بھارت کو سی پیک میں شمولیت کی دعوت
اس منصوبے کی سب سے زیادہ مخالفت بھارت نے کی اور اسے ناکام بنانے کے لیے ہر منفی حربہ استعمال کیا
چین کا کہنا ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) ایک خطہ ایک سڑک کے وژن کے تحت کھلا منصوبہ ہے مگر اس منصوبے میں پاکستان کی رضامندی اور اتفاق رائے سے دوسرے ممالک کو شامل کرنے پر غور کیا جا سکتا ہے' پاکستانی پیشکش پر بھارتی جواب کے منتظر ہیں۔
چین نے یہ بیان کمانڈر سدرن کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل عامر ریاض کے اس بیان کے تناظر میں دیا جس میں انھوں نے بھارت کو سی پیک کا حصہ بننے کی پیشکش کی تھی۔ بہت بھاری سرمایہ کاری سے شروع کیا جانے والا سی پیک منصوبہ جو کہ بظاہر چینی صوبے سنکیانگ سے دشوارگزار پہاڑی راستوں سے ہوتا ہوا صوبہ بلوچستان کے گہرے پانی کی بندرگاہ گوادر تک پہنچتا ہے جہاں سے اس کے آگے مشرق وسطیٰ، افریقہ اور یورپ تک کے راستے کھلے ہیں یہی وجہ ہے کہ اس کی اس تجارتی اہمیت کے پیش نظر روس اور امریکا بھی اس منصوبے میں شمولیت کی خواہش کا اظہار کرنے لگے ہیں جو پاکستان کے لیے خوش آئند ہے۔
اس منصوبے کی سب سے زیادہ مخالفت بھارت نے کی اور اسے ناکام بنانے کے لیے ہر منفی حربہ استعمال کیا۔یہاں تک کہ اس نے بلوچستان میں دہشت گردی کو ہوا دینے کی بھرپور کوشش کی۔ پاکستان نے بھارت کی ہر کوشش کو ناکام بنایا اور مستقبل میں سی پیک کی اہمیت کے پیش نظر اسے ہر صورت مکمل کرنے کا عندیہ دیا ۔پاکستان نے یہ واضح کر دیا کہ سی پیک سے نہ صرف اسے بلکہ خطے کے دیگر ممالک کو بھی فائدہ پہنچے گا۔اقتصادی ترقی کی راہ میں یہ گیم چینجر ہے جس کی مخالفت اسے کسی بھی سطح پر قابل قبول نہیں۔
گوادر بندر گاہ آپریشنل ہونے کے بعد سی پیک کی اہمیت خطے کے دیگر ممالک پر واضح ہوتی چلی جا رہی ہے 'یہی وجہ ہے کہ روس بھی اس کا حصہ بننے کے لیے بے تاب ہو رہا ہے۔پاکستان نے بھارت کو بھی سی پیک کا حصہ بننے کی پیش کش کر کے مثبت جانب قدم اٹھایا ہے اب یہ بھارتی حکمرانوں پر ہے کہ وہ ترقی کی اس شاہراہ سے فائدہ اٹھانے کے لیے کیا قدم اٹھاتے ہیں۔
اگر بھارت پاکستان کی پیش کش کا مثبت جواب دیتا ہے تو اس سے اس کو بہت سے اقتصادی اور معاشی فوائد حاصل ہونگے لیکن اس کے لیے لازم ہے کہ بھارت پاکستان کے ساتھ دشمنی بر مبنی رویے کو ترک کر کے اس کے ساتھ دوستانہ تعلقات کو استوار کرے۔ بھارت نے سرحدوں پر گولہ باری اور فائرنگ کر کے جو کشیدہ صورت حال پیدا کر رکھی ہے اسے اس کا خاتمہ بھی کرنا ہو گا۔
بھارت کے اقتصادی ماہرین اور دانشور حلقوں کو سی پیک کی اہمیت کا بخوبی ادراک ہے اور وہ یقیناً بھارتی حکومت پر بھی دباؤ ڈالیں گے کہ وہ پاکستان کی پیش کش کا مثبت جواب دے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ بھارت میں موجودہ حکومت انتہا پسندوں کے نرغے سے نکلنے میں کامیاب ہوتی ہے یا دشمنی بر مبنی رویے ہی کو جاری رکھتی ہے۔
چینی ترجمان نے کہا کہ راہداری منصوبے میں تیسرے فریق کو متعارف کرانے کے لیے پاکستان سے اتفاق رائے پیدا ہونے کے بعد ہی پیشرفت ہو سکتی ہے ۔اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ باہمی تعلقات کے فریم ورک کی بنیاد ہے جو مختلف شعبوں میں دوطرفہ طور پر طویل المدتی تعاون اور ترقی پر مرکوز ہے۔اس منصوبے سے نہ صرف دونوں ممالک کے معاشی حالات بہتر ہوں گے بلکہ خطے میں امن و استحکام سمیت علاقائی تعاون کو بھی فروغ حاصل ہو گا۔
سی پیک کے منصوبے پر تیزی سے کام ہو رہا ہے۔ پاکستان کے اندر جہاں جہاں سے اقتصادی راہداری گزرے گی وہاں مختلف علاقوں میں صنعتوں کے قیام سے خوشحالی کے نئے دور کا آغاز ہو گا اور ملک میں موجود بیروزگاری پر قابو پانے میں خاطر خواہ مدد ملے گی۔ پاکستان کی بھرپور کوشش ہے کہ اس منصوبے میں خطے کے تمام ممالک کو شریک کیا جائے اس سے اقتصادی ترقی کا عمل مزید تیز ہو گا اور خطے میں امن و استحکام آئے گا۔