یہی ہے رخت سفر میرکارواں کے لیے
دوسری خوش نصیب قوموں نے اپنے لیڈروں کی کس حد تک پیروی کی اور ہم نے اس ضمن میں کیا کارکردگی دکھائی
KARACHI:
نیلسن منڈیلا نے لیڈر اور سیاستدان کے درمیان فرق کو واضح کرتے ہوئے بتایا تھا کہ سیاست دان کی نظر اگلے الیکشن پر ہوتی ہے اور لیڈر اگلی نسل کے بارے میں سوچتا ہے۔ آج سے 140 برس قبل آج ہی کے دن برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں میں ایک ایسا ہی شخص پیدا ہوا تھا جو نہ صرف اگلی نسلوں کے بارے میں سوچتا تھا بلکہ جس نے اپنی ساری زندگی اور صلاحیت ان کے لیے آزادی، عزت اور معاشی خود کفالت کے راستے بنانے میں صرف کر دی قائداعظم محمد علی جناح بلاشبہ ایک ایسے لیڈر تھے جن کا تعلق تو تیسری دنیا سے تھا مگر ان کے پائے کے لیڈر پوری 20 ویں صدی میں ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔
اب یہ بات اور ہے کہ دوسری خوش نصیب قوموں نے اپنے لیڈروں کی کس حد تک پیروی کی اور ہم نے اس ضمن میں کیا کارکردگی دکھائی۔ انھوں نے کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی ایک ہجوم کو قافلے کی شکل دے دی اور ہم نے سب کچھ ہونے کے باوجود اس قافلے کو پھر بھیڑ میں تبدیل کر دیا۔ 24 برس کے اندر اندر آدھا ملک ہم سے الگ ہو گیا۔ تین باقاعدہ مارشل لاؤں نے تقریباً 30 برس عوام کو جمہوریت اور بنیادی حقوق سے محروم رکھا۔ دو منتخب وزیراعظموں کو دہشتگردی اور تیسرے کو عدالت کے ذریعے قتل کیا گیا۔ چوتھے نے پہلے جلاوطنی کاٹی اور اب پانامہ لیکس کی دلدل میں گھرا ہوا ہے۔ عدالتوں سے لوگوں کو انصاف اور سرکاری محکموں سے حق اور سہولت نہیں ملتے۔
احتساب کے محکمے بھوت کو پکڑنے کے بجائے بھاگتے بھوت کی لنگوٹی سے پلی بارگین کر کے فتح کے شادیانے بجا رہے ہیں۔ تعلیم، صحت اور میڈیا تینوں سیٹھوں اور سرمایہ داروں کے قبضے میں ہیں اور کلچر اور ثقافت ابھی تک اپنے معنی اور مفہوم کی تلاش میں ہیں۔ بجلی، پانی، گیس، امن و امان، ٹریفک اور مہنگائی نے لوگوں کا جینا حرام کررکھا ہے۔ ایمانداری اور محنت کی جگہ سفارش رشوت اور سیاسی وابستگیوں نے لے لی ہے اور مذہب کے نام پر تعصب، فرقہ پرستی اور دہشتگردی کے کاروبار چل رہے ہیں۔
یقینا قائد کا پاکستان یہ پاکستان نہیں تھا جس میں ہم سب رہ رہے ہیں لیکن اگر قائد کی فکر اور کمٹ منٹ کو رہبر بنا کر دیکھا جائے تو یہ ساری تصویر اصلی اور حقیقی تو ہے مگر مستقل اور دائمی نہیں۔ قائد کے سامنے بھی مسائل کا انبار تھا اور ان کی نوعیت اور مقدار بھی کسی طرح آج کے مسائل سے کم نہیں تھی۔
اب یہ ان کی بصیرت، معاملہ فہمی، دور اندیشی اور شخصیت کا کمال تھا کہ انھوں نے 1935ء میں انگلینڈ سے واپسی کے بعد صرف بارہ برس کے اندر دنیا کے نقشے میں ایک ایسے مسلم اکثریت آبادی والے ملک کا اضافہ کر دیا جو آگے چل کر نہ صرف ساتویں ایٹمی طاقت بنا بلکہ پچاس کے قریب مسلمان اکثریت والے ممالک میں سے (اپنے تمام تر مسائل اور خرابیوں کے باوجود) اہم ترین ملک ٹھہرا فی الوقت انڈونیشیا، ملائشیا، بنگلہ دیش، ترکی ایران اور سعودی عرب (بھارت کی 20 کروڑ مسلم آبادی سے قطع نظر) کا شمار ایسے نمایندہ اور بڑے مسلمان ملکوں میں ہوتا ہے جو مسائل اور وسائل کے اعتبار سے زیادہ ہے۔ اب ذرا تصور کیجیے کہ اگر یہ ملک قائداعظم کے ارادوں، وژن اور سوچ کے مطابق آگے بڑھتا تو آج ہم کہاں ہوتے؟
