بہاول پور کے مخدوم اور پیر صاحب پگاڑا
پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ پیر پگاڑا لاہور میں اپنے عزیز اور برادر نسبتی سید حسن محمود کے ہاں قیام کرتے تھے۔
KARACHI:
نہایت اعلیٰ حسب و نسب والے بہاول پور کے مخدوم سید احمد محمود اس وقت پنجاب کے گورنر ہوں گے۔ میری اس بڑے خاندان کے ساتھ نیاز مندی گورنر کے مرحوم و مغفور بزرگ پیر پگاڑا سید مردان علی شاہ دوئم کی ذات گرامی کے ذریعہ تھی وہ جب قومی سیاست میں عملاً شریک ہوئے تو اکثر لاہور تشریف لایا کرتے تھے۔ مسلم لیگی انھیں سیاست میں کھینچ لائے کہ شاید مسلم لیگ پیر صاحب کی وجہ سے زندہ ہو جائے۔
انھوں نے موچی دروازہ کے دو ایک جلسوں میں شرکت کی اور بھٹو کے خلاف ریل گاڑی کے ذریعہ لانگ مارچ میں بھی شریک ہوئے اور اس کی قیادت کی۔ پیر صاحب کی ذات میں ایک راز اور طلسم تھا۔ پیر پگاڑا کے نام کی ملک بھر میں بہت عزت تھی اور ان کے مریدوں کا جنھیں حر کہا جاتا تھا بڑا رعب تھا۔ اس خاندان کے جد امجد جناب صبغت اللہ راشدی پیر پگاڑا شہید انگریزوں کے باغی تھے۔ انھیں سزائے موت دی گئی اور ان کی میت نامعلوم مقام پر دفن کر دی گئی۔ سندھ کے دو پیر گھرانوں پیر جھنڈا شریف اور پیر پگاڑا شریف بہت معروف تھے، ان میں سے ایک کو جھنڈا کا نام دیا گیا تو دوسرے کو پگڑی کا۔ میں نے جن پیر پگاڑا کے قدم چھوئے وہ پیر پگاڑا سید مردان شاہ تھے۔
پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ پیر پگاڑا لاہور میں اپنے عزیز اور برادر نسبتی سید حسن محمود کے ہاں قیام کرتے تھے گلبرگ کے مین بلیوارڈ پر ان کا گھر تھا اور جب پیر صاحب لاہور تشریف لاتے تو اس گھر میں ایک ہجوم جمع رہتا۔ پیر صاحب نے مجھے اپنا 'حُر' نامزد کر دیا چنانچہ میں اس گھر کے سامنے والے کمرے میں پیر صاحب کے پاس بیٹھا کرتا تھا۔ پیر صاحب کے جلسے میں شرکت کرنے میں میرا بھی کچھ ہاتھ تھا۔ پیر صاحب نے کہا کہ اچھا پھر میں زیادہ سے زیادہ دو ایک بار اپنا دیدار کرائوں گا جیسے وہ مریدوں کے سامنے سال بھر میں دو ایک مرتبہ جایا کرتے تھے۔ پیر صاحب موچی دروازے کی جلسہ گاہ میں اسٹیج پر بیٹھے اور کچھ دیر بعد اتر گئے۔ حاضرین انھیں دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور خوب نعرہ زنی کی۔ جناب حسن محمود کو کھانا پکانے کا شوق تھا اور برآمدے کے ساتھ باورچی خانے میں ان کی شامیں گزرتی تھیں۔ ان کی شام کی تمام مصروفیات کا مرکز یہی باورچی خانہ ہوا کرتا تھا۔ میں ان کے ساتھ کھڑا رہتا اور ملک کی سیاست پر بحث اور ہانڈی کی دیکھ بھال جاری رہتی۔ عجیب آسان زمانہ تھا۔
شرافت و شائستگی اونچ نیچ سے بے نیازی اور باہمی احترام کا زمانہ تھا۔ مخدوم الملک سید غلام میراں کا بیٹا اور میں جس کے خاندان نے بہاول پور میں لمبی چوڑی زمینیں خریدی تھیں یک گونہ نواب صاحب کے اس معتمد خاندان کے متوسلین میں سے تھے، مخدوم زادہ حسن محمود کے لیے ایک دوست اور قابل اعتماد شناسا تھے۔ محترم پیر صاحب جو علم الاعداد اور نجوم کے بہت ماہر اور شائق تھے حسن محمود کو میرے زائچے سے بھی مطلع کیا اور اس کے بعد مجھے مقربین میں شامل کر لیا گیا۔ جب رپورٹنگ کے سلسلے میں لانگ مارچ پر روانہ ہوئے تو پیر صاحب کے حکم پر میری سیٹ ان کے ڈبے میں رکھی گئی۔ مجھے رپورٹنگ کے لیے گاڑی سے اترنے کی اجازت تھی۔ گوجرانوالہ کے ریلوے اسٹیشن پر پیپلز پارٹی کے ورکروں نے ہنگامہ کیا اور ایسا پٹاخہ چلایا کہ پیر صاحب کے ڈبے کے دروازے پر کھڑے تقریر کرنے والے کارکن کے لائوڈ اسپیکر کا ہارن پھٹ گیا۔ اس کا کوئی ٹکڑا پیر صاحب کی انگلی پر بھی لگا۔
اب میری تلاش شروع ہوئی حاضری ہوئی تو پیر صاحب نے قریب بلا کر کہا کہ میرے زخمی ہونے کی خبر کسی صورت بھی باہر نہیں نکلنی چاہیے ورنہ حروں میں سخت اشتعال پھیلے گا جو میں اس موقع پر نہیں چاہتا۔ خبر کو روکنا بہت مشکل ہوتا ہے لیکن وہاں رپورٹر میں ہی تھا بات باہر ضرور نکلی لیکن جس رپورٹر نے بھی مجھ سے پوچھا میں نے سخت تردید کی اور اسے مان لیا گیا۔ میری درخواست پر ذرا سے وقت کے لیے پیر صاحب ریل کے ڈبے کے دروازے پر بھی آئے۔ میں ان کے زخمی ہاتھ کے آگے کھڑا تھا لوگوں نے زندہ باد کے نعرے لگائے اور بات ختم ہو گئی لیکن جب راولپنڈی پہنچے تو بھٹو صاحب پیر صاحب سے ملنے ہوٹل میں آ گئے خیروعافیت پوچھی اور اس واقعے پر معذرت کی۔ سندھی ذوالفقار علی بھٹو کو پیر صاحب کی حیثیت کا بخوبی علم تھا۔ وزیراعظم تک گوجرانوالہ کی خبر ظاہر ہے کہ پہنچ چکی تھی۔
سیاست کا یہ بھرپور دور ختم ہوا پیر صاحب اپنے آستانے پر واپس پہنچ گئے اس کے بعد دو ایک مرتبہ کراچی گیا تو پیر صاحب کے دیدار ہوئے۔ بے حد شفقت کے ساتھ ملے۔ اپنے ساتھ کھانا کھلایا میرے گھر والوں کو کپڑے دیے اور مجھ سے وعدہ لیا کہ میں آتا رہوں گا۔ میں لاہور میں ملنے جاتا تو آتے ہوئے مجھے چھوٹا موٹا تحفہ ضرور دیتے جو زیادہ تر خوشبو ہوتی یا ایسی کوئی اور چیز۔ میں ادب کے ساتھ عرض کرتا کہ میں تو اپنی ڈیوٹی پر آتا ہوں کیونکہ ایک اخباری رپورٹر ہوں لیکن وہ میری بات کو سنا ان سنا کر دیتے۔ ان کی ذات گرامی کی مہربانیوں کا شمار نہیں لیکن اس محترم خاندان سے جو تعلق بھی تھا وہ مرحوم و مغفور پیر صاحب کی ذات کی حد تک تھا بس اک دھوپ تھی جو ساتھ گئی آفتاب کے۔
مرحوم پیر صاحب کو گھوڑوں کا بہت شوق تھا۔ ان کا اصطبل اعلیٰ نسل کے گھوڑوں کا مسکن تھا یہ گھوڑے ریس میں دوڑتے تھے۔ ریس کورس میں پیر صاحب کی مخصوص نشست تھی جو انھی کے لیے مخصوص تھی۔ اعلیٰ نسل کے گھوڑوں کی نسل کا ریکارڈ ویسے ہی ہوتا ہے اور وہ اپنے آبائو و اجداد سے ہی پہچانے جاتے ہیں پیر صاحب کے رجسٹر میں لاتعداد گھوڑوں کے ریکارڈ تھے۔ اسے شجرہ نسب ہی کہیں۔ گھوڑوں کی زندگی کے اونچ نیچ پر وہ ستاروں سے رجوع کرتے اور اسی علم الاعداد کی روشنی میں وہ ان کی مناسب دیکھ بھال کرتے۔
پیر صاحب نے نہایت ہی باعزت اور شاندار زندگی بسر کی ان کی یادیں بہت ہیں کبھی بیان کروں گا فی الحال وہ اپنے ایک عزیز کی گورنری پرتقرری سے یاد آئے۔ یہ سیاست ہے پیرصاحب کی زندگی میں مخدوم زادہ حسن محمود بھی ان کی مرضی سے سیاست کیا کرتے تھے۔ آج سنا ہے کہ نئے مخدوم صاحب موجودہ پیر صاحب کی اجازت کے بغیر اس عہدے پر فائز ہوئے ہیں یہ سیاسی مسئلہ بھی ہے اور خاندانی بھی۔ مرحوم و مغفور پیر صاحب کے احترام میں اتنا ہی عرض ہے۔
