قائد کتنے تنہا ہیں
پاکستان کی پہلی آئین ساز اسمبلی میں ان کی یہ تقریر کچھ اعلیٰ افسران کو نہایت ناگوار گزری
لاہور:
میں قائداعظم اکیڈمی کی تہہ دل سے ممنون ہوں کہ اس نے آج کی پُروقار تقریب میں مجھے کچھ کہنے کا موقع دیا۔ آج تقریروں کے اختتام پر کیک بھی کاٹا جائے گا، یعنی اکیڈمی نے قائد کی 140 ویں سالگرہ منانے کا باقاعدہ اہتمام کیا ہے۔ یہاں گفتگو ان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر ہو رہی ہے۔ پاکستان بننے کے بعد زندگی کے جو چند ایام انھوں نے یہاں گزارے، میں اس بارے میں کچھ عرض کرنا چاہوں گی۔
ہمارے یہاں ان کی زندگی کے آخری دنوں کے بارے میں یہ تو بتایا جاتا ہے کہ ان کی علالت کے دنوں میں کون بے اعتنائی برتتا رہا اور یہ بھی ہم سب کو معلوم ہے کہ زیارت سے واپسی پر ان کے لیے جو ایمبولینس بھیجی گئی، وہ راستے میں خراب ہو گئی اور دوسری ایمبولینس کے آنے تک دھوپ میں قائد اور ان کی بہن محترمہ فاطمہ جناح پر کیا گزری۔ لیکن ہم میں سے بیشتر اس بات سے ناواقف ہیں کہ پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی میں انھوں نے 11اگست 1947ء کو جو تقریر کی تھی اور جس کا حوالہ ہم میں سے اکثر لوگ دیتے رہتے ہیں، اس پر کیا گزری تھی۔
یہ ان کی وہی تاریخی تقریر ہے جس میں انھوں نے کہا تھا: ''آپ آزاد ہیں، آپ پاکستان کی ریاست میں اپنے مندروں میں جانے کے لیے، اپنی مسجدوں میں یا کسی بھی دوسری عبادت گاہ میں جانے کے لیے آزاد ہیں۔ آپ خواہ کسی بھی مذہب، نسل یا ذات سے وابستہ ہوں، اس کا کوئی تعلق اس بنیادی اصول سے نہیں ہے۔ ہم سب ایک ریاست کے مساوی حیثیت رکھنے والے شہری ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اب ہمیں اپنا آدرش اپنے سامنے رکھنا چاہیے اور وقت گزر نے کے ساتھ ساتھ آپ دیکھیں گے کہ ہندو، ہندو نہیں رہیں گے، مسلمان، مسلمان نہیں رہیں گے، مذہبی اعتبار سے نہیں، کیوں کہ وہ فرد کے ذاتی ایمان کا معاملہ ہے، بلکہ سیاسی اعتبار سے، ایک ریاست کے شہری کی حیثیت سے''۔
اس تقریر کے بارے میں ان کے زندگی نگار ہیکٹر بولائتھ کا کہنا ہے کہ اس پر انھوں نے بہت محنت کی تھی اور کئی گھنٹے لگا کر اس کی نوک پلک سنواری تھی۔
پاکستان کی پہلی آئین ساز اسمبلی میں ان کی یہ تقریر کچھ اعلیٰ افسران کو نہایت ناگوار گزری۔ ان کا خیال تھا کہ اس تقریر سے دو قومی نظریے کی نفی ہوتی ہے، چنانچہ اسے دوسرے دن کے اخبارات میں من و عن شایع نہیں ہونا چاہیے۔
