قوم کو انتخابات کا یقین دلائیے
ووٹرز لسٹوں میں نئے ووٹروں کے اندراج کا کام انتخابات کی حتمی تاریخ تک جاری رہے گا۔
وطن عزیز کو بلاشبہ دہشتگری، انتشار، بے یقینی اور بلاجواز قتل وغارت کے ایک نئے ہولناک دریا کا سامنا ہے جہاں بعض قوتیں اب نئے عزائم کے ساتھ اس کوشش میں مصروف نظر آنے لگی ہیں کہ ملک کے سیاسی صنم کدے میں نئی ہلچل مچائی جائے،انتخابات ملتوی کیے جانے کا خاموش ڈھنڈورا پیٹا جائے، اور اس مقصد کے لیے نئے ''بساط الٹ'' کرداروں کے اچانک اسٹیج پر نمودار ہونے والوں کی درپردہ مدد کی جائے تاکہ پر تشدد واقعات کی آڑ میں انتخابات کے التوا کے خونیں کھیل کا ڈراپ سین ان کے ایجنڈے اور خواہشات کے مطابق ہوجائے ، بعض سیاسی رہنمائوں کا کہنا ہے کہ الیکشن ملتوی ہونے سے بحران شدت اختیار کر جائے گا، خفیہ اداروں کی رپورٹ کے مطابق الیکشن میں بڑے خون خرابہ کا اندیشہ ہے، دہشت گرد اہم سیاسی شخصیات کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔
اے این پی کے سربراہ اسفندیار ولی کا کہنا ہے کہ دہشت گردوں کے ٹھکانے تباہ کیے جائیں ، جب کہ دوسری جانب مشاہدہ میں آ رہا ہے کہ حکومت انتخابی شیڈول کو حتمی شکل دینے کا مصمم ارادہ کرچکی ہے، الیکشن کمیشن نے قومی و صوبائی اسمبلی کے آیندہ عام انتخابات ایک ہی روز میںکرانے کا عندیہ ظاہر کیا ہے جب کہ انتخابات کے اخراجات کے لیے الیکشن کمیشن نے محکمہ خزانہ کو خط تحریر کر کے فنڈ طلب کرلیا ہے، الیکشن کمیشن نے عام انتخابات کے لیے بیلٹ پیپر کے سوائے اسٹیشنری کی چھپائی بھی شروع کردی ہے، ان ووٹرز کا اندراج درست جگہ کیا جا رہا ہے جو فارم پر کر کے الیکشن کمیشن میں جمع کرا رہے ہیں۔
ووٹرز لسٹوں میں نئے ووٹروں کے اندراج کا کام انتخابات کی حتمی تاریخ تک جاری رہے گا، آیندہ عام انتخابات میں امن و امان کے حوالے سے لائحہ عمل تیار کرنے کے لیے الیکشن کمیشن کا اعلیٰ سطح کا اجلاس2 جنوری کو ہوگا جس میں خارجہ،داخلہ، اسٹیبلشمنٹ،انفارمیشن ، ریاستوں اور سرحدی امور کی وزارتوں کے سیکریٹریزکو مدعو کیا گیا ہے ، اس کے علاوہ چاروں صوبائی چیف سیکریٹریز کو بھی اجلاس میں شرکت کی دعوت دی گئی ہے،اجلاس میں 2013ء کے عام انتخابات کے لیے سیکیورٹی اور انتظامی امور کو حتمی شکل دی جائے گی۔ یہ دلکش منظر نامہ صاف ستھرے انداز میں الیکشن ہونے کی خوش خبری سے جڑا ہوا ہے اور وطن عزیز کو لاشوں کے تحفے دینے والوں کو بالواسطہ یہ پیغام بھی دے رہا ہے کہ انہیں عوام کے حق رائے دہی کے جمہوری عمل میں رخنہ اندازی سے اجتناب کرنا چاہیے کیونکہ اسی میں جمہوریت کی بقا مضمرہے اور بلٹ(گولی) کی جگہ بیلٹ(ووٹ کی پرچی) ہی عوام کے روشن مستقبل کی نوید ہے۔بشرطیکہ الیکشن شفاف اور آزادانہ طریقے سے منعقد ہوجائیں جس کے لیے ایک با اختیار الیکشن کمیشن کے اقدامات سب کو نظر آ بھی رہے ہوں گے۔اگر اس سب کے باوجود انتخابات کے اعلان سے قبل کسی قسم کی غیر فطری اور تہلکہ خیز مہم جوئی سے تبدیلی لانا ٹھہر گیا ہے تو کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ حالات کون سا رخ اختیار کرجائیں گے۔
