بنگلہ دیش کیوں بنا
ایشیا کا پہلا نوبیل انعام یافتہ شاعر رابندر ناتھ ٹیگور کے سنگیت (گانوں) پر ایوبی آمریت نے پابندی لگا دی
1940ء میں لاہور میں شیر بنگال فضل الحق نے قرارداد پاکستان پیش کی۔ اس اجتماع میں بنگال سے آئے ہوئے ایک نوجوان نے بھی شرکت کی، جس کا نام تھا شیخ مجیب الرحمن۔ وہ مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کا رہنما بھی تھا۔ بعد ازاں پورے بنگال میں سائیکل پر پاکستان کے حق میں جدوجہد کرتا رہا۔ ان دونوں کو بعد میں غدار وطن قرار دیا گیا۔
1948ء میں جب اردو کو پا کستان کی قومی زبان قرار دینے کا اعلان ہوا تو بنگالیوں نے اس کے خلاف احتجاج کیا۔ ویسے بھی مشرقی پاکستان کی آبادی پاکستان کی کل آبادی کا پچپن فیصد تھی، جب کہ مغربی پاکستان میں عوام کی زبان پنجابی، سرائیکی، پشتو، سندھی، بلوچی، براہوی ہے، ہاں مگر اردو پاکستان بننے سے قبل بھی یہاں کی رابطے کی زبان تھی اور ہے۔
بہرحال 1952ء میں بنگلہ کو بھی قومی زبان قرار دینے کے لیے تحریک چلی، جس میں برکت، سلام، موتیا سمیت متعدد طلبا رہنما شہید ہوئے۔ بعد ازاں 1954ء میں حکومت پاکستان نے بنگلہ کو بھی قومی زبان کے طور پر تسلیم کر لیا۔ 1973ء میں ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں پاکستان سیکیورٹی پرنٹنگ کارپوریشن نے ایک روپے کے نوٹ پر پہلی بار چار کونوں پر پنجابی، پشتو، سندھی، بلوچی اور بیچ میں اردو زبان میں چھپائی کی۔ اس پر اصغر خان کے اعتراض پر نوٹ کو بازار میں آنے سے روک دیا گیا۔
1954ء میں مشرقی پاکستان میں جوکتو فرنٹ (یونائیٹڈ فرنٹ) تشکیل پایا تھا اور اس نے تقریباً ساری نشستیں حاصل کر لی تھیں، مسلم لیگ کو صرف 19 نشستیں ملی تھیں۔ جوکتو فرنٹ نے جتنی نشستیں حاصل کی تھیں، ان میں 80 فیصد کمیونسٹ پارٹی نے حاصل کی تھی۔ اس سے خائف ہوکر اسکندر مرزا نے کمیونسٹ پارٹی پر پابندی لگا دی۔
ایشیا کا پہلا نوبیل انعام یافتہ شاعر رابندر ناتھ ٹیگور کے سنگیت (گانوں) پر ایوبی آمریت نے پابندی لگا دی۔ جس پر پورے بنگال میں شدید احتجاج ہوا اور پھر حکومت نے اپنا فیصلہ واپس لے لیا۔ وا ضح رہے کہ اس وقت بنگلہ دیش اور ہندوستان کے قومی ترانے ٹیگور کے لکھے ہوئے ہیں۔ جلیانوالہ باغ کے جلسے پر جب انگریز جنرل ڈائر نے گولی چلائی، جس کے نتیجے میں سیکڑوں ہندوستانی شہید ہوئے تھے، اس پر احتجاج کے طور پر رابندر ناتھ ٹیگور نے اپنا نوبیل انعام واپس کر دیا تھا۔
جب 1970ء کے انتخابات میں عوامی لیگ نے اکثریتی نشستیں حاصل کر لیں تو اسے اقتدار منتقل نہیں کیا گیا۔ عوامی لیگ نے 46 فیصد ووٹ کے ساتھ 160 نشستیں حاصل کی تھیں، جب کہ پیپلز پارٹی نے 18 فیصد ووٹ کے ساتھ 80 نشستیں حاصل کی تھیں۔ اس سے یہ ثابت ہو گیا تھا کہ اقتدار کی حقدار عوامی لیگ بن گئی تھی۔ اب انھیں اقتدار کیوں منتقل نہیں کیا گیا؟ عوامی لیگ کے منشور میں کہیں بھی علیحدگی کی بات نہیں تھی، جس پر اعتراض کیا جاتا ہے، وہ ہے ''حق خود اختیاری، بشمول حق علیحدگی''۔
