مستقبل کا فیصلہ ہمیں کرنا ہے

پختونخواہ کی سیاست کا محور پختون مفادات ہے، پنجاب کی سیاست ’’جاگ پنجابی جاگ‘‘ کے نعروں میں ڈوبی نظر آتی رہی۔


Zaheer Akhter Bedari December 26, 2012
[email protected]

KARACHI: پاکستان آج جن سنگین فکری مسائل سے دوچار ہے اس کا حل ہم قائد اعظم کی ان تقاریر میں تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو قائد اعظم نے مختلف موقعوں پر حالات اور وقت کے تقاضوں کے پس منظر میں کی تھیں۔ ان مسائل میں سب سے بڑا مسئلہ پاکستان کے نظریاتی مستقبل کا تعین ہے۔ ایک طبقہ فکر قائد کی مختلف موقعوں پر کی گئی تقاریر سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ انھوں نے ایک ایسے سیکولر پاکستان کی حمایت کی تھی جس میں رنگ نسل مذہب سے بالاتر سارے شہری یکساں حیثیت کے مالک ہوں گے۔

اس موقف کو ثابت کرنے کے لیے سیکولر پاکستان کے حامی لوگ خود جناح صاحب کی زندگی کا حوالہ دیتے ہیں کہ وہ ایک ماڈریٹ انسان تھے انھوں نے بار بار تھیوکریٹک پاکستان کی سختی سے مخالفت کی تھی، ان کی سیاسی زندگی، ان کی نشست و برخواست غرض ان کی زندگی کا ہر پہلو ان کی سیکولر زندگی کی عکاسی کرتا تھا۔ تحریک پاکستان کے دوران کوئی ایک بھی ایسی مثال نہیں ملتی کہ وہ اپنی زندگی میں کبھی تھیوکریٹک سیاست کے حامی رہے ہوں۔ ان کی بہن فاطمہ جناح ان کے سیاسی سفر میں ہمیشہ ان کے شانہ بہ شانہ رہیں کبھی انھوں نے خواتین کو چادر اور چار دیواری میں بند کرنے کی کوئی بات نہیں کی۔

دوسری طرف وہ طبقہ فکر ہے جو جناح صاحب کی مختلف تقاریر سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ پاکستان کو ایک مذہبی ریاست بنانا چاہتے تھے اس حوالے سے یہ طبقہ فکر جو سب سے بڑی دلیل پیش کرتا ہے وہ یہ ہے کہ اگر پاکستان کو سیکولر ملک بنانا تھا تو پھر ہندوستان کو تقسیم کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ ہندوستان دو قومی نظریے کی پیداوار ہے اس لیے اسے ایک مذہبی ریاست ہونا چاہیے۔ یہ طبقہ فکر ہندوستان پر مسلمانوں کی ہزار سالہ حکومت کے حوالے سے اس خواہش کا اظہار کرتا ہے کہ ایک مذہبی پاکستان ہی اپنے ہزار سالہ ''دور زریں'' کی نشاۃ ثانیہ کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرسکتا ہے۔ یہ طبقہ فکر اس سلسلے میں ان قربانیوںکا ذکر بھی کرتا ہے جو مسلمانوں نے قیام پاکستان کے لیے دی تھیں اس طبقہ فکر کا استدلال یہ ہے کہ اگر ایک سیکولر پاکستان ہی بنانا تھا تو اتنی بھاری قربانیوں کی ضرورت کیا تھی؟

پاکستان کو دو قومی نظریے کی پیداوار کہا جاتا ہے۔ 1971 میں جب مشرقی پاکستان الگ ہوا تو اس وقت کی بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے کہا کہ ''دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈوب گیا''۔ ہوسکتا ہے یہ بات اندرا گاندھی نیاپنی جیت کے غرور کے تحت کی ہو لیکن اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ 1971 میں بھی دو قومی نظریے کی ناکامی کے ذمے دار ہم ہی تھے اور آج بھی دو قومی نظریے کی دھجیاں اڑانے والے ہم ہی ہیں جس کا مشاہدہ ہم بلوچستان میں مسلح تحریکوں کی شکل میں،سندھ میں لسانی خونریزیوں اور سندھو دیش کے نعروں کی شکل میں دیکھ رہے ہیں۔

