جنت کے حقدار
اللہ رب العزت جن لوگوں سے دین کی خدمت لینا چاہتا ہے ان پر اپنا خصوصی کرم جاری کردیتا ہے
ISLAMABAD:
اللہ رب العزت جن لوگوں سے دین کی خدمت لینا چاہتا ہے ان پر اپنا خصوصی کرم جاری کردیتا ہے اور حق کے پیامبر صبح و شام مخلوق خدا کو صراط مستقیم دکھانے کے لیے تبلیغ دین کا فریضہ انجام دیتے ہیں اور اپنے نیک عمل سے دین و دنیا میں عزت پاتے ہیں، انھی نیک اور صالحین میں جنید جمشید کا نام شامل ہوگیا ہے، جنید جمشید کے اعمال صالحہ کی وجہ سے انھیں دنیا میں وقار حاصل تھا اور بعد شہادت کے ان کے وقار کو مزید اعتبار حاصل ہوگیا کہ پاکستان کی تاریخ میں اتنا بڑا جنازہ چند ہی لوگوں کا تھا، حال ہی میں ایدھی، امجد صابری کے جنازوں کو بھی یہ اعزاز حاصل رہا۔
اگر کسی کے جنازے میں چالیس دین دار آدمی شامل ہوجائیں تو دینی تعلیم کے مطابق اس کے جنتی ہونے میں شک کی گنجائش نہیں رہتی ہے جب کہ جنید جمشید کے جنازے میں تو لاکھوں لوگوں کا ہجوم تھا، ان کے چاہنے والے، ان سے محبت کرنے اور قدر کرنے والوں کا تانتا بندھا تھا، تاحد نگاہ لوگوں کا سیلاب امڈ آیا تھا۔
عالم دین اور مفتیان دین کے ہاتھوں ان کی تدفین ہوئی، عالموں کی دعائیں ان کے ساتھ تھیں، مفتی تقی عثمانی نے فرمایا کہ ''ایسا جنازہ تو بادشاہوں کا بھی نہیں ہوتا ہے'' انھیں بحریہ اور فضائیہ کی طرف سے گارڈ آف آنر پیش کیا گیا، اس کی وجہ شاید یہی رہی ہوگی کہ جنید جمشید نے اللہ کے حضور گڑ گڑا کر زار و قطار اشکباری کرکے دل کی گہرائیوں سے دعا مانگی تھی ''میرا دل بدل دے'' اور اللہ رب العزت نے ان کی دعا قبول کرلی اور ان کا دل واقعی بدل گیا، ایک سنگر مولانا طارق جمیل کی کاوشوں اور خلوص کی بدولت عالم دین بن گیا، ایسا مرتبہ پایا، ایسی عزت پائی کہ ان لوگوں کو بھی نصیب نہیں جو اس کے طالب ہوتے ہیں۔
جنید جمشید کا دل مومن کا دل تھا، صاف و شفاف، بری سوچ، کینہ و حسد سے پاک تھا۔ وہ سب کو معاف کردیا کرتے تھے، کسی کے نقصان کے بارے میں سوچتے بھی نہیں تھے، اس بات کا اعتراف انھوں نے دوران انٹرویو ٹی وی چینل پر کیا تھا کہ میں نے آج تک کسی کو غلط مشورہ نہیں دیا اور جو کسی کو غلط مشورہ نہیں دیتا ہے یقیناً وہ دوسروں کی بھلائی کا متمنی ہوتا ہے۔
جنید جمشید کا ذکر ہفتوں سے جاری ہے، ہر زبان پر ان کی اعلیٰ فکر کا چرچا ہے۔ ایسے میں دین کے بہت بڑے بزرگ حضرت جنید بغدادیؒ کا نام بھی یاد آجاتا ہے۔ خاندانی نام جنیدین محمد تھا، والد بزرگوار کا نام محمد اور دادا کا نام جنید قواریری تھا، کنیت ابوالقاسم تھی، جنید بغدادی کے آباؤ اجداد ''نہاوند'' کے باشندے تھے، حضرت جنیدؒ کی پیدائش سے قبل ان کے والد بغداد آگئے تھے اور اسی تاریخی شہر میں صوفی و درویش جنید کی پیدائش ہوئی اور وفات بھی بغداد شریف میں پائی۔
جنید بغدادی کی عارفانہ عظمتوں کا بزرگان دین اعتراف کرتے ہیں، اسی حوالے سے انھیں سیدالطائفہ یعنی صوفیوں کا سردار کہا جاتا ہے۔ جنید بغدادیؒ سے بہت سے ایمان افروز واقعات منسوب ہیں، ان کی زندگی کے مختلف ادوار پر نگاہ دوڑائیں تو وہ دنیاوی و دینی اعتبار سے بلند مرتبے پر اپنے کشف و کرامات اور عبادت و ریاضت کی بنا پر نظر آتے ہیں، بوریا نشین، دنیا کی لذتوں سے دور حرص و طمع کی خواہش سے بے گانہ، عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں غرق اور پھر جس نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ حسنہ کو اپنا لیا، گویا اس نے اللہ کو راضی کرلیا۔
