خالد عثمان قیصر ایک قابل فخر سفیر پاکستان
اگر آپ کو کسی ملک کے سفیر سے ملنے کا اتفاق ہوا ہو تو آپ جانتے ہوں گے کہ سفیر کبھی بھی’’ناں‘‘ نہیں کیا کرتے
اگر آپ کو کسی ملک کے سفیر سے ملنے کا اتفاق ہوا ہو تو آپ جانتے ہوں گے کہ سفیر کبھی بھی''ناں'' نہیں کیا کرتے مگر کرتے وہی ہی جو ان کے ملک اور قوم کے مفاد میں ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر آپ کسی سفیر سے ملیں اور ان سے گفت گو کریں دو چار کام کہہ دیں، ملاقات کرنے کی خواہش کا اظہار کریں، اپنے ہاں چائے یا کھانے کی دعوت دیں الغرض کچھ بھی ان کے ذمے ڈالیں وہ انکار نہیں کریں گے بلکہ ڈپلومیٹک جواب دیں گے کیوں کہ ان کا کام ڈپلومیسی ہے اور کسی دوسرے ملک میں رہتے ہوئے ان کا کام محض اپنے ملک سے وفاداری ہی قرار پاتا ہے۔
یہ الگ بات ہے کہ ڈپلومیٹ کے لفظی معنی کسی بھی شعبہ میں ڈپلومہ حاصل کرنے والے کے ہیں اور سفارت کار چونکہ سفارت کاری کا تجربہ رکھتے ہیں اس حوالے سے ڈپلومیٹ قرار پاتے ہیں۔ پاکستان کے بھی یہ ڈپلومیٹ دنیا کے کئی ممالک میں سفارتکاری کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ افریقہ میں پاکستان کے 15 ممالک میں پاکستانی سفارت خانے ہیں۔ امریکا اور لاطینی امریکا میں چھ سفارت خانے قائم ہیں۔ سب سے زیادہ سفارتخانے براعظم ایشیا میں ہیں جنکی تعداد 38 ہے۔
یورپ میں پاکستانی سفارت خانوں کی تعداد 24 جب کہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں بھی پاکستان کے سفارت خانے موجود ہیں۔ یوں مجموعی طور پر دستیاب اعداد و شمار کے مطابق دنیا کے دو سو چھ سے زیادہ ممالک میں پاکستانی سفارت خانوں کی تعداد 85 ہے بعض ممالک کے مختلف شہروں میں قونصل خانے بھی ہیں جنکی تعداد 23 کے قریب ہے۔ اب ان سفارتخانوں میں کام کرنے والے اہل کاروں کے مسائل کا ذکر کیا جائے، سفارت خانوں کو کیا وسائل میسر ہیں اس کا تذکرہ ہو یا پھر یہ دیکھا جائے کہ کم وسائل کے باوجود سفراء حضرات کس طرح سے دیار غیر میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔
اس سے قطع نظر یہ امر انتہائی افسوسناک اور باعث تشویش ہے کہ زیادہ تر سفیروں کی کارکردگی مایوس کن ہے۔ بحرین میں جب پاکستانیوں سے ان کی رائے جاننے کی کوشش کی تو زیادہ اچھی نہیں ملی۔ اس کی بنیادی وجہ سفارتخانے کی ان کے مسائل سے لاتعلقی قرار دی جا سکتی ہے۔ اسی طرح اگر کوئی بحرینی پاکستان آنے کی خواہش کا اظہار کرے تو اسے پاکستان کا ویزہ لینے کے لیے جو مشکلات پیش آتی ہیں اس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔
اگر آپ ملائشیا میں پاکستان کے سفارتخانے سے ٹیلی فون پر بات کرنا چاہتے ہیں تو یہ کوشش نہ کیجیے گا۔ امریکا میں پاکستانی سفیر ہیلو ہائے تو کرتے ہیں لیکن ان کے بارے میں بھی یہ عام ہے کہ مسائل کے حل کے لیے اور اگر کوئی پاکستانی واشنگٹن میں کسی مشکل میں ہے تو اسے پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں۔ اگر آپ ترکمانستان میں موجود سفارتخانے سے درخواست کریں کہ چند مہمان پاکستان آنا چاہتے ہیں ان کے پاس دعوتی خط بھی ہے اور ویزہ فارم بھی جمع کروا دیے گئے ہیں انھیں ویزے جاری کر دیں تو فرماتے ہیں کہ آپ وزارت خارجہ اور وزارت داخلہ سے این او سی لے کر بھیجیں تو ہی ویزے جاری کیے جا سکتے ہیں۔