ہمیں 'ڈان' کے بنگالی نژاد مدیر جناب الطاف حسین کا شکر گزار ہونا چاہیے جنہوں نے اعلیٰ سرکاری عہدیداروں کی طرف سے موصول ہونے والی ہدایت کو ماننے سے یکسر انکار کر دیا۔ انھوں نے کہا کہ اگر ان کے قائد کی تقریر کا کوئی بھی جملہ حذف کرنے، یعنی دوسرے الفاظ میں اسے سنسر کرنے کی کوشش کی گئی تو وہ 'ڈان' کے مدیر کی حیثیت سے فوری طور پر قائد سے رابطہ کریں گے۔ 'ڈان' مسلم لیگ کا اخبار تھا اور الطاف حسین کو قائد نے ذاتی طور پر اس کا مدیر مقرر کیا تھا، اس حقیقت سے سب ہی لوگ آگاہ تھے۔ قائد کی تقریر میں قطع و برید سے دھمکی آمیز انکار نے پاکستان کی پہلی نوکر شاہی کے افراد کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دیا اور دوسرے روز ان کی وہ تقریر حرف بہ حرف شایع ہوئی جسے کچھ لوگ ان کی زندگی کی بہترین تقریر کہتے ہیں۔
اس تقریر کے بارے میں جسٹس محمد منیر نے کہا ''اس تقریر سے واضح ہو جاتا ہے کہ قائد یہ باتیں مکمل یقین کے ساتھ اور سچے دل سے کہہ رہے تھے۔ اس تاریخی بیان کو دبانے کا رجحان موجود رہا ہے اور اس کے سات برس بعد بھی میرے سامنے اسے کسی شیطانی خیال کا شاخسانہ قرار دیا گیا۔''
اسی تقریر کے بارے میں ذوالفقار علی بھٹو نے سپریم کورٹ میں یہ بیان دیا کہ یحییٰ خان کے ''وزیر اطلاعات جنرل شیر علی کی ہدایات پر اس تقریر کو جلا دینے یا ریکارڈ سے غائب کر دینے کی کوششیں کی گئیں''۔
یہ ان کی وہی تاریخی تقریر ہے جس میں انھوں نے رشوت ستانی اور بدعنوانی کو ملک کے لیے سب سے بڑا ناسور ٹھہرایا تھا، اسے مہلک زہر قرار دیا تھا اور آئین ساز اسمبلی سے یہ کہا تھا کہ وہ اس ناسور سے نجات پانے کے لیے جلد از جلد اقدامات کرے۔ وہ جب یہ کہہ رہے تھے تو ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ وہ وقت بھی آئے گا جب ہزاروں، لاکھوں اور کروڑوں نہیں اربوں کی رشوتوں اور بدعنوانیوں کی خبریں روزانہ اخباروں میں شایع ہوں گی اور پڑھنے والے ان سے سرسری گزریں گے۔
11 اگست 1947ء کی یہ تاریخی تقریر جن لوگوں کو بہت ناگوار گزری تھی، ان ہی لوگوں نے اس تقریر کے کچھ حصوں کو حذف کرنے کی کوشش کی تھی اور جب وہ اس میں ناکام رہے تو اس کے توڑ کے بارے میں سوچتے رہے تھے۔ انھیں علم تھا کہ قائد شدید علیل ہیں۔ وہ ان کی رخصت کا انتظار کرتے رہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ7مارچ 1949ء کو آئین ساز اسمبلی میں اس وقت کے وزیراعظم لیاقت علی خان نے علامہ شبیر احمد عثمانی کی تیار کردہ جو قرارداد مقاصد پیش کی اور جسے 12 مارچ کو منظور کر لیا گیا وہ بانی پاکستان کی 11 اگست 1947ء کی تقریر کا جواب تھی اور یہ جواب قائد کی رحلت کے صرف 6 مہینے بعد دیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی قائد، پاکستان کی ریاست کو جن جدید جمہوری خطوط پر استوار کرنا چاہتے تھے، وہ معاملہ قصہ پارینہ ہوا، یہاں تک کہ جنرل ضیاء الحق نے 1985ء میں اس قرارداد کو پاکستان کے آئین کا حصہ بنا دیا۔
یہ اسی پاکستان کا مقدر بنا جس کے بارے میں پاکستان کے سابق گورنر جنرل اور صدر اسکندر مرزا نے لکھا:
