آپریشن ضربِ عضب میں میڈیانے انتہائی مثبت اور اہم کردار ادا کیا

 تجزیہ نگاروں کی ’’آپریشن ضربِ عضب اور میڈیا کا کردار‘‘ کے موضوع پر منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں گفتگو

فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔ فوٹو: ایکسپریس

میڈیا کو ریاست کے چوتھے ستون کی حیثیت حاصل ہے ۔ کسی بھی معاشرے کی تعمیر میں میڈیا کا کردار انتہائی اہم سمجھا جاتا ہے کیونکہ یہ رائے عامہ بنانے اور لوگوں تک معلومات پہنچانے کا اہم ذریعہ ہے۔ ملکی معاملہ ہو یا بین الاقوامی مسئلہ، قومی مفاد کا معاملہ ہو یا کسی ایک فرد کا ،میڈیا اسے اجاگر کرکے ایک ایسی سوچ پیدا کرتا ہے جس سے مسائل کے حل کے لیے سمت کا تعین کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان کو گزشتہ دہائیوں سے دہشت گردی کا سامنا ہے۔ 2014ء میں دہشت گردی کے خلاف باقاعدہ آپریشن کا آغاز کیا گیا جسے ''ضرب عضب'' کا نام دیا گیا۔ اس آپریشن کے حوالے سے میڈیا کی اہمیت کا جائزہ لینے کے لیے ''ایکسپریس فورم'' میں ''آپریشن ضرب عضب اور میڈیا کا کردار'' کے موضوع پر ایک فکر انگیز نشست کا اہتمام کیا گیا جس میں مختلف تجزیہ نگاروں اور ماہرین کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

جنرل (ر) غلام مصطفی (دفاعی تجزیہ نگار)

طالبان نے سوات واقعہ اور آرمی پبلک سکول پر حملہ کرکے دو بڑی غلطیاں کیں۔ جنرل(ر) اشفاق پرویز کیانی کے دور میں طالبان سے بات چیت جاری تھی لیکن سوات واقعہ کی صورت میں طالبان نے پہلی غلطی کی جس کے نتیجے میں ان کے بارے میں سوچ بدلی۔ دوسری غلطی یہ کہ جب انہوں نے آرمی پبلک سکول کے معصوم بچوں کو نشانہ بنایا تو ان کے بارے میں قوم کی سوچ یکسر تبدیل ہوگئی اور اس میں میڈیا نے بھی اہم کردار ادا کیا ۔ میرے نزدیک آپریشن ضرب عضب اب شروع نہیں ہوا بلکہ یہ جنرل(ر) پرویز مشرف کے دور میں شروع ہوچکا تھا اور اب اسی کا تسلسل ہے۔

ممبئی حملہ کے واقعہ میں ہمارے میڈیا کے کچھ حلقوں نے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا کیونکہ انہوں نے اس حوالے سے کوئی تحقیق نہیں کی تھی، وہ بھارتی پراپیگنڈہ کو نہ سمجھ سکے اور پاکستان کو ہی مجرم بنا کر پیش کردیا لیکن اڑی واقعہ کے بعد پاکستانی میڈیا نے بھارتی پراپیگنڈہ کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جس کے باعث بھارت کو دفاعی پوزیشن پر جانا پڑا۔ اس دن ہمیں احساس ہوا کہ ہمارا میڈیا اب بالغ ہوگیا ہے۔ نومبر 2009ء سے جو تبدیلی آئی ہے میرے نزدیک ہمیں اسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس تبدیلی میں 16دسمبر 2014ء کا واقعہ بھی شامل ہے۔ ہمارے میڈیا کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ دہشت گردی کی جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی بلکہ صرف دہشت گردکم ہوئے ہیں۔