بہر حال ممکن ہے کہ اس معاملے میں ضابطے اور قانون کی پیچیدگیاں ہوں۔ البتہ اس موقع پر ایک شخص کی یادیں دلوں میں تازہ ہو جاتی ہیں جو پہلے تاجکستان میں سفیر پاکستان تھے، جب پاکستان سے ایک وفد تاجکستان کے دورے پر گیا تو وہ حیران رہ گیا کہ پاکستان کا سفیر انھیں ہوائی اڈے پر لینے کے لیے موجود تھا، پہلے تو انھیں یقین نہ آیا اور پھر ڈرتے ڈرتے پوچھا جناب سفیر آپ کیسے تشریف لائے۔
کہنے لگے پتہ چلا تھا کہ پاکستانی آ رہے ہیں تو خود ہی بغیر کسی دعوت کے لینے چلا آیا، آج بھی اس وفد میں شامل لوگوں کو خالد عثمان قیصر یاد ہیں۔ جب وہ آذربائیجان میں سفیر پاکستان تھے تو نہ صرف پاکستانی بلکہ آذربائیجانی ان کی تعریفیں کرتے نہ تھکتے۔ جن سفارتخانوں اور سفارتکاروں کا پہلے ذکر ہوا ان سمیت کئی درجن سے زائد سفارتکاروں کی کارکردگی کا اگر غیر جانبدارانہ جائزہ لیا جائے تو خالد عثمان قیصر کا نام سر فہرست ہو گا، ان کا تذکرہ اور کالم لکھنے کا خیال اس لیے آیا کہ سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ نظروں سے گزری کہ یونان میں متعین سفیر پاکستان نے سفارت خانے کے دروازے پاکستانیوں کے لیے کھول دیے ہیں بلکہ پاکستانی کمیونٹی کو ٹیلی فون کر کے ان کے مسائل جاننے کی کوشش کر رہے ہیں۔
میرے لیے یہ پوسٹ خاصی حیران کن تھی اور حیرانگی اس وقت ختم ہو گئی جب پوسٹ کے آخر میں لکھا تھا خالد عثمان قیصر سفیر پاکستان! موصوف آجکل یونان میں پاکستان کے سفیر ہیں اور بلاشبہ سفارتی محاذ پر ملک و قوم کی سربلندی کے لیے ہمہ وقت کوشاں ہیں۔ پاکستان کے یہ قابل فخر سفارت کار سفیر بننے سے پہلے تیونس، لندن، بوڈاپسٹ اور لندن میں خدمات انجام دے چکے ہیں جب کہ 1987ء سے2013ء کے دوران پاکستان کی وزارت خارجہ میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔
اب وہ پوسٹ ملاحظہ فرمائیے"یونان میں رہنے والے تمام پاکستانی بھائیوںسے گزارش ہے کہ آپ کی سہولت کے لیے آپ خود سفیر پاکستان سے براہ راست مل سکتے ہیں اگر آپ کو کسی قسم کا کوئی بھی مسئلہ درپیش ہو اور آپ سفارت خانے نہ آ سکیں تو 6943850188 پر ایک چھوٹا سے پیغام بھیج دیں، آپ کی بڑی مہربانی ہو گی۔ آپ کو نہ صرف فوری جواب دیا جائے گا بلکہ سفیر پاکستان خود آپ سے رابطہ بھی کریں گے۔ اور ہماری کوشش ہو گی کہ جلد از جلد آپ کا مسئلہ حل ہو جائے" میں نے عبدالولی خان یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر احسان علی کو بھی اس بابت بتایا تو انھوں نے بے اختیار کہا کہ انھوں نے اپنی ساری زندگی میں ایسا سفیر پاکستان نہیں دیکھا کیوں کہ جب وہ مختصر دورے پر آذر بائیجان کے دارالحکومت باکو میں تھے تو خالد عثمان قیصر کے مداح بن کر واپس لوٹے کہ سفیر پاکستان کی حیثیت سے انھیں نہ صرف پاکستانی بلکہ آذربائیجانی بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔
سفیر پاکستان آجکل یونان اور پاکستان کے درمیان اقتصادی، معاشی و معاشرتی اور تہذیبی تعلقات بہتر بنانے کے لیے سرگرداں ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ کسی بھی طرح یونان پہنچنے والے پاکستانیوں کی خدمت کی جا سکے۔ ان کی فلاح و بہبود کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جائیں۔ انھوں نے صدر یونان کو دورہ پاکستان کی دعوت بھی دی ہے اور ان سے ملاقات میں پاکستان کا مؤقف بڑے مؤثر انداز میں پیش کیا ہے کہ پاکستان ایک امن پسند ملک ہے اور تمام مسائل و تنازعات اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے کا خواہاں ہے ۔گویا ہر محاذ پر سفیر پاکستان ملک وقوم کی عزت و افتخار اور وطن عزیز کی شان بڑھانے میں مصروف ہیں۔ بلاشبہ وطن عزیز کو خالد عثمان قیصر جیسے سفراء کی ضرورت ہے۔
یہ الگ بات ہے کہ ڈپلومیٹ کے لفظی معنی کسی بھی شعبہ میں ڈپلومہ حاصل کرنے والے کے ہیں اور سفارت کار چونکہ سفارت کاری کا تجربہ رکھتے ہیں اس حوالے سے ڈپلومیٹ قرار پاتے ہیں۔ پاکستان کے بھی یہ ڈپلومیٹ دنیا کے کئی ممالک میں سفارتکاری کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ افریقہ میں پاکستان کے 15 ممالک میں پاکستانی سفارت خانے ہیں۔ امریکا اور لاطینی امریکا میں چھ سفارت خانے قائم ہیں۔ سب سے زیادہ سفارتخانے براعظم ایشیا میں ہیں جنکی تعداد 38 ہے۔
یورپ میں پاکستانی سفارت خانوں کی تعداد 24 جب کہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں بھی پاکستان کے سفارت خانے موجود ہیں۔ یوں مجموعی طور پر دستیاب اعداد و شمار کے مطابق دنیا کے دو سو چھ سے زیادہ ممالک میں پاکستانی سفارت خانوں کی تعداد 85 ہے بعض ممالک کے مختلف شہروں میں قونصل خانے بھی ہیں جنکی تعداد 23 کے قریب ہے۔ اب ان سفارتخانوں میں کام کرنے والے اہل کاروں کے مسائل کا ذکر کیا جائے، سفارت خانوں کو کیا وسائل میسر ہیں اس کا تذکرہ ہو یا پھر یہ دیکھا جائے کہ کم وسائل کے باوجود سفراء حضرات کس طرح سے دیار غیر میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔
اس سے قطع نظر یہ امر انتہائی افسوسناک اور باعث تشویش ہے کہ زیادہ تر سفیروں کی کارکردگی مایوس کن ہے۔ بحرین میں جب پاکستانیوں سے ان کی رائے جاننے کی کوشش کی تو زیادہ اچھی نہیں ملی۔ اس کی بنیادی وجہ سفارتخانے کی ان کے مسائل سے لاتعلقی قرار دی جا سکتی ہے۔ اسی طرح اگر کوئی بحرینی پاکستان آنے کی خواہش کا اظہار کرے تو اسے پاکستان کا ویزہ لینے کے لیے جو مشکلات پیش آتی ہیں اس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔
اگر آپ ملائشیا میں پاکستان کے سفارتخانے سے ٹیلی فون پر بات کرنا چاہتے ہیں تو یہ کوشش نہ کیجیے گا۔ امریکا میں پاکستانی سفیر ہیلو ہائے تو کرتے ہیں لیکن ان کے بارے میں بھی یہ عام ہے کہ مسائل کے حل کے لیے اور اگر کوئی پاکستانی واشنگٹن میں کسی مشکل میں ہے تو اسے پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں۔ اگر آپ ترکمانستان میں موجود سفارتخانے سے درخواست کریں کہ چند مہمان پاکستان آنا چاہتے ہیں ان کے پاس دعوتی خط بھی ہے اور ویزہ فارم بھی جمع کروا دیے گئے ہیں انھیں ویزے جاری کر دیں تو فرماتے ہیں کہ آپ وزارت خارجہ اور وزارت داخلہ سے این او سی لے کر بھیجیں تو ہی ویزے جاری کیے جا سکتے ہیں۔
بہر حال ممکن ہے کہ اس معاملے میں ضابطے اور قانون کی پیچیدگیاں ہوں۔ البتہ اس موقع پر ایک شخص کی یادیں دلوں میں تازہ ہو جاتی ہیں جو پہلے تاجکستان میں سفیر پاکستان تھے، جب پاکستان سے ایک وفد تاجکستان کے دورے پر گیا تو وہ حیران رہ گیا کہ پاکستان کا سفیر انھیں ہوائی اڈے پر لینے کے لیے موجود تھا، پہلے تو انھیں یقین نہ آیا اور پھر ڈرتے ڈرتے پوچھا جناب سفیر آپ کیسے تشریف لائے۔
کہنے لگے پتہ چلا تھا کہ پاکستانی آ رہے ہیں تو خود ہی بغیر کسی دعوت کے لینے چلا آیا، آج بھی اس وفد میں شامل لوگوں کو خالد عثمان قیصر یاد ہیں۔ جب وہ آذربائیجان میں سفیر پاکستان تھے تو نہ صرف پاکستانی بلکہ آذربائیجانی ان کی تعریفیں کرتے نہ تھکتے۔ جن سفارتخانوں اور سفارتکاروں کا پہلے ذکر ہوا ان سمیت کئی درجن سے زائد سفارتکاروں کی کارکردگی کا اگر غیر جانبدارانہ جائزہ لیا جائے تو خالد عثمان قیصر کا نام سر فہرست ہو گا، ان کا تذکرہ اور کالم لکھنے کا خیال اس لیے آیا کہ سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ نظروں سے گزری کہ یونان میں متعین سفیر پاکستان نے سفارت خانے کے دروازے پاکستانیوں کے لیے کھول دیے ہیں بلکہ پاکستانی کمیونٹی کو ٹیلی فون کر کے ان کے مسائل جاننے کی کوشش کر رہے ہیں۔
میرے لیے یہ پوسٹ خاصی حیران کن تھی اور حیرانگی اس وقت ختم ہو گئی جب پوسٹ کے آخر میں لکھا تھا خالد عثمان قیصر سفیر پاکستان! موصوف آجکل یونان میں پاکستان کے سفیر ہیں اور بلاشبہ سفارتی محاذ پر ملک و قوم کی سربلندی کے لیے ہمہ وقت کوشاں ہیں۔ پاکستان کے یہ قابل فخر سفارت کار سفیر بننے سے پہلے تیونس، لندن، بوڈاپسٹ اور لندن میں خدمات انجام دے چکے ہیں جب کہ 1987ء سے2013ء کے دوران پاکستان کی وزارت خارجہ میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔
اب وہ پوسٹ ملاحظہ فرمائیے"یونان میں رہنے والے تمام پاکستانی بھائیوںسے گزارش ہے کہ آپ کی سہولت کے لیے آپ خود سفیر پاکستان سے براہ راست مل سکتے ہیں اگر آپ کو کسی قسم کا کوئی بھی مسئلہ درپیش ہو اور آپ سفارت خانے نہ آ سکیں تو 6943850188 پر ایک چھوٹا سے پیغام بھیج دیں، آپ کی بڑی مہربانی ہو گی۔ آپ کو نہ صرف فوری جواب دیا جائے گا بلکہ سفیر پاکستان خود آپ سے رابطہ بھی کریں گے۔ اور ہماری کوشش ہو گی کہ جلد از جلد آپ کا مسئلہ حل ہو جائے" میں نے عبدالولی خان یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر احسان علی کو بھی اس بابت بتایا تو انھوں نے بے اختیار کہا کہ انھوں نے اپنی ساری زندگی میں ایسا سفیر پاکستان نہیں دیکھا کیوں کہ جب وہ مختصر دورے پر آذر بائیجان کے دارالحکومت باکو میں تھے تو خالد عثمان قیصر کے مداح بن کر واپس لوٹے کہ سفیر پاکستان کی حیثیت سے انھیں نہ صرف پاکستانی بلکہ آذربائیجانی بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔
سفیر پاکستان آجکل یونان اور پاکستان کے درمیان اقتصادی، معاشی و معاشرتی اور تہذیبی تعلقات بہتر بنانے کے لیے سرگرداں ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ کسی بھی طرح یونان پہنچنے والے پاکستانیوں کی خدمت کی جا سکے۔ ان کی فلاح و بہبود کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جائیں۔ انھوں نے صدر یونان کو دورہ پاکستان کی دعوت بھی دی ہے اور ان سے ملاقات میں پاکستان کا مؤقف بڑے مؤثر انداز میں پیش کیا ہے کہ پاکستان ایک امن پسند ملک ہے اور تمام مسائل و تنازعات اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے کا خواہاں ہے ۔گویا ہر محاذ پر سفیر پاکستان ملک وقوم کی عزت و افتخار اور وطن عزیز کی شان بڑھانے میں مصروف ہیں۔ بلاشبہ وطن عزیز کو خالد عثمان قیصر جیسے سفراء کی ضرورت ہے۔