یہ نکتہ برصغیر کی کئی جماعتوں کے منشور میں موجود ہے اور ان جماعتوں پر کوئی پابندی بھی نہیں ہے، مثال کے طور پر جنوبی بھارت، مشرتی بھارت، سندھ، بلوچستان اور پختونخوا، کشمیر اور گلگت بلتستان کی کئی جماعتوں کے منشور میں یہ نکتے شامل ہیں۔ اگر اس وقت کے صدر پا کستان جنرل یحییٰ خان اسمبلی کا اجلاس منعقدہ 3 مارچ 1971ء میں ملتوی کرنے کے بجائے اس پر عملی جامہ پہنا دیتے تو شاید مشرقی پاکستان، بنگلہ دیش نہ بنتا۔
میں خود گزشتہ بیس برسوں میں تین بار بنگلہ دیش گیا، وہیں تعلیم حاصل کی اور بعد میں پاکستان آ گیا۔ اس وقت بنگلہ دیش میں پاکستان کے مقابلے میں دوائیں، بجلی اور گیس کی قیمت تقریباً ایک چوتھائی ہے۔ تعلیم کی شرح پاکستان سے زیادہ ہے۔ پاکستان میں اگر شرح پیدائش تین فیصد ہے تو بنگلہ دیش میں دو فیصد ہے، یعنی یہاں اگر بیس کروڑ کی آبادی ہے تو بنگلہ دیش کی انیس کروڑ۔ ہر چند کہ بنگلہ دیش کے عوامی مسائل جوں کے توں ہیں۔ بھوک، افلاس، غربت، بے کاری، لاعلاجی، ناخواندگی اور بے گھری عروج پر ہے۔
پاکستان میں جس طرح ذوالفقار علی بھٹو نے اکنامسٹ اخبار میں بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ ''امریکا کمیونزم کو برسہا برس سے نہیں روک پایا جب کہ ہم نے چند دنوں میں کر دکھایا'' اسی طرح شیخ مجیب نے فرانس کے لاموندے اخبار میں ایک بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ ''مغربی پاکستان کے حکمران نالائق ہیں، ہم نے کمیونزم کو روکا''۔ مکتی باہنی یعنی 'فوج آزادی' نے ملک بھر میں خودکار آزاد انجمنیں اور عوامی کمیٹیاں قائم کی تھیں، جسے عوامی لیگی حکمران اور انڈین فوج نے ختم کیا۔ بنگلہ دیش میں امداد باہمی کا معاشرہ قائم ہونے جا رہا تھا جسے بنگلہ دیشی اور بھارتی حکمرانوں نے روکا۔
اس وقت بنگلہ دیش میں کمیونسٹ پارٹی اور ورکرز پارٹی عوامی جدوجہد میں برسر پیکار ہیں۔ کوئی ایسا ضلع اور علاقہ نہیں ہے جہاں بائیں بازو کی جماعتیں وجود نہ رکھتی ہوں۔ مزدوروں، کسانوں، کھیت مزدوروں، طلبا، خواتین، بچوں، وکلا اور تمام پیشہ ور تنظیموں کی کمیونسٹ رہنمائی کر رہے ہیں۔ کسان خواتین اور گارمنٹس کے مزدور سب سے زیادہ جدوجہد کر رہے ہیں، اس لیے بھی کہ ان کے مسائل زیادہ ہیں۔ ہندوستان کے جنوبی اور مشرقی علاقوں نیپال، بہار اور شمالی صوبوں میں چونکہ ماؤ نواز کمیونسٹ چھائے ہوئے ہیں، اس لیے اس کے اثرات بنگلہ دیش پر پڑنا ناگزیر ہیں۔
بنگلہ دیش کے پڑوس برما، تھائی لینڈ، فلپائن میں بھی کمیونسٹ تحریک بڑھ رہی ہے۔ روہنگیا مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف برما کی کمیونسٹ پارٹی نے زبردست احتجاجی جلوس نکالے۔ بہرحال وہ دن دور نہیں جب بنگلہ دیش سمیت دنیا میں ملکیت، جائیداد، سرمایہ داری، آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، سرحدوں، فوج، اسمبلی، میڈیا، جبری نکاح، مذہب کے نام پر استحصال، طبقات اور ریا ست کا خاتمہ ہو جائے گا، پھر عوام جینے لگیں گے۔ سچے جذبوں کی قسم ایک دن ایسا ضرور ہو گا جب ایک آسمان تلے ایک ہی خاندان ہو گا، کوئی طبقہ ہو گا اور نہ کوئی ریاست۔ چہار طرف محبتوں اور خوشحالی کے پھول کھلیں گے۔