ضرب عضب کے دوران آئی ایس پی آربھی بہت زیادہ متحرک رہا اور اس نے پل پل کی صورتحال سے قوم کو باخبر رکھا، میڈیا نے بھی اس جنگ میں فوج کی مدد کی ۔ فوج میدان میں دہشت گردوں کا مقابلہ کررہی تھی جبکہ دہشت گردانہ اور انتہا پسندانہ سوچ تبدیل کرنے میں میڈیا نے مثبت کردار ادا کیا۔ یہ جنگ لڑناصرف فوج یا سول قیادت کے بس میں نہیں ہے بلکہ پوری قوم کو اس جنگ کوآگے لیکرچلنا ہے۔میڈیا کو خود کو ایک ایسے مقام پر رکھنا چاہیے جہاں سے وہ تمام اداروں کی رہنمائی کرسکے اور ان کی کارکردگی دیکھ سکے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ حدود و قیود طے کی جائیں۔ میرے نزدیک صحافت کے تعلیمی نظام میں کمزوریاں ہیں، نوجوان صحافیوں کی تربیت کی جائے اور میڈیا میں موجود خرابیوں کو دور کرنا چاہیے۔

ڈاکٹر مغیث الدین شیخ (سابق ڈین شعبہ سوشل سائنسز، جامعہ پنجاب)

ذمہ داری ایک ایسا لفظ ہے جو اپنے اندر سب کچھ سموئے ہوئے ہیں۔ پاکستانی میڈیا ایک اسلامی معاشرے کا میڈیا ہے لہٰذا اس کا کردار ذمہ دارانہ ہونا چاہیے اور میڈیا کواپنی ذمہ داریوں کا علم ہونا چاہیے ۔ آج کے اس فورم کا موضوع بہت وسیع ہے اور اس پر تحقیق ہونی چاہیے۔ اس کے لیے آپریشن ضرب عضب کے دوران پرنٹ میڈیا میں چھپنے والی خبروں اور الیکٹرانک میڈیا پر چلنے والے مواد کا سائنٹیفک بنیادوں پر جائزہ لیا جائے کہ کیا میڈیا پر چلنے والا مواد ضرب عضب اور ملکی مفاد میں رہا یا اس کے مخالف گیا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں میڈیا کے کردار کو نہ تو مکمل مایوس کن کہا جاسکتا ہے اور نہ ہی مکمل اطمینان بخش لیکن مجموعی طور پر میڈیا کا کردار تسلی بخش رہا۔

میڈیا کا کردار تنقیدی بھی رہا ہے،16دسمبر کے سانحہ کے حوالے سے سیکورٹی کی کمزوریوں و دیگر نقائص کو میڈیا میں اجاگر کیا گیا کہ اس کی دھمکیوں کی رپورٹس پہلے سے موجود تھیں لیکن کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔ میرے نزدیک اس حوالے سے میڈیا آزاد تھا اور اس کا کردار ذمہ دارانہ تھا۔ دوسری طرف میڈیا کے کچھ حلقوں کی جانب سے ایک غیر ذمہ داری کا مظاہرہ بھی کیا گیا اور ہم بھول گئے کہ ممبئی حملہ اور پٹھانکوٹ حملہ کے حوالے سے ہمارا موقف کیا رہا ہے۔ میڈیا نے اس حوالے سے یوٹرن لے لیا اور اس کا فائدہ دشمن کے میڈیا نے اٹھایا۔ میڈیا نے لوگوں کی آگاہی میں اہم کردار ادا کیا۔

میڈیا کا مجموعی کردار بہترین تھا، اس نے دہشت گردوں کے حوالے سے قوم کی سوچ تبدیل کی اور ایک موقف قائم کیا جو بہت بڑی کامیابی ہے۔ ہم سٹڈی کروا رہے ہیں کہ آئی ایس پی آر کے ترانوں کا بچوں پر کیا اثر ہوا؟ہم سی پیک کے حوالے سے بھی سٹڈی کروارہے ہیں کہ چین، پاکستان اور بھارت کے اخبارات میں اس پر کیا ردعمل آیا۔ ہمارا کام تو چیزوں کی سٹڈی کرانااور سائنٹیفک بنیادوں پر ان کو پرکھنا ہے۔ میرے نزدیک میڈیا ہاؤسز کوایسی پالیسی بنانی چاہیے جو ملکی مفاد میں ہو، انہیں اس حوالے سے تعین کرنا چاہیے کہ میڈیا پر کیا دکھانا چاہیے اور کیا نہیں دکھانا چاہیے۔ اس کے علاوہ صحافیوں کی بھرتی کے لیے قابلیت کے ساتھ ساتھ ملک کے بارے میں سوچ بھی دیکھی جائے۔

