وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا
زینب نے تنگ آکر گاڑی کے شیشے بند کیے اور جو دہی بھلے کی پلیٹ اس کے ہاتھ میں تھی
ISLAMABAD:
زینب نے تنگ آکر گاڑی کے شیشے بند کیے اور جو دہی بھلے کی پلیٹ اس کے ہاتھ میں تھی، جو بہت شوق سے بنوائی تھی وہ اس نے بغیر کھائے کھڑکی پر ناک کرتے ہوئے بچے کو دے دی، جو لگاتار پلیٹ کو گھور رہا تھا اور ایک ہی صدا لگا رہا تھا باجی صبح سے کچھ نہیں کھایا۔ ایک نہیں کئی بھکاری گاڑی کے ارد گرد منڈلانے لگتے ہیں ایسے کھانے پینے کے پوائنٹس پر، سمجھ میں نہیں آتا کیسے نوالہ حلق سے اتاریں، چھوٹے بچوں سے لے کر بوڑھے تک، تمام کی تمام نظریں آپ کے اردگرد ہی ہوتی ہیں۔
ایک دفعہ چند نان لینے کے لیے دسمبر کے ہی مہینے میں جب ٹھیک سردی ہوتی ہے گاڑی روکی۔ ادھر ادھر ویٹر کو دیکھا، روٹی بنانے والے نے کسی کو اشارہ کیا اور کچھ دیر کے بعد ایک 75-70 سال کے بزرگ، سفید داڑھی، کمر جھکی ہوئی پوچھ رہے تھے کہ میڈم! کتنی روٹی؟ میں نے ایک نظر ان کو دیکھا اور کہا کچھ نہیں اور گاڑی آگے بڑھادی۔ صبح سگنل پر ایک خاتون نے بچہ گود میں لیا ہوا، ماتھے پر ٹھیک ٹھاک پٹی بندھی ہوئی، ایک آنکھ پٹی سے ڈھکی ہوئی، لال رنگ کے جا بجا دھبے، بڑی دل سوز آواز، باجی! بچے کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے، مدد کردیں۔ برابر میں ہی ایک اور گاڑی رکی ہوئی تھی اس نے اس پر بھی جاکر صدائیں لگائیں، بندہ دل جلا تھا دو چار گالیاں نکال کر آگے بڑھ گیا۔
ایسے نہ جانے کتنے واقعات صبح سے شام تک ہم روز دیکھتے ہیں اور ایسی بہت سی صدائیں روز صبح سے شام گئے تک ہمارے کانوں میں پڑتی ہیں، ظلم یہ ہے کہ کچھ خبیث لوگوں نے ان سفید پوش لوگوں کے لیے بھی مشکلات پیدا کردی ہیں جو کسی سے کچھ نہ کہہ پاتے ہیں، جو 75-70 سال کی عمر میں سردیوں کی ٹھنڈک میں بھی حلال کماتے ہیں اور صرف اللہ پر بھروسہ کرکے اپنے شب و روز گزارتے ہیں۔ یوں ہی چلتے چلتے ایک روز ایک لڑکی سے میں نے پوچھا، کتنا کما لیتی ہو؟ بولی 10 سے 15 ہزار۔ میں نے پوچھا گھر میں کام کروگی؟ بولی کتنے پیسے؟ میں نے کہا 8 ہزار۔ تنفر سے گردن جھٹکی اور بولی نا باجی! 8 ہزار میں پورا دن کام کرکے رگڑ جاؤں گی، میں ایسی بھلی، جب مرضی ہوتی ہے گھر چلی جاتی ہوں، موقع ملے تو اور زیادہ کما لیتی ہوں۔
میری دوست کے دادا 80 کے لگ بھگ تھے، سفید نورانی چہرہ، سفید داڑھی، بڑے رکھ رکھاؤ والے، جوائنٹ فیملی سسٹم تھا، جب بھی ہم جاتے دادا سے بڑی دینی معلومات ملتیں، ایک روز دوست کا فون آیا کہ ریلوے اسٹیشن پر پھوپھی کو سب چھوڑنے گئے تھے، دادا بھی تھے، پتا نہیں کہیں Missing ہوگئے ہیں، پورا دن ڈھونڈتے رہے، FIR کٹوائی گئی، کچھ حاصل نہیں ہوا، مہینوں خاندان کے ہر فرد نے اپنی سی کوشش کی، بھرے بھرے گھر میں اداسی چھا گئی، 8-7 مہینے کے بعد ان کے ایک رشتے دار ریلوے اسٹیشن پر اترے تو سامنے ہی گندے سے کپڑوں میں ٹوٹی ہوئی ٹانگ کے ساتھ ایک بوڑھا زمین پر بیٹھا بھیک مانگ رہا تھا، گندا چہرہ ہاتھوں پر کالک۔
