حدود وقت سے آگے نکل گیا ہے کوئی

ہم عظیم لوگوں کو ان کے جانے کے بعد بھی اس طرح یاد کرتے ہیں جیسے وہ ہمارے درمیان موجود ہوں۔

آج ہم پاکستان کی اس عظیم رہنما کی پانچویں برسی منا رہے ہیں جس نے اپنی پوری زندگی پاکستان کے عوام کی خدمت کے لیے وقف کر رکھی تھی پاکستان کے مظلوم و محروم اور پسے ہوئے استحصال زدہ عوام کے حقوق کے لیے محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی جدوجہد ایک لازوال داستان کی حیثیت رکھتی ہے یہ عوام کے اعتماد اور خلوص کی ولولہ انگیز تاریخ ہے اور سماجی رومانیت کا انوکھا اظہار ہے۔

پاکستان بالخصوص سندھ کی سیاست میں محترمہ بینظیر بھٹو شہید کو جو احترام اور مقام حاصل ہے وہ اور کسی بھی سیاستدان کو حاصل نہیں ہوا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی قیادت میں پیپلزپارٹی نے اپنے ہر دور حکومت میں عوام کے بنیادی مسائل حل کرنے پر توجہ دی اور خاص طور پر صوبہ سندھ کے سیاسی و سماجی کلچرل معاشی اور اقتصادی حقوق کا تحفظ کیا گیا۔ محترمہ بینظیر بھٹو پاکستان کی پہلی حکمران تھیں جنہوں نے خود غریبوں، ہاریوں، کسانوں مظلوم طبقات کے مسائل کو نہ صرف سمجھا بلکہ انھیں حل کر نے کی بھرپور کوشش بھی کی وہ خود دیہاتوں ، قصبوں، محلہ محلہ گئیں عوام سے براہ راست رابطہ کیا ان سے ملیں انھیں اس بات کا احساس دلایا کہ وہ تنہا یا لاوارث نہیں ہیں۔ محترمہ خواتین کو بہنیں سمجھتی تھیں۔ بچوں کے لیے ماں تھیں ساتھیوں کے لیے لیڈر تھیں۔ بات کی تہہ تک فوراً پہنچ جاتی تھیں۔

حقیقت اور افواہ میں فوری تمیز کر لیتی تھیں۔ ان میں فیصلہ کرنے کی صلاحیت بے مثال تھی۔ ان کے لیے دنیا بھر کے دانشور جمع ہو کر ان کی تقریر کو سراہتے تھے۔ اس طرح پاکستا ن کے غریب مفلوک الحال عوام بھی ان کے لیے گھنٹوں کھڑے ہو کر ان کی تقریر کا انتظار کرتے تھے۔ ان کے اور عوام کے بیچ کوئی چیز حائل نہیں تھی دہشت گردی بھی انھیں عوام سے دور نہیں کر سکی۔ یہی وجہ تھی کہ سندھ کے عوام بھی محترمہ بینظیر بھٹو صاحبہ کا دل سے احترام کرتے ہیں۔ محترمہ وہ لیڈر تھیں جنہوں نے خود جان کی قربانی دی، جہاں سیاسی لیڈر عوام سے قربانیوں کی توقع کرتے ہیں۔

محترمہ نے جنرل ضیاء کی آمریت کے خلاف لازوال جدوجہد کی جنرل ضیاء کے دور میں فقط بینظیر تھیں جس نے بہادری اور جرات کے ساتھ جمہوریت کی جنگ لڑی اور پورے ملک میں فوجی آمریت کے خلاف بہادرانہ انداز میں قیادت کی ایک ایسے وقت میں جس وقت جنرل ضیاء پوری طاقت کے ساتھ حکمران تھا اس وقت محترمہ بینظیر بھٹو نے MRD تشکیل دی او رMRD کی تحریک کے ذریعے یہ ثابت کر دیا کہ وہ اپنے باپ کے قتل کے ذمے دار جنرل ضیاء سے کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گی اگر چہ یہ حقیقت ہے کہ سندھ نے MRD کی تحریک میں سب سے زیادہ قربانیاں دیں۔ جنرل ضیاء کی آخری وقت تک خواہش تھی کہ وہ محترمہ بینظیر بھٹو اور پیپلزپارٹی کو ختم کر دیں۔ لیکن وہ پوری نہیں کر سکا۔

بیگم نصرت بھٹو اور محترمہ بینظیر بھٹو سے بھی رابطے کیے گئے بلکہ نصیر اللہ بابر نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ امریکا کی خواہش یہ تھی ، امریکیوں نے بھٹو خاندان کو یہ پیغام بھی بھیجا تھا کہ وہ جنرل ضیاء کو اقتدار سے ہٹا کر کسی دوسرے جنرل کو بھی اقتدار میں لا سکتے ہیں لیکن نصرت بھٹو اور بینظیر بھٹو نے اس سودے بازی کو بھی تسلیم نہیں کیا۔ مسلح افواج کے سابق سربراہ جنرل اسلم بیگ نے ایک انٹرویو میں انکشاف کیا تھا کہ MRD کی تحریک کے دوران ایک مرحلے پر جنرل ضیاء پریشان ہو گئے تھے کہ انھوں نے خود فوج کے وائس چیف آف اسٹاف سے پوچھا تھا کہ کیا مجھے اقتدار چھوڑ دینا چاہیے۔ اس موقعے پر محترمہ بینظیر بھٹو کی دلیرانہ جدوجہد سے متاثر ہو کر ممتاز عوامی شاعر حبیب جالب نے محترمہ کو اِن الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا تھا۔

