حکمت نبویؐ کے تناظر میں ہمسائیگی کا بنیادی تقاضا

جنگ اور تشدد مسائل کا حل نہیں بل کہ بے شمار مصائب کی جڑ ہے

ہم بس فرقہ واریت کا شکار اور صرف اپنے ہی مسلک کو برحق سمجھتے اور اسی کی تبلیغ و اشاعت میں مصروف ہیں۔ فوٹو؛ فائل

ہم سایہ اور پڑوسی '' ہم سایا جیسے ماں جایا '' کہلاتا ہے۔ چاہے یہ تعلق گھر اور محلے کی سطح کا ہو یا ملکی و عالمی سطح کا۔ اسلام اسی لیے مکمل ضابطۂ حیات اور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کا اسوۂ حسنہ اس کا کامل نمونہ ہے کہ قرآن و سنت میں فرد اور خاندان سے لے کر شہروں، اقوام اورعالم گیر سطح تک کی تعمیر و تشکیل کے لیے راہ نما اصول اور عملی خاکہ موجود ہے جس کی نظیر کسی دوسرے نظام فکر میں نہیں پائی جاتی۔ بد قسمتی سے دور زوال کی نحوستوں اور پرچھائیوں نے کچھ اس قدر ہمیں آن گھیرا ہے کہ ہم اپنی ذات بل کہ اپنی ناک سے آگے دیکھنے اور سوچنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کرتے۔ ورنہ ذلت سے عزت، زوال سے اقبال اور غلامی سے آزادی صرف دو قدم پر ہے۔

شومئی قسمت قرآنی و نبوی حکمتؐ اور اس کی اساس میں کار فرما حقائق و معارف تک رسائی ہمارے بس کا کام نہ رہا یا یوں کہیے کہ یہ کام ہماری ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہے، ہم بس فرقہ واریت کا شکار اور صرف اپنے ہی مسلک کو برحق سمجھتے اور اسی کی تبلیغ و اشاعت میں مصروف ہیں۔ یہی وجوہات ہیں کہ جس کے سبب آج قومی اور عالمی سطح کے مسائل کے حل کے لیے ہمارے پاس قنوطیت و مایوسی یا پھر دیگر اقوام سے مرعوبیت کے سوا کچھ نہیں۔

چلیے اصل عنوان پر آتے ہیں کہ آقائے نام دار صلی اﷲ علیہ وسلم کو رب العالمین نے رحمتہ اللعالمینؐ کے عظیم الشان لقب سے سر فراز فرمایا۔ ذرا سوچیے کہ جن کی ذات والا صفات تمام جہانوں کے لیے سراپائے رحمت ہو، کیا جب وہ اپنے گھر تشریف فرما ہوں گے تو ان سے اپنے پڑوسی کو کسی تکلیف کا احساس تک ہوسکتا ہے۔۔۔ ؟ اور رحمتہ اللعالمینؐ جب مکہ میں قدم افروز تھے تو کیا حبشہ، نجران، طائف اور یثرب والوں نے علاقائی سطح پر آپ کی ہمسائیگی سے کوئی پریشانی محسوس کی۔۔۔۔؟

البتہ اہل طائف اور خود مکہ والوں نے آپؐ کو ضرور ایذائیں دینے میں کوئی کسر نہ چھوڑی لیکن بدلے میں ماسوا رحم، انصاف اور احسان کے کچھ نہ پایا۔

جب ریاست مدینہ کا قیام عمل میں آیا تو آپؐ نے جنگی حکمت عملی پر صلح و رواداری کو مقدم فرمایا اور جنگ و قتال کو ظلم و استحصال کے انسداد اور دفاع و امن کی خاطر ناگزیر تقاضا کے طور پر اختیار فرمایا۔ پیش نظر رہے کہ جنگ و جدال میں بھی جلال و جمال کا وہ حسین امتزاج پایا جاتا ہے کہ جس کے طفیل کُل چوراسی (84) معرکوں میں فریقین کے مقتولین کی تعداد ایک ہزار سے بھی کم ہے۔


جب مدینہ منورہ میں رحمتہ اللعالمینؐ بااختیار و صاحب اقتدار ہیں تو مدینہ کا اڑوس پڑوس بالکل محفوظ و مامون ہے یہاں تک کہ مکہ میں قحط سالی کے دوران آپؐ اپنے دشمنوں کو غلہ بھجوا کر رحمت کا بے مثل نمونہ قائم فرماتے ہیں۔ صلح حدیبیہ کے ذریعے اہل مکہ کو امان بخشی جاتی ہے اور دیگر تمام ہمسایہ خود مختار حکم رانوں کو دعوتی و امن و امان کے خطوط روانہ کیے جاتے ہیں۔ جوکہ آج بھی ملکی و قومی سفارت کاری کی نادر دستاویز ہیں۔

ہمسائے کی کج فہمی، ترش روی، شدت پسندی اور ناشائستگی کے باوجود اس کے ساتھ عفو و درگزر، صبر و استقلال اور ایثار و احسان سے بھرپور حکیمانہ سلوک دراصل دیرپا امن کا راستہ ہے۔ ایک مرتبہ بارگاہ رحمتہ اللعالمینؐ میں ایک شخص حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اﷲؐ ہمسائے نے تنگ کر رکھا ہے۔ آپؐ نے فرمایا نظرانداز کرو۔ کچھ عرصہ بعد وہ دوبارہ حاضر خدمت ہوا اور شکایت کی کہ ہمسائے کی اذیت پہلے سے دوچند ہے۔

آپؐ نے پھر فرمایا کہ درگزر کرو۔ جب تیسری مرتبہ یہ نوبت آئی تو آپؐ نے متاثرہ شخص کو ارشاد فرمایا کہ گھر کا سارا سامان گلی میں ڈال کر بیٹھ جاؤ۔ اس نے ایسا ہی کیا۔ اب جو راہ گیر گزرتا تو اس کا سبب دریافت کرتا تو ہمسائے کے ناروا سلوک کی نشان دہی کی جاتی۔ یہاں تک کہ خود تکلیف دہندہ پڑوسی اس بدنامی سے تنگ آکر معذرت طلب کرتا ہے اور یوں تشدد کے جواب میں حکمت کی طاقت سے مسئلہ حل ہوجاتا ہے۔

آج ہم بھی ملکی سطح پر بعض ہمسایہ ممالک کی جنگی نفسیات، نان اسٹیٹ ایکٹرز اور ان کے انتہا پسند عنصر کی متشدد کارروائیوں سے نالاں و پریشان ہیں۔ اور حقیقت یا بہتان سے قطع نظر ہمسایہ ممالک کو یہی گلہ ہم سے بھی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جنگ اور تشدد مسائل کا حل نہیں بل کہ بے شمار مصائب کی جڑ ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ تشدد کا جواب عدم تشدد، موثر احتجاجی حکمت عملی اور مکالمے و کردار کی طاقت سے دینے کی نبویؐ حکمت و بصیرت سے بھرپور استفادہ کیا جائے۔ کچھ لوگوں کے اُکسانے پر جب دو پڑوسی باہم دست و گریباں تھے تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا گزر وہاں سے ہوا تو آپؐ کے اس موقع پر ادا کردہ کلمات آج بھی حکمت و اسرار سے بھرپور ہمیں دعوت فکر دیتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: '' لڑانے والے رخصت ہوجائیں گے اور ہمسایہ ادھر ہی رہے گا۔ ''

 
Load Next Story