چوتھا سیب

چوہدری محمدعلی روزانہ رات کوخواب گاہ میں جانے سے پہلے وزیراعظم ہاؤس کی تمام اضافی بتیاں خوداپنے ہاتھ سے بجھاکرسوتے تھے

raomanzarhayat@gmail.com

SUKKUR:
گورنرجنرل نے دوپہرکے کھانے کے بعد نوجوان اے ڈی سی کودفتر بلایا۔ صاحب سخت غصہ میں تھے۔ گورنر جنرل کم گو انسان تھے۔ اے ڈی سی خوف کی وجہ سے کانپ رہاتھا۔بڑے صاحب نے انگریزی میں شائستگی سے پوچھا، آپ کوبتایاگیاتھاکہ لنچ پرجتنے بھی مہمان آئیں، ان کے حساب سے ایک ایک سیب کھانے کے بعد رکھا جائے۔آج مہمان صرف ایک تھا۔کھانے پر میں اورمیری ہمشیرہ کے علاوہ بھی کوئی نہیں تھا۔ تین لوگوں کے لیے تین سیب ہونے چاہیے تھے۔ چوتھا سیب ٹیبل پرکیونکررکھاگیا۔ نہ صرف میرے حکم سے لاپروائی ہے بلکہ پیسے کا اصراف ہے۔ گورنر جنرل کا لہجہ بلند ہوتا گیا۔

نوجوان افسرنے جواب دیا، سر! غلطی ہوگئی۔ آیندہ نہیں ہوگی۔ اس کی مکمل ذمے داری لیتا ہوں۔جواب سن کرگورنرجنرل نے آہستہ سے کہا، اوکے، آیندہ خیال کرنا۔اب تم جاسکتے ہو۔افسر نے گورنرجنرل کو سیلوٹ کیا اور چلاگیا ۔ یہ تاریخ اولیٰ کے جلیل القدرلوگوں کاقصہ نہیں بلکہ ہمارے اپنے ملک کاایک سچاواقعہ ہے۔ گورنرجنرل قائداعظم تھے۔ جب تک محمدعلی جناح زندہ رہے،ان کے حکم کی من وعن تعمیل ہوتی رہی۔ مہمانوں کے حساب سے نپا تُلا کھانا بنتا تھا۔اسی تناسب سے کھانے کے بعد پھل پیش کیا جاتا تھا۔

چندبرس پہلے جب اس افسر نے یہ واقعہ سنایاتو بریگیڈیرکے عہدے سے دہائیوں پہلے ریٹائرڈ ہوچکا تھا۔ پندرہ سے بیس لوگ کلاس میں موجود تھے۔واقعہ سننے کے بعد تمام لوگوں کی آنکھ میں آنسو تھے۔ بریگیڈیرصاحب رورہے تھے۔ یہ وہ دیانتدارلو گ تھے جنہوں نے پاکستان بنایاتھا۔

وزیراعظم پاکستان چوہدری محمدعلی کا سرکاری گھرمیں پہلادن تھا۔رات گئے تک کام کرتے رہے۔کام ختم ہوا۔ اسٹاف کاخیال تھاکہ اب وزیراعظم بیڈروم میں چلے جائیں گے۔ اسٹاف کے تمام ممبرتھک چکے تھے۔ جلداز جلد وزیراعظم ہاؤس سے نکلناچاہتے تھے۔چوہدری محمدعلی دفتر سے نکلے اورکہاکہ سرکاری گھرکومکمل طورپردیکھناچاہتے ہیں۔اسٹاف کے لیے یہ خواہش عجیب تھی کیونکہ وزیراعظم بننے سے پہلے چوہدری محمدعلی وزیربھی رہے تھے۔وزیراعظم ہاؤس ان کے لیے اجنبی نہیں تھا۔

محمدعلی اپنے دفترسے نکلے اوربرآمدوں سے ہوتے ہوئے تمام گھردیکھ ڈالا۔ وزیراعظم ہاؤس میں درجنوں بلب جل رہے تھے۔سیکریٹری سے غصہ سے پوچھاکہ اتنے بلب کیوں جل رہے ہیں۔ان کا بل تو حکومت اداکرتی ہے۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ وزیراعظم ہاؤس کوبقعہ نوربنادیاجائے۔چوہدری محمدعلی نے خود تمام سوئچ آف کرکے بلب بجھادیے۔ وزیراعظم کوجب اطمینان ہوگیاکہ کوئی غیرضروری لائٹ موجودنہیں ہے،تو خواب گاہ کی طرف چلے گئے۔وزیراعظم کے صرف ایک فیصلے سے سرکاری رہائش گاہ کا بجلی کا بل بہت کم ہوگیا۔

