شھرستانی اور دوسرے علماء اور مورخین نے بھی نقل کیا ہے۔ رسول خداؐ کے ظہور فرماتے ہی آپؐ کے جسم سے ایسا نور سا طلوع ہوا جس سے ساری دنیا روشن ہوگئی۔ ستارے مسلسل ٹوٹنے لگے، تمام دنیا میں ایسا زلزلہ آیا کہ تمام دنیا کے کنیسے اور غیر اﷲ کی عبادت گاہیں منہدم ہونے لگیں۔ جادوگر اور کہانت کے ماہر اپنی عقلیں کھو بیٹھے۔ ایسے ستارے آسمان پر نکل آئے جنہیں کبھی کسی نے دیکھا نہ تھا۔ ساوا کی وہ جھیل جو کاشان میں ہے اور اس کی پرستش کی جاتی تھی وہ خشک ہوگئی۔
شام کی وادی سماوا ہزار سال سے خشک پڑی تھی اس میں پانی جاری ہوگیا۔ دجلہ میں اس قدر طغیانی ہوئی کہ اس کا پانی تمام علاقوں میں پھیل گیا۔ کسریٰ کے محل میں پانی بھر گیا اور ایسا زلزلہ آیا کہ ایوان کسریٰ کے تمام چودہ کُنگُرے زمین پر گر پڑے اور طاق کسریٰ شگافتہ ہوگیا۔ فارس کی وہ آگ جو ایک ہزار سال سے مسلسل روشن تھی فورا بجھ گئی۔ اسی رات کو فارس کے عظیم عالم نے جسے موبذان موبذ کہتے تھے خواب میں دیکھا کہ سرکش اور وحشی اونٹ عربی گھوڑوں کو کھینچ رہے ہیں اور انہیں بلاد فارس میں متفرق کرتے ہیں اس نے اس خواب کا ذکر بادشاہ سے کیا۔
نوشیروان بادشاہ نے قاصد کے ذریعے اپنے حرا کے گورنر نعمان بن منذر کو کہلا بھیجا کہ ہمارے عالم نے ایک عجیب و غریب خواب دیکھا ہے تو کسی ایسے عقل مند اور ہوشیار شخص کو میر ے پا س بھیج دے جو اس کی تعبیر بتا کے مجھے مطمین کرسکے۔ نعمان بن منذر نے عبدالمسیح بن عمرالغسانی کو جو بہت لایق تھا، بادشاہ کے پاس بھیج دیا۔ نوشیروان نے عبدالمسیح سے تمام واقعات بیان کیے اور اس سے تعبیر کی خواہش کی۔ اس نے بڑے غور و خوض کے بعد عرض کی کہ اے بادشاہ شام میں میرا ماموں سطیح کاہن رہتا ہے جو ا س فن کا بہت بڑا عالم ہے وہ صحیح جواب دے سکتا ہے اور ا س خواب کی تعبیر بتا سکتا ہے۔
نوشیروان نے عبدالمسیح کو حکم دیا کہ وہ فورا شام چلا جائے۔ ابن واضح کی روایت کے مطابق عبدالمسیح باب جابیہ میں کاہن سے اس وقت ملا جب وہ عالم نزع میں تھا، عبدالمسیح نے کان میں اپنا مدعا بیان کیا جس پر سطیح نے جواب دیا کہ ایک عظیم ہستی دنیا میں آچکی ہے جب نوشیروان کی نسل کے چودہ مرد و زن حکم ران کُنگروں کے عدد کے مطابق حکومت کرچکے ہوں گے تو یہ ملک اس خاندان کے ہاتھ سے نکل جائے گا یہ کہہ کر وہ مرگیا۔
( بہ حوالہ سیرت حلبیہ، الیعقوبی، روضۃ الحباب، حیات القلوب)
٭ ادیان عالم میں آنحضور ؐ کی آمد کی بشارت:
