سندھ طاس معاہدہ اور عالمی بینک کا کردار
بھارت عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان کا پانی روک رہا ہے
پاکستان نے بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی مسلسل خلاف ورزی پر عالمی بینک کی جانب سے ثالثی سے انکار پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے عالمی بینک کے صدرکو باقاعدہ خط لکھ دیا ہے جو وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے عالمی بینک کے صدر کے نام بھجوایا ہے۔ خط کے متن میں کہا گیا کہ عالمی بینک کا فیصلہ اس کے اپنے فیصلے سے انحراف ہے جب کہ سندھ طاس معاہدہ کسی فریق کو اپنی ذمے داریوں سے نہیں روکتا ہے۔
عالمی بینک کی جانب سے ثالثی سے انکار پر نہ صرف پاکستان کے حقوق متاثر ہونگے بلکہ علاقائی سطح پر اس کے مفادات کو بھی نقصان پہنچے گا لہٰذا عالمی بینک سندھ طاس معاہدے پر اپنی ذمے داریاں پوری کرے ۔ وزیر خزانہ کی طرف سے ورلڈ بینک کو لکھا گیا خط رواں ماہ ورلڈ بینک کے صدر جم ینگ کم کی طرف سے لکھے گئے خط کا جواب ہے جس میں انھوں نے پاکستان اور بھارت کو آبی تنازعات باہمی بات چیت سے حل کرنے کی پیشکش کی تھی۔
وزیرخزانہ نے خط میں صدر ورلڈ بینک کی طرف سے لکھے گئے خط کے بعض نکات پر اختلاف کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ اس حوالے سے کی جانے والی تاخیر سے پاکستان کے لیے مشکلات پیدا ہونگی اور یہ پاکستان کو متعلقہ فورم یعنی عالمی عدالت انصاف میں جانے سے روکنے کے مترادف ہے۔
سندھ طاس معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان 1960ء سے موجود ہے۔ معاہدے کی رو سے پنجاب میں بہنے والے بیاس' راوی اور ستلج دریاؤں کے پانیوں پر انڈیا جب کہ سندھ' چناب اور جہلم کا پانی پاکستان کے اختیار میں دیا گیا۔لیکن بھارت اس معاہدے کی مسلسل خلاف ورزی کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں دریائے چناب اور جہلم پر ڈیم تعمیر کر رہا ہے جس کے نتیجے میں پاکستان کے حصے کا پانی مسلسل کم ہو رہا ہے' پاکستان اس حوالے سے عالمی بینک سے احتجاج بھی کرتا چلا آ رہا ہے لیکن بھارت نے متنازعہ آبی منصوبوں پر کام نہیں روکا' مقبوضہ کشمیر میں اڑی واقعے کے بعد حالات مزید خراب ہوئے اور بھارتی وزیراعظم نریندرمودی نے پاکستان کا پانی بند کرنے کا اعلان کیا' اسی دوران عالمی بینک نے سندھ طاس معاہدہ پر غیر جانبدار ماہر کا تقرر روک دیا ہے جب کہ پاکستان کا ثالثی عدالت کے قیام کے مطالبہ پر بھی پیش رفت کی دوسری جانب سے مخالفت جاری ہے۔
عالمی بینک حکام کا کہنا ہے کہ سندھ طاس معاہدہ کے تحفظ کے لیے ضروری اقدامات کیے جا رہے ہیں تاہم انھوں نے اس خدشہ کا اظہار کیا ہے کہ معاہدہ غیر فعال ہو رہا ہے چنانچہ بینک نے سندھ طاس معاہدہ کے حوالہ سے دائر دوطرفہ درخواستوں پر عملدرآمد روکتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ دونوں ملک جنوری کے اختتام تک کسی پر امن طریقہ کار پر متفق ہوجائیں۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ 17 نومبر کو واشنگٹن میں ہونے والا اجلاس بھی ناکام ہو گیا۔
پاکستان کا موقف اور اعتراض یہ ہے کہ کشن گنگا اور رٹلی پاور پروجیکٹ پر غیر قانونی اور متنازع ڈیموں کی تعمیر سے اسے 40 فی صد پانی کم ملے گا، جب کہ عالمی بینک کی جانبداریت کو چیلنج کرنے سے ثالثی کا عمل بھی معرض التوا میں پڑ سکتا ہے جو پاکستان دشمنوں کی سازش ہے ۔ آبی تنازع کے حل کے ضمن میں پاکستان نے بھارت سے ہمیشہ پہل کی ہے جب کہ ثالثی عدالت کے قیام کے لیے اس کی کوشش کسی تساہل کا کبھی شکار نہیں رہی، مگر بینک اپنے محدود کردار کے باعث بالواسطہ بھارتی دباؤ کا شکار رہا اور اب پاکستان اور بھارت پر زور دے رہا ہے کہ وہ اپنے مسائل خود حل کریں۔