انھوں نے بابا سے پوچھا بابا! کھانا کھاؤ گے؟ ان کا چہرہ نیچے کی طرف تھا، بولے صرف رات میں کھانا کھاتا ہوں، دوپہر کو اجازت نہیں۔ آواز کچھ جانی سی لگی وہ چونک گئے، پوچھا آپ کا نام کیا ہے؟ بولے 31 نمبر...! نام بھی بتانے کی اجازت نہیں، ان صاحب نے پوچھا آپ کا نام اکرام خان تو نہیں؟ بوڑھے شخص نے چونک کر چہرہ اونچا کیا، غور سے اس بندے کی طرف دیکھا اور یکدم بولے فرقان! تم؟
فرقان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے اور انھوں نے دادا جان کہہ کر اس بوڑھے شخص کو گلے سے لگا لیا۔ مہینوں ان کا علاج ہوا، ان ہی کی زبانی کہانی کچھ اس طرح ہوئی کہ سب لوگ پھپھو کو الوداع کرنے میں مصروف تھے، دادا ذرا پرے ہٹ کر کھڑے ہوگئے، ایک بندہ ان کے پاس آیا اور بولا کہ آپ کو وہاں کوئی بلا رہا ہے۔ انھوں نے حیران ہوکر اس کی طرف دیکھا۔ وہ بولا شاید آپ کا کوئی پرانا دوست ہے۔ وہ ذرا اس طرف چل پڑے، ابھی ذرا ہی چلے تھے کہ دو بندے انھیں بازو سے پکڑ کر لے گئے اور ایک گاڑی میں بٹھا دیا، آناً فاناً گاڑی چل پڑی۔ کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا ہو رہا ہے۔
کسی نے منہ پر کپڑا رکھ دیا، جب آنکھ کھلی تو ایک گندا سا کمرہ تھا جہاں بہت سارے گندے لوگ ادھر ادھر پڑے سو رہے تھے، ایک غلیظ سی مہک پورے کمرے میں پھیلی ہوئی تھی، سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کہ کیا ہے۔ میں کہاں ہوں، یہ جگہ کیا ہے، بڑی دیر کے بعد حواس بحال ہوئے تو اٹھ کر بیٹھا، بڑی مشکل سے چارپائی پر بیٹھا، بدبو کے مارے الٹی سی محسوس ہو رہی تھی، میں چل کر باہر گیا تو دو چار مسٹنڈے ٹائپ کے لوگ عجیب عجیب انداز میں باتیں کر رہے تھے۔ مجھے دیکھا تو ہنس پڑے، کیا حال ہے بابا جی! ہوش آگیا تجھے؟ میں نے پوچھا بیٹا! یہ کون سی جگہ ہے اور کوئی مجھے یہاں کیوں لایا ہے؟ سوال سن کر سب ہنس پڑے، بولے جگہ تو اچھی ہے بابا جی! اور آپ کو اس لیے لائے ہیں کہ ہم سب بینک میں کام کرتے ہیں، نوٹ چھاپتے ہیں، سوچا آپ بھی ہمارے ساتھ کام کریں گے تو اچھا ہوگا۔
اس کے بعد دو دن تک انھوں نے کچھ کھانے کو نہیں دیا اور خوب خوب ان کو ٹارچر کیا۔ان کی ٹانگ توڑ دی اور تکلیف کی شدت کے ساتھ ہی انھیں پھٹے پرانے کپڑے پہنا کر بھیک کے لیے بٹھا دیا۔ شدید کرب اور تکلیف کو یاد کرکے دادا جی اکثر رویا کرتے اور اسی تکلیف میں ان کا انتقال ہوگیا۔ ظلم و مکاری کی عجیب عجیب داستانیں ہمارے ارد گرد پھیلتی جا رہی ہیں، چھوٹے پیمانے سے شوق کی حد تک، نہ جانے ایسی کتنی داستانیں ہم روز سنتے ہیں اور بڑی لمبی آہ لے کر کہتے ہیں زمانہ بڑا خراب ہے۔
