پاکستانی سیاست کے مدوجذر

ہمیں یہ بات بھی ذہن میں رکھنا ہوگی کہ پاکستان میں اصلاح احوال کے نام پر کیے جانے والے ماورائے آئین اقدامات کی۔۔۔


Muqtida Mansoor December 26, 2012
[email protected]

KARACHI: پاکستان میں پے در پے ایسے واقعات رونما ہو رہے ہیں،جن کے نتیجے میں جمہوریت کا سورج غروب ہوتا نظر آرہا ہے۔ایک ایسے وقت میں جب انتخابات سرپر ہیں، عوامی نیشنل پارٹی کے اہم رہنما اورسینئر صوبائی وزیر بشیر احمد بلور کے قتل نے نہ صرف عام انتخابات کے انعقاد کو غیر یقینی بنایاہے، بلکہ ملک میںروشن خیالی پر مبنی لبرل سیاست کو ایک بہت بڑے خطرے سے دوچارکردیا ہے۔ اس صورتحال کی ذمے داری اسٹبلشمنٹ کی دہری پالیسیوں اور خطے کے خصوصی حالات کے علاوہ لبرل اور سیکولر سیاست کی دعویدار جماعتوں کی غیر حقیقت پسندانہ حکمت عملیوں پر بھی عائد ہوتی ہے۔

9/11 کے بعد پاکستان کی لبرل اورسیکولر سیاسی قوتوں کو مجتمع ہونے اور ایک واضح سیاسی پالیسی ترتیب دینے کا نادر موقع ہاتھ آیا تھا، جسے ان قوتوں نے اپنی کوتاہ بینی پر مبنی سیاسی سوچ کی وجہ سے ضایع کردیا۔یوںامریکی استعمار کے خلاف جدوجہد،جو بائیں بازو کی سیاست کی اساس اور محور رہی ہے،موجودہ حالات میںان مذہبی قوتوں کے لیے موثرہتھیار بن چکی ہے،جوکل تک امریکا کی کاسہ لیسی میں فخر محسوس کرتی تھیں۔آج بھی بائیں بازوکی سیاسی قوتیں اپنے اندرونی خلفشار،جمہوریت کے بارے میں مبہم تصورات اورخطے کی مجموعی صورتحال کے حوالے سے غیر واضح سوچ کی وجہ سے کوئی ٹھوس کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیںہے۔نتیجتاً وہ قوتیں سیاسی عمل پر تیزی سے حاوی آرہی ہیں، جو اس ملک میں جمہوری عمل کا قلع قمع کرکے تھیوکریسی کو مسلط کرنے کی خواہشمند ہیں۔

دوسری جانب شیخ الاسلام ڈاکٹرطاہرالقادری،جو گزشتہ کئی برسوں سے کینیڈا میں مقیم تھے اور غالباً وہاں کی شہریت بھی حاصل کرلی تھی، اچانک پاکستان تشریف لے آئے ہیں۔ وطن واپس پہنچنے کے فوراً بعد انھوں نے لاہورمیںمینار پاکستان پر بڑے جلسے سے خطاب کیا اور ان مسائل کو دہرایا ہے، جن پر مختلف حلقوں میں طویل عرصے سے بحث ومباحثہ جاری ہے۔اس کے علاوہ انھوں نے حکومت کو اصلاح احوال کے لیے تین ہفتوں کی مہلت دی ہے۔

ان کا یہ بھی کہناہے کہ آئین کی رو سے انتخابات 90 روز سے زیادہ مدت تک کے لیے موخرکیے جاسکتے ہیں۔ان کے خطاب نے ملک میں جمہوریت کے مستقبل کے بارے میں کئی سوالات کو جنم دیتے ہوئے نئی بحث کو چھیڑدیا ہے اور لوگ ان کی آمد کے بارے میں مختلف نوعیت کی چہ میگوئیاں کر رہے ہیں۔یوں بعض حلقوں کی جانب سے لگائے جانے والے یہ الزامات سچ ثابت ہورہے ہیں کہ وہ کسی خاص مقصد کے تحت وطن واپس آئے ہیں، جس میں عام انتخابات کو التوا میں ڈال کر ٹیکنوکریٹک حکومت کے لیے راستہ ہموار کرنا ہے۔جس کے لیے بعض نادیدہ قوتیں کئی برسوں سے میدان صاف کررہی ہیں۔یہ تو آنے والا وقت طے کرے گا کہ ان کے عزائم کیا ہیں؟لیکن ان کے تقریر کے بین السطور اور آئین کی بعض شقوں کی جس اندازمیں تفاہیم پیش کی گئیں،ان سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ انتخابات کو فی الوقت ملتوی کرانے کی خواہش رکھتے ہیں ۔