سلمان عابد (کالم نگار و دانشور)

پاکستان گزشتہ دو دہائیوں سے دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے لیکن اس حوالے سے 16دسمبر 2014ء کا سانحہ اے پی ایس ٹرننگ پوائنٹ تھا۔ اس واقعہ پر ریاست، اداروں، سیاسی جماعتوںاور میڈیا نے جو رویہ اپنایا اس سے ہم نے اپنی سمت کا تعین کیا جس کے لیے نیشنل ایکشن پلان تشکیل دیا گیا جو دہشت گردی کے خلاف ایک قومی نصاب ہے ۔ میرے نزدیک اگر ہمیں دہشت گردی کی جنگ سے نکلنا ہے اور امن کی طرف جانا ہے تو اس ایکشن پلان کے 20نکات کلیدی حیثیت کے حامل ہیں۔ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کسی ایک ادارے یا حکومت کی نہیں بلکہ پوری قوم کی مجموعی ذمہ داری ہے۔

میڈیا کا کردار ہمیشہ سے ''واچ ڈاگ'' اورمسائل کے حوالے سے ارباب اختیار پر دباؤ ڈالنے کا رہا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں میڈیا ایک بڑی طاقت بن کر سامنے آیا۔ میڈیا نے فوج، حکومت اور سیاسی جماعتوں پر دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے دباؤ ڈالا جبکہ میرے نزدیک نیشنل ایکشن پلان کے پیچھے بھی میڈیا کی طاقت تھی۔چونکہ 16 دسمبر کے واقعہ سے پہلے جب طالبان کے ساتھ مذاکرات کی باتیں ہورہی تھیں تو میڈیا پر یہ کہا جارہا تھا کہ ہماری ریاست کی سمت درست نہیں ہے،سول، ملٹری قیادت کو ایک سمت میں جانا چاہیے اور یہ بھی کہا جارہا تھا کہ ہم سمجھوتے کی سیاست کا شکار ہیں لہٰذا ہمیں اسے چھوڑ کر دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ایک بڑا کردار ادا کرنا چاہیے۔

16دسمبر کے واقعہ نے ہمیں جھنجوڑ دیا اور اس کی وجہ سے نیشنل ایکشن پلان بنا ۔ نیشنل ایکشن پلان کے حوالے سے بھی شروع میں ایک بحث چلی کہ شاید ہماری سول، ملٹری قیادت ایک پیج پر نہیں ہے لیکن اس کے باجود میڈیا اس پر عملدرآمد کے حوالے سے دباؤ ڈالتا رہا۔ دہشت گردی کی جنگ کو سیاسی جماعتوں نے بھی لیڈ کیا لیکن فوج کا لیڈنگ کردار زیادہ تھا اور ایسا لگ رہا تھا کہ فوج دہشت گردی کی جنگ کو سنجیدگی کے ساتھ آگے بڑھا رہی ہے۔اس کے علاوہ دہشت گردوں کے بارے میں دورائے کا خاتمہ کرنے اور ایک سوچ پیدا کرنے میں آئی ایس پی آر کافی متحرک نظر آیا اور لوگوں کو یہ بات سمجھائی گئی کہ دہشت گرد ہمارے دشمن ہیں کیونکہ اس سے پہلے اس طرح کے سوالات اٹھائے جاتے تھے کہ کیا یہ جنگ ہماری ہے یا امریکا کی ہے؟