1948ء میں جب اردو کو پا کستان کی قومی زبان قرار دینے کا اعلان ہوا تو بنگالیوں نے اس کے خلاف احتجاج کیا۔ ویسے بھی مشرقی پاکستان کی آبادی پاکستان کی کل آبادی کا پچپن فیصد تھی، جب کہ مغربی پاکستان میں عوام کی زبان پنجابی، سرائیکی، پشتو، سندھی، بلوچی، براہوی ہے، ہاں مگر اردو پاکستان بننے سے قبل بھی یہاں کی رابطے کی زبان تھی اور ہے۔
بہرحال 1952ء میں بنگلہ کو بھی قومی زبان قرار دینے کے لیے تحریک چلی، جس میں برکت، سلام، موتیا سمیت متعدد طلبا رہنما شہید ہوئے۔ بعد ازاں 1954ء میں حکومت پاکستان نے بنگلہ کو بھی قومی زبان کے طور پر تسلیم کر لیا۔ 1973ء میں ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں پاکستان سیکیورٹی پرنٹنگ کارپوریشن نے ایک روپے کے نوٹ پر پہلی بار چار کونوں پر پنجابی، پشتو، سندھی، بلوچی اور بیچ میں اردو زبان میں چھپائی کی۔ اس پر اصغر خان کے اعتراض پر نوٹ کو بازار میں آنے سے روک دیا گیا۔
1954ء میں مشرقی پاکستان میں جوکتو فرنٹ (یونائیٹڈ فرنٹ) تشکیل پایا تھا اور اس نے تقریباً ساری نشستیں حاصل کر لی تھیں، مسلم لیگ کو صرف 19 نشستیں ملی تھیں۔ جوکتو فرنٹ نے جتنی نشستیں حاصل کی تھیں، ان میں 80 فیصد کمیونسٹ پارٹی نے حاصل کی تھی۔ اس سے خائف ہوکر اسکندر مرزا نے کمیونسٹ پارٹی پر پابندی لگا دی۔
ایشیا کا پہلا نوبیل انعام یافتہ شاعر رابندر ناتھ ٹیگور کے سنگیت (گانوں) پر ایوبی آمریت نے پابندی لگا دی۔ جس پر پورے بنگال میں شدید احتجاج ہوا اور پھر حکومت نے اپنا فیصلہ واپس لے لیا۔ وا ضح رہے کہ اس وقت بنگلہ دیش اور ہندوستان کے قومی ترانے ٹیگور کے لکھے ہوئے ہیں۔ جلیانوالہ باغ کے جلسے پر جب انگریز جنرل ڈائر نے گولی چلائی، جس کے نتیجے میں سیکڑوں ہندوستانی شہید ہوئے تھے، اس پر احتجاج کے طور پر رابندر ناتھ ٹیگور نے اپنا نوبیل انعام واپس کر دیا تھا۔
جب 1970ء کے انتخابات میں عوامی لیگ نے اکثریتی نشستیں حاصل کر لیں تو اسے اقتدار منتقل نہیں کیا گیا۔ عوامی لیگ نے 46 فیصد ووٹ کے ساتھ 160 نشستیں حاصل کی تھیں، جب کہ پیپلز پارٹی نے 18 فیصد ووٹ کے ساتھ 80 نشستیں حاصل کی تھیں۔ اس سے یہ ثابت ہو گیا تھا کہ اقتدار کی حقدار عوامی لیگ بن گئی تھی۔ اب انھیں اقتدار کیوں منتقل نہیں کیا گیا؟ عوامی لیگ کے منشور میں کہیں بھی علیحدگی کی بات نہیں تھی، جس پر اعتراض کیا جاتا ہے، وہ ہے ''حق خود اختیاری، بشمول حق علیحدگی''۔