جہاں ان مسائل کا تعلق ہے جن کی نشاندہی علامہ ڈاکٹر طاہر القادری نے 23 دسمبرکولاہور میںہونے والے جلسہ عام میں کی ہے،تو ان کی صداقت پرانگشت نمائی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔کیونکہ یہ مسائل پاکستانی عوام کے لیے مسلسل درد سر بن چکے ہیں،یعنی سیاست سے موروثیت کا خاتمہ، انتظامی ڈھانچہ میں بنیادی تبدیلیاں اور معاشی نمو کی راہ میں حائل رکاوٹوں کا دور کیا جانا وغیرہ ۔لیکن ان مسائل کے حل کے لیے وہ جس طریقہ کار کی وکالت کررہے ہیں،اس سے پاکستانیوں کی اکثریت متفق نظر نہیں آرہی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس وقت ہر متوشش شہری کے ذہن میں ایک ہی اہم سوال گردش کررہا ہے کہ مسائل کے حل کے لیے وہ کیا طریقہ کار یعنی Modus Operandi اختیار کیا جائے کہ سیاسی عمل بھی پٹری سے نہ اترنے پائے اور حالات میں بہتری کی سبیل بھی ہوسکے۔

اس کے علاوہ ماہرین سیاسیات وسماجیات اس بات پر متفق ہیں کہ دنیا کی معلوم تاریخ میں سیاسی تبدیلی صرف دو طریقوں ہی سے ممکن ہے۔ ایک پرچی اور دوسرے برچھی یعنی BallotیاBullet۔چونکہ خونی انقلابات نے انسانیت کو سوائے قتل وغارت گری کے کچھ نہیں دیا،اس لیے Bulletکے ذریعے تبدیلی کا زمانہ لدھ چکاہے اور اب پوری دنیا پرچی یعنی Ballotکے ذریعہ تبدیلی لائے جانے پر متفق ہوچکی ہے، جس کے مثبت اور دیر پا اثرات سامنے آئے ہیں۔

ہمیں یہ بات بھی ذہن میں رکھنا ہوگی کہ پاکستان میں اصلاح احوال کے نام پر کیے جانے والے ماورائے آئین اقدامات کی تاریخ بہت طویل ہے۔ ملک غلام محمد سے ایوب خان تک اور جنرل ضیاء الحق سے جنرل پرویز مشرف تک ہر آمر نے سیاسی جماعتوں کی نااہلی اور کرپشن کو بنیاد بناکر ملک میں ایک صاف و شفاف معاشرہ قائم کرنے کا دعویٰ کیا اور منتخب اسمبلیاں توڑ کر طویل عرصہ تک بلاشرکت غیرے حکمرانی کی۔مگر تاریخ گواہ ہے کہ ان کے ان اقدامات کے نتیجے میں ملک کے سیاسی وانتظامی ڈھانچے میں کسی قسم کی بہتری آنے کے بجائے پورا ریاستی ڈھانچہ ہی تباہی کے دہانے تک جاپہنچا اور جن خامیوں اور نقائص کوبنیاد بناکر منتخب حکومتیں ختم کی گئیں تھیں،ان میں کئی گنا اضافہ ہوا۔جب کہ گورننس میں در آنے والی کمزوریاںاور نقائص اس کے سوا تھے۔

پہلی افغان جنگ میں بلاسبب شرکت سے ملک کو موجودہ دہشت گردی کا شکار ہونے تک ہر سانحے کی پشت پر ماورائے آئین اقدامات کی چھاپ صاف نظر آتی ہے۔ جب کہ منتخب عوامی ادوار بے پناہ اندرونی وبیرونی دبائواور فیصلہ سازی میں کمزورہونے کے باوجود اصلاح احوال کے لیے کچھ نہ کچھ کرنے میں بہر حال کامیاب ہوئے ہیں،جس کی کئی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔آج بھی کمزور اور فیصلہ سازی کی صلاحیت سے محروم حکومت نے بیشک عوامی فلاح کا کوئی اہم کارنامہ سرانجام نہ دیا ہو،لیکن اٹھارویں ،انیسویں اور بیسویں آئینی ترامیم اورتمام صوبوں کے لیے قابل قبولNFCایوارڈکے ذریعے وفاق کے وجود کوقائم رکھنے کی کوشش ضرور کی ہے۔