اس بحث میں یہ بات آگے نکلی کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ، پاکستان کی بقاء کی جنگ ہے، اس کے سوا ہمارے پاس دوسرا کوئی راستہ نہیں ہے اور اگر ہم یہ جنگ نہ جیت سکے تو ہمارے پاس سوائے ناکامی کے کچھ نہیں ہے۔ اگر آج دہشت گردوں کے خلاف قوم متحد ہے اور ان کے بارے میں نفرت پائی جاتی ہے تو اس میں میڈیا کا بہت اہم کردار ہے کیونکہ میڈیا ہر موقع پر قوم کو حقائق دکھاتارہا۔ اس جنگ میں میڈیا نے احتساب کے نظام کو فروغ دیا، نیشنل ایکشن پلان کے بیس نکات پر عملدرآمد کے حوالے سے حکومت کو بار بار جھنجوڑا، اپیکس کمیٹیوں اور قومی سلامتی کی کمیٹی کی کارکردگی کے حوالے سے بات کی گئی اور بیرونی سازشوں کو بھی اجاگرکیا گیا۔

میرے نزدیک میڈیا نے دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے سوچ کو فروغ دیا اور سوچ کی تقسیم سے دشمن جو فائدہ اٹھا رہے تھے اس کا خاتمہ کیا۔ اس سوچ سے وہ لوگ جو طالبان کی حمایت کررہے تھے ان میں کمی آئی، اخبارات اور میڈیا پر جو کچھ ان کی تعریفوں میں لکھا جارہا تھا اس کا بھی خاتمہ ہوا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میںمیڈیا فوج کے ساتھ کھڑا نظر آیا۔ اس کے علاوہ میڈیا کی مانیٹرنگ کا نظام بھی صحیح معنوں میں وضع ہوا اور غیر معمولی حالات میں ایسا لائحہ عمل تیار کیا گیا جس سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مدد حاصل ہوسکے۔

اس حوالے سے حکومت، وزارت داخلہ اور'' آئی ایس پی آر'' نے میڈیا کو مانیٹر کیا جبکہ طالبان کے لیڈروں کے بیانات میڈیا پر نہ چلائے گئے جس سے ان کی حوصلہ شکنی ہوئی۔ اس میں بعض میڈیا ہاؤسز نے اگرچہ منفی کردار بھی ادا کیا لیکن دیگر میڈیا نے ان کا بھی مقابلہ کیا۔ اس ساری صورتحال میں سوشل میڈیا کا کردار لیڈنگ رہا ہے۔ نوجوانوں نے وہاں کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیا اور وہاں فکری تقسیم کم نظر آئی۔ سوشل میڈیا پرنوجوانوں نے ایسی مہم چلائی جس سے روایتی میڈیا کو بھی کافی مواد ملا اور وہاں پر شیئر کی جانے والی چیزیں میڈیا میں خبروں اور پروگراموں کا حصہ بنیں۔

میڈیا نے دہشت گردی کی اس جنگ میں بہت اہم اور مثبت کردار ادا کیا۔ شہید فوجیوں کو خراج تحسین پیش کیاگیا، قومی ترانے بنا کر عوام میں جوش و ولولہ پیدا کیا گیا۔ آئی ایس پی آر نے بھی ملی نغمے بنائے، بچوں کی حوصلہ افزائی کی گئی اور ان ترانوں سے مثبت سوچ کو بھی فروغ دیا گیا۔ میڈیا میں فکری بحث بھی چلی جس میں طاقت کی بنیاد پر حکمرانی، سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگز، فوجی مداخلت، مذہبی جماعتوں، دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے حوالے سے بھی بات کی گئی اور اس بات پر زور دیا گیا کہ ہمیں ایک پر امن معاشرہ تشکیل دیناہے اور اس میں جو بھی رکاوٹ ہے ا س کا خاتمہ کرنا ہے۔

