ایک بار پھر پتلی تماشا
اکھاڑے میں اترنے والوں نے اکھاڑی کی مٹی بھی چاٹ لی ہے، پوری طرح کشتی لڑنے کو تیار ہیں اور اکھاڑے میں جیت ’’زورآور‘‘۔۔۔
بعض دانشوروں کا یہ کہنا ہے کہ ''پہلی بارکسی فوجی چھتری کے بغیر ایک جمہوری حکومت نے اپنے پانچ سال پورے کیے ہیں'' کسی مذاق سے کم نہیں۔ کیا ثقہ اور سمجھدار لوگ نہیں جانتے کہ پاکستان میں کوئی حکومت ایک مضبوط ''چھتری'' کے بغیر قائم ہی نہیں ہوسکتی، چہ جائیکہ اس کا پانچ سال پورے کرنا۔ اگر مزید تصدیق کی ضرورت ہو تو بریگیڈیئر صدیق سالک کی کتاب ''میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا'' میں وہ باب پڑھ لیں جہاں الیکشن سے پہلے اور بعد میں نشستوں کی بندر بانٹ کا ذکر ہے۔
پاکستان میں کسی بھی حکومت کے قیام کے لیے، دو چھتریوں کی ضرورت ہمیشہ رہتی ہے، ایک امریکا کی، جس کے آشیرواد اور اجازت کے بغیر کچھ نہیں ہوسکتا اور دوسری وہ چھتری جو ہمیشہ اندرونی طور پر سایہ فگن رہتی ہے۔ لیکن نام نہاد جمہوری حکومت میں وہ نظر نہیں آتی، شاید کیموفلاج ہوجاتی ہے۔ دراصل یہ بات جانتے تو سبھی ہیں لیکن نہ تو ہمارے بیشتر دانش ور اس کا اعتراف اپنی تحریر میں کرتے ہیں نہ ہی ٹاک شوز میں۔ کیونکہ اپنی اپنی مجبوریاں ہیں۔ یہ عشق تو ہے نہیں جس میں کوئی دنیاداری یا مصلحت نہ ہو۔ دوسری بات یہ کہ ''جمہوریت'' کا ڈھنڈورا پیٹنے والے ذرا جمہوریت کی تعریف پر تو غورکریں۔ جس کے تحت عوام کو اپنے نمایندے چننے کا حق ہوتا ہے۔ عوام اپنے ووٹ کے ذریعے منتخب نمایندوں کو اسمبلیوں میں لاتے ہیں جو عوام ہی کے سامنے جواب دہ بھی ہوتے ہیں۔
ان حوالوں سے دیکھا جائے تو یہ بات سورج کی روشنی کی طرح عیاں ہے کہ پاکستان میں انتخابات ذات، برادری، قبائلی سسٹم، جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے گٹھ جوڑ کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ اسی لیے کوئی بھی جماعت کبھی عام آدمی کو پارٹی ٹکٹ نہیں دیتی۔ وہ جماعتیں جو قومی سطح پر الیکشن لڑتی ہیں وہ یہ دیکھ کر ٹکٹ دیتی ہیں کہ کون سا امیدوار اپنی برادری، خاندانی نشست اور پیری مریدی کے طفیل ان کو جتوا سکتا ہے۔ پنجاب کے نئے گورنر کے بارے میں بھی یہ قیاس کیا جا رہا ہے کہ ان کے طفیل پی پی کو جنوبی پنجاب میں کامیابی حاصل ہوگی۔ ویسے بھی الیکشن ہمارے ملک میں عام آدمی کا نہ تو مسئلہ ہے اور نہ ہی وہ الیکشن لڑنے کے خواب دیکھ سکتا ہے کہ یہ کروڑوں کا کھیل ہے اور جو کروڑوں خرچ کرکے اسمبلی میں جائے گا، اولین ترجیح اس کی یہ ہوگی کہ کروڑوں کے نقصان کو اربوں کے منافع میں بدل دے۔