''ہم سب دہلی چھوڑنے والے تھے، اس سے چند دن پہلے میں نے ان سے کہا ''جناب ہم سب پاکستان جانے کے لیے تیار ہیں لیکن وہاں حکومت کی کیا صورت ہو گی؟ کیا وہاں اسلامی حکومت ہو گی؟ انھوں نے جواب دیا فضول بات۔ ہم وہاں جدید طرز کی حکومت بنائیں گے۔''
اجیت جاوید نے مختلف حوالے دیتے ہوئے لکھا ہے کہ:
''انھوں نے نئی مملکت میں طرز حکومت کے بارے میں تمام شبہات و شکوک کا ازالہ کرنے کی کوشش کی۔ 13جولائی 1947ء کو اورنگ زیب روڈ نئی دہلی میں اپنی کوٹھی کے عقبی صحن میں ایک پریس کانفرنس، جس میں ہر اخبار کے نمایندہ نامہ نگار موجود تھے، ان سے خطاب کرتے ہوئے، انھوں نے کہا ''اقلیت چاہے کسی بھی فرقہ کی کیوں نہ ہو، اس کا تحفظ کیا جائے گا۔ ان کے مذہب عقیدے اور مسلک کی ہر ممکن طریقہ سے حفاظت کی جائے گی۔ ان کی زندگیاں اور جائیدادیں محفوظ رہیں گی۔ عبادت کرنے کی آزادی میں کسی قسم کی مداخلت نہیں ہو گی۔ اُن کے مذہب، عقیدہ، زندگی، جائیداد اور کلچر کی مکمل حفاظت کی جائے گی۔ اُن کو بلا امتیاز ذات، رنگ، مذہب اور مسلک پاکستان میں شہریت کے پورے اختیارات حاصل ہوں گے، جب تک مجھے اختیارات حاصل ہیں اُن کو کسی قسم کا خوف محسوس کرنے کی ضرورت نہیں ہے''۔
یہ ایک المناک حقیقت ہے کہ وہ کراچی میں موجود تھے اور ان کے تمام احکامات کے باوجود ہندوؤں اور سکھوں پر حملے ہوئے، انھیں قتل کیا گیا، عورتوں کی بے حرمتی ہوئی، ان کا مال و اسباب لوٹا گیا یہاں تک کہ متاثرہ خاندانوں کے لیے رفیوجی کیمپ لگائے گئے۔ وہ جب ایک ایسے ہی کیمپ کے دورے پر گئے تو وہاں کا حال زار دیکھ کر ان جیسے فولادی اعصاب کا انسان بے اختیار رو پڑا۔ اس سے پہلے لوگوں نے انھیں رتی جناح کے تابوت پر روتے دیکھا تھا۔ یہ بدحال لوگ ان کے وعدے پر اعتبار کرکے پاکستان میں رکے تھے لیکن ان کی یقین دہانیاں کسی کام نہ آئیں۔ حد تو یہ ہے کہ وہ اپنے عزیز ترین دوست ڈالمیا کو بھی نہیں روک سکے۔ انھوں نے ایم ایس ایم شرما اور جوگندر ناتھ منڈل کو اپنا دست و بازو بنایا تھا، سرظفر اللہ خاں ان کے وزیر خارجہ تھے لیکن ان کی رحلت کے بعد ان لوگوں کی پاکستان میں کوئی گنجائش نہیں تھی۔ چنانچہ یہ لوگ ایک ایک کر کے رخصت ہوئے۔
ان کے اے ڈی سی گل حسن خان نے لکھا ہے کہ وہ قائد کی ہدایت پر ان کے بعض ہندو دوستوں کو جو فساد زدہ علاقے میں گھر گئے تھے، گورنر جنرل ہاؤس کی کار میں کھانا پہنچاتے تھے۔
آج جب ہم ان کا 140 واں جنم دن منا رہے ہیں، اگر ہم ایمانداری سے ان کی وفات سے آج تک پاکستان میں ہونے والے ان المناک واقعات کے بارے میں سوچیں، یہ دیکھیں کہ گزشتہ دہائیوں میں اقلیتوں کے ساتھ کیا مظالم ہوئے تو احساس ہوتا ہے کہ قائد جو خود کو پاکستان میں اقلیتوں کا محافظ سمجھتے تھے اور اپنی آخری سانس تک مختلف اقلیتوں کو یقین دلا رہے تھے کہ انھیں کسی قسم کا خوف محسوس کرنے کی ضرورت نہیں۔ انھوں نے کراچی میں اپنے پتھریلے مقبرے میں خود کو کتنا تنہا اور بے بس محسوس کیا ہو گا۔