تاہم یہ المیہ ہوگا اگر جمہوریت دشمن عناصر کے ہاتھوں جمہوری بساط لپیٹے جانے کے دیو مالائی اور مافوق البشر کسی ہنگامی ایجنڈہ پر عمل کرنے کا تہیہ مقصود ہے ۔ چنانچہ پشاور میں اے این پی کے ممتاز رہنما بشیر احمد بلور اور دیگر کارکنوںکی شہادت کے بعد دہشت گردوں کی کراچی میں خونریزی لمحہ فکریہ ہے ۔ منگل کو گلشن اقبال میں گھات لگائے ہوئے دہشت گردوں نے اہلسنت و الجماعت کے مرکزی رہنما مولانا اورنگزیب فاروقی کی گاڑی پر اندھا دھند فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں ان کا ڈرائیور، محافظ اور 4 پولیس اہلکار جاں بحق ہوگئے جب کہ اورنگزیب فاروقی اور اے ایس آئی سمیت 5زخمی ہوگئے۔ جوابی فائرنگ سے 2 حملہ آور بھی زخمی ہوگئے جو موقع سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ مولانا پر قاتلانہ حملے کی خبر شہر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی جس کے بعد شہر میں صورتحال انتہائی کشیدہ ہوگئی اور نامعلوم افراد نے شہر میں کھلنے والی دکانیں و کاروبار بند کرا دیا۔ ہنگامہ آرائی کے دوران نامعلوم افراد نے 3گاڑیوں کو نذر آتش کر دیا جب کہ شہر کے مختلف علاقوں میں فائرنگ اور اغوا کے بعد قتل کر کے لاشیں پھینکنے کے واقعات میں مزید 13 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے، ہلاک ہونے والوں میں اہلسنت و الجماعت اور متحدہ کے کارکن شامل ہیں ۔
گلشن اقبال پولیس نے مولانا اورنگ زیب فاروقی کے کانوائے پر حملے کرنے والے ایک مبینہ ملزم کو نجی اسپتال سے زخمی حالت میں حراست میں لے لیا ۔ادھر سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین مرکزی جے یو پی کے سربراہ و رکن قومی اسمبلی صاحبزادہ فضل کریم کراچی کے علاقے گلشن اقبال میں فائرنگ کے واقعے میں بال بال بچ گئے۔ کراچی مسلسل مقتل بنا ہوا ہے، قاتلوں کی شناخت مشکل بنا دی گئی ہے، بیگناہ افراد مارے جا رہے ہیں ، علاقے نو گو ایریاز بن چکے ہیں ۔اس ساری اندوہ ناک قتل و غارت میں حکومتی کارروائیوں کا گراف مایوسیوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ یوں عوام کے ذہن میں الیکشن کے انعقادکو سوالیہ نشان بنانے کی کوشش جاری ہے،اس جانب حکمرانوں کو فوری توجہ دینا چاہیے۔ وفاقی وزیراطلاعات قمر زماں کائرہ نے یقین دلایا ہے کہ اسمبلیاں تحلیل کر کے 16مارچ تک عبوری حکومت قائم کردی جائے گی، میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ عبوری حکومت کا طریقہ کار آئین میں موجود ہے طاقت سے تبدیلی لانا مثبت رویہ نہیں، کسی غیرآئینی بات کی حمایت نہیں کی جاسکتی۔
طاہرالقادری نے آئینی طریقہ کار اختیار کرنے کی بات کی، وہ لوگوں کے پاس جائیں اور عوام نے انھیں پذیرائی بخشی تو ہم ان کے گلے میں ہار ڈالیں گے لیکن طاہر القادری اگر یہ کہیں کہ کسی ادارے کو نگران سیٹ اپ دے دیں تو یہ قابل قبول نہیں، جب کہ وفاقی وزیر برائے مذہبی امور سید خورشید احمد شاہ کا کہنا تھا کہ کچھ خفیہ قوتیں الیکشن ملتوی کرانے کے لیے سازش کر رہی ہیں۔ ادھر امریکی ریڈیو کے مطابق خیبر پختونخوا میں رواں ماہ طالبان شدت پسندوں کی پرتشدد مہم میں تیزی آنے کے بعد بالخصوص پاکستان کے اس شمال مغربی صوبے میں آیندہ عام انتخابات کے انعقاد کے بارے میں خدشات بڑھ گئے ہیں۔
نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا ہے کہ بلوچستان کے بعض علاقوں میں حالات انتخابی مہم کے لیے سازگارنہیں،اب کی مرتبہ بھی صاف اور شفاف انتخابات نہ ہوئے تو پھرصورتحال کنٹرول کرنے والا کوئی نہیں رہے گا ۔ اب جب کہ سیاسی نظام کی فوری تبدیلی کا قیامت کا سا ہنگامہ اٹھایا جا رہا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ ارباب اختیار دانشمندی، صلح جوئی ، تدبر اور صحیح جمہوری رویے اورسپرٹ کے ساتھ آئین و قانون کے مطابق انتخابات کے انعقاد پر قوم کو اعتماد میں لیں۔ افواہوں کے دم توڑنے کا انتظار نہ کریں۔دوسرا کوئی راستہ بھی نہیں ہے۔
اے این پی کے سربراہ اسفندیار ولی کا کہنا ہے کہ دہشت گردوں کے ٹھکانے تباہ کیے جائیں ، جب کہ دوسری جانب مشاہدہ میں آ رہا ہے کہ حکومت انتخابی شیڈول کو حتمی شکل دینے کا مصمم ارادہ کرچکی ہے، الیکشن کمیشن نے قومی و صوبائی اسمبلی کے آیندہ عام انتخابات ایک ہی روز میںکرانے کا عندیہ ظاہر کیا ہے جب کہ انتخابات کے اخراجات کے لیے الیکشن کمیشن نے محکمہ خزانہ کو خط تحریر کر کے فنڈ طلب کرلیا ہے، الیکشن کمیشن نے عام انتخابات کے لیے بیلٹ پیپر کے سوائے اسٹیشنری کی چھپائی بھی شروع کردی ہے، ان ووٹرز کا اندراج درست جگہ کیا جا رہا ہے جو فارم پر کر کے الیکشن کمیشن میں جمع کرا رہے ہیں۔
ووٹرز لسٹوں میں نئے ووٹروں کے اندراج کا کام انتخابات کی حتمی تاریخ تک جاری رہے گا، آیندہ عام انتخابات میں امن و امان کے حوالے سے لائحہ عمل تیار کرنے کے لیے الیکشن کمیشن کا اعلیٰ سطح کا اجلاس2 جنوری کو ہوگا جس میں خارجہ،داخلہ، اسٹیبلشمنٹ،انفارمیشن ، ریاستوں اور سرحدی امور کی وزارتوں کے سیکریٹریزکو مدعو کیا گیا ہے ، اس کے علاوہ چاروں صوبائی چیف سیکریٹریز کو بھی اجلاس میں شرکت کی دعوت دی گئی ہے،اجلاس میں 2013ء کے عام انتخابات کے لیے سیکیورٹی اور انتظامی امور کو حتمی شکل دی جائے گی۔ یہ دلکش منظر نامہ صاف ستھرے انداز میں الیکشن ہونے کی خوش خبری سے جڑا ہوا ہے اور وطن عزیز کو لاشوں کے تحفے دینے والوں کو بالواسطہ یہ پیغام بھی دے رہا ہے کہ انہیں عوام کے حق رائے دہی کے جمہوری عمل میں رخنہ اندازی سے اجتناب کرنا چاہیے کیونکہ اسی میں جمہوریت کی بقا مضمرہے اور بلٹ(گولی) کی جگہ بیلٹ(ووٹ کی پرچی) ہی عوام کے روشن مستقبل کی نوید ہے۔بشرطیکہ الیکشن شفاف اور آزادانہ طریقے سے منعقد ہوجائیں جس کے لیے ایک با اختیار الیکشن کمیشن کے اقدامات سب کو نظر آ بھی رہے ہوں گے۔اگر اس سب کے باوجود انتخابات کے اعلان سے قبل کسی قسم کی غیر فطری اور تہلکہ خیز مہم جوئی سے تبدیلی لانا ٹھہر گیا ہے تو کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ حالات کون سا رخ اختیار کرجائیں گے۔
تاہم یہ المیہ ہوگا اگر جمہوریت دشمن عناصر کے ہاتھوں جمہوری بساط لپیٹے جانے کے دیو مالائی اور مافوق البشر کسی ہنگامی ایجنڈہ پر عمل کرنے کا تہیہ مقصود ہے ۔ چنانچہ پشاور میں اے این پی کے ممتاز رہنما بشیر احمد بلور اور دیگر کارکنوںکی شہادت کے بعد دہشت گردوں کی کراچی میں خونریزی لمحہ فکریہ ہے ۔ منگل کو گلشن اقبال میں گھات لگائے ہوئے دہشت گردوں نے اہلسنت و الجماعت کے مرکزی رہنما مولانا اورنگزیب فاروقی کی گاڑی پر اندھا دھند فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں ان کا ڈرائیور، محافظ اور 4 پولیس اہلکار جاں بحق ہوگئے جب کہ اورنگزیب فاروقی اور اے ایس آئی سمیت 5زخمی ہوگئے۔ جوابی فائرنگ سے 2 حملہ آور بھی زخمی ہوگئے جو موقع سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ مولانا پر قاتلانہ حملے کی خبر شہر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی جس کے بعد شہر میں صورتحال انتہائی کشیدہ ہوگئی اور نامعلوم افراد نے شہر میں کھلنے والی دکانیں و کاروبار بند کرا دیا۔ ہنگامہ آرائی کے دوران نامعلوم افراد نے 3گاڑیوں کو نذر آتش کر دیا جب کہ شہر کے مختلف علاقوں میں فائرنگ اور اغوا کے بعد قتل کر کے لاشیں پھینکنے کے واقعات میں مزید 13 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے، ہلاک ہونے والوں میں اہلسنت و الجماعت اور متحدہ کے کارکن شامل ہیں ۔
گلشن اقبال پولیس نے مولانا اورنگ زیب فاروقی کے کانوائے پر حملے کرنے والے ایک مبینہ ملزم کو نجی اسپتال سے زخمی حالت میں حراست میں لے لیا ۔ادھر سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین مرکزی جے یو پی کے سربراہ و رکن قومی اسمبلی صاحبزادہ فضل کریم کراچی کے علاقے گلشن اقبال میں فائرنگ کے واقعے میں بال بال بچ گئے۔ کراچی مسلسل مقتل بنا ہوا ہے، قاتلوں کی شناخت مشکل بنا دی گئی ہے، بیگناہ افراد مارے جا رہے ہیں ، علاقے نو گو ایریاز بن چکے ہیں ۔اس ساری اندوہ ناک قتل و غارت میں حکومتی کارروائیوں کا گراف مایوسیوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ یوں عوام کے ذہن میں الیکشن کے انعقادکو سوالیہ نشان بنانے کی کوشش جاری ہے،اس جانب حکمرانوں کو فوری توجہ دینا چاہیے۔ وفاقی وزیراطلاعات قمر زماں کائرہ نے یقین دلایا ہے کہ اسمبلیاں تحلیل کر کے 16مارچ تک عبوری حکومت قائم کردی جائے گی، میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ عبوری حکومت کا طریقہ کار آئین میں موجود ہے طاقت سے تبدیلی لانا مثبت رویہ نہیں، کسی غیرآئینی بات کی حمایت نہیں کی جاسکتی۔
طاہرالقادری نے آئینی طریقہ کار اختیار کرنے کی بات کی، وہ لوگوں کے پاس جائیں اور عوام نے انھیں پذیرائی بخشی تو ہم ان کے گلے میں ہار ڈالیں گے لیکن طاہر القادری اگر یہ کہیں کہ کسی ادارے کو نگران سیٹ اپ دے دیں تو یہ قابل قبول نہیں، جب کہ وفاقی وزیر برائے مذہبی امور سید خورشید احمد شاہ کا کہنا تھا کہ کچھ خفیہ قوتیں الیکشن ملتوی کرانے کے لیے سازش کر رہی ہیں۔ ادھر امریکی ریڈیو کے مطابق خیبر پختونخوا میں رواں ماہ طالبان شدت پسندوں کی پرتشدد مہم میں تیزی آنے کے بعد بالخصوص پاکستان کے اس شمال مغربی صوبے میں آیندہ عام انتخابات کے انعقاد کے بارے میں خدشات بڑھ گئے ہیں۔
نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا ہے کہ بلوچستان کے بعض علاقوں میں حالات انتخابی مہم کے لیے سازگارنہیں،اب کی مرتبہ بھی صاف اور شفاف انتخابات نہ ہوئے تو پھرصورتحال کنٹرول کرنے والا کوئی نہیں رہے گا ۔ اب جب کہ سیاسی نظام کی فوری تبدیلی کا قیامت کا سا ہنگامہ اٹھایا جا رہا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ ارباب اختیار دانشمندی، صلح جوئی ، تدبر اور صحیح جمہوری رویے اورسپرٹ کے ساتھ آئین و قانون کے مطابق انتخابات کے انعقاد پر قوم کو اعتماد میں لیں۔ افواہوں کے دم توڑنے کا انتظار نہ کریں۔دوسرا کوئی راستہ بھی نہیں ہے۔