نہایت اعلیٰ حسب و نسب والے بہاول پور کے مخدوم سید احمد محمود اس وقت پنجاب کے گورنر ہوں گے۔ میری اس بڑے خاندان کے ساتھ نیاز مندی گورنر کے مرحوم و مغفور بزرگ پیر پگاڑا سید مردان علی شاہ دوئم کی ذات گرامی کے ذریعہ تھی وہ جب قومی سیاست میں عملاً شریک ہوئے تو اکثر لاہور تشریف لایا کرتے تھے۔ مسلم لیگی انھیں سیاست میں کھینچ لائے کہ شاید مسلم لیگ پیر صاحب کی وجہ سے زندہ ہو جائے۔
انھوں نے موچی دروازہ کے دو ایک جلسوں میں شرکت کی اور بھٹو کے خلاف ریل گاڑی کے ذریعہ لانگ مارچ میں بھی شریک ہوئے اور اس کی قیادت کی۔ پیر صاحب کی ذات میں ایک راز اور طلسم تھا۔ پیر پگاڑا کے نام کی ملک بھر میں بہت عزت تھی اور ان کے مریدوں کا جنھیں حر کہا جاتا تھا بڑا رعب تھا۔ اس خاندان کے جد امجد جناب صبغت اللہ راشدی پیر پگاڑا شہید انگریزوں کے باغی تھے۔ انھیں سزائے موت دی گئی اور ان کی میت نامعلوم مقام پر دفن کر دی گئی۔ سندھ کے دو پیر گھرانوں پیر جھنڈا شریف اور پیر پگاڑا شریف بہت معروف تھے، ان میں سے ایک کو جھنڈا کا نام دیا گیا تو دوسرے کو پگڑی کا۔ میں نے جن پیر پگاڑا کے قدم چھوئے وہ پیر پگاڑا سید مردان شاہ تھے۔
پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ پیر پگاڑا لاہور میں اپنے عزیز اور برادر نسبتی سید حسن محمود کے ہاں قیام کرتے تھے گلبرگ کے مین بلیوارڈ پر ان کا گھر تھا اور جب پیر صاحب لاہور تشریف لاتے تو اس گھر میں ایک ہجوم جمع رہتا۔ پیر صاحب نے مجھے اپنا 'حُر' نامزد کر دیا چنانچہ میں اس گھر کے سامنے والے کمرے میں پیر صاحب کے پاس بیٹھا کرتا تھا۔ پیر صاحب کے جلسے میں شرکت کرنے میں میرا بھی کچھ ہاتھ تھا۔ پیر صاحب نے کہا کہ اچھا پھر میں زیادہ سے زیادہ دو ایک بار اپنا دیدار کرائوں گا جیسے وہ مریدوں کے سامنے سال بھر میں دو ایک مرتبہ جایا کرتے تھے۔ پیر صاحب موچی دروازے کی جلسہ گاہ میں اسٹیج پر بیٹھے اور کچھ دیر بعد اتر گئے۔ حاضرین انھیں دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور خوب نعرہ زنی کی۔ جناب حسن محمود کو کھانا پکانے کا شوق تھا اور برآمدے کے ساتھ باورچی خانے میں ان کی شامیں گزرتی تھیں۔ ان کی شام کی تمام مصروفیات کا مرکز یہی باورچی خانہ ہوا کرتا تھا۔ میں ان کے ساتھ کھڑا رہتا اور ملک کی سیاست پر بحث اور ہانڈی کی دیکھ بھال جاری رہتی۔ عجیب آسان زمانہ تھا۔
شرافت و شائستگی اونچ نیچ سے بے نیازی اور باہمی احترام کا زمانہ تھا۔ مخدوم الملک سید غلام میراں کا بیٹا اور میں جس کے خاندان نے بہاول پور میں لمبی چوڑی زمینیں خریدی تھیں یک گونہ نواب صاحب کے اس معتمد خاندان کے متوسلین میں سے تھے، مخدوم زادہ حسن محمود کے لیے ایک دوست اور قابل اعتماد شناسا تھے۔ محترم پیر صاحب جو علم الاعداد اور نجوم کے بہت ماہر اور شائق تھے حسن محمود کو میرے زائچے سے بھی مطلع کیا اور اس کے بعد مجھے مقربین میں شامل کر لیا گیا۔ جب رپورٹنگ کے سلسلے میں لانگ مارچ پر روانہ ہوئے تو پیر صاحب کے حکم پر میری سیٹ ان کے ڈبے میں رکھی گئی۔ مجھے رپورٹنگ کے لیے گاڑی سے اترنے کی اجازت تھی۔ گوجرانوالہ کے ریلوے اسٹیشن پر پیپلز پارٹی کے ورکروں نے ہنگامہ کیا اور ایسا پٹاخہ چلایا کہ پیر صاحب کے ڈبے کے دروازے پر کھڑے تقریر کرنے والے کارکن کے لائوڈ اسپیکر کا ہارن پھٹ گیا۔ اس کا کوئی ٹکڑا پیر صاحب کی انگلی پر بھی لگا۔
