وہ جو قرض رکھتے تھے جان پر
شہادت کا سفر، ایک ایسا سودا ہے جو دماغ میں سمانے کے بعد دھرتی اور دھرتی کے باسیوں کی محبت میں مٹ جانے کا دوسرا نام ہے
27 دسمبر 2007 کی شام فیض احمد فیض کے مصرع کی مانند ہے جسے کہا گیا تھا کہ ''شام فراق اب نہ پوچھ'' لیکن مصرع ثانی اپنی کیفیت میں بالکل برعکس ہے جس میں دل ابھی تک نہیں بہلا اور جان سنبھلنے کی کوششوں کی تگ و دو میں لگی ہوئی ہے۔ ذہن میں یہ سوال ضرور گونجتا ہے کہ آیا بھٹو خاندان کا جرم کیا تھا اور اس کی سنگینی کی حدیں کیوں اختتام پذیر نہیں ہو رہیں؟ اس نکتے کو سمجھنے کے لیے سماجی علم کے ایک سرخیل کے نکتے کو سمجھنا پڑے گا جس کا نام ژان ژاگ روسو تھا جس کی تحریروں نے انقلاب فرانس کی بنیاد ڈالی۔ روسو کے عمرانی معاہدے میں ایک جملہ سماج کی تمام بیماریوں کی تشخیص کا درجہ رکھتا ہے۔
''انسان بظاہر تو آزاد پیدا ہوا ہے مگر ہر جگہ پابہ زنجیر ہے'' انسان کو غیر مرئی زنجیروں سے نجات دلانے کے لیے کئی افراد نے سماج کے فرسودہ نظام کو توڑنے کے لیے کمر باندھی، کبھی سقراط کو زہرکا پیالہ پینا پڑا تو کبھی عیسیٰ کو سولی پر چڑھایا گیا۔ حق بات کہنے کی پاداش میں طائف کی وادیوں کو سنگ باری کا منظر دیکھنا پڑا، تو کبھی کربلا کا ریگ زار لہو رنگ کردیا جاتا ہے۔ اقبال نے ان ہی لوگوں کے بارے میں کہا تھا ؎
جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں
ادھر ڈوبے اُدھر نکلے، اُدھر ڈوبے ادھر نکلے
بھٹو کا جرم اسی زمرے میں آتا ہے، شاید برصغیر کے سقراط ثانی کو شرف حاصل ہے کہ اس نے اپنی ہمت و حوصلے کا تسلسل اپنی آنے والی نسل میں منتقل کردیا ہے۔ آج کے عصری تقاضوں کے تحت بھٹو کا دیا ہوا فلسفہ پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا ہے، ہر مظلوم کے لیے بھٹو کا نعرہ اس کے دل کی آواز بن چکا ہے، کیوں کہ بھٹو نے دیس کے تمام انسانوں کے لیے آواز بلند کی تھی اور یہی جرم اسے شہادت کے راستے پر لے گیا۔
جب ذوالفقار علی بھٹو کو عدالتی قتل کے ذریعے موت کی راہوں پر روانہ کیا تو آمریت کے دسترخوانوں کے ہم رکاب یہ سمجھے کہ اب قصہ تمام ہوچکا ہے آیندہ کوئی سرپھرا مظلوموں کے لیے اپنی جان کا نذرانہ دینے سے پہلے بھٹو کے انجام پر ضرور غور کرے گا لیکن ان کی خام خیالی ریت کے گھروندوں کے مانند بیٹھ گئی جب جیالوں اور سرفروشوں کا ایک نہ رکنے والا سیل رواں بڑھتا چلا گیا۔
اس وقت ذوالفقار علی بھٹو کے خانوادے میں بے نظیر نام کی چہیتی بیٹی بھی جو نظریات میں ہوبہو اپنے باپ کا پرتو تھی، جب بھٹو کو زندان کے شب و روز گزارنے پڑے تو بھٹو کی بیٹی اپنے شفیق باپ سے سیاسی رہنمائی حاصل کرتی رہی، جس نے آگے چل کر سیاست کے میدان میں جمہوریت اور اصولی موقف کی بے باک ترجمانی میں اہم کردار ادا کیے۔
