خوشبو لہجے والی پروین شاکر کی برسی منائی گئی
فطری جذبات کی عکاسی پروین شاکر نے اتنی بے ساختگی سے کی ہے کہ برسوں سے ان کے مقابل کوئی اور نہ آسکا۔
خوشبو سے لب و لہجے والی منفرد شاعرہ پروین شاکر کی22 ویں برسی منائی گئی۔
24 نومبر 1952ء کو شاکر حسین زیدی کے گھر جنم لینے والی پروین شاکر نے کچھ ایسے انداز میں پرورش پائی کہ طبعیت ادب آشنا سی ہوگئی۔ اس پر مسستزاد فطرت کو محسوس کرنے اور بیان کرنے کی صلاحیت نے دو آتشہ کام کیا۔ یوں خوشبو، عکس خوشبو، ماہ تمام، انکار، خود کلامی، صد برگ اور قریہ جاں کی تکمیل ہوئی۔
عورت اور جذبات پروین شاکر کا موضوع ہیں اور ان فطری جذبات کی عکاسی اتنی بے ساختگی سے کی ہے کہ برسوں سے ان کے مقابل کوئی اور نہ آسکا۔
1994 کو 26 دسمبر کی ہی ایک کہر آلود صبح ٹریفک حادثے میں کومل اور نازک جذبوں کی ترجماں اپنے خالق حقیقی سے جاملی اور خوشبو کا یہ باب بند کرگئی۔
بخت سے کوئی شکایت نہ افلاک سے ہے
یہی کیا کم ہے کہ نسبت مجھے اس خاک سے ہے
24 نومبر 1952ء کو شاکر حسین زیدی کے گھر جنم لینے والی پروین شاکر نے کچھ ایسے انداز میں پرورش پائی کہ طبعیت ادب آشنا سی ہوگئی۔ اس پر مسستزاد فطرت کو محسوس کرنے اور بیان کرنے کی صلاحیت نے دو آتشہ کام کیا۔ یوں خوشبو، عکس خوشبو، ماہ تمام، انکار، خود کلامی، صد برگ اور قریہ جاں کی تکمیل ہوئی۔
عورت اور جذبات پروین شاکر کا موضوع ہیں اور ان فطری جذبات کی عکاسی اتنی بے ساختگی سے کی ہے کہ برسوں سے ان کے مقابل کوئی اور نہ آسکا۔
کو بہ کو پھیل گئی بات شنا سائی کی
اس نے خوشبو کی طرح میری پزیرائی کی
اُس نے جلتی ہوئی پیشانی پہ جب ہاتھ رکھا
رُوح تک آگئی تاثیر مسیحائی کی
1994 کو 26 دسمبر کی ہی ایک کہر آلود صبح ٹریفک حادثے میں کومل اور نازک جذبوں کی ترجماں اپنے خالق حقیقی سے جاملی اور خوشبو کا یہ باب بند کرگئی۔
مر بھی جاؤں تو کہاں، لوگ بھلا ہی دیں گے
لفظ میرے، مرے ہونے کی گواہی دیں گے
https://www.dailymotion.com/video/x56cp04