اگرچہ ہم نے انتظامی بنیادوں پر بہت سی کامیابیاں حاصل کی ہیں لیکن فکری لڑائی ابھی بھی جاری ہے۔ اب ہم اپنی قوم کو امن کی طرف لیجا چکے ہیں لہٰذا مثبت سوچ کو مزید پروان چڑھایا جائے۔ دہشت گردی کی جنگ میں میڈیا اور آئی ایس پی آر نے بہت کلیدی کردار ادا کیا ہے اور اس ساری صورتحال میں میڈیا ایک مددگار کے طور پر سامنے آیا ہے۔ میڈیا نے مسائل پیداکرنے کے بجائے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی اور اس رویے سے ہمیں بہت ساری کامیابیاں ملی ہیں۔

میڈیا نے صرف مذہب کی بنیاد پر دہشت گردی کی بات نہیں کی بلکہ بلوچستان میں علیحدگی پسند تحریک اور کراچی میں لسانی بنیادوں پر لڑائی کو ہائی لائٹ کیا، اس کے علاوہ ان عوامل پر بات کی جن سے دہشت گردی ہورہی ہے۔ اس میں گورننس کے مسائل، غربت، تعلیم اور دیگر محرومیوں کو بھی اٹھایا گیا اور بتایا گیا کہ دہشت گرد کیسے پیدا ہورہے ہیں اور اس میں ہماری حکومتوں کی کیا ناکامیاں ہیں۔ مجموعی طور پر میں میڈیا کے کردار سے مطمئن ہوں لہٰذا ابھی بھی اس حوالے سے جو مسائل ہیں اس پر میڈیا ماہرین کو رہنمائی کرنی چاہیے اور قومی مفاد میں میڈیا پالیسی بنانی چاہیے۔ یہ میڈیا کی ذمہ داری ہے کہ وہ معاشرے میں ایسی فکر کوپروان چڑھائے جس سے امن قائم ہوسکے۔ بھارتی میڈیا 24 گھنٹے پاکستان کے خلاف پراپیگنڈہ کرتا ہے، اسے کاؤنٹر کرنے کے لیے پالیسی بنائی جائے۔

ملیحہ سمیع (ماہر تعلیم و تجزیہ نگار)

ضرب عضب 15جون 2014ء سے شروع کیا گیا۔ اس کے پیچھے بہت سارے مقاصد تھے جس کی وجہ سے فوج نے اس آپریشن کا فیصلہ کیا۔ اگر ہم ماضی میں دیکھیں تو ملک میں اس حوالے سے اتفاق رائے قائم نہیں ہورہاتھا۔ بعض جماعتیں طالبان کی مدد کررہی تھیں جبکہ کچھ چاہتی تھیں کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کیے جائیں۔ 2014ء میں 86سے زائد خودکش دھماکے ہوئے جس میں بچے، بڑے، عبادتگاہیں، سکول، اہم شاہراہیں و دیگر ملکی مقامات کو نشانہ بنایا گیا جو افسوسناک ہے۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے پاکستان آرمی کو دہشت گردی کے خلاف آپریشن کے لیے ایک مشترکہ لائحہ عمل کی ضرورت تھی۔

بنیادی طور پر یہ شمالی وزیرستان سے آپریشن شروع کیا گیا جس میں بلوچستان، شوال کا بہت بڑا علاقہ شامل ہے اور اس کے ساتھ ساتھ کراچی میں بھی آپریشن کیا گیا ۔ اس کے پیچھے سوچ یہ تھی کہ دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ دیا جائے۔دہشت گردوں کے خلاف جب آپریشن ضرب عضب کا آغاز کیا تومیڈیا نے اتفاق رائے قائم کیا۔ اس میں فوج کے محکمہ تعلقات عامہ ''آئی ایس پی آر'' کے میڈیا ڈیپارٹمنٹ نے بھی اس حوالے سے انتہائی اہم کام کیا، صحافیوں کو جنگی علاقوں کا دورہ کرایا گیا، انہیں حقائق سے آگاہ کیاگیاتاکہ وہ بہتر طریقے سے قوم کو معاملات بتاسکیں۔ اس کے علاوہ دستاویزی فلمیں اور ملی نغمے بنائے گئے تاکہ ایک مثبت سوچ کے ساتھ ساتھ لوگوں میں جوش و جزبہ بھی پیدا کیا جاسکے۔