اس کے علاوہ پاکستانیوں کی اکثریت کسی ایک نظام کے تسلسل کے بجائے اصلاح احوال کی حامی ہے۔اگر کوئی سیاسی جماعت صدارتی نظام کے ذریعہ اصلاح احوال چاہتی ہے یا متناسب نمایندگی کے ذریعے انتخابی عمل میں بہتری کی خواہشمند ہے،تو اس پر اعتراض نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن یہ تبدیلیاں ماورائے آئین اور عوامی رائے کے بغیر نہیں ہونی چاہئیں۔

ان تبدیلیوں کے لیے بہتر راستہ یہی ہے کہ جو جماعت اس قسم کی کلیدی تبدیلیوںکی خواہشمند ہے، وہ ان تبدیلیوں کو اپنے انتخابی منشور کا حصہ بناکر انتخابی عمل میں اترے اور عوام کو موبلائز کرتے ہوئے ان سے ان تبدیلیوں کے حق میں ووٹ کے ذریعے رائے حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ اگر عوام اس متبادل نظام کو قبول کرتے ہوئے تبدیلی کی داعی جماعت کو اتنی اکثریت دیتے ہیں کہ وہ آئین میں تبدیلی لاکر نظم حکمرانی میں کلیدی تبدیلیاںلے آئے،تو سو بسم اللہ کسی کو ان تبدیلیوں سے کیا اختلاف ہوسکتا ہے۔ مگر محض نعرے بازی، منتخب پارلیمنٹ کی بلیک میلنگ اور انتخابات کو مؤخرکرنے کے حربے کسی بھی طور پر قابل قبول نہیں ہو سکتے۔اس کے علاوہ سیاسیات کے ایک ادنیٰ طالب علم کے طور پر ہمارا یہ بھی مشاہدہ ہے کہ جلسے کسی حد تک سیاسی جماعت کی مقبولیت کا اظہار تو ضرور ہوتے ہیں، لیکن اس کی کامیابی کی سند نہیں ہوتے۔اس لیے جلسوں کی تعداد کو بنیاد بنا کر فیصلے صادر نہیں کیے جاسکتے۔

اس کے علاوہ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ دیگر بیشمار پاکستانیوں کی طرح ہم بھی یہی سمجھ رہے تھے کہ حضرت شیخ الاسلام کینیڈاسے واپسی پر اپنی سیاسی جماعت پاکستان عوامی تحریک کو دوبارہ فعال کریں گے،جس کے تحت انھوں نے2002ء کے انتخابات میں پورے ملک سے حصہ لیا تھا۔اس لیے توقع یہی تھی کہ حکمرانی کی جن خامیوںاور نقائص کی انھوں نے اپنی تقریر میں نشاندہی کی ہے، ان کے حل کو اپنی جماعت کے انتخابی منشور کا حصہ بنا کرآیندہ انتخاباتی عمل میں اتریں گے۔لیکن یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ انھوں نے اپنے اس جلسے کے لیے سیاسی جماعت کے بجائے مذہبی ادارے منہاج القران کے پلیٹ فارم کو استعمال کیا۔اس صورتحال نے بھی لوگوں کے ذہنوں میں خاصا کنفیوژن پیدا کیا ہے اور وہ سوال کررہے ہیں کہ علامہ صاحب نے اس جلسہ میں جو معروضات پیش کیں،وہ بحیثیت ایک مذہبی اسکالر تھیں یا ایک سیاسی مدبر کے طور پر۔ کیونکہ منہاج القران خالصتاً ایک علمی وتحقیقی ادارہ ہے،جسے سیاست میں ملوث کرنا ،نئے مسائل پیدا کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔اس لیے ہم امید کرتے ہیں کہ شیخ الاسلام علامہ ڈاکٹر طاہر القادری پاکستان میں جمہوری عمل کو مہمیز لگانے کے لیے اپنی جماعت پاکستان عوامی تحریک کو فعال بناکراس کے پلیٹ فارم سے آیندہ انتخابات میں بھرپورشرکت کریں گے اور منہاج القران جیسے تحقیقی ادارے کوسیاست سے دور رکھنے کی کوشش کریں گے۔

