مودی پاکستان پالیسی پر جلد نظرثانی کرسکتے ہیں بھارتی سفارتکار
ہوسکتا ہے مودی حکومت پاکستان پالیسی میں تبدیلی کیلیے مارچ میں ہونے والے ریاستی انتخابات کا انتظار کرے۔
سفارتی حلقوں کے مطابق آئندہ برس پاک بھارت تعلقات میں کوئی مثبت موڑ آسکتا ہے۔ ایک بھارتی سفارتکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی پاکستان کے حوالے سے اپنی موجودہ پالیسی پر نظر ثانی کرسکتے ہیں۔
بھارتی سفارتی سفارتکارنے بھارتی وزیر اعظم کی جانب سے پاکستان کو مفاہمت کی پیشکش کے حوالے سے کوئی ٹائم فریم تونہیں دیا لیکن اتنا ضرور کہا کہ ہوسکتا ہے مودی حکومت پاکستان کے لیے اپنی پالیسی میں تبدیلی کیلیے بھارتی پنجاب اور یوپی میں ریاستی انتخابات کا انتظار کرے جوکہ مارچ میں ہونے والے ہیں۔
بھارتی سفارتکار نے اعتراف کیا کہ موجودہ (بھارتی) عوامی جذبات سرحد پار دہشت گردی کا معاملہ حل ہونے تک پاکستان سے مذاکرات کے حق میں نہیں ہی لیکن مودی عوامی رائے کو موثر بنانے کا ہنر جانتے ہیں ۔جب انھوں (مودی) نے پاکستان سے تعلق کی استوار ی کا کوئی قدم اٹھالیا توباقی تمام معاملات کے بارے میں یہ امر یقینی ہے کہ وہ بے دلی سے نہیں ہوں گے۔بھارتی سفارتکار کا دعویٰ تھاکہ'' ماضی کی بھارتی حکومتوں کے برعکس مودی کی حالیہ بھارتی حکومت بڑی صاف ذہنی کے ساتھ آگے بڑھ ہی ہے۔ پاکستان چونکہ بڑے طویل عرصے سے ایسی بھارتی حکومتوں کے ساتھ معاملہ کر تا رہا ہے جنھوں نے چند معاملات پر کبھی سخت موقف نہیں اپنایا لیکن وزیراعظم مودی کا معاملہ مختلف ہے۔ جب بھارتی وزیر عظم نے امن عمل کو آگے بڑھایا تو انھوں نے پورے خلوص کے ساتھ اسے اگے بڑھایا تھا۔ ''
سفارتکار نے استفسار کیا کہ ''کیا آپ کسی ایک بھی ایسے واقعے کا حوالہ دے سکتے ہیں جب کسی دوسرے بھارتی وزیر اعظم نے اس قدر برق رفتاری سے اقدامات کیے ہوں۔اسی سفارتکار نے پٹھانکوٹ اور اڑی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ''امن کے لیے مودی کے ان رابطوں کا جواب نہ دے کرپاکستانی حکومت نے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا ''۔
دیگر مبصرین کے مطابق بھارتی کی طاقت پر مبنی خارجہ پالیسی ٹھوس نتائج حاصل کرنے میں ناکام ہوچکی ہے۔ ان مبصرین کو یقین ہے کہ اپنی سخت روی سے بھارت نے پاکستان مین امن کے حامی حلقوں کو درحقیقیت بہت کمزور کر دیا ہے۔بھارتی جارحانہ پن کے باوجود اسلام آباد اپنے اس موقف کا اعادہ کر تا آرہا ہے کہ پاکستان نئی دہلی کے ساتھ امن بات چیت سے کترا نہیں رہا۔ باوجود اس کے کہ بھارت پاکستان سے کوئی رابطہ نہیں رکھ رہا حتیٰ کہ کثیر ملکی فورمز پر بھی پاکستان کے ساتھ معاملات کو آگے نہیں بڑھایاجارہا دوسری جانب وزیر اعظم کے مشیر برتائے خارجہ امورسرتاج عزیز نے رواں ماہ کے آغاز پر افغانستان کے موضوع پر ہونے والی 'ہرٹ آف ایشیا کانفرنس' میں شرکت کیلیے امرتسر کا دورہ کیا۔
جمعہ کو بھارت نے کہا کہ 'اس نے پاکستان کے ساتھ بات چیت سے کبھی انکار نہیں کیا' تاہم ساتھ ہی یہ بھی کہہ ڈالا کہ پر امن ماحول بہتر بنانا پاکستان کی ذمہ داری ہے۔وزارت خارجہ کے ترجمان وکاس سوارپ کا کہنا تھا کہ پاکستان کو دہشت گردی کی حمایت روکنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو مذاکرات کیلیے صحتمند فضا بنانے کی ضرورت ہے۔پاکستان ہمیشہ یہی کہتا آتا ہے کہ مذاکرات کی بحالی کیلیے کوئی شرط قبول نہیں کی جائے گی اور تمام معاملات بیک وقت زیر بحث آئیں گے۔
https://www.dailymotion.com/video/x56cm4u
بھارتی سفارتی سفارتکارنے بھارتی وزیر اعظم کی جانب سے پاکستان کو مفاہمت کی پیشکش کے حوالے سے کوئی ٹائم فریم تونہیں دیا لیکن اتنا ضرور کہا کہ ہوسکتا ہے مودی حکومت پاکستان کے لیے اپنی پالیسی میں تبدیلی کیلیے بھارتی پنجاب اور یوپی میں ریاستی انتخابات کا انتظار کرے جوکہ مارچ میں ہونے والے ہیں۔
بھارتی سفارتکار نے اعتراف کیا کہ موجودہ (بھارتی) عوامی جذبات سرحد پار دہشت گردی کا معاملہ حل ہونے تک پاکستان سے مذاکرات کے حق میں نہیں ہی لیکن مودی عوامی رائے کو موثر بنانے کا ہنر جانتے ہیں ۔جب انھوں (مودی) نے پاکستان سے تعلق کی استوار ی کا کوئی قدم اٹھالیا توباقی تمام معاملات کے بارے میں یہ امر یقینی ہے کہ وہ بے دلی سے نہیں ہوں گے۔بھارتی سفارتکار کا دعویٰ تھاکہ'' ماضی کی بھارتی حکومتوں کے برعکس مودی کی حالیہ بھارتی حکومت بڑی صاف ذہنی کے ساتھ آگے بڑھ ہی ہے۔ پاکستان چونکہ بڑے طویل عرصے سے ایسی بھارتی حکومتوں کے ساتھ معاملہ کر تا رہا ہے جنھوں نے چند معاملات پر کبھی سخت موقف نہیں اپنایا لیکن وزیراعظم مودی کا معاملہ مختلف ہے۔ جب بھارتی وزیر عظم نے امن عمل کو آگے بڑھایا تو انھوں نے پورے خلوص کے ساتھ اسے اگے بڑھایا تھا۔ ''
سفارتکار نے استفسار کیا کہ ''کیا آپ کسی ایک بھی ایسے واقعے کا حوالہ دے سکتے ہیں جب کسی دوسرے بھارتی وزیر اعظم نے اس قدر برق رفتاری سے اقدامات کیے ہوں۔اسی سفارتکار نے پٹھانکوٹ اور اڑی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ''امن کے لیے مودی کے ان رابطوں کا جواب نہ دے کرپاکستانی حکومت نے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا ''۔
دیگر مبصرین کے مطابق بھارتی کی طاقت پر مبنی خارجہ پالیسی ٹھوس نتائج حاصل کرنے میں ناکام ہوچکی ہے۔ ان مبصرین کو یقین ہے کہ اپنی سخت روی سے بھارت نے پاکستان مین امن کے حامی حلقوں کو درحقیقیت بہت کمزور کر دیا ہے۔بھارتی جارحانہ پن کے باوجود اسلام آباد اپنے اس موقف کا اعادہ کر تا آرہا ہے کہ پاکستان نئی دہلی کے ساتھ امن بات چیت سے کترا نہیں رہا۔ باوجود اس کے کہ بھارت پاکستان سے کوئی رابطہ نہیں رکھ رہا حتیٰ کہ کثیر ملکی فورمز پر بھی پاکستان کے ساتھ معاملات کو آگے نہیں بڑھایاجارہا دوسری جانب وزیر اعظم کے مشیر برتائے خارجہ امورسرتاج عزیز نے رواں ماہ کے آغاز پر افغانستان کے موضوع پر ہونے والی 'ہرٹ آف ایشیا کانفرنس' میں شرکت کیلیے امرتسر کا دورہ کیا۔
جمعہ کو بھارت نے کہا کہ 'اس نے پاکستان کے ساتھ بات چیت سے کبھی انکار نہیں کیا' تاہم ساتھ ہی یہ بھی کہہ ڈالا کہ پر امن ماحول بہتر بنانا پاکستان کی ذمہ داری ہے۔وزارت خارجہ کے ترجمان وکاس سوارپ کا کہنا تھا کہ پاکستان کو دہشت گردی کی حمایت روکنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو مذاکرات کیلیے صحتمند فضا بنانے کی ضرورت ہے۔پاکستان ہمیشہ یہی کہتا آتا ہے کہ مذاکرات کی بحالی کیلیے کوئی شرط قبول نہیں کی جائے گی اور تمام معاملات بیک وقت زیر بحث آئیں گے۔
https://www.dailymotion.com/video/x56cm4u