پختونخواہ کی سیاست کا محور پختون مفادات ہے، پنجاب کی سیاست ''جاگ پنجابی جاگ'' کے نعروں میں ڈوبی نظر آتی رہی۔ پاکستان جسے ہمارے معزز اکابرین مذہبی ریاست بنانا چاہتے ہیں، کیا وہ اس حقیقت سے لاعلم ہیں کہ پنجاب کے رہنے والے اپنی شناخت پنجابی کی حیثیت سے، پختونخواہ کے عوام اور خواص اپنی شناخت پختون کی حیثیت سے، بلوچستان کے عوام اپنی شناخت بلوچی کی حیثیت سے اور سندھ کے عوام اپنی شناخت سندھی کی حیثیت سے کراتے ہیں۔ 65 سال میں ہم اب تک ایک قوم یعنی پاکستانی نہ بن سکے۔ ایسے منتشر الخیال ملک میں مذہبی شناخت کس طرح ممکن ہے؟

یہ تو تھی صوبائی تقسیم، اب ذرا مذہب کے حوالے سے ہونے والی تقسیم پر ایک نظر ڈالیں۔ پاکستان کو دارالسلام، اسلام کا قلعہ کہا جاتا ہے یہ اعزاز اس ملک کو کس حوالے سے بخشا جاتا ہے اس کا کوئی جواب نہیں، لیکن جب ہم اس اسلام کے قلعے کی مذہبی تقسیم پر نظر ڈالتے ہیں تو اس قلعے کے مسلمان درجنوں فرقوں میں بٹے نظر آتے ہیں اور اسی طرح ان فرقوں کی قیادت بھی بیسیوں دھڑوں میں بٹی اور ایک دوسرے سے متحارب نظر آتی ہے ان کی آپس کی دشمنیوں پر ہندو مسلم دشمنی ماند پڑتی نظر آتی ہے۔ آج عراق سے لے کر پاکستان تک فقہی دشمنی کے حوالے سے جس طرح مسلمانوں کا خون مسلمان بہا رہے ہیں ایسی وحشیانہ خونریزی کسی اور مذہب میں نظر نہیں آتی۔ نظام اسلام کے حوالے سے ضیاء الحق نے زکوٰۃ کا ایک نظام نافذ کرنے کی کوشش کی جو ناکام ہوگئی۔ اس پس منظر میں اسلامی نظام کے نفاذ پر غور کریں تو سوائے مایوسی اور شرمندگی کے کچھ اور نظر نہیں آتا۔ سب سے زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ آج نظام اسلام کے نفاذ کے سب سے بڑے علمبردار وہ لوگ ہیں جو پختونخواہ سے کراچی تک بے گناہ مسلمانوں کا بلا جواز انتہائی بہیمانہ طریقے سے خون بہا رہے ہیں۔

ماضی میں دنیا کے ملک ایک دوسرے سے کٹے ہوئے تھے، دنیا کے عوام ایک دوسرے کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے۔ مہینوں، برسوں تک ایک ملک کے عوام دوسرے ملک کے عوام کی خیر خیریت سے تک ناواقف رہتے تھے۔ اب مواصلاتی انقلاب نے ساری دنیا کے عوام کو سیکنڈوں کے فاصلے پر کھڑا کردیا ہے اس انقلاب کی وجہ سے دنیا ایک گاؤں میں بدل گئی ہے ہر مذہب کے ماننے والے اپنے مذہب پر چلتے ہوئے، ایک ایسے اجتماعی راستے پر بھی چل نکلے ہیں جسے ہم انسانیت کا راستہ کہتے ہیں، آج ہر ملک دوسرے ملک سے اس طرح نتھی ہوکر رہ گیا ہے کہ اس کے سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل دوسرے ملکوں سے وابستہ ہوگئے ہیں۔

یہ نئی دنیا اب مذہب کے احترام کے ساتھ انسانیت کے رشتوں اور انسانیت کے راستوں پر چل نکلی ہے اب اس دنیا میں مذہبی منافرت کی کوئی گنجائش نہیں اب دنیا کا ہر انسان مذہبی رواداری، مذہبی یکجہتی، محبت اور بھائی چارہ چاہتا ہے۔ کیا ایسی دنیا میں نفرتوں، جنگوں پر مبنی کوئی ملک دنیا کے لیے قابل قبول ہوسکتا ہے؟ یہ فیصلہ ہمیں کرنا ہے اور صرف اپنے اکابرین کے فرمودات کی روشنی میں نہیں اپنی اجتماعی دانش کی روشنی میں کرنا ہے کہ آج کی دنیا کے تقاضے کیا ہیں اور ان تقاضوں کی روشنی میں ہم کون سا راستہ اختیار کرکے ملک و قوم کے مستقبل کو تابناک بناسکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