اب میری تلاش شروع ہوئی حاضری ہوئی تو پیر صاحب نے قریب بلا کر کہا کہ میرے زخمی ہونے کی خبر کسی صورت بھی باہر نہیں نکلنی چاہیے ورنہ حروں میں سخت اشتعال پھیلے گا جو میں اس موقع پر نہیں چاہتا۔ خبر کو روکنا بہت مشکل ہوتا ہے لیکن وہاں رپورٹر میں ہی تھا بات باہر ضرور نکلی لیکن جس رپورٹر نے بھی مجھ سے پوچھا میں نے سخت تردید کی اور اسے مان لیا گیا۔ میری درخواست پر ذرا سے وقت کے لیے پیر صاحب ریل کے ڈبے کے دروازے پر بھی آئے۔ میں ان کے زخمی ہاتھ کے آگے کھڑا تھا لوگوں نے زندہ باد کے نعرے لگائے اور بات ختم ہو گئی لیکن جب راولپنڈی پہنچے تو بھٹو صاحب پیر صاحب سے ملنے ہوٹل میں آ گئے خیروعافیت پوچھی اور اس واقعے پر معذرت کی۔ سندھی ذوالفقار علی بھٹو کو پیر صاحب کی حیثیت کا بخوبی علم تھا۔ وزیراعظم تک گوجرانوالہ کی خبر ظاہر ہے کہ پہنچ چکی تھی۔
سیاست کا یہ بھرپور دور ختم ہوا پیر صاحب اپنے آستانے پر واپس پہنچ گئے اس کے بعد دو ایک مرتبہ کراچی گیا تو پیر صاحب کے دیدار ہوئے۔ بے حد شفقت کے ساتھ ملے۔ اپنے ساتھ کھانا کھلایا میرے گھر والوں کو کپڑے دیے اور مجھ سے وعدہ لیا کہ میں آتا رہوں گا۔ میں لاہور میں ملنے جاتا تو آتے ہوئے مجھے چھوٹا موٹا تحفہ ضرور دیتے جو زیادہ تر خوشبو ہوتی یا ایسی کوئی اور چیز۔ میں ادب کے ساتھ عرض کرتا کہ میں تو اپنی ڈیوٹی پر آتا ہوں کیونکہ ایک اخباری رپورٹر ہوں لیکن وہ میری بات کو سنا ان سنا کر دیتے۔ ان کی ذات گرامی کی مہربانیوں کا شمار نہیں لیکن اس محترم خاندان سے جو تعلق بھی تھا وہ مرحوم و مغفور پیر صاحب کی ذات کی حد تک تھا بس اک دھوپ تھی جو ساتھ گئی آفتاب کے۔
مرحوم پیر صاحب کو گھوڑوں کا بہت شوق تھا۔ ان کا اصطبل اعلیٰ نسل کے گھوڑوں کا مسکن تھا یہ گھوڑے ریس میں دوڑتے تھے۔ ریس کورس میں پیر صاحب کی مخصوص نشست تھی جو انھی کے لیے مخصوص تھی۔ اعلیٰ نسل کے گھوڑوں کی نسل کا ریکارڈ ویسے ہی ہوتا ہے اور وہ اپنے آبائو و اجداد سے ہی پہچانے جاتے ہیں پیر صاحب کے رجسٹر میں لاتعداد گھوڑوں کے ریکارڈ تھے۔ اسے شجرہ نسب ہی کہیں۔ گھوڑوں کی زندگی کے اونچ نیچ پر وہ ستاروں سے رجوع کرتے اور اسی علم الاعداد کی روشنی میں وہ ان کی مناسب دیکھ بھال کرتے۔
پیر صاحب نے نہایت ہی باعزت اور شاندار زندگی بسر کی ان کی یادیں بہت ہیں کبھی بیان کروں گا فی الحال وہ اپنے ایک عزیز کی گورنری پرتقرری سے یاد آئے۔ یہ سیاست ہے پیرصاحب کی زندگی میں مخدوم زادہ حسن محمود بھی ان کی مرضی سے سیاست کیا کرتے تھے۔ آج سنا ہے کہ نئے مخدوم صاحب موجودہ پیر صاحب کی اجازت کے بغیر اس عہدے پر فائز ہوئے ہیں یہ سیاسی مسئلہ بھی ہے اور خاندانی بھی۔ مرحوم و مغفور پیر صاحب کے احترام میں اتنا ہی عرض ہے۔