میں قائداعظم اکیڈمی کی تہہ دل سے ممنون ہوں کہ اس نے آج کی پُروقار تقریب میں مجھے کچھ کہنے کا موقع دیا۔ آج تقریروں کے اختتام پر کیک بھی کاٹا جائے گا، یعنی اکیڈمی نے قائد کی 140 ویں سالگرہ منانے کا باقاعدہ اہتمام کیا ہے۔ یہاں گفتگو ان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر ہو رہی ہے۔ پاکستان بننے کے بعد زندگی کے جو چند ایام انھوں نے یہاں گزارے، میں اس بارے میں کچھ عرض کرنا چاہوں گی۔
ہمارے یہاں ان کی زندگی کے آخری دنوں کے بارے میں یہ تو بتایا جاتا ہے کہ ان کی علالت کے دنوں میں کون بے اعتنائی برتتا رہا اور یہ بھی ہم سب کو معلوم ہے کہ زیارت سے واپسی پر ان کے لیے جو ایمبولینس بھیجی گئی، وہ راستے میں خراب ہو گئی اور دوسری ایمبولینس کے آنے تک دھوپ میں قائد اور ان کی بہن محترمہ فاطمہ جناح پر کیا گزری۔ لیکن ہم میں سے بیشتر اس بات سے ناواقف ہیں کہ پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی میں انھوں نے 11اگست 1947ء کو جو تقریر کی تھی اور جس کا حوالہ ہم میں سے اکثر لوگ دیتے رہتے ہیں، اس پر کیا گزری تھی۔
یہ ان کی وہی تاریخی تقریر ہے جس میں انھوں نے کہا تھا: ''آپ آزاد ہیں، آپ پاکستان کی ریاست میں اپنے مندروں میں جانے کے لیے، اپنی مسجدوں میں یا کسی بھی دوسری عبادت گاہ میں جانے کے لیے آزاد ہیں۔ آپ خواہ کسی بھی مذہب، نسل یا ذات سے وابستہ ہوں، اس کا کوئی تعلق اس بنیادی اصول سے نہیں ہے۔ ہم سب ایک ریاست کے مساوی حیثیت رکھنے والے شہری ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اب ہمیں اپنا آدرش اپنے سامنے رکھنا چاہیے اور وقت گزر نے کے ساتھ ساتھ آپ دیکھیں گے کہ ہندو، ہندو نہیں رہیں گے، مسلمان، مسلمان نہیں رہیں گے، مذہبی اعتبار سے نہیں، کیوں کہ وہ فرد کے ذاتی ایمان کا معاملہ ہے، بلکہ سیاسی اعتبار سے، ایک ریاست کے شہری کی حیثیت سے''۔
اس تقریر کے بارے میں ان کے زندگی نگار ہیکٹر بولائتھ کا کہنا ہے کہ اس پر انھوں نے بہت محنت کی تھی اور کئی گھنٹے لگا کر اس کی نوک پلک سنواری تھی۔
پاکستان کی پہلی آئین ساز اسمبلی میں ان کی یہ تقریر کچھ اعلیٰ افسران کو نہایت ناگوار گزری۔ ان کا خیال تھا کہ اس تقریر سے دو قومی نظریے کی نفی ہوتی ہے، چنانچہ اسے دوسرے دن کے اخبارات میں من و عن شایع نہیں ہونا چاہیے۔