پاکستان میں پے در پے ایسے واقعات رونما ہو رہے ہیں،جن کے نتیجے میں جمہوریت کا سورج غروب ہوتا نظر آرہا ہے۔ایک ایسے وقت میں جب انتخابات سرپر ہیں، عوامی نیشنل پارٹی کے اہم رہنما اورسینئر صوبائی وزیر بشیر احمد بلور کے قتل نے نہ صرف عام انتخابات کے انعقاد کو غیر یقینی بنایاہے، بلکہ ملک میںروشن خیالی پر مبنی لبرل سیاست کو ایک بہت بڑے خطرے سے دوچارکردیا ہے۔ اس صورتحال کی ذمے داری اسٹبلشمنٹ کی دہری پالیسیوں اور خطے کے خصوصی حالات کے علاوہ لبرل اور سیکولر سیاست کی دعویدار جماعتوں کی غیر حقیقت پسندانہ حکمت عملیوں پر بھی عائد ہوتی ہے۔9/11کے بعد پاکستان کی لبرل اورسیکولر سیاسی قوتوں کو مجتمع ہونے اور ایک واضح سیاسی پالیسی ترتیب دینے کا نادر موقع ہاتھ آیا تھا، جسے ان قوتوں نے اپنی کوتاہ بینی پر مبنی سیاسی سوچ کی وجہ سے ضایع کردیا۔یوںامریکی استعمار کے خلاف جدوجہد،جو بائیں بازو کی سیاست کی اساس اور محور رہی ہے،موجودہ حالات میںان مذہبی قوتوں کے لیے موثرہتھیار بن چکی ہے،جوکل تک امریکا کی کاسہ لیسی میں فخر محسوس کرتی تھیں۔آج بھی بائیں بازوکی سیاسی قوتیں اپنے اندرونی خلفشار،جمہوریت کے بارے میں مبہم تصورات اورخطے کی مجموعی صورتحال کے حوالے سے غیر واضح سوچ کی وجہ سے کوئی ٹھوس کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیںہے۔نتیجتاً وہ قوتیں سیاسی عمل پر تیزی سے حاوی آرہی ہیں، جو اس ملک میں جمہوری عمل کا قلع قمع کرکے تھیوکریسی کو مسلط کرنے کی خواہشمند ہیں۔

دوسری جانب شیخ الاسلام ڈاکٹرطاہرالقادری،جو گزشتہ کئی برسوں سے کینیڈا میں مقیم تھے اور غالباً وہاں کی شہریت بھی حاصل کرلی تھی، اچانک پاکستان تشریف لے آئے ہیں۔ وطن واپس پہنچنے کے فوراً بعد انھوں نے لاہورمیںمینار پاکستان پر بڑے جلسے سے خطاب کیا اور ان مسائل کو دہرایا ہے، جن پر مختلف حلقوں میں طویل عرصے سے بحث ومباحثہ جاری ہے۔اس کے علاوہ انھوں نے حکومت کو اصلاح احوال کے لیے تین ہفتوں کی مہلت دی ہے۔ان کا یہ بھی کہناہے کہ آئین کی رو سے انتخابات 90 روز سے زیادہ مدت تک کے لیے موخرکیے جاسکتے ہیں۔ان کے خطاب نے ملک میں جمہوریت کے مستقبل کے بارے میں کئی سوالات کو جنم دیتے ہوئے نئی بحث کو چھیڑدیا ہے اور لوگ ان کی آمد کے بارے میں مختلف نوعیت کی چہ میگوئیاں کر رہے ہیں۔یوں بعض حلقوں کی جانب سے لگائے جانے والے یہ الزامات سچ ثابت ہورہے ہیں کہ وہ کسی خاص مقصد کے تحت وطن واپس آئے ہیں، جس میں عام انتخابات کو التوا میں ڈال کر ٹیکنوکریٹک حکومت کے لیے راستہ ہموار کرنا ہے۔جس کے لیے بعض نادیدہ قوتیں کئی برسوں سے میدان صاف کررہی ہیں۔یہ تو آنے والا وقت طے کرے گا کہ ان کے عزائم کیا ہیں؟لیکن ان کے تقریر کے بین السطور اور آئین کی بعض شقوں کی جس اندازمیں تفاہیم پیش کی گئیں،ان سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ انتخابات کو فی الوقت ملتوی کرانے کی خواہش رکھتے ہیں ۔

جہاںان مسائل کا تعلق ہے جن کی نشاندہی علامہ ڈاکٹر طاہر القادری نے 23 دسمبرکولاہور میںہونے والے جلسہ عام میں کی ہے،تو ان کی صداقت پرانگشت نمائی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔کیونکہ یہ مسائل پاکستانی عوام کے لیے مسلسل درد سر بن چکے ہیں،یعنی سیاست سے موروثیت کا خاتمہ، انتظامی ڈھانچہ میں بنیادی تبدیلیاں اور معاشی نمو کی راہ میں حائل رکاوٹوں کا دور کیا جانا وغیرہ ۔لیکن ان مسائل کے حل کے لیے وہ جس طریقہ کار کی وکالت کررہے ہیں،اس سے پاکستانیوں کی اکثریت متفق نظر نہیں آرہی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس وقت ہر متوشش شہری کے ذہن میں ایک ہی اہم سوال گردش کررہا ہے کہ مسائل کے حل کے لیے وہ کیا طریقہ کار یعنی Modus Operandi اختیار کیا جائے کہ سیاسی عمل بھی پٹری سے نہ اترنے پائے اور حالات میں بہتری کی سبیل بھی ہوسکے۔

اس کے علاوہ ماہرین سیاسیات وسماجیات اس بات پر متفق ہیں کہ دنیا کی معلوم تاریخ میں سیاسی تبدیلی صرف دو طریقوں ہی سے ممکن ہے۔ ایک پرچی اور دوسرے برچھی یعنی BallotیاBullet۔چونکہ خونی انقلابات نے انسانیت کو سوائے قتل وغارت گری کے کچھ نہیں دیا،اس لیے Bulletکے ذریعے تبدیلی کا زمانہ لدھ چکاہے اور اب پوری دنیا پرچی یعنی Ballotکے ذریعہ تبدیلی لائے جانے پر متفق ہوچکی ہے، جس کے مثبت اور دیر پا اثرات سامنے آئے ہیں۔

ہمیں یہ بات بھی ذہن میں رکھنا ہوگی کہ پاکستان میں اصلاح احوال کے نام پر کیے جانے والے ماورائے آئین اقدامات کی تاریخ بہت طویل ہے ۔ملک غلام محمد سے ایوب خان تک اور جنرل ضیاء الحق سے جنرل پرویز مشرف تک ہر آمر نے سیاسی جماعتوں کی نااہلی اور کرپشن کو بنیاد بناکر ملک میں ایک صاف و شفاف معاشرہ قائم کرنے کا دعویٰ کیا اور منتخب اسمبلیاں توڑ کر طویل عرصہ تک بلاشرکت غیرے حکمرانی کی۔مگر تاریخ گواہ ہے کہ ان کے ان اقدامات کے نتیجے میں ملک کے سیاسی وانتظامی ڈھانچے میں کسی قسم کی بہتری آنے کے بجائے پورا ریاستی ڈھانچہ ہی تباہی کے دہانے تک جاپہنچا اور جن خامیوں اور نقائص کوبنیاد بناکر منتخب حکومتیں ختم کی گئیں تھیں،ان میں کئی گنا اضافہ ہوا۔جب کہ گورننس میں در آنے والی کمزوریاںاور نقائص اس کے سوا تھے۔ پہلی افغان جنگ میں بلاسبب شرکت سے ملک کو موجودہ دہشت گردی کا شکار ہونے تک ہر سانحے کی پشت پر ماورائے آئین اقدامات کی چھاپ صاف نظر آتی ہے۔ جب کہ منتخب عوامی ادوار بے پناہ اندرونی وبیرونی دبائواور فیصلہ سازی میں کمزورہونے کے باوجود اصلاح احوال کے لیے کچھ نہ کچھ کرنے میں بہر حال کامیاب ہوئے ہیں،جس کی کئی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔آج بھی کمزور اور فیصلہ سازی کی صلاحیت سے محروم حکومت نے بیشک عوامی فلاح کا کوئی اہم کارنامہ سرانجام نہ دیا ہو،لیکن اٹھارویں ،انیسویں اور بیسویں آئینی ترامیم اورتمام صوبوں کے لیے قابل قبولNFCایوارڈکے ذریعے وفاق کے وجود کوقائم رکھنے کی کوشش ضرور کی ہے۔

