ملکہ ترنم نورجہاں
موت ایک ایسی اٹل حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں اور ہم سب کو ذات باری تعالیٰ کی طرف لوٹنا ہے
موت ایک ایسی اٹل حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں اور ہم سب کو ذات باری تعالیٰ کی طرف لوٹنا ہے۔ گلوکارہ نورجہاں بھی 23 دسمبر 2000، رمضان المبارک کی 27 ویں شب کو داعی اجل کو پکارتے ہوئے چلی گئیں، جہاں سے واپس آج تک دنیا کی بزم میں دوبارہ کوئی جلوہ افروز نہ ہوا اور یہی نظام رب ہے۔ نصف صدی سے زیادہ موسیقی کے ایوانوں کی شہزادی کہلانے والی فن موسیقی کے انمٹ نقوش دلوں پر چسپاں کرکے ایک نئی منزل کی طرف رواں دواں ہوئیں۔
معروف صوفی بزرگ ''بابا بلھے شاہ'' کی نگری قصور میں آمد علی کے ہاں جنم لینے والی ایک بچی جس کا نام اللہ وسائی تھا، جو بعد میں نورجہاں کے نام سے جانی گئیں، یہ ان کی تیسری صاحبزادی تھیں، ان کی دو بہنوں عیدن اور حیدر باندی کا تعلق بھی شعبہ اداکاری سے تھا۔ عیدن ماضی کے معروف شاعر تنویر نقوی مرحوم کی اہلیہ تھیں۔ موسیقار غلام حیدر مرحوم نے بھارتی گلوکارہ شمشاد بیگم اور نورجہاں کی موسیقی کے حوالے سے بہت سرپرستی کی۔ ہدایت کار سید شوکت حسین مرحوم اپنے وقت کے حسین و جمیل آدمی تھے، جب انھوں نے فلم ''خاندان'' کا آغاز کیا تو اس میں نورجہاں کو کاسٹ کیا۔ فلم کی شوٹنگ کے دوران نورجہاں اور شوکت حسین رضوی ایک دوسرے کے قریب آگئے، پھر ان دونوں نے شادی کرلی۔
فلم لاہور میں تیار ہوئی تھی، یہ فلم 12 مارچ 1942 کو لاہور میں ریلیز ہوکر سپرہٹ ہوئی، اس فلم کے موسیقار غلام حیدر تھے۔ شوکت حسین رضوی سے ان کے تین بچے ہوئے، اکبر حسین رضوی، اصغر رضوی اور ظل ہما۔ شوکت حسین رضوی سے جب ان کے اختلافات بڑھے تو ان سے طلاق لے لی اور ماضی کے سپرہٹ ہیرو اعجاز درانی سے شادی کرلی، جن سے ان کے ہاں چار بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ ان کے ایک داماد ہاکی کے معروف کھلاڑی حسن سردار ہیں۔
راقم سے ان کی پہلی ملاقات 1990 میں شباب اسٹوڈیو لاہور کے علی بابا نے کروائی، جنھوں نے نورجہاں کو بہن بنا رکھا تھا۔ وہ علی بابا کی بہت عزت کرتی تھیں۔ یہ ان سے میری پہلی ملاقات تھی۔ لباس کے انتخاب میں، میں نے ان جیسی شخصیت نہیں دیکھی۔ دوران گفتگو انھوں نے ماضی کے بہت سے پردے ہٹائے، انھوں نے بتایا کہ میں نے ایک غریب گھرانے میں آنکھ کھولی مگر اوپر والے کی ذات مہربان ہوگئی اور پھر پلٹ کر نہیں دیکھا، زندگی میں کئی نشیب و فراز آئے مگر کبھی ہمت نہیں ہاری، ہاں مجھے صحافی دوستوں سے تھوڑی سی شکایت ہے کہ یہ کبھی کبھی اوراق کا پیٹ بھی بھرتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ 28 ستمبر 1947 کو میں اپنے صاحبزادے اکبر حسین اور اپنے شوہر شوکت حسین رضوی کے ساتھ کراچی آئی۔
یہاں شوکت صاحب کے ایک دوست باقر نقوی جو جیل روڈ (PIB) پر رہا کرتے تھے، ہم نے ان کے ہاں قیام کیا، چونکہ شوکت حسین رضوی کے قدردان بہت تھے، ہم لوگ ممبئی سے آئے تھے، یہاں اداکار کمار کے ایک بہت گہرے دوست تھے، ان کی کوششوں سے ہمیں یہاں چڑیا گھر (Zological garden) کے قریب بنگلہ الاٹ ہوگیا، یہ بنگلہ ایک ہندو رام دیال کا تھا، ہم کچھ عرصے یہاں رہے، اس کے بعد شوکت صاحب کو شوری اسٹوڈیو الاٹ ہوا، جس کا بعد میں نام شاہ نور اسٹوڈیو رکھا اور پھر یہاں پاکستان کی پہلی پنجابی فلم ''چن وے'' جس کی ہدایت کارہ میں تھی، کا آغاز کیا۔ ''چن وے'' 24 مارچ 1951 کو ریلیز ہوئی تھی۔
ایک سیاسی سوال کا جواب دیتے ہوئے انھوں نے بتایا تھا کہ صدر ایوب مرحوم بڑے رکھ رکھاؤ والے انسان تھے۔ جب میں نے 1965 میں یہ گیت گایا ''میریا ڈھول سپاہیا'' تو انھوں نے مجھے ایوان صدر بلاکر بہت عزت دی اور مجھے ملکہ ترنم کا خطاب دیا۔ انھوں نے اپنی زندگی کے تین دور گزارے بحیثیت چائلڈ اسٹار، ہیروئن اور بحیثیت گلوکارہ ، یہ تینوں دور اپنی مثال آپ تھے۔ پاکستان آکر انھوں نے تقریباً 13 فلموں میں کام کیا، ان اردو فلموں میں دوپٹہ، غالب، نیند، لخت جگر، گلنار، انتظار، کوئل، انارکلی اور پنجابی فلموں میں چھومنتر، پاٹے خاں، نوراں، پردیس قابل ذکر تھیں، جب کہ غالب ان کی آخری فلم تھی۔
پسند کے حوالے سے انھوں نے کچھ شخصیات کے حوالے سے بتایا کہ ''پاٹے خاں'' کے ہدایت کار ''ایم اے رشید'' ٹرپل ایم اے تھے، 1955 کی بات ہے، فلمساز اسلام الدین شامی نے جب فلم ''پاٹے خاں'' بنانے کا اعلان کیا تو وہ میرے پاس آئے کہ آپ اس میں ہیروئن کا کردار ادا کریں گی۔ میں اس زمانے میں بہت مصروف تھی، میں نے انکار کردیا، کیونکہ اس کے ہدایت کار ایم اے رشید نوجوان اور ناتجربہ کار تھے، دوسرے دن میں اسٹوڈیو گئی تو ایک خوبرو لڑکے نے مجھے سلام کیا اور درخواست کی کہ مجھے آپ سے بات کرنی ہے۔
میں نے اسے بتایا کہ میں ایک گانے کی ریکارڈنگ پر آئی ہوں، تم انتظار کرو۔ ریہرسل کے بعد ملوں گی اور پھر مصروفیات کی وجہ سے اس نوجوان کو بھول گئی، جو 2 گھنٹے سے دروازے کے باہر کھڑا تھا۔ مجھے ندامت محسوس ہوئی، میں نے معذرت کرتے ہوئے پوچھا کہ بولو! کیا بات ہے؟ اس نے انتہائی انکسار سے کہا کہ محترمہ! اسلام صاحب کل آپ کے گھر آئے تھے، آپ نے فلم ''پاٹے خاں'' میں کام کرنے سے معذرت کرلی، چونکہ یہ میری پہلی فلم ہے اور آپ جیسے سینئرز ہماری حوصلہ افزائی نہیں کریں گے تو پھر ان چراغوں میں تیل کب تک رہے گا؟ مجھے اس کا انداز گفتگو بہت اچھا لگا اور میں نے فلم ''پاٹے خاں'' میں کام کرنے کی حامی بھرلی، فلم مکمل ہوکر ریلیز ہوئی اور پاکستان میں سپر ہٹ ہوئی۔
گلوکار سلیم رضا کا ذکر انھوں نے بہت جذباتی انداز میں کرتے ہوئے کہا کہ جب انھوں نے اپنا نعتیہ کلام پڑھا اور ریڈیو سے آن ایئر ہوا تو مسلمانوں کے دل اپنے رب کے نور سے بھر گئے۔ اس کلام کے بول تھے ''شاہ مدینہ یثرب کے والی سارے نبی تیرے در کے سوالی'' ان کی آواز میں بڑی خوبصورتی تھی اور میں تمہیں بتاتی ہوں کہ وہ مسلمان نہیں تھے ان کا تعلق کرسچن گھرانے سے تھا اور آج بھی تم دیکھتے ہو کہ محفل میلاد میں یہ نعت کتنے ذوق سے پڑھی اور سنی جاتی ہے اب وہ دنیا میں نہیں، رب ان کے حال پر رحم کرے گا۔
راقم یہ سمجھتا ہے کہ شہنشاہ جہانگیر کی ملکہ نے صرف تاج محل کے حوالے سے نام کمایا جب کہ ہماری نورجہاں نے تو برصغیر کے لوگوں کے دلوں پر حکومت کی اور آج کی نوجوان نسل ان کے گیت آج بھی پروگراموں میں گاتے نظر آتے ہیں۔ انھوں نے ہزاروں گیت گائے، اور ان کا ہر گیت اپنی مثال آپ ہے۔
میڈم نورجہاں کو پاکستان کے سابق صدر اسکندر مرزا نے سرکاری اعزاز عطا کیا۔ نورجہاں نے 63 سال کی عمر تک موسیقی پر راج کیا۔ صحافی حضرات ان کا سن پیدائش 24 ستمبر 1925 لکھتے رہے، جب کہ وہ 21 ستمبر 1926 میں پیدا ہوئیں اور یہ ریکارڈ کوٹ مراد خان کی میونسپل کمیٹی قصور سے تصدیق شدہ ہے۔ ان کی خوبصورت آواز مسحور کن تھی۔ کراچی میں ڈیفنس کے قبرستان میں ان کا جسد خاکی منوں مٹی تلے چلا گیا۔ راقم بھی ان کی تدفین میں شامل تھا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایک خوبصورت زندگی گزارنے کے بعد ناقابل فراموش شخصیت قرار پائیں۔ انھوں نے ایک ملاقات میں بتایا تھا کہ جب سے میں نے حج کیا ہے، اپنے آپ میں بہت تبدیلی محسوس کرتی ہوں اور رب سے دعا ہے کہ مجھے آخری سفر میں نیک دن ملے اور وہ واقعی ہی ایک عظیم دن اپنے رب کی طرف لوٹ گئیں۔