ہمیں 'ڈان' کے بنگالی نژاد مدیر جناب الطاف حسین کا شکر گزار ہونا چاہیے جنہوں نے اعلیٰ سرکاری عہدیداروں کی طرف سے موصول ہونے والی ہدایت کو ماننے سے یکسر انکار کر دیا۔ انھوں نے کہا کہ اگر ان کے قائد کی تقریر کا کوئی بھی جملہ حذف کرنے، یعنی دوسرے الفاظ میں اسے سنسر کرنے کی کوشش کی گئی تو وہ 'ڈان' کے مدیر کی حیثیت سے فوری طور پر قائد سے رابطہ کریں گے۔ 'ڈان' مسلم لیگ کا اخبار تھا اور الطاف حسین کو قائد نے ذاتی طور پر اس کا مدیر مقرر کیا تھا، اس حقیقت سے سب ہی لوگ آگاہ تھے۔ قائد کی تقریر میں قطع و برید سے دھمکی آمیز انکار نے پاکستان کی پہلی نوکر شاہی کے افراد کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دیا اور دوسرے روز ان کی وہ تقریر حرف بہ حرف شایع ہوئی جسے کچھ لوگ ان کی زندگی کی بہترین تقریر کہتے ہیں۔
اس تقریر کے بارے میں جسٹس محمد منیر نے کہا ''اس تقریر سے واضح ہو جاتا ہے کہ قائد یہ باتیں مکمل یقین کے ساتھ اور سچے دل سے کہہ رہے تھے۔ اس تاریخی بیان کو دبانے کا رجحان موجود رہا ہے اور اس کے سات برس بعد بھی میرے سامنے اسے کسی شیطانی خیال کا شاخسانہ قرار دیا گیا۔''
اسی تقریر کے بارے میں ذوالفقار علی بھٹو نے سپریم کورٹ میں یہ بیان دیا کہ یحییٰ خان کے ''وزیر اطلاعات جنرل شیر علی کی ہدایات پر اس تقریر کو جلا دینے یا ریکارڈ سے غائب کر دینے کی کوششیں کی گئیں''۔
یہ ان کی وہی تاریخی تقریر ہے جس میں انھوں نے رشوت ستانی اور بدعنوانی کو ملک کے لیے سب سے بڑا ناسور ٹھہرایا تھا، اسے مہلک زہر قرار دیا تھا اور آئین ساز اسمبلی سے یہ کہا تھا کہ وہ اس ناسور سے نجات پانے کے لیے جلد از جلد اقدامات کرے۔ وہ جب یہ کہہ رہے تھے تو ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ وہ وقت بھی آئے گا جب ہزاروں، لاکھوں اور کروڑوں نہیں اربوں کی رشوتوں اور بدعنوانیوں کی خبریں روزانہ اخباروں میں شایع ہوں گی اور پڑھنے والے ان سے سرسری گزریں گے۔
11 اگست 1947ء کی یہ تاریخی تقریر جن لوگوں کو بہت ناگوار گزری تھی، ان ہی لوگوں نے اس تقریر کے کچھ حصوں کو حذف کرنے کی کوشش کی تھی اور جب وہ اس میں ناکام رہے تو اس کے توڑ کے بارے میں سوچتے رہے تھے۔ انھیں علم تھا کہ قائد شدید علیل ہیں۔ وہ ان کی رخصت کا انتظار کرتے رہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ7مارچ 1949ء کو آئین ساز اسمبلی میں اس وقت کے وزیراعظم لیاقت علی خان نے علامہ شبیر احمد عثمانی کی تیار کردہ جو قرارداد مقاصد پیش کی اور جسے 12 مارچ کو منظور کر لیا گیا وہ بانی پاکستان کی 11 اگست 1947ء کی تقریر کا جواب تھی اور یہ جواب قائد کی رحلت کے صرف 6 مہینے بعد دیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی قائد، پاکستان کی ریاست کو جن جدید جمہوری خطوط پر استوار کرنا چاہتے تھے، وہ معاملہ قصہ پارینہ ہوا، یہاں تک کہ جنرل ضیاء الحق نے 1985ء میں اس قرارداد کو پاکستان کے آئین کا حصہ بنا دیا۔
یہ اسی پاکستان کا مقدر بنا جس کے بارے میں پاکستان کے سابق گورنر جنرل اور صدر اسکندر مرزا نے لکھا:
