کرپشن کرکے پریشان نہ ہوں سرکار ہے نا
یہ ایک صاحب کی حالت نہیں بلکہ بدقسمتی سے ملک بھر پر ایسی کرپشن کرنے والے اب باآسانی مل جاتے ہیں۔
میرے ایک جاننے والے سرکاری محکمے میں کلرک ہیں، اللہ کا دیا ہوا سب کچھ ہے۔ لاہور کے پوش علاقے میں ایک کنال کی کوٹھی، خوبصورت اور پُر تعیش گاڑی، پیاری سی بیوی اور ایک بیٹا، زندگی کے تمام سکون انہیں میسر ہیں۔ کبھی کبھی اپنے گھر میں محفل منعقد کرتے ہیں، جب بھی جانا ہوا لاہوری رنگوں میں ڈھلے ہوئے لذیذ کھانوں سے تواضع کرتے ہیں۔ ابتداء میں تو میں انہیں ایک کامیاب کاروباری سمجھتا تھا، لیکن جوں جوں تعلق بڑھتا گیا تو مجھ پر یہ راز منکشف ہوا کہ موصوف سرکاری محکموں میں سفید ہاتھی سمجھے جانے والے محکمہ میں کلرک ہیں۔ تنخواہ تو جناب کی صرف 25 ہزار ہے مگر جناب اِس تنخواہ میں تو ضروری خرچوں کے بعد بھابی کی تو ایک جوتی بھی نہیں آسکتی، تو بھلا یہ زندگی کی رعنائیاں اور آسائشیں کیسے ممکن ہیں؟
ہم اُن سے اکثر پوچھتے کہ جناب یہ تو ایک ایسا دور ہے جہاں لاکھ پتی کاروباری بھی مشکل سے گزارہ کرتے ہیں، تو آپ اتنی عیاشی بھلا کس طرح کرلیتے ہیں؟ جس پر موصوف کا ایک ہی جواب آتا، بھائی بس اللہ کا کرم ہے۔ مگر جب بھی وہ یہ جواب دیتے تو میرے ذہن میں خیال آتا کہ یار یہ کرم کچھ زیادہ ہی ہوگیا ہے۔
لیکن یہ یاد رہے کہ یہ ایک صاحب کی حالت نہیں بلکہ بدقسمتی سے ملک بھر میں ایسی کرپشن کرنے والے اب ہر گلی میں باآسانی مل جاتے ہیں۔ اگر ایسے لوگوں سے کہا بھی جائے کہ بھائی یہ تو کرپشن ہے، اللہ جی اِس وجہ سے بہت ناراض ہوتے ہیں اور ملک و قوم کو اِس حرکت کی وجہ سے بہت نقصان ہوتا ہے، تو آپ یہ کام کیوں کرتے ہیں؟ مگر ہر ہر طرح سے سمجھانے کے باوجود جواب سبھی کا ایک سا ہے کہ وہ اکیلا تھوڑی ہے، یہاں تو ہر فرد کرپشن کر رہا ہے، جب سبھی کررہے ہیں تو میں کیوں نہ کروں؟
پاکستان میں کرپشن کے خاتمے کے لئے ایک محکمہ نیب کے نام سے قائم ہے۔ ٹی وی اشتہارات اور سڑکوں پر آویزاں بینرز سے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ کرپشن کے خاتمے کے لئے یہ محکمہ کرپشن کے خلاف صف آراء ہے اور بلا تخصیص کارروائی کر رہا ہے۔ مگر اب اسی محکمے کی جانب سے کرپشن کرنے کا ایک نیا طریقہ متعارف کرایا گیا ہے۔ اس طریقے کو ''پلی بارگین'' کا نام دیا گیا ہے۔ پلی بارگین ڈیل کی ایک قسم ہے جس میں نیب بدعنوانی کے مرتکب افراد یا اداروں کے ساتھ کچھ لے دے کر پر معاملہ طے کرتا ہے۔ پلی بارگین کے پیچھے دماغ کس کا ہے تاحال اس کا خالق معلوم نہیں، لیکن قریباً ایک سال پہلے اس نے بدعنوان افراد اور اداروں کو خوشی کی نوید یہ کہہ کر سنائی تھی کہ کالے دھن میں سے کچھ واپس کرکے باقی کو سفید کیجئے۔
نیب نے اِس بار سیکریٹری خزانہ بلوچستان مشتاق رئیسانی کی دو ارب روپے کی پلی بارگین کی درخواست منظور کرلی۔ مستاق رئیسانی پر پر ڈیڑھ ارب روپے کرپشن کا الزام تھا جس کے بعد نیب نے ان کے گھر پر چھاپہ مار کر 75 کروڑ روپے سے زائد رقم برآمد کی تھی جبکہ مشتاق رئیسانی کی کراچی میں بھی کروڑوں روپے مالیت کی جائیداد کا انکشاف ہوا تھا۔ نیب نے مشتاق رئیسانی کی گرفتاری کے بعد مشیر خزانہ بلوچستان خالد لانگو کو بھی گرفتار کیا تھا۔