حضرت جنید بغدادیؒ نے اپنی پوری زندگی ریاضت حق بندگی ادا کرتے ہوئے بسر کی۔ بہت سے واقعات ان سے منسوب ہیں۔ ایک بار حضرت جنید بغدادیؒ طواف کعبہ کے لیے حاضر ہوئے تو دیکھا ایک عورت بھی موجود ہے جو خانہ خدا کا طواف کر رہی ہے، اچانک اس کی درد بھری صدا بلند ہوئی وہ طواف کرنے کے ساتھ عاشقانہ شعر پڑھ رہی تھی، حضرت کو یہ بات بالکل پسند نہ آئی لہٰذا قریب جاکر پرجلال لہجے میں فرمانے لگے، اے عورت تجھے اس مقدس مقام پر اپنی ناپاک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے ندامت نہیں ہو رہی ہے۔ عورت نے معذرت کرنے کی بجائے چند اور شعر پڑھ دیے۔ پھر آپؒ سے پوچھنے لگی، میں کیا کر رہی ہوں، اس بات کو چھوڑو، تم مجھے اس بات سے آگاہ کرو کہ تم خدا کا طواف کرتے ہو یا خانہ خدا کا؟
حضرت جنید بغدادیؒ نے کسی تامل کے بغیر فرمایا ''ہم اہل ایمان خانہ خدا کا طواف کرتے ہیں۔'' حضرت جنید بغدادیؒ کے جواب نے عورت کو بے قرار کردیا اور اس نے آسمان کی طرف نگاہ اٹھائی اور پرسوز لہجے میں بولی۔ سبحان اللہ تیری مخلوق میں ایسے لوگ بھی ہیں جو پتھر کی طرح بے حس ہیں اور پتھر کا طواف کرتے ہیں، عورت کی بات سن کر حضرت جنید بغدادیؒ پر بے ہوشی کی کیفیت طاری ہوگئی، جب ہوش آیا تو دیکھا وہ عورت موجود نہیں تھی لیکن اس نے بے حد موثرانداز میں توحید کا سبق دے دیا تھا۔
حضرت جنید بغدادیؒ کے ماموں سری سقطیؒ کی نصیحت کے مطابق آپؒ نے حدیث و فقہ کے علم کو فوقیت دی۔ بقول حضرت جنید بغدادیؒ کے کہ علم و تصوف کو قرآن کے تابع رہنا چاہیے۔ یہی میری کامیابی کا راز ہے۔ حضرت جنید بغدادیؒ نے اپنے ماموں سری سقطیؒ کے حکم کے مطابق کئی صوفیوں اور علمائے دین سے معرفت کی تعلیم حاصل کی انھی بزرگان دین میں شیخ ابو عبداللہ حارث محاسبی بھی شامل تھے۔
ایک مرتبہ جب حضرت سری سقطیؒ کو پریشانی کی حالت میں دیکھا تو حضرت جنید بغدادیؒ نے وجہ پوچھی تو انھوں نے کہا کہ ایک نوجوان میرے پاس آیا تھا اس نے سوال کیا کہ توبہ کے کیا معنی ہیں؟ میں نے کہا کہ انسان اپنے گناہوں کو نہ بھولے، نوجوان نے بے ساختہ جواب دیا۔ شیخ آپ کا جواب غلط ہے، دراصل توبہ تو یہ ہے کہ انسان اپنے گناہوں کو یکسر فراموش کردے، یہ کہہ کر وہ چلا گیا اور مجھے الجھن میں ڈال گیا، پیر و مرشد کی گفتگو سن کر جنید بغدادیؒ نے کہا کہ اس میں تشویش کی کوئی بات نہیں، میری نگاہ میں وہ نوجوان ہی صحیح تھا۔ اس لیے کہ ''صفائی کے وقت غبار کا خیال رکھنا بھی غبار ہے۔''
حضرت جنید بغدادیؒ کا جواب اس قدر دانش مندانہ تھا کہ حضرت سری سقطیؒ نے فوراً اسے درست مان لیا، یہی وہ موقع تھا جب پیرو مرشد نے اپنے مرید سے کہا جنید! اب وہ وقت آگیا ہے کہ تم وعظ کرنا شروع کردو۔ جنید بغدادیؒ نے پیر و مرشد کا ارشاد گرامی سن کر اپنا سر جھکالیا۔ آپؒ کی پہلی تقریر کے بعد ہی بغداد کے گلی کوچوں میں اس بات کا شہرہ ہوگیا کہ حضرت جنیدؒ جیسا فصیح البیان کوئی نہیں۔
حضرت جنید بغدادیؒ کا ذکر کرنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ جنید جمشید تصوف، کشف و کرامات کے بلند مرتبے پر فائز تھے، ایسا نہیں تھا۔ ہاں اتنی شباہت ضرور ہے جوکہ ہر اہل ایمان میں مشترکہ ہوتی ہے کہ جنید جمشید علم کی منزلوں سے گزر رہے تھے اپنے نفس پر قابو پانے کی تگ و دو میں تھے اور تبلیغ دین کے لیے انھوں نے اپنی زندگی وقف کردی تھی، ہر وقت موت کو یاد رکھتے اور بندگان خدا کی خدمت کرنا ان کا نصب العین تھا۔ جس روز جہاز کا سانحہ پیش آیا وہ دین کی خدمت کی غرض سے چترال گئے تھے۔ وہ شہید ہوگئے۔
شہادت انھیں اس وجہ سے نصیب نہیں ہوئی کہ وہ حادثے میں جاں بحق ہوگئے۔ نہیں بلکہ ایک وجہ اور تھی کہ وہ علم کے راستوں کے مسافر تھے، لہٰذا شہادت تو ان کے مقدر میں لکھی گئی تھی ، خوف خدا اور اپنے گناہوں کے خوف سے ایک آنسو بھی نکل جائے تو کامیابی سو فیصد ہوجاتی ہے۔ ندامت و شرم ساری ہی بندے کو اعلیٰ درجے پر پہنچا دیتی ہے۔
جہاز کے سب ہی مسافر شہید ہوئے ۔ افسوس جن لوگوں نے ٹیکنیکل غلطی کو نہ دیکھا ان کی ذرا سی لاپرواہی نے سیکڑوں لوگوں کو موت کے منہ میں پہنچادیا۔