''ہم سب دہلی چھوڑنے والے تھے، اس سے چند دن پہلے میں نے ان سے کہا ''جناب ہم سب پاکستان جانے کے لیے تیار ہیں لیکن وہاں حکومت کی کیا صورت ہو گی؟ کیا وہاں اسلامی حکومت ہو گی؟ انھوں نے جواب دیا فضول بات۔ ہم وہاں جدید طرز کی حکومت بنائیں گے۔''
اجیت جاوید نے مختلف حوالے دیتے ہوئے لکھا ہے کہ:
''انھوں نے نئی مملکت میں طرز حکومت کے بارے میں تمام شبہات و شکوک کا ازالہ کرنے کی کوشش کی۔ 13جولائی 1947ء کو اورنگ زیب روڈ نئی دہلی میں اپنی کوٹھی کے عقبی صحن میں ایک پریس کانفرنس، جس میں ہر اخبار کے نمایندہ نامہ نگار موجود تھے، ان سے خطاب کرتے ہوئے، انھوں نے کہا ''اقلیت چاہے کسی بھی فرقہ کی کیوں نہ ہو، اس کا تحفظ کیا جائے گا۔ ان کے مذہب عقیدے اور مسلک کی ہر ممکن طریقہ سے حفاظت کی جائے گی۔ ان کی زندگیاں اور جائیدادیں محفوظ رہیں گی۔ عبادت کرنے کی آزادی میں کسی قسم کی مداخلت نہیں ہو گی۔ اُن کے مذہب، عقیدہ، زندگی، جائیداد اور کلچر کی مکمل حفاظت کی جائے گی۔ اُن کو بلا امتیاز ذات، رنگ، مذہب اور مسلک پاکستان میں شہریت کے پورے اختیارات حاصل ہوں گے، جب تک مجھے اختیارات حاصل ہیں اُن کو کسی قسم کا خوف محسوس کرنے کی ضرورت نہیں ہے''۔
یہ ایک المناک حقیقت ہے کہ وہ کراچی میں موجود تھے اور ان کے تمام احکامات کے باوجود ہندوؤں اور سکھوں پر حملے ہوئے، انھیں قتل کیا گیا، عورتوں کی بے حرمتی ہوئی، ان کا مال و اسباب لوٹا گیا یہاں تک کہ متاثرہ خاندانوں کے لیے رفیوجی کیمپ لگائے گئے۔ وہ جب ایک ایسے ہی کیمپ کے دورے پر گئے تو وہاں کا حال زار دیکھ کر ان جیسے فولادی اعصاب کا انسان بے اختیار رو پڑا۔ اس سے پہلے لوگوں نے انھیں رتی جناح کے تابوت پر روتے دیکھا تھا۔ یہ بدحال لوگ ان کے وعدے پر اعتبار کرکے پاکستان میں رکے تھے لیکن ان کی یقین دہانیاں کسی کام نہ آئیں۔ حد تو یہ ہے کہ وہ اپنے عزیز ترین دوست ڈالمیا کو بھی نہیں روک سکے۔ انھوں نے ایم ایس ایم شرما اور جوگندر ناتھ منڈل کو اپنا دست و بازو بنایا تھا، سرظفر اللہ خاں ان کے وزیر خارجہ تھے لیکن ان کی رحلت کے بعد ان لوگوں کی پاکستان میں کوئی گنجائش نہیں تھی۔ چنانچہ یہ لوگ ایک ایک کر کے رخصت ہوئے۔
ان کے اے ڈی سی گل حسن خان نے لکھا ہے کہ وہ قائد کی ہدایت پر ان کے بعض ہندو دوستوں کو جو فساد زدہ علاقے میں گھر گئے تھے، گورنر جنرل ہاؤس کی کار میں کھانا پہنچاتے تھے۔
آج جب ہم ان کا 140 واں جنم دن منا رہے ہیں، اگر ہم ایمانداری سے ان کی وفات سے آج تک پاکستان میں ہونے والے ان المناک واقعات کے بارے میں سوچیں، یہ دیکھیں کہ گزشتہ دہائیوں میں اقلیتوں کے ساتھ کیا مظالم ہوئے تو احساس ہوتا ہے کہ قائد جو خود کو پاکستان میں اقلیتوں کا محافظ سمجھتے تھے اور اپنی آخری سانس تک مختلف اقلیتوں کو یقین دلا رہے تھے کہ انھیں کسی قسم کا خوف محسوس کرنے کی ضرورت نہیں۔ انھوں نے کراچی میں اپنے پتھریلے مقبرے میں خود کو کتنا تنہا اور بے بس محسوس کیا ہو گا۔