اگلے روز اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے پاکستان اور بھارت پر زور دیا کہ وہ اپنے اختلافات مذاکرات کے ذریعے حل کریں اور اگر دونوں ممالک چاہیں تو ہم کردار ادا کرنے کو تیار ہیں۔ کاش بان کی مون سبکدوش ہونے سے قبل کوئی کردار ادا کر لیتے تو بہتر ہوتا مگر دوسری جانب یہ بھی رائے ہے کہ اتنی قلیل مدت میں وہ کر بھی کیا سکتے ہیں کہ رواں ماہ ان کے عہدہ کی میعاد ختم ہو رہی ہے۔آبی تنازع کے حوالہ سے پاکستان سندھ بیسن میں 2 ہائیڈرو پاور پروجیکٹس کی تعمیر پر انڈیا سے شدید تحفظات کا اظہار کر چکا ہے۔
پاکستان کا کہنا ہے کہ یہ پریشان کن امر ہے کہ انڈیا سندھ طاس معاہدے کے رو سے تعین کردہ مقدار سے زیادہ پانی روک سکتا ہے۔اس پیچیدہ صورت حال میں پاکستان نے عالمی بینک کو خط لکھ کر درست سمت میں قدم اٹھایا ہے' سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے' اس حوالے سے عالمی بینک کو جرات مندانہ کردار ادا کرنا چاہیے' اگر مگر چونکہ چنانچہ کا مطلب یہی ہے کہ عالمی ادارے بھی جانبداری کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
آخر سندھ طاس معاہدے کا ضامن ہونے کے باوجود عالمی بینک کا اس بھارتی آبی جارحیت روکنے اور ثالثی سے انکار چہ معنی دارد؟ پاکستان کو آبی تنازعے کے حوالے سے قوانین کا جائزہ لینا چاہیے اور اسے اقوام متحدہ تک لے کر جانا چاہیے اور خارجہ سطح پر اس حوالے سے رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے۔
اقوام متحدہ کے علاوہ دیگر عالمی فورمز سے بھی رجوع کیا جانا چاہیے کیونکہ بھارت پوری دنیا میں پاکستان کے بارے میں پراپیگنڈا وار چلا رہا ہے' وہ ایک جانب عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان کا پانی روک رہا ہے اور اس سلسلے میں سندھ طاس معاہدے کی بھی پرواہ نہیں کر رہا اور دوسری جانب وہ پاکستان پر دہشت گردوں کی حمایت کرنے کے الزامات عائد کررہا ہے' وقت کا تقاضا ہے کہ پاکستان خارجہ محاذ پر بھی کام کرے اور بھارت کے ساتھ بھی معاملات طے کرنے کی کوشش کرے۔
عالمی بینک کی جانب سے ثالثی سے انکار پر نہ صرف پاکستان کے حقوق متاثر ہونگے بلکہ علاقائی سطح پر اس کے مفادات کو بھی نقصان پہنچے گا لہٰذا عالمی بینک سندھ طاس معاہدے پر اپنی ذمے داریاں پوری کرے ۔ وزیر خزانہ کی طرف سے ورلڈ بینک کو لکھا گیا خط رواں ماہ ورلڈ بینک کے صدر جم ینگ کم کی طرف سے لکھے گئے خط کا جواب ہے جس میں انھوں نے پاکستان اور بھارت کو آبی تنازعات باہمی بات چیت سے حل کرنے کی پیشکش کی تھی۔
وزیرخزانہ نے خط میں صدر ورلڈ بینک کی طرف سے لکھے گئے خط کے بعض نکات پر اختلاف کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ اس حوالے سے کی جانے والی تاخیر سے پاکستان کے لیے مشکلات پیدا ہونگی اور یہ پاکستان کو متعلقہ فورم یعنی عالمی عدالت انصاف میں جانے سے روکنے کے مترادف ہے۔
سندھ طاس معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان 1960ء سے موجود ہے۔ معاہدے کی رو سے پنجاب میں بہنے والے بیاس' راوی اور ستلج دریاؤں کے پانیوں پر انڈیا جب کہ سندھ' چناب اور جہلم کا پانی پاکستان کے اختیار میں دیا گیا۔لیکن بھارت اس معاہدے کی مسلسل خلاف ورزی کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں دریائے چناب اور جہلم پر ڈیم تعمیر کر رہا ہے جس کے نتیجے میں پاکستان کے حصے کا پانی مسلسل کم ہو رہا ہے' پاکستان اس حوالے سے عالمی بینک سے احتجاج بھی کرتا چلا آ رہا ہے لیکن بھارت نے متنازعہ آبی منصوبوں پر کام نہیں روکا' مقبوضہ کشمیر میں اڑی واقعے کے بعد حالات مزید خراب ہوئے اور بھارتی وزیراعظم نریندرمودی نے پاکستان کا پانی بند کرنے کا اعلان کیا' اسی دوران عالمی بینک نے سندھ طاس معاہدہ پر غیر جانبدار ماہر کا تقرر روک دیا ہے جب کہ پاکستان کا ثالثی عدالت کے قیام کے مطالبہ پر بھی پیش رفت کی دوسری جانب سے مخالفت جاری ہے۔