یاد رہے کہ پاکستان اس دورمیں بجلی میں خودکفیل تھا۔کوئی لوڈشیڈنگ نہیں تھی۔ چوہدری محمدعلی ایک سال تک ملک کے وزیراعظم رہے۔وہ روزانہ رات کوخواب گاہ میں جانے سے پہلے وزیراعظم ہاؤس کی تمام اضافی بتیاں خوداپنے ہاتھ سے بجھاکرسوتے تھے۔کھاناپینابھی انتہائی سادہ تھا۔کچن کے تمام اخراجات اپنی جیب سے اداکرتے تھے۔ کیاآج کے پاکستان میں یہ الف لیلیٰ کی کہانی معلوم نہیں ہوتی؟ ایسے لگتا ہے کہ کسی یورپین ملک کی ایمانداری کے متعلق بات ہو رہی ہے۔نہیں یہ ہماراہی ملک تھا اوریہ ہمارے ہی وزیراعظم تھے۔

پاکستان کے دوسرے وزیراعظم یعنی خواجہ ناظم الدین سرکاری گاڑی پردفترجارہے تھے۔ڈرائیورنے وزیراعظم سے کہاکہ ایک گزارش کرناچاہتاہے۔خواجہ صاحب نے اجازت دی ۔خیال تھاکہ اپنے کسی عزیزرشتہ دارکی سفارش کرے گا۔کوئی نوکری مانگے گا۔ یاکسی ذاتی کام کے لیے عرضداشت پیش کرے گا۔ڈرائیورنے شائستگی سے کہاکہ سر، سرکاری گاڑی کے لیے کوئی شیڈنہیں بنایا ہوا۔مجبوراًوزیراعظم کی گاڑی کودھوپ میں کھڑاکرناپڑتا ہے۔چھ سات گھنٹے دھوپ میں رہنے کی بدولت گاڑی تکلیف دہ حدتک گرم ہوجاتی ہے اور اسٹیرنگ کوہاتھ لگانابھی مشکل ہوجاتا ہے۔ ڈرائیورکی بات خواجہ صاحب نے سنی اورخاموش ہوگئے۔ مگر ڈرائیوربھی دھن کا پکا تھا۔


صاحب کا موڈ دیکھ کربات کرنے سے ٹلتا نہیں تھا۔ تنگ آکرایک دن خواجہ صاحب نے اسٹاف کوبلایااورکہاکہ سرکاری گاڑی کے لیے شیڈبنانے کاتخمینہ لگایا جائے۔دوچاردن کے بعد تیرہ سوروپے کا تخمینہ بناکر وزیراعظم کے سامنے رکھاگیا۔کئی دن ٹیبل پرکاغذ پڑا رہا۔ ڈرائیوراکثریادکراتاتھا ۔تنگ آکرخواجہ ناظم الدین نے اسٹاف کوحکم دیاکہ تخمینہ وزارت خزانہ کوبھجوادیں۔وزیراعظم کے دفترسے جیسے ہی کاغذ موصول ہوا تو سیکریٹری نے اس کا جائزہ لیا۔ سیکریٹری خزانہ کاجواب یہ تھا''مہاجرین کی آمدورفت زوروں پرہے۔ تمام پیسے مہاجرین کی فلاح وبہبود پرخرچ کیے جارہے ہیں۔ اس کے پیش نظروزیراعظم کی گاڑی کے لیے شیڈبنانے کی رقم مہیا نہیں کی جاسکتی''۔

سرکاری خط وزیراعظم کوپیش کیاگیا توخاموش ہوگئے۔ سیکریٹری خزانہ کوقطعاًفون کرکے یہ نہیں کہاکہ اس کی جرات کیسے ہوئی کہ وزیراعظم کے حکم کی تعمیل نہیں کی۔اس کے برعکس ڈرائیورکوبلاکرسمجھایاکہ ملک کاخزانہ اس وقت شدید دباؤ میں ہے۔ لہذاسیکریٹری خزانہ نے درست فیصلہ کیاہے۔گاڑی دھوپ میں کھڑی کیاکرے۔قصہ کوتاہ یہ کہ پاکستان کا وزیراعظم اپنی سرکاری گاڑی کے لیے تیرہ سوروپے کاشیڈنہیں بنواسکا۔صاحبان!یہ قصہ چندصدیوں پرانا نہیں بلکہ پاکستان کے ابتدائی دورکا ہے۔یہ سویڈن ڈنمارک یالندن کے کسی وزیراعظم کی کہانی بھی نہیں۔