اِس پوری صورتحال کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نیب کا کام کرپشن کرنے والوں کو سزا دینا ہے یا اُن کی سہولت کے مطابق ڈیل کرکے اُنہیں یہ گندا کام کرنے کے باوجود بھی باعزت بری کرنا؟ بظاہر تو یہی لگتا ہے کہ یہ ڈیل ایک طرح سے کرپٹ عناصر کی حوصلہ افزائی کرنے میں معاون ثابت ہوگی۔ کچھ لوگ تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ معاملہ جتنا آسان دکھائی دے رہا ہے اتنا ہے نہیں، کیونکہ ڈی جی نیب نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نیب کے افراد بلوچستان میں انتہائی مشکل سے اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ اُن کی جانوں کو خطرات لاحق ہیں اور انہیں دھمکیاں بھی دی جاتی ہیں۔ ڈی جی نیب نے اپنی کمزوری کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نیب کے پاس پلی بارگین کا آپشن موجود ہے، اور پلی بارگین کرنے والے شرمندگی کے مارے ملک ہی چھوڑ جاتے ہیں۔
اِس بدنما قانون کے خلاف تو شاید ہماری بات کوئی نہ سنے مگر پلی بارگین کے قانون کی گونج آج سینٹ میں بھی سنائی دی گئی اور اس قانون پر نظر ثانی کے لئے اسے قائمہ کمیٹی کی سپرد کردیا گیا ہے۔ اگر کوئی مجھ سے پوچھے تو میری تو یہی رائے کہ فوری طور پر ہی اِس قانون کو ختم ہوجانا چاہیے کیونکہ پلی بارگین کا قانون سیاہ دھن کو سفید کرنے کا جائز راستہ دکھاتا ہے، یعنی آپ دونوں ہاتھوں سے دولت لوٹ لو، جھولی بھرنے کے بعد چند سکے واپس کردو اور بالکل پاک صاف ہوجاو، اور پرانی تنخواہ پر وہی کام شروع کردو جو پکڑے جانے سے پہلے کررہے تھے۔
بچپن میں چیزوں کی ری سائکلنگ کے بارے میں پڑھتے آئے ہیں لیکن پاکستان میں کرپشن کی ری سائیکلنگ کا عملی مظاہرہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پندرہ سالوں میں پندرہ سو بیوروکریٹس نے پلی بارگین قانون سے استفادہ کیا۔ عمران خان کا اس حوالے سے موقف دل کو چھو لینے والا اور سنجیدہ افراد کے دل کی آواز ہے، ان کے مطابق پاکستان نیب کا عمل کرپشن کی حوصلہ افزائی اور اس جرم میں اضافے کا باعث بنے گا۔ اُن کا کہنا تھا کہ جال میں صرف چھوٹی مچھلیاں پھنستی ہیں، ہر بڑا آدمی اپنے عہدے اور اثر و رسوخ کی بنیاد پر قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ سچ پوچھیے تو اِس بات میں صداقت ہے کیونکہ جس کا ہاتھ جتنا لمبا ہوگا وہ اتنا ہی زیادہ مال بنائے گا اور اس کو چھوٹ دینے کے اتنے ہی مزید راستے نکلتے ہیں۔
احتساب کا عمل جتنا شفاف، غیر جانبدار اور سخت ہوگا تو قانون کی عملداری اتنی ہی یقینی ہوگی۔ مجرم قانون کی گرفت سے دور بھاگتے ہیں اور اگر کوئی مجرم قانون کے شکنجے میں آ بھی جائے تو قانون کے سقم ہی اس کے ہاتھ میں آزادی کا پروانہ تھما دیتے ہیں۔ بات صرف مشتاق رئیسانی تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ سینکڑوں کرپشن کے ثابت شدہ کیسز پر تاحال کوئی کارروائی نہیں ہوسکی ہے۔ سرکاری عہدوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ناجائز مال بنانے والے افراد کو پلی بارگینک کے ذریعے محفوظ راستہ فراہم کرنا جہاں کرپشن کی حوصلہ افزائی کا باعث بن رہا ہے وہیں قوم میں مایوسی کا سبب بھی بن رہا ہے۔ ملک میں کرپشن کے خاتمے اور اسے ترقی کی راہوں میں گامزن کرنے کے لئے سخت فیصلے کرنا ہوں گے، قانون کے نظر میں ہر فرد برابر ہوگا تبھی جا کر قوم میں قانون کے احترام کا احساس اجاگر ہوگا۔ ٹی وی اشتہارات، موبائل فون پیغامات اور دیو قامت سائن بورڈز سے کرپشن کے حوصلہ شکنی نہیں ہوتی بلکہ قانون کی عملداری اور بالادستی ہیں قوم کا حوصلہ دیتی ہے۔