کبھی سوچیں تو سہی اس زمانے میں آپ کا کتنا ہاتھ ہے یا آپ نے اس کو سدھارنے کے لیے اپنے کون سے ارمانوں کو قربان کیا ہے۔ پہلے کا دور بیک ورڈ سہی، ایجادات کی کمی ہی سہی، سہولتوں کے فقدان کے ساتھ احساسات تو شاید زندہ تھے، ہم ایک دوسرے کے دکھ کو محسوس کرتے تھے۔ صحیح راستے بتاتے تھے، بات کرتے تھے، مگر زمانے کی ترقی کے ساتھ ساتھ، تمام احساسات نے بھی ترقی کرلی، ایک ہی گھر میں جتنے افراد ہیں اتنی ہی اجنبیت ہے۔ بچوں کے کمروں سے ڈی وی کی آوازیں، خواتین کی فون پہ لمبی گفتگو، مرد حضرات اپنے کاموں میں مشغول، کیسی تکلیف، کیسا دکھ، سب کچھ بے حسی کی نذر ہوتا جا رہا ہے۔ گداگری، غربت، بے حسی ایک ناسور کی طرح پھل پھول رہے ہیں۔
وہ جو پیار و محبت تھا، وہ جو خوشیاں تھیں، وہ جو سکون تھا سب کچھ مفادات کی نذر ہو رہا ہے۔ اوپر سے لے کر نیچے تک تمام کمانے کے طریقے مافیا بن کر رہ گئے ہیں، کرپشن سے بھری سوسائٹی 100 گز کے گھر سے لے کر 5000 گز پر پھیلے ہوئے گھر کے اندر تک اپنی جڑیں جما رہی ہے، وہ جو انسانیت سے عشق کی باتیں ہوا کرتی تھیں وہ روٹھ کر حیوانیات میں بدل رہی ہیں۔ کوئی ہے جو سہارا دے۔
زینب نے تنگ آکر گاڑی کے شیشے بند کیے اور جو دہی بھلے کی پلیٹ اس کے ہاتھ میں تھی، جو بہت شوق سے بنوائی تھی وہ اس نے بغیر کھائے کھڑکی پر ناک کرتے ہوئے بچے کو دے دی، جو لگاتار پلیٹ کو گھور رہا تھا اور ایک ہی صدا لگا رہا تھا باجی صبح سے کچھ نہیں کھایا۔ ایک نہیں کئی بھکاری گاڑی کے ارد گرد منڈلانے لگتے ہیں ایسے کھانے پینے کے پوائنٹس پر، سمجھ میں نہیں آتا کیسے نوالہ حلق سے اتاریں، چھوٹے بچوں سے لے کر بوڑھے تک، تمام کی تمام نظریں آپ کے اردگرد ہی ہوتی ہیں۔
ایک دفعہ چند نان لینے کے لیے دسمبر کے ہی مہینے میں جب ٹھیک سردی ہوتی ہے گاڑی روکی۔ ادھر ادھر ویٹر کو دیکھا، روٹی بنانے والے نے کسی کو اشارہ کیا اور کچھ دیر کے بعد ایک 75-70 سال کے بزرگ، سفید داڑھی، کمر جھکی ہوئی پوچھ رہے تھے کہ میڈم! کتنی روٹی؟ میں نے ایک نظر ان کو دیکھا اور کہا کچھ نہیں اور گاڑی آگے بڑھادی۔ صبح سگنل پر ایک خاتون نے بچہ گود میں لیا ہوا، ماتھے پر ٹھیک ٹھاک پٹی بندھی ہوئی، ایک آنکھ پٹی سے ڈھکی ہوئی، لال رنگ کے جا بجا دھبے، بڑی دل سوز آواز، باجی! بچے کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے، مدد کردیں۔ برابر میں ہی ایک اور گاڑی رکی ہوئی تھی اس نے اس پر بھی جاکر صدائیں لگائیں، بندہ دل جلا تھا دو چار گالیاں نکال کر آگے بڑھ گیا۔