ڈرتے ہیں بندوقوں والے ایک نہتی لڑکی سے
پھیلے ہیں ہمت کے اُجالے ایک نہتی لڑکی سے

جنرل ضیا کے طیارے کے حادثے کے بعد پیپلزپارٹی نے جو اقتدار حاصل کیا وہ بیلٹ بکس کے ذریعے حاصل کیا چور دروازے سے حاصل نہیں کیا۔ اس کے لیے جو طریقہ ہائے کار اختیار کیے گئے وہ جمہوری اور سیاسی تھے۔ محترمہ نے اپنی سیاسی زندگی میں کبھی فوجی جنرلوں سے سودے بازی نہیں کی نہ ہی سمجھوتہ کیا بلکہ ہمیشہ جدوجہد کا راستہ اختیار کیا اور اپنی پارٹی اور کارکنوں کو بھی پرامن سیاسی جدوجہد کی تلقین کی یہ ہی وجہ تھی کہ اکتوبر 1999ء میں جنرل پرویز مشرف کی آمریت قائم ہونے کے بعد انھوں نے ملک میں جمہوریت کی بحالی اور آئین و قانون کی عملداری کے لیے ایک بار پھر جدوجہد کا راستہ اختیار کیا۔ اس دوران انھوں نے خود جلاوطنی بھی اختیار کی کیونکہ فوجی آمر ان کی جان کے پیچھے پڑ گئے تھے۔ محترمہ 9 سال تک جلا وطن رہیں اس دوران وہ دنیا بھر میں جاتی رہیں اور فوجی آمروں کو بے نقاب کرتی رہیں اور ملک میں اپنے کارکنوں سے بھی مسلسل رابطے میں رہیں۔ جلا وطنی کے دوران محترمہ نے بہت تکالیف کا سامنا کیا۔

دبئی میں اپنی جلا وطنی کے دوران دیس سے دوری نے بینظیر بھٹو کو شاعر بھی بنا دیا۔ 2003ء میں انھوں نے ''ماروی آف ملیر'' دی اسٹوری آف بینظیر ' کے عنوان سے انگریزی میں اپنی زندگی کے اتار چڑھائو اور وطن واپسی کی تڑپ پر مبنی ایک نظم لکھی۔ رزمیہ انداز کی اس نظم کا ایک حصہ بینظیر بھٹو کے آنے والے دنوں کی تصویر پیش کرتا ہے۔


جب مرنے والے مرجاتے ہیں
وہ دوبارہ زندہ ہو جاتے ہیں
دھرتی کا حصہ بن جاتے ہیں
صدیوں پرانے راز سموئے
عظیم تہذیبوں کے
گئے دنوں کے سُورمائوں کے
تاریخ اور ورثے کو ادب بخشتے ہوئے
مستقبل بنا تے ہوئے
وقت کی ابتدا ہوتی ہے
وقت کی انتہا ہوتی ہے
ہم فیصلہ کرتے ہیں کہ
وقت کو کس طرح برتا جائے

محترمہ کی طویل جلاوطنی خود اس امر کا ثبوت ہے کہ پیپلزپارٹی کسی طرح بھی فوجی حکمرانوں سے مفاہمت کے لیے تیار نہیں تھی ملک چونکہ بدترین معاشی سیاسی سماجی اقتصادی بحران سے گزر رہا تھا اس لیے پیپلزپارٹی کی قیادت نے مذاکرات کا راستہ اختیار کیا جس کے نتیجے میں این آر او عمل میں آیا محترمہ بینظیر بھٹو اور نواز شریف و دیگر سیاسی قیادت ملک میں واپس آئی سیاسی عمل کا آغاز ہوا اور ملک میں عام انتخابات کی فضا بنی اس کے نتیجے میں جنرل پرویز مشرف وردی اتارنے پر بھی مجبور ہوا۔ آج ملک میں جمہوریت قائم ہوئی ہے اور سیاسی عمل جاری ہے یہ محترمہ کے تدبر کا نتیجہ ہے۔

قائد عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت کے بعد آمریت سے جنگ اور بحالی جمہوریت کی شاندار جدوجہد کرنے والی سندھ کی بہادر دلیر بیٹی آج ہمارے درمیان نہیں۔ مگر کیا واقعی وہ ہمارے درمیان نہیں۔۔۔ نہیں وہ ہمارے درمیان موجود ہیں۔ وہ ہماری رہنمائی کر رہی ہیں۔ عوام اور ملک و قوم کے لیے جان قربان کرنے والے کبھی مرا نہیں کرتے کیونکہ اللہ کا یہ وعدہ ہے کہ وہ مر کر زندہ لوگوں سے زیادہ زندہ ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ایسے عظیم لوگوں کو ان کے جانے کے بعد بھی اس طرح یاد کرتے ہیں جیسے وہ ہمارے درمیان موجود ہوں۔

مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
Load Next Story