[poll id="1286"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
ہم اُن سے اکثر پوچھتے کہ جناب یہ تو ایک ایسا دور ہے جہاں لاکھ پتی کاروباری بھی مشکل سے گزارہ کرتے ہیں، تو آپ اتنی عیاشی بھلا کس طرح کرلیتے ہیں؟ جس پر موصوف کا ایک ہی جواب آتا، بھائی بس اللہ کا کرم ہے۔ مگر جب بھی وہ یہ جواب دیتے تو میرے ذہن میں خیال آتا کہ یار یہ کرم کچھ زیادہ ہی ہوگیا ہے۔
لیکن یہ یاد رہے کہ یہ ایک صاحب کی حالت نہیں بلکہ بدقسمتی سے ملک بھر میں ایسی کرپشن کرنے والے اب ہر گلی میں باآسانی مل جاتے ہیں۔ اگر ایسے لوگوں سے کہا بھی جائے کہ بھائی یہ تو کرپشن ہے، اللہ جی اِس وجہ سے بہت ناراض ہوتے ہیں اور ملک و قوم کو اِس حرکت کی وجہ سے بہت نقصان ہوتا ہے، تو آپ یہ کام کیوں کرتے ہیں؟ مگر ہر ہر طرح سے سمجھانے کے باوجود جواب سبھی کا ایک سا ہے کہ وہ اکیلا تھوڑی ہے، یہاں تو ہر فرد کرپشن کر رہا ہے، جب سبھی کررہے ہیں تو میں کیوں نہ کروں؟
پاکستان میں کرپشن کے خاتمے کے لئے ایک محکمہ نیب کے نام سے قائم ہے۔ ٹی وی اشتہارات اور سڑکوں پر آویزاں بینرز سے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ کرپشن کے خاتمے کے لئے یہ محکمہ کرپشن کے خلاف صف آراء ہے اور بلا تخصیص کارروائی کر رہا ہے۔ مگر اب اسی محکمے کی جانب سے کرپشن کرنے کا ایک نیا طریقہ متعارف کرایا گیا ہے۔ اس طریقے کو ''پلی بارگین'' کا نام دیا گیا ہے۔ پلی بارگین ڈیل کی ایک قسم ہے جس میں نیب بدعنوانی کے مرتکب افراد یا اداروں کے ساتھ کچھ لے دے کر پر معاملہ طے کرتا ہے۔ پلی بارگین کے پیچھے دماغ کس کا ہے تاحال اس کا خالق معلوم نہیں، لیکن قریباً ایک سال پہلے اس نے بدعنوان افراد اور اداروں کو خوشی کی نوید یہ کہہ کر سنائی تھی کہ کالے دھن میں سے کچھ واپس کرکے باقی کو سفید کیجئے۔
نیب نے اِس بار سیکریٹری خزانہ بلوچستان مشتاق رئیسانی کی دو ارب روپے کی پلی بارگین کی درخواست منظور کرلی۔ مستاق رئیسانی پر پر ڈیڑھ ارب روپے کرپشن کا الزام تھا جس کے بعد نیب نے ان کے گھر پر چھاپہ مار کر 75 کروڑ روپے سے زائد رقم برآمد کی تھی جبکہ مشتاق رئیسانی کی کراچی میں بھی کروڑوں روپے مالیت کی جائیداد کا انکشاف ہوا تھا۔ نیب نے مشتاق رئیسانی کی گرفتاری کے بعد مشیر خزانہ بلوچستان خالد لانگو کو بھی گرفتار کیا تھا۔
اِس پوری صورتحال کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نیب کا کام کرپشن کرنے والوں کو سزا دینا ہے یا اُن کی سہولت کے مطابق ڈیل کرکے اُنہیں یہ گندا کام کرنے کے باوجود بھی باعزت بری کرنا؟ بظاہر تو یہی لگتا ہے کہ یہ ڈیل ایک طرح سے کرپٹ عناصر کی حوصلہ افزائی کرنے میں معاون ثابت ہوگی۔ کچھ لوگ تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ معاملہ جتنا آسان دکھائی دے رہا ہے اتنا ہے نہیں، کیونکہ ڈی جی نیب نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نیب کے افراد بلوچستان میں انتہائی مشکل سے اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ اُن کی جانوں کو خطرات لاحق ہیں اور انہیں دھمکیاں بھی دی جاتی ہیں۔ ڈی جی نیب نے اپنی کمزوری کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نیب کے پاس پلی بارگین کا آپشن موجود ہے، اور پلی بارگین کرنے والے شرمندگی کے مارے ملک ہی چھوڑ جاتے ہیں۔
اِس بدنما قانون کے خلاف تو شاید ہماری بات کوئی نہ سنے مگر پلی بارگین کے قانون کی گونج آج سینٹ میں بھی سنائی دی گئی اور اس قانون پر نظر ثانی کے لئے اسے قائمہ کمیٹی کی سپرد کردیا گیا ہے۔ اگر کوئی مجھ سے پوچھے تو میری تو یہی رائے کہ فوری طور پر ہی اِس قانون کو ختم ہوجانا چاہیے کیونکہ پلی بارگین کا قانون سیاہ دھن کو سفید کرنے کا جائز راستہ دکھاتا ہے، یعنی آپ دونوں ہاتھوں سے دولت لوٹ لو، جھولی بھرنے کے بعد چند سکے واپس کردو اور بالکل پاک صاف ہوجاو، اور پرانی تنخواہ پر وہی کام شروع کردو جو پکڑے جانے سے پہلے کررہے تھے۔
بچپن میں چیزوں کی ری سائکلنگ کے بارے میں پڑھتے آئے ہیں لیکن پاکستان میں کرپشن کی ری سائیکلنگ کا عملی مظاہرہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پندرہ سالوں میں پندرہ سو بیوروکریٹس نے پلی بارگین قانون سے استفادہ کیا۔ عمران خان کا اس حوالے سے موقف دل کو چھو لینے والا اور سنجیدہ افراد کے دل کی آواز ہے، ان کے مطابق پاکستان نیب کا عمل کرپشن کی حوصلہ افزائی اور اس جرم میں اضافے کا باعث بنے گا۔ اُن کا کہنا تھا کہ جال میں صرف چھوٹی مچھلیاں پھنستی ہیں، ہر بڑا آدمی اپنے عہدے اور اثر و رسوخ کی بنیاد پر قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ سچ پوچھیے تو اِس بات میں صداقت ہے کیونکہ جس کا ہاتھ جتنا لمبا ہوگا وہ اتنا ہی زیادہ مال بنائے گا اور اس کو چھوٹ دینے کے اتنے ہی مزید راستے نکلتے ہیں۔
احتساب کا عمل جتنا شفاف، غیر جانبدار اور سخت ہوگا تو قانون کی عملداری اتنی ہی یقینی ہوگی۔ مجرم قانون کی گرفت سے دور بھاگتے ہیں اور اگر کوئی مجرم قانون کے شکنجے میں آ بھی جائے تو قانون کے سقم ہی اس کے ہاتھ میں آزادی کا پروانہ تھما دیتے ہیں۔ بات صرف مشتاق رئیسانی تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ سینکڑوں کرپشن کے ثابت شدہ کیسز پر تاحال کوئی کارروائی نہیں ہوسکی ہے۔ سرکاری عہدوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ناجائز مال بنانے والے افراد کو پلی بارگینک کے ذریعے محفوظ راستہ فراہم کرنا جہاں کرپشن کی حوصلہ افزائی کا باعث بن رہا ہے وہیں قوم میں مایوسی کا سبب بھی بن رہا ہے۔ ملک میں کرپشن کے خاتمے اور اسے ترقی کی راہوں میں گامزن کرنے کے لئے سخت فیصلے کرنا ہوں گے، قانون کے نظر میں ہر فرد برابر ہوگا تبھی جا کر قوم میں قانون کے احترام کا احساس اجاگر ہوگا۔ ٹی وی اشتہارات، موبائل فون پیغامات اور دیو قامت سائن بورڈز سے کرپشن کے حوصلہ شکنی نہیں ہوتی بلکہ قانون کی عملداری اور بالادستی ہیں قوم کا حوصلہ دیتی ہے۔
[poll id="1286"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں