شام کا انسانی المیہ
شام کے لاکھوں لوگ دنیا بھر میں پناہ کی تلاش میں بھٹک رہے ہیں
شام میں تقریباً پانچ سال سے جاری بدترین خانہ جنگی، جس میں رفتہ رفتہ پڑوسی ملکوں کے ساتھ ساتھ بڑی عالمی طاقتوں کے ملوث ہونے سے صورتحال قابو سے باہر ہوتی چلی گئی ہے۔ شام کے لاکھوں لوگ دنیا بھر میں پناہ کی تلاش میں بھٹک رہے ہیں، چھوٹی چھوٹی کشتیوں کے ذریعے محیط بے کراں عبور کرنے کی کوشش کرنے والے کتنے خاندان اپنے ننھے منے بچوں سمیت تہہ آب بسیرا کر لیتے ہیں۔ جدت کے اس دور میں انسانی المیے کی یہ ہولناک کہانیاں اشرف المخلوقات کے درجے پر فائز حضرت انسان کے ذہنی دیوالیہ پن کا ثبوت پیش کررہی ہیں۔
شام میں جتنے فریق لڑ رہے ہیں ان کا نقصان ہوتا ہے یا نہیں، لیکن ایک بات طے ہے کہ شام کے عوام مارے جارہے ہیں، شہر کھنڈر بن گئے ہیں، حلب جیسے شہر جو ہزاروں برس کے تہذیبی آثار پلو میں سمیٹے سفید پوشی نبھارہے تھے خود وہ شہر ہلاک ہوچکے ہیں۔ اکیسیویں صدی میں جتنی سستی زندگی شامیوں کی ہے، خدا باقی صدی میں کسی کی نہ کرے۔ امریکا، روس، ترکی، ایران اور یورپی ممالک اپنے اپنے مفادات کی تقسیم کے لیے شطرنج بچھائے ہوئے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد جو بڑے انسانی المیے رونما ہوئے ہیں، شام کا انسانی المیہ بھی ان میں سے ایک ہے۔
ایسا ہی کچھ حال میانمار (برما) کے مظلوم مسلمانوں کا ہے، جہاں گزشتہ چار برس سے انسانیت سوز مظالم کا سلسلہ جاری ہے، فوج کے ذریعے ان کی نسل کشی بھی کی جارہی ہے، حقیقت تو یہ ہے کہ انتہائی کسمپرسی اور مفلسی کی زندگی بسر کرنے والے ان مسلمانوں کو تن ڈھانپنے کے لیے کپڑے تک میسر نہیں، ان کی جنگلی علاقوں میں بنی گھاس پھونس کی جھونپڑیوں پر ہیلی کاپٹروں کے ذریعے حملہ کیا جاتا ہے، جو بچارے بچ کر بھاگتے ہیں انھیں گولیوں سے بھون دیا جاتا ہے، یہاں سولہویں صدی سے بسنے والے مسلمان شہریت سے محروم ہیں، یہ دنیا میں واحد قوم ہیں جن کے پاس اپنے ہی ملک کی شہریت نہیں، یہ بدنصیب جب مظالم سے تنگ آکر ہجرت کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو بنگلہ دیش کے سرحدی محافظوں کی گولیوں کا نشانہ بنتے ہیں یا پھر تھائی لینڈ کے انسانی اسمگلروں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔
اس وقت عالمی سطح پر امت مسلمہ پر انتہائی کڑا وقت ہے، متعدد اسلامی ملکوں میں شورش برپا ہے، مسلمان ملکوں میں نسل کشی ہورہی ہے، ہم چپ ہیں۔ شام اور لبنان میں لاشوں کے انبار لگے ہیں، مسلمان ملک خاموش ہیں۔ مظلوم مسلمان رو رہے ہیں، تڑپ رہے ہیں، بلک رہے ہیں، ان کی آہیں آسمان کو چھو رہی ہیں، مگر افسوس اسلامی ممالک کے حکمران ٹس سے مس نہیں ہورہے۔ پچاس سے زائد اسلامی ملکوں کے حکمران خاموش ہیں، کہاں ہے او آئی سی، کہاں گئے دعوے ملت کے درد کے، کیا تیل کی دولت کا سارا سرمایہ ''تلوروں'' ہی پر خرچ کرنا ہے کہ اس میں امت مسلمہ کے درد کا درماں بھی ہے۔
اسلامی دنیا کے ممالک کو جس ایک عنصر نے تباہی کے دہانے پر پہنچایا ہے، وہ ان کی سرزمین پر عسکری گروپس اور ملیشیاز کا خود رو پودوں کی صورت میں سامنے آنا ہے، جو اب ایک ایسا جنگل بن گئے ہیں کہ جس میں جو چاہے، جس کا شکار کرلے، کوئی بھی مذہبی نظریہ یا فرقہ سامنے آیا، اس کے ماننے والے ہتھیار بند ہو گئے، نوجوانوں کو ورغلایا گیا اور کسی بھی بہانے سے مخالفین کا قتل عام شروع کردیا گیا۔ مسلم قومیت تو دور کی بات ہے، دیگر قومیں بھی ختم ہو چکی ہیں۔ عراق میں عراقی کہاں ہیں، شام میں شامی کون ہیں اور یمن میں یمنی کون ہیں؟ قومیں بکھر رہی ہیں اور ملک ٹوٹ رہے ہیں، ایسے میں جو لوگ مسلم امہ کے اتحاد کا ذکر کرتے ہیں ان پر پیار تو آتا ہے لیکن ان کی خوش فہمیوں پر رحم بھی آتا ہے۔
اصل میں دنیا میں مذہبی دہشتگردی کا آغاز اس وقت ہوا جب سوویت یونین ٹوٹ گیا، واشنگٹن کی تلواروں سے مجاہدین نے افغانستان میں فتح کے پرچم لہرا دیے، سوویت یونین کے خاتمے کے بعد مغرب کو محفوظ بنانے والوں کی توجہ مسلمانوں پر مرتکز ہوگئی تھی، سو سب سے پہلے شدت پسند مسلمان پیدا کیے گئے جو عالم گیر غلبہ اسلام کے لیے دہشتگردی کا راستہ اختیار کرلیں، پھر ان مسلم ممالک پر توجہ دی گئی جو فوجی قوت رکھتے ہیں۔ چار مسلمان ملک اس سلسلے میں اہم ترین تھے، عراق، شام، پاکستان اور ترکی۔ چونکہ اسرائیل کے لیے عراق اور شام مسئلہ تھے، سو پہلے انھی کی فوجی طاقت کو ختم کیا گیا، بلکہ مکمل طور پر تباہ کردیا گیا، باقی پاکستان اور ترکی رہ گئے ہیں، ترکی اور روس کی جنگ کرانے کی کوشش کی گئی مگر وہاں بھی انھیں کامیابی نصیب نہیں ہوئی۔ لیکن دہشتگردی کے ذریعے پاکستان اور ترکی کو تباہ کرنے کی کوششیں مسلسل جاری ہیں۔
یہ کوشش بھی کی جارہی ہے کہ کسی طرح ایران اور برادر عرب ملک کے درمیان جنگ کرادی جائے تاکہ یہ دونوں ملک آپس میں لڑ کر مکمل طور پر برباد ہوجائیں۔ مغربی میڈیا کافی عرصہ پہلے ان دونوں ممالک کے براہ راست تصادم کی پیش گوئی کرچکا ہے، امریکا کے تمام تھنک ٹینکس اس بات پر متفق ہیں کہ مشرقی وسطیٰ کے ممالک کی موجودہ تقسیم بندی زیادہ عرصے تک برقرار نہیں رہ سکتی، تمام عرب ممالک کو تقسیم ہونا چاہیے مگر وہ یہ تقسیم مشرق وسطیٰ کی مکمل تباہی کے بعد دیکھتے ہیں۔
سب سے زیادہ خوفناک بات یہ ہے کہ اسلامی ملکوں میں دہشتگردی پر قابو پانے کے لیے معروضی حالات کے مطابق کوئی ٹھوس حکمت عملی اختیار نہیں کی جارہی ہے، اس کے برعکس عالمی طاقتوں کے ایجنڈے پر عملدرآمد کرتے ہوئے مسلم معاشروں کو فرقہ وارانہ، نسلی اور لسانی بنیادوں پر تقسیم کیا جارہا ہے، تباہی کا یہ سلسلہ کہاں جاکر ختم ہوگا، اس بارے میں کوئی وثوق سے نہیں کہہ سکتا ہے۔ پہلے القاعدہ، طالبان، بوکوحرام اور دیگر دہشتگرد تنظیموں نے مسلم دنیا کو تقریباً ڈیڑھ عشرے تک افراتفری، خونریزی اور انتشار میں مبتلا رکھا، ان تنظیموں کا ابھی مکمل خاتمہ نہیں ہوا ہے اور اب ایک نئی شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ عراق و شام (داعش) یا دولت اسلامیہ (آئی ایس) ایک بڑا خطرہ بن کر اسلامی دنیا میں نمودار ہوئی ہے۔
اس وقت پورا عالم اسلام بدترین بحران سے دوچار ہے، بدقسمتی یہ ہے کہ اسلامی دنیا کو قیادت میسر نہیں، اس وقت کسی بھی اسلامی ملک میں ایک بھی لیڈر ایسا نہیں ہے، جو اس بحران کی درست وضاحت کرسکے اور اس سے نکلنے کا حل بتا سکے۔ بحران کو صحیح طور پر سمجھنے کے لیے دانشوروں اور رائے عامہ کو متاثر کرنے والے حلقوں میں ایسا بیانیہ بھی رائج نہیں ہوسکا ہے جس سے حقیقت کو آشکار کیا جاسکے، اسلامی دنیا کے اکثر ممالک میں سیاسی عدم استحکام ہے، کہیں سیاسی قوتوں اور افواج کے درمیان اقتدار کی کھینچا تانی ہے، کہیں انتہاپسند اور لبرل قوتوں کے مابین لڑائی جاری ہے، کہیں بادشاہتوں کو بچانے کے لیے مصنوعی جنگیں جاری ہیں اور کہیں جمہوری حکومتیں فیصلہ کن پوزیشن میں نہیں ہیں۔
سیاسی اور عسکری حلقے ان عالمی طاقتوں کی پشت پناہی حاصل کرنے کے لیے ہر حد کو پار کررہے ہیں، جو عالمی طاقتیں سب کو کمزور کرنے کے درپے ہیں، سیاسی عدم استحکام اور اقتدار کی رسہ کشی نے سب کو ان عالم طاقتوں کا کاسہ لیس بنادیا ہے۔ سب سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ غیر مسلم قوتیں جو کچھ چاہتی ہیں وہ کام خود مسلمان کیے جارہے ہیں، کہیں ان کے اشارے پر اور کہیں اپنے مفادات کے لیے۔ ہماری دانش کا یہ حال ہوچکا ہے کہ وہ تخلیق اور تحقیق کی اہمیت فراموش کرکے صرف اپنی مخصوص عینک سے دنیا کی ہر چیز کو دیکھ رہی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ یمن، لیبیا، شام اور عراق کے بحران اور ان میں جاری خون ریزی بھی اب ہمیں جگانے کے لیے کافی نہیں۔
شام میں جتنے فریق لڑ رہے ہیں ان کا نقصان ہوتا ہے یا نہیں، لیکن ایک بات طے ہے کہ شام کے عوام مارے جارہے ہیں، شہر کھنڈر بن گئے ہیں، حلب جیسے شہر جو ہزاروں برس کے تہذیبی آثار پلو میں سمیٹے سفید پوشی نبھارہے تھے خود وہ شہر ہلاک ہوچکے ہیں۔ اکیسیویں صدی میں جتنی سستی زندگی شامیوں کی ہے، خدا باقی صدی میں کسی کی نہ کرے۔ امریکا، روس، ترکی، ایران اور یورپی ممالک اپنے اپنے مفادات کی تقسیم کے لیے شطرنج بچھائے ہوئے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد جو بڑے انسانی المیے رونما ہوئے ہیں، شام کا انسانی المیہ بھی ان میں سے ایک ہے۔
ایسا ہی کچھ حال میانمار (برما) کے مظلوم مسلمانوں کا ہے، جہاں گزشتہ چار برس سے انسانیت سوز مظالم کا سلسلہ جاری ہے، فوج کے ذریعے ان کی نسل کشی بھی کی جارہی ہے، حقیقت تو یہ ہے کہ انتہائی کسمپرسی اور مفلسی کی زندگی بسر کرنے والے ان مسلمانوں کو تن ڈھانپنے کے لیے کپڑے تک میسر نہیں، ان کی جنگلی علاقوں میں بنی گھاس پھونس کی جھونپڑیوں پر ہیلی کاپٹروں کے ذریعے حملہ کیا جاتا ہے، جو بچارے بچ کر بھاگتے ہیں انھیں گولیوں سے بھون دیا جاتا ہے، یہاں سولہویں صدی سے بسنے والے مسلمان شہریت سے محروم ہیں، یہ دنیا میں واحد قوم ہیں جن کے پاس اپنے ہی ملک کی شہریت نہیں، یہ بدنصیب جب مظالم سے تنگ آکر ہجرت کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو بنگلہ دیش کے سرحدی محافظوں کی گولیوں کا نشانہ بنتے ہیں یا پھر تھائی لینڈ کے انسانی اسمگلروں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔
اس وقت عالمی سطح پر امت مسلمہ پر انتہائی کڑا وقت ہے، متعدد اسلامی ملکوں میں شورش برپا ہے، مسلمان ملکوں میں نسل کشی ہورہی ہے، ہم چپ ہیں۔ شام اور لبنان میں لاشوں کے انبار لگے ہیں، مسلمان ملک خاموش ہیں۔ مظلوم مسلمان رو رہے ہیں، تڑپ رہے ہیں، بلک رہے ہیں، ان کی آہیں آسمان کو چھو رہی ہیں، مگر افسوس اسلامی ممالک کے حکمران ٹس سے مس نہیں ہورہے۔ پچاس سے زائد اسلامی ملکوں کے حکمران خاموش ہیں، کہاں ہے او آئی سی، کہاں گئے دعوے ملت کے درد کے، کیا تیل کی دولت کا سارا سرمایہ ''تلوروں'' ہی پر خرچ کرنا ہے کہ اس میں امت مسلمہ کے درد کا درماں بھی ہے۔
اسلامی دنیا کے ممالک کو جس ایک عنصر نے تباہی کے دہانے پر پہنچایا ہے، وہ ان کی سرزمین پر عسکری گروپس اور ملیشیاز کا خود رو پودوں کی صورت میں سامنے آنا ہے، جو اب ایک ایسا جنگل بن گئے ہیں کہ جس میں جو چاہے، جس کا شکار کرلے، کوئی بھی مذہبی نظریہ یا فرقہ سامنے آیا، اس کے ماننے والے ہتھیار بند ہو گئے، نوجوانوں کو ورغلایا گیا اور کسی بھی بہانے سے مخالفین کا قتل عام شروع کردیا گیا۔ مسلم قومیت تو دور کی بات ہے، دیگر قومیں بھی ختم ہو چکی ہیں۔ عراق میں عراقی کہاں ہیں، شام میں شامی کون ہیں اور یمن میں یمنی کون ہیں؟ قومیں بکھر رہی ہیں اور ملک ٹوٹ رہے ہیں، ایسے میں جو لوگ مسلم امہ کے اتحاد کا ذکر کرتے ہیں ان پر پیار تو آتا ہے لیکن ان کی خوش فہمیوں پر رحم بھی آتا ہے۔
اصل میں دنیا میں مذہبی دہشتگردی کا آغاز اس وقت ہوا جب سوویت یونین ٹوٹ گیا، واشنگٹن کی تلواروں سے مجاہدین نے افغانستان میں فتح کے پرچم لہرا دیے، سوویت یونین کے خاتمے کے بعد مغرب کو محفوظ بنانے والوں کی توجہ مسلمانوں پر مرتکز ہوگئی تھی، سو سب سے پہلے شدت پسند مسلمان پیدا کیے گئے جو عالم گیر غلبہ اسلام کے لیے دہشتگردی کا راستہ اختیار کرلیں، پھر ان مسلم ممالک پر توجہ دی گئی جو فوجی قوت رکھتے ہیں۔ چار مسلمان ملک اس سلسلے میں اہم ترین تھے، عراق، شام، پاکستان اور ترکی۔ چونکہ اسرائیل کے لیے عراق اور شام مسئلہ تھے، سو پہلے انھی کی فوجی طاقت کو ختم کیا گیا، بلکہ مکمل طور پر تباہ کردیا گیا، باقی پاکستان اور ترکی رہ گئے ہیں، ترکی اور روس کی جنگ کرانے کی کوشش کی گئی مگر وہاں بھی انھیں کامیابی نصیب نہیں ہوئی۔ لیکن دہشتگردی کے ذریعے پاکستان اور ترکی کو تباہ کرنے کی کوششیں مسلسل جاری ہیں۔
یہ کوشش بھی کی جارہی ہے کہ کسی طرح ایران اور برادر عرب ملک کے درمیان جنگ کرادی جائے تاکہ یہ دونوں ملک آپس میں لڑ کر مکمل طور پر برباد ہوجائیں۔ مغربی میڈیا کافی عرصہ پہلے ان دونوں ممالک کے براہ راست تصادم کی پیش گوئی کرچکا ہے، امریکا کے تمام تھنک ٹینکس اس بات پر متفق ہیں کہ مشرقی وسطیٰ کے ممالک کی موجودہ تقسیم بندی زیادہ عرصے تک برقرار نہیں رہ سکتی، تمام عرب ممالک کو تقسیم ہونا چاہیے مگر وہ یہ تقسیم مشرق وسطیٰ کی مکمل تباہی کے بعد دیکھتے ہیں۔
سب سے زیادہ خوفناک بات یہ ہے کہ اسلامی ملکوں میں دہشتگردی پر قابو پانے کے لیے معروضی حالات کے مطابق کوئی ٹھوس حکمت عملی اختیار نہیں کی جارہی ہے، اس کے برعکس عالمی طاقتوں کے ایجنڈے پر عملدرآمد کرتے ہوئے مسلم معاشروں کو فرقہ وارانہ، نسلی اور لسانی بنیادوں پر تقسیم کیا جارہا ہے، تباہی کا یہ سلسلہ کہاں جاکر ختم ہوگا، اس بارے میں کوئی وثوق سے نہیں کہہ سکتا ہے۔ پہلے القاعدہ، طالبان، بوکوحرام اور دیگر دہشتگرد تنظیموں نے مسلم دنیا کو تقریباً ڈیڑھ عشرے تک افراتفری، خونریزی اور انتشار میں مبتلا رکھا، ان تنظیموں کا ابھی مکمل خاتمہ نہیں ہوا ہے اور اب ایک نئی شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ عراق و شام (داعش) یا دولت اسلامیہ (آئی ایس) ایک بڑا خطرہ بن کر اسلامی دنیا میں نمودار ہوئی ہے۔
اس وقت پورا عالم اسلام بدترین بحران سے دوچار ہے، بدقسمتی یہ ہے کہ اسلامی دنیا کو قیادت میسر نہیں، اس وقت کسی بھی اسلامی ملک میں ایک بھی لیڈر ایسا نہیں ہے، جو اس بحران کی درست وضاحت کرسکے اور اس سے نکلنے کا حل بتا سکے۔ بحران کو صحیح طور پر سمجھنے کے لیے دانشوروں اور رائے عامہ کو متاثر کرنے والے حلقوں میں ایسا بیانیہ بھی رائج نہیں ہوسکا ہے جس سے حقیقت کو آشکار کیا جاسکے، اسلامی دنیا کے اکثر ممالک میں سیاسی عدم استحکام ہے، کہیں سیاسی قوتوں اور افواج کے درمیان اقتدار کی کھینچا تانی ہے، کہیں انتہاپسند اور لبرل قوتوں کے مابین لڑائی جاری ہے، کہیں بادشاہتوں کو بچانے کے لیے مصنوعی جنگیں جاری ہیں اور کہیں جمہوری حکومتیں فیصلہ کن پوزیشن میں نہیں ہیں۔
سیاسی اور عسکری حلقے ان عالمی طاقتوں کی پشت پناہی حاصل کرنے کے لیے ہر حد کو پار کررہے ہیں، جو عالمی طاقتیں سب کو کمزور کرنے کے درپے ہیں، سیاسی عدم استحکام اور اقتدار کی رسہ کشی نے سب کو ان عالم طاقتوں کا کاسہ لیس بنادیا ہے۔ سب سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ غیر مسلم قوتیں جو کچھ چاہتی ہیں وہ کام خود مسلمان کیے جارہے ہیں، کہیں ان کے اشارے پر اور کہیں اپنے مفادات کے لیے۔ ہماری دانش کا یہ حال ہوچکا ہے کہ وہ تخلیق اور تحقیق کی اہمیت فراموش کرکے صرف اپنی مخصوص عینک سے دنیا کی ہر چیز کو دیکھ رہی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ یمن، لیبیا، شام اور عراق کے بحران اور ان میں جاری خون ریزی بھی اب ہمیں جگانے کے لیے کافی نہیں۔