اس ساری کامیابی کا کریڈٹ جنرل (ر) راحیل شریف اور جنرل عاصم باجوہ کو جاتا ہے جنہوں نے دہشت گردوں کے خلاف مضبوط موقف اپنایا، نہ صرف اپنی قوم کو بلکہ دنیا کو بھی بتایا کہ دہشت گرد کسی ایک خاص طبقے کے نہیں بلکہ پوری دنیا کے دشمن ہیں، ان کا تعلق کسی ایک خاص مذہب سے نہیں ہے اور نہ ہی یہ مذہب کی بنیاد پر کسی کو نشانہ بنا رہے ہیں بلکہ یہ ہمارے معصوم لوگوں کو مار رہے ہیں لہٰذا اب ہم ان کا خاتمہ کررہے ہیں۔ آپریشن ضرب عضب کی بنیاد اور حقائق میڈیا پر دکھائے گئے۔

ایک سوچ پیدا کرنے میں ہماری افواج کا کردار بھی انتہائی اہم ہے کہ انہوں نے انتہائی مثبت طریقے سے لوگوں کو متحد کیا۔ ٹوئیٹر پرجنرل عاصم باجوہ کے 3ملین فالورز ہیں۔ انہوں نے اس میڈیم کو دہشت گردوں کو بے نقاب کرنے کے لیے استعمال کیا اور ٹوئٹر پیغامات و پریس کانفرنسوں کے ذریعے لمحہ بہ لمحہ لوگوں کو آپریشن ضرب عضب کی کارکردگی سے آگاہ کیا۔ جس سے دنیا میں پاکستان کا امیج بہترہوا۔ قوم کو یہ بتایا گیا کہ دہشت گردی کی اس جنگ میں 3500دہشت گرد مارے گئے جبکہ دہشت گردوں کے 96سے زائد نیٹ ورکس بھی سامنے آئے جن میں حقانی نیٹ ورک و جند اللہ کے نیٹ ورکس بھی شامل ہیں۔

آپریشن ضرب عضب اب اپنے آخری مراحل میں پہنچ چکا ہے، دہشت گردوں کے بڑے نیٹ ورکس ختم کردیے گئے ہیں جبکہ 96فیصد علاقہ کلیئر کرایا جاچکا ہے۔اس آپریشن میں ہمارے 500فوجی جوان شہید ہوئے۔ یہ ساری تفصیل عوام تک پہنچائی گئی اور اس کا کریڈٹ افواج پاکستان کو جاتا ہے کہ انہوں نے قوم کو سیکورٹی کا احساس دلایا۔ اس ساری جنگ میں آئی ایس پی آر بہت زیادہ متحرک رہا۔ سوشل میڈیا پر بھی مثبت پیغامات کے فروغ کے لیے مختلف فیس بک صفحات بنائے گئے جبکہ نوجوانوں کی تربیت اور حب الوطنی کی سوچ پیدا کرنے کے لیے تعلیمی اداروں میں سیمینارز منعقد کروائے گئے۔ میڈیا اور افواج کے متحد ہونے سے ملک سے خوف کی فضا ختم ہوگئی ہے۔

ملک میں تبدیلی آرہی ہے، سی پیک منصوبے کا آغاز کردیا گیا ہے جبکہ اب ڈویلپمنٹ ہورہی ہے۔ اب ملک میں مثبت سوچ کی لہر ہے، اس کا کریڈٹ میڈیا کوجاتا ہے جس نے ذمہ داری کا مظاہرہ کیا۔ آئی ایس پی آر اور میڈیا نے جس روایت کو فروغ دیا ہے یہ مثبت ہے اور اب آنے والے لوگوں کے لیے سمت کا تعین ہوچکا ہے۔
Load Next Story