اندریں حالات قائد کو سلام عقیدت پیش کرنے کا بہترین طریقہ شاید یہی ہے کہ ہم سب جی جان سے ان کے مشن کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کریں اور پاکستان کی زمین کو امن اور ترقی کا ایک ایسا گہوارہ بنا دیں کہ نہ صرف اسلامی دنیا بلکہ تمام تر ترقی یافتہ دنیا بھی اسے عزت اور رشک کی نگاہوں سے دیکھنے پر مجبور ہو جائے۔ علامہ اقبال نے میرکارواں کے لیے ''نگہ بلند' سخن دلنواز، جان پرسوز'' کی شرط مقرر کی تھیں اور اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہا تھا کہ
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
سو یہ دونوں باتیں تو قائد پر منطبق ہو گئیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو لوگ اس درجے سے کم تر کسی مقام پہ ہیں وہ کیا کریں اور کس طرح سے قائد کی میراث کے صحیح وارث بنیں۔ تو یہاں بھی اقبال ہی ہماری مدد کو آتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا
تو آج کے دن قائد کو یاد کرتے ہوئے اس دھندلکے کے عالم میں اس شعر کو مشعل راہ بنانا چاہیے اور اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہو گئے تو ہمارے سروں پر تنا ہوا سارا آسمان ستاروں کی روشنی سے منور ہو جائے گا اور یہ سب مسائل جو اس وقت ہمیں چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہیں اپنی موت آپ مر جائیں گے کہ یقین محکم اور عمل پیہم سے ناممکن کو ممکن بنایا جا سکتا ہے اور خود قائد کی زندگی اس کے ایک زندہ اور روشن مثال ہے۔
کوئی چاند چہرہ کشا ہوا
وہ جو دھند تھی وہ بکھر گئی
وہ جو حبس تھا وہ ہوا ہوا
کوئی چاند چہرہ کشا ہوا تو سمٹ گئی
وہ جو تیرگی تھی چہار سو
وہ جو برف ٹھہری تھی روبرو
وہ جو بے دلی تھی صدف صدف
وہ جو خاک اڑتی تھی ہر طرف
کسی خوش نظر کے حصار میں
کسی خوش قدم کے جوار میں
کوئی چاند چہرہ کشا ہوا
مرا سارا باغ ہرا ہوا
نیلسن منڈیلا نے لیڈر اور سیاستدان کے درمیان فرق کو واضح کرتے ہوئے بتایا تھا کہ سیاست دان کی نظر اگلے الیکشن پر ہوتی ہے اور لیڈر اگلی نسل کے بارے میں سوچتا ہے۔ آج سے 140 برس قبل آج ہی کے دن برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں میں ایک ایسا ہی شخص پیدا ہوا تھا جو نہ صرف اگلی نسلوں کے بارے میں سوچتا تھا بلکہ جس نے اپنی ساری زندگی اور صلاحیت ان کے لیے آزادی، عزت اور معاشی خود کفالت کے راستے بنانے میں صرف کر دی قائداعظم محمد علی جناح بلاشبہ ایک ایسے لیڈر تھے جن کا تعلق تو تیسری دنیا سے تھا مگر ان کے پائے کے لیڈر پوری 20 ویں صدی میں ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔
اب یہ بات اور ہے کہ دوسری خوش نصیب قوموں نے اپنے لیڈروں کی کس حد تک پیروی کی اور ہم نے اس ضمن میں کیا کارکردگی دکھائی۔ انھوں نے کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی ایک ہجوم کو قافلے کی شکل دے دی اور ہم نے سب کچھ ہونے کے باوجود اس قافلے کو پھر بھیڑ میں تبدیل کر دیا۔ 24 برس کے اندر اندر آدھا ملک ہم سے الگ ہو گیا۔ تین باقاعدہ مارشل لاؤں نے تقریباً 30 برس عوام کو جمہوریت اور بنیادی حقوق سے محروم رکھا۔ دو منتخب وزیراعظموں کو دہشتگردی اور تیسرے کو عدالت کے ذریعے قتل کیا گیا۔ چوتھے نے پہلے جلاوطنی کاٹی اور اب پانامہ لیکس کی دلدل میں گھرا ہوا ہے۔ عدالتوں سے لوگوں کو انصاف اور سرکاری محکموں سے حق اور سہولت نہیں ملتے۔