عالمی بینک حکام کا کہنا ہے کہ سندھ طاس معاہدہ کے تحفظ کے لیے ضروری اقدامات کیے جا رہے ہیں تاہم انھوں نے اس خدشہ کا اظہار کیا ہے کہ معاہدہ غیر فعال ہو رہا ہے چنانچہ بینک نے سندھ طاس معاہدہ کے حوالہ سے دائر دوطرفہ درخواستوں پر عملدرآمد روکتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ دونوں ملک جنوری کے اختتام تک کسی پر امن طریقہ کار پر متفق ہوجائیں۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ 17 نومبر کو واشنگٹن میں ہونے والا اجلاس بھی ناکام ہو گیا۔
پاکستان کا موقف اور اعتراض یہ ہے کہ کشن گنگا اور رٹلی پاور پروجیکٹ پر غیر قانونی اور متنازع ڈیموں کی تعمیر سے اسے 40 فی صد پانی کم ملے گا، جب کہ عالمی بینک کی جانبداریت کو چیلنج کرنے سے ثالثی کا عمل بھی معرض التوا میں پڑ سکتا ہے جو پاکستان دشمنوں کی سازش ہے ۔ آبی تنازع کے حل کے ضمن میں پاکستان نے بھارت سے ہمیشہ پہل کی ہے جب کہ ثالثی عدالت کے قیام کے لیے اس کی کوشش کسی تساہل کا کبھی شکار نہیں رہی، مگر بینک اپنے محدود کردار کے باعث بالواسطہ بھارتی دباؤ کا شکار رہا اور اب پاکستان اور بھارت پر زور دے رہا ہے کہ وہ اپنے مسائل خود حل کریں۔
اگلے روز اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے پاکستان اور بھارت پر زور دیا کہ وہ اپنے اختلافات مذاکرات کے ذریعے حل کریں اور اگر دونوں ممالک چاہیں تو ہم کردار ادا کرنے کو تیار ہیں۔ کاش بان کی مون سبکدوش ہونے سے قبل کوئی کردار ادا کر لیتے تو بہتر ہوتا مگر دوسری جانب یہ بھی رائے ہے کہ اتنی قلیل مدت میں وہ کر بھی کیا سکتے ہیں کہ رواں ماہ ان کے عہدہ کی میعاد ختم ہو رہی ہے۔آبی تنازع کے حوالہ سے پاکستان سندھ بیسن میں 2 ہائیڈرو پاور پروجیکٹس کی تعمیر پر انڈیا سے شدید تحفظات کا اظہار کر چکا ہے۔
پاکستان کا کہنا ہے کہ یہ پریشان کن امر ہے کہ انڈیا سندھ طاس معاہدے کے رو سے تعین کردہ مقدار سے زیادہ پانی روک سکتا ہے۔اس پیچیدہ صورت حال میں پاکستان نے عالمی بینک کو خط لکھ کر درست سمت میں قدم اٹھایا ہے' سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے' اس حوالے سے عالمی بینک کو جرات مندانہ کردار ادا کرنا چاہیے' اگر مگر چونکہ چنانچہ کا مطلب یہی ہے کہ عالمی ادارے بھی جانبداری کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
آخر سندھ طاس معاہدے کا ضامن ہونے کے باوجود عالمی بینک کا اس بھارتی آبی جارحیت روکنے اور ثالثی سے انکار چہ معنی دارد؟ پاکستان کو آبی تنازعے کے حوالے سے قوانین کا جائزہ لینا چاہیے اور اسے اقوام متحدہ تک لے کر جانا چاہیے اور خارجہ سطح پر اس حوالے سے رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے۔
اقوام متحدہ کے علاوہ دیگر عالمی فورمز سے بھی رجوع کیا جانا چاہیے کیونکہ بھارت پوری دنیا میں پاکستان کے بارے میں پراپیگنڈا وار چلا رہا ہے' وہ ایک جانب عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان کا پانی روک رہا ہے اور اس سلسلے میں سندھ طاس معاہدے کی بھی پرواہ نہیں کر رہا اور دوسری جانب وہ پاکستان پر دہشت گردوں کی حمایت کرنے کے الزامات عائد کررہا ہے' وقت کا تقاضا ہے کہ پاکستان خارجہ محاذ پر بھی کام کرے اور بھارت کے ساتھ بھی معاملات طے کرنے کی کوشش کرے۔