ایسے نہ جانے کتنے واقعات صبح سے شام تک ہم روز دیکھتے ہیں اور ایسی بہت سی صدائیں روز صبح سے شام گئے تک ہمارے کانوں میں پڑتی ہیں، ظلم یہ ہے کہ کچھ خبیث لوگوں نے ان سفید پوش لوگوں کے لیے بھی مشکلات پیدا کردی ہیں جو کسی سے کچھ نہ کہہ پاتے ہیں، جو 75-70 سال کی عمر میں سردیوں کی ٹھنڈک میں بھی حلال کماتے ہیں اور صرف اللہ پر بھروسہ کرکے اپنے شب و روز گزارتے ہیں۔ یوں ہی چلتے چلتے ایک روز ایک لڑکی سے میں نے پوچھا، کتنا کما لیتی ہو؟ بولی 10 سے 15 ہزار۔ میں نے پوچھا گھر میں کام کروگی؟ بولی کتنے پیسے؟ میں نے کہا 8 ہزار۔ تنفر سے گردن جھٹکی اور بولی نا باجی! 8 ہزار میں پورا دن کام کرکے رگڑ جاؤں گی، میں ایسی بھلی، جب مرضی ہوتی ہے گھر چلی جاتی ہوں، موقع ملے تو اور زیادہ کما لیتی ہوں۔
میری دوست کے دادا 80 کے لگ بھگ تھے، سفید نورانی چہرہ، سفید داڑھی، بڑے رکھ رکھاؤ والے، جوائنٹ فیملی سسٹم تھا، جب بھی ہم جاتے دادا سے بڑی دینی معلومات ملتیں، ایک روز دوست کا فون آیا کہ ریلوے اسٹیشن پر پھوپھی کو سب چھوڑنے گئے تھے، دادا بھی تھے، پتا نہیں کہیں Missing ہوگئے ہیں، پورا دن ڈھونڈتے رہے، FIR کٹوائی گئی، کچھ حاصل نہیں ہوا، مہینوں خاندان کے ہر فرد نے اپنی سی کوشش کی، بھرے بھرے گھر میں اداسی چھا گئی، 8-7 مہینے کے بعد ان کے ایک رشتے دار ریلوے اسٹیشن پر اترے تو سامنے ہی گندے سے کپڑوں میں ٹوٹی ہوئی ٹانگ کے ساتھ ایک بوڑھا زمین پر بیٹھا بھیک مانگ رہا تھا، گندا چہرہ ہاتھوں پر کالک۔
انھوں نے بابا سے پوچھا بابا! کھانا کھاؤ گے؟ ان کا چہرہ نیچے کی طرف تھا، بولے صرف رات میں کھانا کھاتا ہوں، دوپہر کو اجازت نہیں۔ آواز کچھ جانی سی لگی وہ چونک گئے، پوچھا آپ کا نام کیا ہے؟ بولے 31 نمبر...! نام بھی بتانے کی اجازت نہیں، ان صاحب نے پوچھا آپ کا نام اکرام خان تو نہیں؟ بوڑھے شخص نے چونک کر چہرہ اونچا کیا، غور سے اس بندے کی طرف دیکھا اور یکدم بولے فرقان! تم؟
فرقان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے اور انھوں نے دادا جان کہہ کر اس بوڑھے شخص کو گلے سے لگا لیا۔ مہینوں ان کا علاج ہوا، ان ہی کی زبانی کہانی کچھ اس طرح ہوئی کہ سب لوگ پھپھو کو الوداع کرنے میں مصروف تھے، دادا ذرا پرے ہٹ کر کھڑے ہوگئے، ایک بندہ ان کے پاس آیا اور بولا کہ آپ کو وہاں کوئی بلا رہا ہے۔ انھوں نے حیران ہوکر اس کی طرف دیکھا۔ وہ بولا شاید آپ کا کوئی پرانا دوست ہے۔ وہ ذرا اس طرف چل پڑے، ابھی ذرا ہی چلے تھے کہ دو بندے انھیں بازو سے پکڑ کر لے گئے اور ایک گاڑی میں بٹھا دیا، آناً فاناً گاڑی چل پڑی۔ کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا ہو رہا ہے۔
کسی نے منہ پر کپڑا رکھ دیا، جب آنکھ کھلی تو ایک گندا سا کمرہ تھا جہاں بہت سارے گندے لوگ ادھر ادھر پڑے سو رہے تھے، ایک غلیظ سی مہک پورے کمرے میں پھیلی ہوئی تھی، سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کہ کیا ہے۔ میں کہاں ہوں، یہ جگہ کیا ہے، بڑی دیر کے بعد حواس بحال ہوئے تو اٹھ کر بیٹھا، بڑی مشکل سے چارپائی پر بیٹھا، بدبو کے مارے الٹی سی محسوس ہو رہی تھی، میں چل کر باہر گیا تو دو چار مسٹنڈے ٹائپ کے لوگ عجیب عجیب انداز میں باتیں کر رہے تھے۔ مجھے دیکھا تو ہنس پڑے، کیا حال ہے بابا جی! ہوش آگیا تجھے؟ میں نے پوچھا بیٹا! یہ کون سی جگہ ہے اور کوئی مجھے یہاں کیوں لایا ہے؟ سوال سن کر سب ہنس پڑے، بولے جگہ تو اچھی ہے بابا جی! اور آپ کو اس لیے لائے ہیں کہ ہم سب بینک میں کام کرتے ہیں، نوٹ چھاپتے ہیں، سوچا آپ بھی ہمارے ساتھ کام کریں گے تو اچھا ہوگا۔
اس کے بعد دو دن تک انھوں نے کچھ کھانے کو نہیں دیا اور خوب خوب ان کو ٹارچر کیا۔ان کی ٹانگ توڑ دی اور تکلیف کی شدت کے ساتھ ہی انھیں پھٹے پرانے کپڑے پہنا کر بھیک کے لیے بٹھا دیا۔ شدید کرب اور تکلیف کو یاد کرکے دادا جی اکثر رویا کرتے اور اسی تکلیف میں ان کا انتقال ہوگیا۔ ظلم و مکاری کی عجیب عجیب داستانیں ہمارے ارد گرد پھیلتی جا رہی ہیں، چھوٹے پیمانے سے شوق کی حد تک، نہ جانے ایسی کتنی داستانیں ہم روز سنتے ہیں اور بڑی لمبی آہ لے کر کہتے ہیں زمانہ بڑا خراب ہے۔
کبھی سوچیں تو سہی اس زمانے میں آپ کا کتنا ہاتھ ہے یا آپ نے اس کو سدھارنے کے لیے اپنے کون سے ارمانوں کو قربان کیا ہے۔ پہلے کا دور بیک ورڈ سہی، ایجادات کی کمی ہی سہی، سہولتوں کے فقدان کے ساتھ احساسات تو شاید زندہ تھے، ہم ایک دوسرے کے دکھ کو محسوس کرتے تھے۔ صحیح راستے بتاتے تھے، بات کرتے تھے، مگر زمانے کی ترقی کے ساتھ ساتھ، تمام احساسات نے بھی ترقی کرلی، ایک ہی گھر میں جتنے افراد ہیں اتنی ہی اجنبیت ہے۔ بچوں کے کمروں سے ڈی وی کی آوازیں، خواتین کی فون پہ لمبی گفتگو، مرد حضرات اپنے کاموں میں مشغول، کیسی تکلیف، کیسا دکھ، سب کچھ بے حسی کی نذر ہوتا جا رہا ہے۔ گداگری، غربت، بے حسی ایک ناسور کی طرح پھل پھول رہے ہیں۔
وہ جو پیار و محبت تھا، وہ جو خوشیاں تھیں، وہ جو سکون تھا سب کچھ مفادات کی نذر ہو رہا ہے۔ اوپر سے لے کر نیچے تک تمام کمانے کے طریقے مافیا بن کر رہ گئے ہیں، کرپشن سے بھری سوسائٹی 100 گز کے گھر سے لے کر 5000 گز پر پھیلے ہوئے گھر کے اندر تک اپنی جڑیں جما رہی ہے، وہ جو انسانیت سے عشق کی باتیں ہوا کرتی تھیں وہ روٹھ کر حیوانیات میں بدل رہی ہیں۔ کوئی ہے جو سہارا دے۔