آہنی عزم والی وہ دھان پان سی لڑکی آمروں کے دلوں میں خوف کی علامت بن چکی تھی۔ جمہوریت کے بنیادی نکتے کو سمجھتے ہوئے پاکستان کے عوام کی نظریں بے نظیر بھٹو کو اپنے باپ کا عکس سمجھتی تھیں جس میں عوام کو ان کا بنیادی حق ملنے کا آخری سہارا بے نظیر بھٹو کی کرشماتی شخصیت میں نظر آرہا تھا۔
بے نظیر بھٹو کی پوری زندگی عوامی حقوق کے لیے جدوجہد سے عبارت تھی، انھوں نے پاکستان میں جمہوریت کے فروغ اور اصولی سیاست کے لیے اپنی زندگی وقف کردی تھی جس میں انھیں متعدد بار قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں مگر کیا مجال کہ ان کے پایہ استقلال میں لرزش پیدا ہوئی ہو۔ انھوں نے اپنے اہل خانہ کو دی جانے والی تکلیفوں کو جس طرح برداشت کیا وہ شاید ہی تاریخ میں کسی نے کیا ہو۔ انھیں جس طرح جھوٹے مقدمات میں الجھایا گیا اور ان کی زندگی کے رفیق کو جیلوں میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا، یہ سب مظالم انھوں نے خندہ پیشانی اور صبر سے سہے اور قومی سیاست میں جمہوری سوچ پر کوئی آنچ نہ آنے دی۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کی زندگی آمریت کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے گزری۔ جب عالمی طاقتوں نے اقتدار کا تخمینہ اپنے من پسند کاسہ لیسوں کے حق میں ہموار کرلیا تو انھیں بے نظیر بھٹو کی شخصیت اپنے عزائم کی راہ میں دیوار محسوس ہوئی، جب جھوٹے مقدمات اور قیدو بند کی سختیاں بے نظیر بھٹو کو اپنے ارادوں سے باز نہ رکھ سکیں تو انھوں نے سازش کے ذریعے اپنی راہ کے پتھر کو ہٹانے کا مصمم فیصلہ کرلیا اور اس کے لیے کرائے کے قاتلوں کو حاصل کیا۔
27 دسمبر 2007 کی شام پاکستان کے عوام کے لیے کسی شام غریباں سے کم نہ تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل سے لے کر بے نظیر بھٹو کا سازش کے ذریعے قتل، محبت کے جنوں کی حکایت خونچاں ہے، جس میں سر اور ہاتھ دونوں ہی قلم ہوئے۔ شہادت کا سفر، ایک ایسا سودا ہے جو دماغ میں سمانے کے بعد دھرتی اور دھرتی کے باسیوں کی محبت میں مٹ جانے کا دوسرا نام ہے۔ تاریخ میں موہن داس کرم چند گاندھی کو سب جانتے ہیں لیکن قاتل گوڈسے کو کوئی نہیں جانتا۔ اسی طرح کے بے نام قاتل تاریخ میں بھی ایسے ہی دفن ہوئے ہیں کہ ان کی قبروں کے کتبوں پر تحریر عبارت پڑھنے کے لیے بھی کوئی چند لمحے رک کر اپنا وقت ضایع نہیں کرتا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی خاندان کی ابدی آرام گاہوں پر تو لوگ جوق درجوق جاتے ہیں لیکن آمروں کے کتبے بے نام و نشان ہی رہتے ہیں۔
(نوٹ: مصنف بحیثیت پاکستان پیپلزپارٹی کے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری اطلاعات و صوبائی وزیر اطلاعات حکومت سندھ اپنے فرائض نبھا رہے ہیں)