احتساب کے محکمے بھوت کو پکڑنے کے بجائے بھاگتے بھوت کی لنگوٹی سے پلی بارگین کر کے فتح کے شادیانے بجا رہے ہیں۔ تعلیم، صحت اور میڈیا تینوں سیٹھوں اور سرمایہ داروں کے قبضے میں ہیں اور کلچر اور ثقافت ابھی تک اپنے معنی اور مفہوم کی تلاش میں ہیں۔ بجلی، پانی، گیس، امن و امان، ٹریفک اور مہنگائی نے لوگوں کا جینا حرام کررکھا ہے۔ ایمانداری اور محنت کی جگہ سفارش رشوت اور سیاسی وابستگیوں نے لے لی ہے اور مذہب کے نام پر تعصب، فرقہ پرستی اور دہشتگردی کے کاروبار چل رہے ہیں۔
یقینا قائد کا پاکستان یہ پاکستان نہیں تھا جس میں ہم سب رہ رہے ہیں لیکن اگر قائد کی فکر اور کمٹ منٹ کو رہبر بنا کر دیکھا جائے تو یہ ساری تصویر اصلی اور حقیقی تو ہے مگر مستقل اور دائمی نہیں۔ قائد کے سامنے بھی مسائل کا انبار تھا اور ان کی نوعیت اور مقدار بھی کسی طرح آج کے مسائل سے کم نہیں تھی۔
اب یہ ان کی بصیرت، معاملہ فہمی، دور اندیشی اور شخصیت کا کمال تھا کہ انھوں نے 1935ء میں انگلینڈ سے واپسی کے بعد صرف بارہ برس کے اندر دنیا کے نقشے میں ایک ایسے مسلم اکثریت آبادی والے ملک کا اضافہ کر دیا جو آگے چل کر نہ صرف ساتویں ایٹمی طاقت بنا بلکہ پچاس کے قریب مسلمان اکثریت والے ممالک میں سے (اپنے تمام تر مسائل اور خرابیوں کے باوجود) اہم ترین ملک ٹھہرا فی الوقت انڈونیشیا، ملائشیا، بنگلہ دیش، ترکی ایران اور سعودی عرب (بھارت کی 20 کروڑ مسلم آبادی سے قطع نظر) کا شمار ایسے نمایندہ اور بڑے مسلمان ملکوں میں ہوتا ہے جو مسائل اور وسائل کے اعتبار سے زیادہ ہے۔ اب ذرا تصور کیجیے کہ اگر یہ ملک قائداعظم کے ارادوں، وژن اور سوچ کے مطابق آگے بڑھتا تو آج ہم کہاں ہوتے؟
اندریں حالات قائد کو سلام عقیدت پیش کرنے کا بہترین طریقہ شاید یہی ہے کہ ہم سب جی جان سے ان کے مشن کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کریں اور پاکستان کی زمین کو امن اور ترقی کا ایک ایسا گہوارہ بنا دیں کہ نہ صرف اسلامی دنیا بلکہ تمام تر ترقی یافتہ دنیا بھی اسے عزت اور رشک کی نگاہوں سے دیکھنے پر مجبور ہو جائے۔ علامہ اقبال نے میرکارواں کے لیے ''نگہ بلند' سخن دلنواز، جان پرسوز'' کی شرط مقرر کی تھیں اور اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہا تھا کہ
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
سو یہ دونوں باتیں تو قائد پر منطبق ہو گئیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو لوگ اس درجے سے کم تر کسی مقام پہ ہیں وہ کیا کریں اور کس طرح سے قائد کی میراث کے صحیح وارث بنیں۔ تو یہاں بھی اقبال ہی ہماری مدد کو آتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا
تو آج کے دن قائد کو یاد کرتے ہوئے اس دھندلکے کے عالم میں اس شعر کو مشعل راہ بنانا چاہیے اور اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہو گئے تو ہمارے سروں پر تنا ہوا سارا آسمان ستاروں کی روشنی سے منور ہو جائے گا اور یہ سب مسائل جو اس وقت ہمیں چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہیں اپنی موت آپ مر جائیں گے کہ یقین محکم اور عمل پیہم سے ناممکن کو ممکن بنایا جا سکتا ہے اور خود قائد کی زندگی اس کے ایک زندہ اور روشن مثال ہے۔
کوئی چاند چہرہ کشا ہوا
وہ جو دھند تھی وہ بکھر گئی
وہ جو حبس تھا وہ ہوا ہوا
کوئی چاند چہرہ کشا ہوا تو سمٹ گئی
وہ جو تیرگی تھی چہار سو
وہ جو برف ٹھہری تھی روبرو
وہ جو بے دلی تھی صدف صدف
وہ جو خاک اڑتی تھی ہر طرف
کسی خوش نظر کے حصار میں
کسی خوش قدم کے جوار میں
کوئی چاند چہرہ کشا ہوا
مرا سارا باغ ہرا ہوا