اس کے علاوہ پاکستان کی سیاسی فضاء میں ہمیشہ سے آزاد پرندوں کا داخلہ ممنوع ہے۔ یہاں خاندانی سیاست کا راج ہے۔ باپ، بیٹا، بیٹی، نواسا، پوتا، بھاوج، بھائی، چچا، تایا، بہو، سالے سالیاں وغیرہ۔ پچھلی تمام فہرستوں پر نظر ڈالیے تو بات مزید واضح ہوجائے گی کہ جن خواتین کو بڑے اہتمام سے اسمبلیوں کی زینت بنایا گیا ہے۔ ان کا شجرہ نسب کن کن سیاست دانوں سے ملتا ہے۔ خواہ پی پی ہو یا نواز لیگ، یا سندھی قوم پرست جماعتیں یا پیر پگارا کی جماعت۔ ہر جگہ رشتہ داریوں کا جال نظر آئے گا اور اس پر مزید ستم ظریفی یہ کہ جہالت کو بوجوہ صاحبان اقتدار زندہ رکھنا چاہتے ہیں کہ اگر قوم پڑھ لکھ گئی تو وہ سر اٹھا کر چلیں گے نہ کہ جہالت کے سبب ہمیشہ سرداروں، خانوں، پیروں، وڈیروں اور جاگیرداروں کے قدموں کو چھونا باعث برکت سمجھیں گے۔ جمہوریت کا راگ الاپنے والے اس حقیقت سے آنکھیں کیوں چراتے ہیں کہ پاکستان کے دیہاتوں میں وہاں لوگوں کو جس نشان پر مہر لگانے کی ہدایت کردی جاتی ہے، وہ اس کے علاوہ سوچ بھی نہیں سکتے؟ کیونکہ نافرمانی کی صورت میں ان کے خاندان پر کیا بیتے گی، اس کا تصور ہی ان کے لیے روح فرسا ہے۔
اکھاڑے میں اترنے والوں نے اکھاڑی کی مٹی بھی چاٹ لی ہے، پوری طرح کشتی لڑنے کو تیار ہیں اور اکھاڑے میں جیت ''زورآور'' کی ہوتی ہے۔ یہاں زور آور کون ہے اور فتح کا تاج کس کے سر پہ سجے گا؟ اس کو جاننے کے لیے ان مضبوط اور صاحب اقتدار لوگوں کی انگلیوں پر نظر رکھنی پڑے گی جو کٹھ پتلیاں نچانے کا فن جانتے ہیں، کٹھ پتلیوں کا تماشہ قیام پاکستان سے لے کر آج تک دیکھا جاسکتا ہے۔ اسی لیے قوم مایوسیوں کے گرداب میں پھنسی ہوئی ہے، کیونکہ وہ جانتی ہے کہ انھیں مہنگائی، غربت اور بے روزگاری کی دلدل سے نکالنے کوئی نہیں آئے گا، لاکھ موجودہ حکومت اپنے پانچ سال پورے کرنے کا جشن ایوان صدر میں منائے، ٹاک شوز کے ذریعے ایسے ایسے طوفانی اقدامات کا ذکر کرے، سرکاری ملازمین کو عمر کے اضافے کا دانہ ڈالے، بے مثال ترقیوں کا ذکر کرے اور خود ہی اپنے گلے میں ہار ڈالے۔
لیکن حقیقت تو وہ خود بھی جانتے ہیں کہ اپنے دور اقتدار میں پی پی نے کیا ''کار ہائے نمایاں'' انجام دیے ہیں، سوائے بجلی کی اذیت ناک لوڈشیڈنگ، سی این جی کی مصنوعی قلت اور اشیائے خورونوش کی قیمتوں کا روزمرہ کی بنیاد پر بے پناہ اضافے کے، البتہ زبانی دعوے بہت ہیں۔ اب تو لوگوں نے سوچنا بھی چھوڑ دیا ہے کہ اگلے الیکشن ہوں گے بھی یا نہیں؟ اور اگر ہوگئے تو جیت کس کا مقدر ہوگی؟ کیونکہ سب ہی جانتے ہیں کہ ہوگا وہی جو اب تک ہوتا آیا ہے، یعنی ''لڑاؤ اور حکومت کرو'' اور اپنے اپنے خزانوں کو بیرون ملک منتقل کرو۔ ملک سے باہر شہزادوں کی زندگی گزارو، وطن واپس آؤ تو خود کو ''معصوم'' ظاہر کرو۔