یہ نکتہ برصغیر کی کئی جماعتوں کے منشور میں موجود ہے اور ان جماعتوں پر کوئی پابندی بھی نہیں ہے، مثال کے طور پر جنوبی بھارت، مشرتی بھارت، سندھ، بلوچستان اور پختونخوا، کشمیر اور گلگت بلتستان کی کئی جماعتوں کے منشور میں یہ نکتے شامل ہیں۔ اگر اس وقت کے صدر پا کستان جنرل یحییٰ خان اسمبلی کا اجلاس منعقدہ 3 مارچ 1971ء میں ملتوی کرنے کے بجائے اس پر عملی جامہ پہنا دیتے تو شاید مشرقی پاکستان، بنگلہ دیش نہ بنتا۔
میں خود گزشتہ بیس برسوں میں تین بار بنگلہ دیش گیا، وہیں تعلیم حاصل کی اور بعد میں پاکستان آ گیا۔ اس وقت بنگلہ دیش میں پاکستان کے مقابلے میں دوائیں، بجلی اور گیس کی قیمت تقریباً ایک چوتھائی ہے۔ تعلیم کی شرح پاکستان سے زیادہ ہے۔ پاکستان میں اگر شرح پیدائش تین فیصد ہے تو بنگلہ دیش میں دو فیصد ہے، یعنی یہاں اگر بیس کروڑ کی آبادی ہے تو بنگلہ دیش کی انیس کروڑ۔ ہر چند کہ بنگلہ دیش کے عوامی مسائل جوں کے توں ہیں۔ بھوک، افلاس، غربت، بے کاری، لاعلاجی، ناخواندگی اور بے گھری عروج پر ہے۔
پاکستان میں جس طرح ذوالفقار علی بھٹو نے اکنامسٹ اخبار میں بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ ''امریکا کمیونزم کو برسہا برس سے نہیں روک پایا جب کہ ہم نے چند دنوں میں کر دکھایا'' اسی طرح شیخ مجیب نے فرانس کے لاموندے اخبار میں ایک بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ ''مغربی پاکستان کے حکمران نالائق ہیں، ہم نے کمیونزم کو روکا''۔ مکتی باہنی یعنی 'فوج آزادی' نے ملک بھر میں خودکار آزاد انجمنیں اور عوامی کمیٹیاں قائم کی تھیں، جسے عوامی لیگی حکمران اور انڈین فوج نے ختم کیا۔ بنگلہ دیش میں امداد باہمی کا معاشرہ قائم ہونے جا رہا تھا جسے بنگلہ دیشی اور بھارتی حکمرانوں نے روکا۔
اس وقت بنگلہ دیش میں کمیونسٹ پارٹی اور ورکرز پارٹی عوامی جدوجہد میں برسر پیکار ہیں۔ کوئی ایسا ضلع اور علاقہ نہیں ہے جہاں بائیں بازو کی جماعتیں وجود نہ رکھتی ہوں۔ مزدوروں، کسانوں، کھیت مزدوروں، طلبا، خواتین، بچوں، وکلا اور تمام پیشہ ور تنظیموں کی کمیونسٹ رہنمائی کر رہے ہیں۔ کسان خواتین اور گارمنٹس کے مزدور سب سے زیادہ جدوجہد کر رہے ہیں، اس لیے بھی کہ ان کے مسائل زیادہ ہیں۔ ہندوستان کے جنوبی اور مشرقی علاقوں نیپال، بہار اور شمالی صوبوں میں چونکہ ماؤ نواز کمیونسٹ چھائے ہوئے ہیں، اس لیے اس کے اثرات بنگلہ دیش پر پڑنا ناگزیر ہیں۔
بنگلہ دیش کے پڑوس برما، تھائی لینڈ، فلپائن میں بھی کمیونسٹ تحریک بڑھ رہی ہے۔ روہنگیا مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف برما کی کمیونسٹ پارٹی نے زبردست احتجاجی جلوس نکالے۔ بہرحال وہ دن دور نہیں جب بنگلہ دیش سمیت دنیا میں ملکیت، جائیداد، سرمایہ داری، آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، سرحدوں، فوج، اسمبلی، میڈیا، جبری نکاح، مذہب کے نام پر استحصال، طبقات اور ریا ست کا خاتمہ ہو جائے گا، پھر عوام جینے لگیں گے۔ سچے جذبوں کی قسم ایک دن ایسا ضرور ہو گا جب ایک آسمان تلے ایک ہی خاندان ہو گا، کوئی طبقہ ہو گا اور نہ کوئی ریاست۔ چہار طرف محبتوں اور خوشحالی کے پھول کھلیں گے۔