حضرت حسان بن ثابت ؓسے روایت ہے کہ میں ایک مضبوط اور توانا لڑکا تھا کہ جب ایک یہودی کو صبح سویرے مدینہ منورہ میں چِلّاتے ہوئے دیکھا، وہ پکار رہا تھا۔ اے گروہ یہود وہ ستارہ جس کو احمد ؐ کی ولادت کی علامت سمجھا جاتا تھا آج رات طلوع ہوگیا ہے۔ (سیرت سید الانبیاء ابن جوزی)
لیث بن سعد کہتے ہیں میں نے کعب الاحبار سے پوچھا تم نے اپنی کتابوں میں آنحضرتؐ کی ولادت کے متعلق کیا پیش گوئیاں پڑھیں اور آپؐ کے کیا فضائل و صفات مرقوم پائے؟ کعب الاحبار نے جواب دیا میں نے 72 آسمانی کتب و صحائف کا مطالعہ کیا ہے، دانیال ؑ کے صحائف بھی پڑھے ان سب میں حضورؐ کا ذکر اور ان کی ولادت و عظمت کا ذکر موجود ہے۔ سوائے حضرت عیسی ٰ ؑ اور حضرت محمد ؐ کے کسی نبی کی ولادت کے وقت فرشتے نازل نہیں ہوئے۔ سوائے حضرت مریمؑ اور حضرت آمنہؑ کے کسی اور خاتون کے لیے آسمانوں کے پردے نہیں ہٹائے گئے۔ آنحضورؐ کی ولادت پر آسمانوں اور زمینوں پر منادی کرائی گئی کہ کوئی چلنے والا اور پرواز کرنے والا ایسا نہ تھا جس کو آنحضور ؐ کی ولادت کی خبر نہ ہوئی ہو۔ تمام بہشتوں کو آراستہ کیا گیا اور انہیں فرمایا گیا کہ خوشی مناؤ کیوں کہ آج تمہارے دوست اور دوستوں کے پیغمبر ﷺ کی ولادت ہوئی ہے۔ یہ سن کر ہر بہشت خوش ہو کر مسکرائی۔ ( امالی )
میلاد مصطفیؐ منانے کی فضیلت اس سے بڑھ کر کیا ہوگی کہ اس نبی ﷺ کی آمد پر فرشتوں اور بہشت نے بھی خوشیاں منائیں۔
امام جعفر صادقؓ فرماتے ہیں کہ حضرت عیسیٰؑ کی ولادت سے قبل ابلیس ساتویں آسمان تک جایا کرتا تھا اور وہاں کی خبریں کاہنوں اور ستارہ شناسوں کو پہنچایا کرتا تھا۔ جب عیسیٰؑ پیدا ہوئے تو اس کا داخلہ تین آسمانوں پر بند کردیا گیا اور اس کی رسائی صرف چار آسمانوں تک رہ گئی۔ جب رسول خدا ﷺ کی ولادت ہوئی تو اس کا داخلہ ساتوں آسمانوں پر بھی بند کردیا گیا اور اسے رَجم کیا گیا۔ ( بہ حوالہ امالی شیخ صدوق )
جس پاک نبیؐ کی آمد پر شیطان کا آسمان پر داخلہ بند کیا گیا آج اس کی امت کو ہر سو شیطانوں کی یلغار کا سامنا ہے، خون مسلم پانی سے بھی سستا ہو چکا ہے، مسلمانوں کے وسائل اغیار کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔ جس نبیؐ نے فتح مکہ کے وقت اپنے پیارے چچا حضر ت حمزہؓ کا جگر چبانے والوں کو انتقام کی قدرت رکھنے کے باوجود نہ صرف معاف فرمایا بل کہ ان کے گھر کو جائے امن قرار دے دیا، اپنوں کی نادانی و مفاد پرستی اور اغیار کی مکاری و عیاری کے سبب آج اس رحمۃ اللعالمین ﷺ کے دین کو بے گناہوں کے گلے کاٹنے والے دہشت گردوں کے ساتھ جوڑا جارہا ہے۔