اب ذرا طاہر القادری کے خطاب اور ان کے جلسے پر بھی نظر ڈال لی جائے، تو یہ چشم کشا حقیقت بھی سامنے آجاتی ہے کہ خصوصی طور پر تیار کرائے گئے بلٹ پروف شیشے کے کیبن میں کھڑے ہوکر جو زور دار تقریر، اسے دیکھ کر نجانے کیوں یہ خیال آیا کہ قادری صاحب نے کیبن میں پرفارمنس (Performance) دینے سے پہلے انھوں نے ''چھتری'' کے سائے میں آئینہ سامنے رکھ کر باقاعدہ ریہرسل کی ہے لیکن اس بلٹ پروف شیشے کے کیبن کی کیا ضرورت تھی؟ جوکہ عموماً مقبول اور خطرات میں گھرے لیڈروں کے لیے ہوتی ہے۔ کیا وہ مقبول لیڈر ہیں؟ پھر ان کا یہ کہنا کہ ''میرے پیچھے کوئی ملک ہے نا ایجنسی'' بہت کچھ بتا دیتی ہے کہ پاکستان میں پرزور تردید ہمیشہ حقائق کی ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی تقریباً تمام اخبارات کے صفحۂ اول پر بھی وہ چھائے رہے۔
بعض اخبارات نے انھیں ایک ایسا لیڈر قرار دیا جو ایک کرشماتی شخصیت کا مالک ہے اور ملک بچانے آیا ہے۔ ان کا یہ فرمانا کہ الیکشن 90 دن میں کرانا ضروری نہیں، کیونکہ آئین میں اس کی گنجائش ہے۔ یہ ان کی پوری تقریر کا نچوڑ ہے۔ مجمع کے لیے ان کا یہ فرمانا کہ لوگ خودبخود زیور تک بیچ کر آئے ہیں، ایک بہت بڑا انکشاف ہے، جہاں دو وقت پیٹ بھرنا مشکل ہو، وہاں زیور کہاں سے آئیں گے؟ اس کے علاوہ شاید انھیں یاد نہ رہا ہو کہ موجودہ سال میں الیکشن سے کچھ ہی دن قبل امریکا میں طوفان نے کیا تباہی مچائی تھی۔ لیکن انتخابات اپنے وقت پر ہی ہوئے، دیگر ممالک میں بھی یہ مثالیں ملتی ہیں، لیکن قادری صاحب کا انتخابات کو آگے بڑھانے کا اشارہ بہت سے رازوں پر سے پردہ اٹھا رہا ہے۔ بہرحال انھیں ان قوتوں کا ممنون ہونا چاہیے جنہوں نے اچانک انھیں لیڈر بنا دیا۔
اس ملک کا مسئلہ تعلیم کی کمی، مہنگائی، کرپشن اور بے روزگاری ہے۔ قادری صاحب نے اپنی یاد کی ہوئی تقریر میں ان جینوئن مسائل کو حل کرنے کی کوئی بات نہیں کی۔ کیونکہ یہ بنیادی مسائل ان کے ایجنڈے میں شامل نہیں۔ عوام کی اکثریت کو انتخابات سے کوئی دلچسپی نہیں اور نہ ہی قادری صاحب کے جلسے میں آنے والے لوگ کسی امید پر یہاں آئے تھے کہ پلک جھپکتے ہی ان کے مسائل حل ہوجائیں گے۔ اپنے ''مقبول'' لیڈر کی ایک جھلک دیکھنے جو معیشت کی ڈوبتی نیّا کو پل بھر میں سنبھال لے گا۔ اور 14 جنوری کو ایک نیا سورج طلوع ہوگا جو پاکستان کی کایا پلٹ دے گا۔ جب کہ اصل حقیقت صرف یہ ہے کہ حکمرانوں کے لیے عوام صرف ٹشو پیپر ہیں، جنھیں انتخابات میں استعمال کرنے کے لیے خریدا جاتا ہے اور بعد میں پھینک دیا جاتا ہے۔