پچاس اورساٹھ کی دہائی میں پاکستان کادارالحکومت کراچی سے منتقل کرنے کامنصوبہ بنایاگیا توجنرل یحییٰ خان اس منصوبہ بندی کااہم حصہ تھا۔صدرایوب کے نزدیک ہونے کی بدولت یحییٰ خان کااس منتقلی میں اہم رول تھا۔ یحییٰ خان، ایوب خان کے بعدصدربھی رہا۔اس کی بے پناہ انسانی کمزوریاں اپنی جگہ مگرکیا یہ حقیقت نہیں کہ یحییٰ خان نے پورے اسلام آباد میں ایک پلاٹ الاٹ نہیں کرایا۔اس نے پلاٹ کی درخواست تک نہیں کی۔کیا اس کے لیے مشکل تھا، مگروہ آدمی سرکاری پیسہ کے معاملات میں بہرحال ایماندارتھا۔ اس کی ذاتی کمزوریوں پرخوب لعن طعن کریں۔

جنگ ہارنے پراسے قبرسے نکال کرپھانسی دے دیں۔ مگر کیایہ قابل تعریف بات نہیں کہ اس نے تمام طاقت ہوتے ہوئے بھی کوئی مالیاتی بدعنوانی نہیں کی۔ذراسوچیے کہ اگرآج نیا شہربنانا ہو۔یہ کام کسی سرکاری اہلکاریا سیاسی پیادے کے ذمے لگے توانجام کیاہوگا۔ شہربسانے کی بات توجانے دیجیے۔دہائیوں سے ہرسرکاری،غیرسرکاری ہاؤسنگ اسکیم کرپشن کی داستان ہے۔ جس کے پاس اختیارہے،وہ ناجائزدولت کی گنگا میں نہانا ثواب سمجھتا ہے۔

ذوالفقارعلی بھٹوملک کے مقبول ترین وزیراعظم تھے۔ سیاسی مخالفت بھی شدت کی تھی۔ان پرہرطرح کے الزامات کی بوچھاڑرہی۔مگرایک پہلوپربدترین دشمن بھی خاموش رہتے تھے۔ان پرمالیاتی بدعنوانی کاکوئی الزام نہیں لگایا گیا۔ سرکاری پیسے کو خرچنے کے متعلق بھٹوانتہائی محتاط انسان تھے۔ وزارت عظمیٰ کے دورمیں ان کے بیٹے شاہنوازبھٹو نے وزیراعظم کے سرکاری گیراج سے قیمتی سرکاری گاڑی لی۔ دارالحکومت کی سڑکوں پرانتہائی تیزرفتاری سے ڈرائیونگ کی۔گاڑی کی بریکیں بھی اس طرح لگائیں کہ ان سے خوب آوازآئے۔

بھٹوصاحب کوپتہ چلاتوبیٹے کوبلایا۔غلطی پراپنی بیلٹ سے اس بیدردی سے پیٹاکہ شاہنوازکی کمرپرسرخ رنگ کی لکیریں بن گئیں۔واقعہ کے شاہد کیڈٹ کالج حسن ابدال کے وہ تمام طالبعلم تھے،جنہوں نے کالج واپسی پر شاہنوازبھٹوکو زخموں سے چوردیکھاتھا۔کیاآج کے دورمیں تصوربھی کیاجاسکتاہے کہ مقتدرسرکاری طبقے کی اولادکی کوئی سرزنش تک کی جاسکے۔مارپیٹ یا ہاتھ لگانا توخواب میں بھی نہیں کیاجاسکتا۔یہ ہمارے ہی ملک کاایک سچاواقعہ ہے۔

تمام واقعات کوئی افسانوی یاروائتی کہانیاں نہیں۔یہ ہمارے ہی ملک کے حکمرانوں کے چندمعاملات تھے۔ 1977ء کے بعدسیاست میں پیسہ کاعمل دخل بڑھتا چلا گیا۔ اب توسیاست ہے ہی صرف اورصرف پیسہ کاکھیل۔دوتین دہائیوں سے اخبارات ملک کی ترقی کے اشتہارات کی بدولت بوجھل ہورہے ہیں۔مگرعجیب بات ہے کہ پاکستان غربت اورجہالت کے دائرے میں مسلسل سفرکر رہا ہے۔ اکثریت کی جان،مال اورعزت غیرمحفوظ ہے۔حل کیا ہے، آخر کیا کیا جائے۔ جب تک وہ لو گ جن کے ہاتھ میں اس بدنصیب ملک کی عنان حکومت ہے،ٹیبل پررکھے ہوئے چوتھے سیب کاحساب نہیں لیتے،کچھ نہیں ہوگا۔ خدارا، سوچیے!چوتھاسیب کیسے اورکیونکرکھانے کی میزپرپہنچ گیا، اسے فوری طورپرہٹانے کی جرات پیداکریں!
Load Next Story