میلاد مصطفی ؐ ہر عاشق رسول ؐ سے تقاضا کرتا ہے کہ اس بین الاقوامی سازش کے خاتمے کے لیے اپنا کردار دا کرے۔ خدارا مسلم حکم ران بھی ہوش کے ناخن لیں اور اقتدار کو بچانے کے لیے استعمار کی دست نگری کرنے کے بجائے دین مصطفی ؐ کی سربلندی کے لیے کام کریں، مسلمانوں میں تفریق ڈالنے کے بجائے انہیں متحد کریں اور اتحاد کا مرکز فقط ذات مصطفیؐ ہے، دامن مصطفیؐ کو تھامنے میں ہی امت مسلمہ کی نجات کا راز پوشیدہ ہے۔
حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ جب آنحضرتؐ کی ولادت ہوئی تو کعبے کے گرد رکھے ہوئے تمام بت منہ کے بل گر پڑے اور شام ہوتے ہی آسمان سے آواز آئی '' حق آیا اور باطل مٹ گیا اور بے شک باطل مٹ جانے والا ہی تھا۔ '' اس رات تمام دنیا روشن ہوگئی۔ پتھر اور درخت بہ زبان حال خوشی کا اظہار کرنے لگے۔ زمین و آسمان میں موجود ہر شے خدا کی تسبیح کرنے لگی اور شیطان حواس باختہ ہوکر بھاگا بھاگا پھرنے لگا۔
جب رسالت مآب ؐ دنیا میں تشریف لائے تو حضرت عبدالمطلب نے اونٹوں کی قربانی کا حکم دیا۔ چناں چہ اونٹ ذبح کیے گئے اور قریش کے تمام لوگوں کو دعوت دی گئی۔ حضرت عبدالمطلب نے '' شانِ کبیر میرا یہ فرزند عظیم مرتبے والا ہے'' کہہ کر پہلی نعت کہی۔ حضرت ابوطالب نے پہلی محفل میلاد کا انعقاد کرکے تمام اہل مکہ کو دعوت دی۔
حضرت ابوطالب نے شانِ مصطفوی ؐ میں ایک نعت ارشاد فرمائی جو سیرتِ ابن ہشام سمیت تمام عربی تاریخ کی کتب میں مرقوم ہے۔
ترجمہ: محمد ؐ ایسے خوش جمال شخص ہیں جن کی برکت سے ابر پانی برساتا ہے جو یتیموں کے لیے جائے پناہ ہے اور بیواؤں کا پردہ ہے۔
بنی ہاشم میں جسے ہلاکت کا خطرہ ہو وہ ا س کے پاس پناہ لیتے ہیں، وہ اس کے پاس رہ کر خدا کی رحمت اور نعمت پاتے ہیں۔
میں نے اس سے ہمیشہ دوست داروں او ر مُحبّوں کی طرح محبت رکھی ہے، وہ ہمیشہ ہی اپنے محبت کرنے والوں کی سربلندی کا موجب بنا ہے۔
آنحضرت کے اس اعجاز کو صاحب ملل و نحل شھرستانی اور دوسرے علماء اور مورخین نے بھی نقل کیا ہے۔ رسول خداؐ کے ظہور فرماتے ہی آپؐ کے جسم سے ایسا نور سا طلوع ہوا جس سے ساری دنیا روشن ہوگئی۔ ستارے مسلسل ٹوٹنے لگے، تمام دنیا میں ایسا زلزلہ آیا کہ تمام دنیا کے کنیسے اور غیر اﷲ کی عبادت گاہیں منہدم ہونے لگیں۔ جادوگر اور کہانت کے ماہر اپنی عقلیں کھو بیٹھے۔ ایسے ستارے آسمان پر نکل آئے جنہیں کبھی کسی نے دیکھا نہ تھا۔ ساوا کی وہ جھیل جو کاشان میں ہے اور اس کی پرستش کی جاتی تھی وہ خشک ہوگئی۔
شام کی وادی سماوا ہزار سال سے خشک پڑی تھی اس میں پانی جاری ہوگیا۔ دجلہ میں اس قدر طغیانی ہوئی کہ اس کا پانی تمام علاقوں میں پھیل گیا۔ کسریٰ کے محل میں پانی بھر گیا اور ایسا زلزلہ آیا کہ ایوان کسریٰ کے تمام چودہ کُنگُرے زمین پر گر پڑے اور طاق کسریٰ شگافتہ ہوگیا۔ فارس کی وہ آگ جو ایک ہزار سال سے مسلسل روشن تھی فورا بجھ گئی۔ اسی رات کو فارس کے عظیم عالم نے جسے موبذان موبذ کہتے تھے خواب میں دیکھا کہ سرکش اور وحشی اونٹ عربی گھوڑوں کو کھینچ رہے ہیں اور انہیں بلاد فارس میں متفرق کرتے ہیں اس نے اس خواب کا ذکر بادشاہ سے کیا۔
نوشیروان بادشاہ نے قاصد کے ذریعے اپنے حرا کے گورنر نعمان بن منذر کو کہلا بھیجا کہ ہمارے عالم نے ایک عجیب و غریب خواب دیکھا ہے تو کسی ایسے عقل مند اور ہوشیار شخص کو میر ے پا س بھیج دے جو اس کی تعبیر بتا کے مجھے مطمین کرسکے۔ نعمان بن منذر نے عبدالمسیح بن عمرالغسانی کو جو بہت لایق تھا، بادشاہ کے پاس بھیج دیا۔ نوشیروان نے عبدالمسیح سے تمام واقعات بیان کیے اور اس سے تعبیر کی خواہش کی۔ اس نے بڑے غور و خوض کے بعد عرض کی کہ اے بادشاہ شام میں میرا ماموں سطیح کاہن رہتا ہے جو ا س فن کا بہت بڑا عالم ہے وہ صحیح جواب دے سکتا ہے اور ا س خواب کی تعبیر بتا سکتا ہے۔
نوشیروان نے عبدالمسیح کو حکم دیا کہ وہ فورا شام چلا جائے۔ ابن واضح کی روایت کے مطابق عبدالمسیح باب جابیہ میں کاہن سے اس وقت ملا جب وہ عالم نزع میں تھا، عبدالمسیح نے کان میں اپنا مدعا بیان کیا جس پر سطیح نے جواب دیا کہ ایک عظیم ہستی دنیا میں آچکی ہے جب نوشیروان کی نسل کے چودہ مرد و زن حکم ران کُنگروں کے عدد کے مطابق حکومت کرچکے ہوں گے تو یہ ملک اس خاندان کے ہاتھ سے نکل جائے گا یہ کہہ کر وہ مرگیا۔
( بہ حوالہ سیرت حلبیہ، الیعقوبی، روضۃ الحباب، حیات القلوب)
٭ ادیان عالم میں آنحضور ؐ کی آمد کی بشارت:
حضرت حسان بن ثابت ؓسے روایت ہے کہ میں ایک مضبوط اور توانا لڑکا تھا کہ جب ایک یہودی کو صبح سویرے مدینہ منورہ میں چِلّاتے ہوئے دیکھا، وہ پکار رہا تھا۔ اے گروہ یہود وہ ستارہ جس کو احمد ؐ کی ولادت کی علامت سمجھا جاتا تھا آج رات طلوع ہوگیا ہے۔ (سیرت سید الانبیاء ابن جوزی)
لیث بن سعد کہتے ہیں میں نے کعب الاحبار سے پوچھا تم نے اپنی کتابوں میں آنحضرتؐ کی ولادت کے متعلق کیا پیش گوئیاں پڑھیں اور آپؐ کے کیا فضائل و صفات مرقوم پائے؟ کعب الاحبار نے جواب دیا میں نے 72 آسمانی کتب و صحائف کا مطالعہ کیا ہے، دانیال ؑ کے صحائف بھی پڑھے ان سب میں حضورؐ کا ذکر اور ان کی ولادت و عظمت کا ذکر موجود ہے۔ سوائے حضرت عیسی ٰ ؑ اور حضرت محمد ؐ کے کسی نبی کی ولادت کے وقت فرشتے نازل نہیں ہوئے۔ سوائے حضرت مریمؑ اور حضرت آمنہؑ کے کسی اور خاتون کے لیے آسمانوں کے پردے نہیں ہٹائے گئے۔ آنحضورؐ کی ولادت پر آسمانوں اور زمینوں پر منادی کرائی گئی کہ کوئی چلنے والا اور پرواز کرنے والا ایسا نہ تھا جس کو آنحضور ؐ کی ولادت کی خبر نہ ہوئی ہو۔ تمام بہشتوں کو آراستہ کیا گیا اور انہیں فرمایا گیا کہ خوشی مناؤ کیوں کہ آج تمہارے دوست اور دوستوں کے پیغمبر ﷺ کی ولادت ہوئی ہے۔ یہ سن کر ہر بہشت خوش ہو کر مسکرائی۔ ( امالی )
میلاد مصطفیؐ منانے کی فضیلت اس سے بڑھ کر کیا ہوگی کہ اس نبی ﷺ کی آمد پر فرشتوں اور بہشت نے بھی خوشیاں منائیں۔
امام جعفر صادقؓ فرماتے ہیں کہ حضرت عیسیٰؑ کی ولادت سے قبل ابلیس ساتویں آسمان تک جایا کرتا تھا اور وہاں کی خبریں کاہنوں اور ستارہ شناسوں کو پہنچایا کرتا تھا۔ جب عیسیٰؑ پیدا ہوئے تو اس کا داخلہ تین آسمانوں پر بند کردیا گیا اور اس کی رسائی صرف چار آسمانوں تک رہ گئی۔ جب رسول خدا ﷺ کی ولادت ہوئی تو اس کا داخلہ ساتوں آسمانوں پر بھی بند کردیا گیا اور اسے رَجم کیا گیا۔ ( بہ حوالہ امالی شیخ صدوق )
جس پاک نبیؐ کی آمد پر شیطان کا آسمان پر داخلہ بند کیا گیا آج اس کی امت کو ہر سو شیطانوں کی یلغار کا سامنا ہے، خون مسلم پانی سے بھی سستا ہو چکا ہے، مسلمانوں کے وسائل اغیار کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔ جس نبیؐ نے فتح مکہ کے وقت اپنے پیارے چچا حضر ت حمزہؓ کا جگر چبانے والوں کو انتقام کی قدرت رکھنے کے باوجود نہ صرف معاف فرمایا بل کہ ان کے گھر کو جائے امن قرار دے دیا، اپنوں کی نادانی و مفاد پرستی اور اغیار کی مکاری و عیاری کے سبب آج اس رحمۃ اللعالمین ﷺ کے دین کو بے گناہوں کے گلے کاٹنے والے دہشت گردوں کے ساتھ جوڑا جارہا ہے۔
میلاد مصطفی ؐ ہر عاشق رسول ؐ سے تقاضا کرتا ہے کہ اس بین الاقوامی سازش کے خاتمے کے لیے اپنا کردار دا کرے۔ خدارا مسلم حکم ران بھی ہوش کے ناخن لیں اور اقتدار کو بچانے کے لیے استعمار کی دست نگری کرنے کے بجائے دین مصطفی ؐ کی سربلندی کے لیے کام کریں، مسلمانوں میں تفریق ڈالنے کے بجائے انہیں متحد کریں اور اتحاد کا مرکز فقط ذات مصطفیؐ ہے، دامن مصطفیؐ کو تھامنے میں ہی امت مسلمہ کی نجات کا راز پوشیدہ ہے۔