پاکستان میں کسی بھی حکومت کے قیام کے لیے، دو چھتریوں کی ضرورت ہمیشہ رہتی ہے، ایک امریکا کی، جس کے آشیرواد اور اجازت کے بغیر کچھ نہیں ہوسکتا اور دوسری وہ چھتری جو ہمیشہ اندرونی طور پر سایہ فگن رہتی ہے۔ لیکن نام نہاد جمہوری حکومت میں وہ نظر نہیں آتی، شاید کیموفلاج ہوجاتی ہے۔ دراصل یہ بات جانتے تو سبھی ہیں لیکن نہ تو ہمارے بیشتر دانش ور اس کا اعتراف اپنی تحریر میں کرتے ہیں نہ ہی ٹاک شوز میں۔ کیونکہ اپنی اپنی مجبوریاں ہیں۔ یہ عشق تو ہے نہیں جس میں کوئی دنیاداری یا مصلحت نہ ہو۔ دوسری بات یہ کہ ''جمہوریت'' کا ڈھنڈورا پیٹنے والے ذرا جمہوریت کی تعریف پر تو غورکریں۔ جس کے تحت عوام کو اپنے نمایندے چننے کا حق ہوتا ہے۔ عوام اپنے ووٹ کے ذریعے منتخب نمایندوں کو اسمبلیوں میں لاتے ہیں جو عوام ہی کے سامنے جواب دہ بھی ہوتے ہیں۔
ان حوالوں سے دیکھا جائے تو یہ بات سورج کی روشنی کی طرح عیاں ہے کہ پاکستان میں انتخابات ذات، برادری، قبائلی سسٹم، جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے گٹھ جوڑ کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ اسی لیے کوئی بھی جماعت کبھی عام آدمی کو پارٹی ٹکٹ نہیں دیتی۔ وہ جماعتیں جو قومی سطح پر الیکشن لڑتی ہیں وہ یہ دیکھ کر ٹکٹ دیتی ہیں کہ کون سا امیدوار اپنی برادری، خاندانی نشست اور پیری مریدی کے طفیل ان کو جتوا سکتا ہے۔ پنجاب کے نئے گورنر کے بارے میں بھی یہ قیاس کیا جا رہا ہے کہ ان کے طفیل پی پی کو جنوبی پنجاب میں کامیابی حاصل ہوگی۔ ویسے بھی الیکشن ہمارے ملک میں عام آدمی کا نہ تو مسئلہ ہے اور نہ ہی وہ الیکشن لڑنے کے خواب دیکھ سکتا ہے کہ یہ کروڑوں کا کھیل ہے اور جو کروڑوں خرچ کرکے اسمبلی میں جائے گا، اولین ترجیح اس کی یہ ہوگی کہ کروڑوں کے نقصان کو اربوں کے منافع میں بدل دے۔
اس کے علاوہ پاکستان کی سیاسی فضاء میں ہمیشہ سے آزاد پرندوں کا داخلہ ممنوع ہے۔ یہاں خاندانی سیاست کا راج ہے۔ باپ، بیٹا، بیٹی، نواسا، پوتا، بھاوج، بھائی، چچا، تایا، بہو، سالے سالیاں وغیرہ۔ پچھلی تمام فہرستوں پر نظر ڈالیے تو بات مزید واضح ہوجائے گی کہ جن خواتین کو بڑے اہتمام سے اسمبلیوں کی زینت بنایا گیا ہے۔ ان کا شجرہ نسب کن کن سیاست دانوں سے ملتا ہے۔ خواہ پی پی ہو یا نواز لیگ، یا سندھی قوم پرست جماعتیں یا پیر پگارا کی جماعت۔ ہر جگہ رشتہ داریوں کا جال نظر آئے گا اور اس پر مزید ستم ظریفی یہ کہ جہالت کو بوجوہ صاحبان اقتدار زندہ رکھنا چاہتے ہیں کہ اگر قوم پڑھ لکھ گئی تو وہ سر اٹھا کر چلیں گے نہ کہ جہالت کے سبب ہمیشہ سرداروں، خانوں، پیروں، وڈیروں اور جاگیرداروں کے قدموں کو چھونا باعث برکت سمجھیں گے۔ جمہوریت کا راگ الاپنے والے اس حقیقت سے آنکھیں کیوں چراتے ہیں کہ پاکستان کے دیہاتوں میں وہاں لوگوں کو جس نشان پر مہر لگانے کی ہدایت کردی جاتی ہے، وہ اس کے علاوہ سوچ بھی نہیں سکتے؟ کیونکہ نافرمانی کی صورت میں ان کے خاندان پر کیا بیتے گی، اس کا تصور ہی ان کے لیے روح فرسا ہے۔
اکھاڑے میں اترنے والوں نے اکھاڑی کی مٹی بھی چاٹ لی ہے، پوری طرح کشتی لڑنے کو تیار ہیں اور اکھاڑے میں جیت ''زورآور'' کی ہوتی ہے۔ یہاں زور آور کون ہے اور فتح کا تاج کس کے سر پہ سجے گا؟ اس کو جاننے کے لیے ان مضبوط اور صاحب اقتدار لوگوں کی انگلیوں پر نظر رکھنی پڑے گی جو کٹھ پتلیاں نچانے کا فن جانتے ہیں، کٹھ پتلیوں کا تماشہ قیام پاکستان سے لے کر آج تک دیکھا جاسکتا ہے۔ اسی لیے قوم مایوسیوں کے گرداب میں پھنسی ہوئی ہے، کیونکہ وہ جانتی ہے کہ انھیں مہنگائی، غربت اور بے روزگاری کی دلدل سے نکالنے کوئی نہیں آئے گا، لاکھ موجودہ حکومت اپنے پانچ سال پورے کرنے کا جشن ایوان صدر میں منائے، ٹاک شوز کے ذریعے ایسے ایسے طوفانی اقدامات کا ذکر کرے، سرکاری ملازمین کو عمر کے اضافے کا دانہ ڈالے، بے مثال ترقیوں کا ذکر کرے اور خود ہی اپنے گلے میں ہار ڈالے۔
لیکن حقیقت تو وہ خود بھی جانتے ہیں کہ اپنے دور اقتدار میں پی پی نے کیا ''کار ہائے نمایاں'' انجام دیے ہیں، سوائے بجلی کی اذیت ناک لوڈشیڈنگ، سی این جی کی مصنوعی قلت اور اشیائے خورونوش کی قیمتوں کا روزمرہ کی بنیاد پر بے پناہ اضافے کے، البتہ زبانی دعوے بہت ہیں۔ اب تو لوگوں نے سوچنا بھی چھوڑ دیا ہے کہ اگلے الیکشن ہوں گے بھی یا نہیں؟ اور اگر ہوگئے تو جیت کس کا مقدر ہوگی؟ کیونکہ سب ہی جانتے ہیں کہ ہوگا وہی جو اب تک ہوتا آیا ہے، یعنی ''لڑاؤ اور حکومت کرو'' اور اپنے اپنے خزانوں کو بیرون ملک منتقل کرو۔ ملک سے باہر شہزادوں کی زندگی گزارو، وطن واپس آؤ تو خود کو ''معصوم'' ظاہر کرو۔
اب ذرا طاہر القادری کے خطاب اور ان کے جلسے پر بھی نظر ڈال لی جائے، تو یہ چشم کشا حقیقت بھی سامنے آجاتی ہے کہ خصوصی طور پر تیار کرائے گئے بلٹ پروف شیشے کے کیبن میں کھڑے ہوکر جو زور دار تقریر، اسے دیکھ کر نجانے کیوں یہ خیال آیا کہ قادری صاحب نے کیبن میں پرفارمنس (Performance) دینے سے پہلے انھوں نے ''چھتری'' کے سائے میں آئینہ سامنے رکھ کر باقاعدہ ریہرسل کی ہے لیکن اس بلٹ پروف شیشے کے کیبن کی کیا ضرورت تھی؟ جوکہ عموماً مقبول اور خطرات میں گھرے لیڈروں کے لیے ہوتی ہے۔ کیا وہ مقبول لیڈر ہیں؟ پھر ان کا یہ کہنا کہ ''میرے پیچھے کوئی ملک ہے نا ایجنسی'' بہت کچھ بتا دیتی ہے کہ پاکستان میں پرزور تردید ہمیشہ حقائق کی ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی تقریباً تمام اخبارات کے صفحۂ اول پر بھی وہ چھائے رہے۔
بعض اخبارات نے انھیں ایک ایسا لیڈر قرار دیا جو ایک کرشماتی شخصیت کا مالک ہے اور ملک بچانے آیا ہے۔ ان کا یہ فرمانا کہ الیکشن 90 دن میں کرانا ضروری نہیں، کیونکہ آئین میں اس کی گنجائش ہے۔ یہ ان کی پوری تقریر کا نچوڑ ہے۔ مجمع کے لیے ان کا یہ فرمانا کہ لوگ خودبخود زیور تک بیچ کر آئے ہیں، ایک بہت بڑا انکشاف ہے، جہاں دو وقت پیٹ بھرنا مشکل ہو، وہاں زیور کہاں سے آئیں گے؟ اس کے علاوہ شاید انھیں یاد نہ رہا ہو کہ موجودہ سال میں الیکشن سے کچھ ہی دن قبل امریکا میں طوفان نے کیا تباہی مچائی تھی۔ لیکن انتخابات اپنے وقت پر ہی ہوئے، دیگر ممالک میں بھی یہ مثالیں ملتی ہیں، لیکن قادری صاحب کا انتخابات کو آگے بڑھانے کا اشارہ بہت سے رازوں پر سے پردہ اٹھا رہا ہے۔ بہرحال انھیں ان قوتوں کا ممنون ہونا چاہیے جنہوں نے اچانک انھیں لیڈر بنا دیا۔
اس ملک کا مسئلہ تعلیم کی کمی، مہنگائی، کرپشن اور بے روزگاری ہے۔ قادری صاحب نے اپنی یاد کی ہوئی تقریر میں ان جینوئن مسائل کو حل کرنے کی کوئی بات نہیں کی۔ کیونکہ یہ بنیادی مسائل ان کے ایجنڈے میں شامل نہیں۔ عوام کی اکثریت کو انتخابات سے کوئی دلچسپی نہیں اور نہ ہی قادری صاحب کے جلسے میں آنے والے لوگ کسی امید پر یہاں آئے تھے کہ پلک جھپکتے ہی ان کے مسائل حل ہوجائیں گے۔ اپنے ''مقبول'' لیڈر کی ایک جھلک دیکھنے جو معیشت کی ڈوبتی نیّا کو پل بھر میں سنبھال لے گا۔ اور 14 جنوری کو ایک نیا سورج طلوع ہوگا جو پاکستان کی کایا پلٹ دے گا۔ جب کہ اصل حقیقت صرف یہ ہے کہ حکمرانوں کے لیے عوام صرف ٹشو پیپر ہیں، جنھیں انتخابات میں استعمال کرنے کے لیے خریدا جاتا ہے اور بعد میں پھینک دیا جاتا ہے۔