اس کے علاوہ پاکستانیوں کی اکثریت کسی ایک نظام کے تسلسل کے بجائے اصلاح احوال کی حامی ہے۔اگر کوئی سیاسی جماعت صدارتی نظام کے ذریعہ اصلاح احوال چاہتی ہے یا متناسب نمایندگی کے ذریعے انتخابی عمل میں بہتری کی خواہشمند ہے،تو اس پر اعتراض نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن یہ تبدیلیاں ماورائے آئین اور عوامی رائے کے بغیر نہیں ہونی چاہئیں۔ان تبدیلیوں کے لیے بہتر راستہ یہی ہے کہ جو جماعت اس قسم کی کلیدی تبدیلیوںکی خواہشمند ہے، وہ ان تبدیلیوں کو اپنے انتخابی منشور کا حصہ بناکر انتخابی عمل میں اترے اور عوام کو موبلائز کرتے ہوئے ان سے ان تبدیلیوں کے حق میں ووٹ کے ذریعے رائے حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ اگر عوام اس متبادل نظام کو قبول کرتے ہوئے تبدیلی کی داعی جماعت کو اتنی اکثریت دیتے ہیں کہ وہ آئین میں تبدیلی لاکر نظم حکمرانی میں کلیدی تبدیلیاںلے آئے،تو سو بسم اللہ کسی کو ان تبدیلیوں سے کیا اختلاف ہوسکتا ہے۔ مگر محض نعرے بازی، منتخب پارلیمنٹ کی بلیک میلنگ اور انتخابات کو مؤخرکرنے کے حربے کسی بھی طور پر قابل قبول نہیں ہو سکتے۔اس کے علاوہ سیاسیات کے ایک ادنیٰ طالب علم کے طور پر ہمارا یہ بھی مشاہدہ ہے کہ جلسے کسی حد تک سیاسی جماعت کی مقبولیت کا اظہار تو ضرور ہوتے ہیں، لیکن اس کی کامیابی کی سند نہیں ہوتے۔اس لیے جلسوں کی تعداد کو بنیاد بنا کر فیصلے صادر نہیں کیے جاسکتے۔

اس کے علاوہ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ دیگر بیشمار پاکستانیوں کی طرح ہم بھی یہی سمجھ رہے تھے کہ حضرت شیخ الاسلام کینیڈاسے واپسی پر اپنی سیاسی جماعت پاکستان عوامی تحریک کو دوبارہ فعال کریں گے،جس کے تحت انھوں نے2002ء کے انتخابات میں پورے ملک سے حصہ لیا تھا۔اس لیے توقع یہی تھی کہ حکمرانی کی جن خامیوںاور نقائص کی انھوں نے اپنی تقریر میں نشاندہی کی ہے، ان کے حل کو اپنی جماعت کے انتخابی منشور کا حصہ بنا کرآیندہ انتخاباتی عمل میں اتریں گے۔لیکن یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ انھوں نے اپنے اس جلسے کے لیے سیاسی جماعت کے بجائے مذہبی ادارے منہاج القران کے پلیٹ فارم کو استعمال کیا۔اس صورتحال نے بھی لوگوں کے ذہنوں میں خاصا کنفیوژن پیدا کیا ہے اور وہ سوال کررہے ہیں کہ علامہ صاحب نے اس جلسہ میں جو معروضات پیش کیں،وہ بحیثیت ایک مذہبی اسکالر تھیں یا ایک سیاسی مدبر کے طور پر۔ کیونکہ منہاج القران خالصتاً ایک علمی وتحقیقی ادارہ ہے،جسے سیاست میں ملوث کرنا ،نئے مسائل پیدا کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔اس لیے ہم امید کرتے ہیں کہ شیخ الاسلام علامہ ڈاکٹر طاہر القادری پاکستان میں جمہوری عمل کو مہمیز لگانے کے لیے اپنی جماعت پاکستان عوامی تحریک کو فعال بناکراس کے پلیٹ فارم سے آیندہ انتخابات میں بھرپورشرکت کریں گے اور منہاج القران جیسے تحقیقی ادارے کوسیاست سے دور رکھنے کی کوشش کریں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