گرینڈ الائنس اور زمینی حقائق
جمہوری عمل جس طرح جڑ پکڑ رہا ہے سارے معاملات اسی جمہوری اسپرٹ اور عظیم ترقومی مفاد کے مطابق طے پاجانے چاہئیں
ملکی سیاست کا جمود ٹوٹنے لگا ہے۔ کوئی مانے یا نا مانے پاناما لیکس پیپرز کے باعث جسد سیاست کے اندر ایک دیوار سی گری ہے، باہر کی سیاسی سطح پر غیر معمولی ہلچل کچھ آگے بڑھ کر گرینڈ الائنس کی تجویز تک آپہنچی ہے جو اسٹیٹس کو کے خلاف جاری سیاسی عمل میں اہم اپیش رفت ہے۔تاہم اس سیاسی فعالیت اور اتحاد و یکجہتی کی نئی سیاسی کوششوں کو بروئے کار لانے میں پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری اور مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین کے درمیان اتوار کی ملاقات بریک تھرو ثابت ہوئی، جس میں دونوں رہنماؤں نے طے کیا کہ اپوزیشن جماعتوں کا گرینڈ الائنس جلد تشکیل دیا جائے گا اور حکومت مخالف احتجاجی تحریک کے آغاز کے لیے تمام اپوزیشن جماعتوں سے مشاورت کے بعد مشترکہ طور پر لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا۔
اس موقع پر بلاول بھٹو زرداری اور وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ بھی موجود تھے۔ چوہدری شجاعت نے زرداری کو دورہ لاہور کی دعوت دی جو انھوں نے قبول کر لی۔ ملک کے دو منجھے ہوئے سیاستدانوں میں کسی بھی قسم کی مثبت قومی مفاہمت سیاسی تقسیم کے معنوں میں نہیں لی جانی چاہیے بلکہ اس سے سیاسی برف پگھلے گی، عوام مایوسی اور گھٹن کے ماحول سے نکلیں گے۔
اپوزیشن جماعتوں کے بقول موجودہ حکومت عوام کو ڈیلیور کرنے میں ناکام رہی ہے اور جمہوریت سمیت ملکی سالمیت اور استحکام کو شدید خطرات لاحق ہیں، سچ یہ ہے کہ قوم سیاست دانوں کے اس احساس زیاں سے نہ پہلے غافل تھی اور نہ آج رہ سکتی ہے اس لیے نئے سیاسی گرینڈ الائنس کی کوشش اپنے متن و پیغام کے اعتبار سے اگرچہ چونکا دینے والی ہے جس سے جمہوری عمل کو مزید تقویت مل سکتی ہے اور سیاست میں شفافیت اور قومی ایشوز پر مبنی سیاست کو فروغ دے کر ملکی استحکام کو یقینی بنایا جاسکتا ہے، تاہم گرینڈ الائنس ماضی کی کوشش سے مختلف چیز ہے ، یہ ملکی صورتحال کی سنگینی ، قومی امنگوں سے متصادم پالیسیوں اور شاہ خرچ حکمرانوں کی سنگدلی کا منطقی نتیجہ کہی جاسکتی ہے، چنانچہ حکومت کو ادراک کرنا چاہیے کہ ان کے طرز حکمرانی کو بادشاہت سے تعبیر کرنے کی بات محض مبالغہ آرائی نہیں، یہ بے بنیاد نکتہ چینی بھی نہیں ہے بلکہ جمہوریت کی مسخ شدہ شکل کو آئینی حکمرانی میں بدلنے کا نیا سیاسی عزم ہے جو کسی نئے معاہدہ عمرانی کی شکل میں نمودار ہونے جارہا ہے۔ اس کی سمت پر دھیان رہنا چاہیے۔
وقت خود بھی سیاست دانوں سے تبدیلی پر زور دے رہا ہے، اب ملک بیان بازی ،الزام تراشی اور خطرناک کشمکش کا متحمل نہیں ہوسکتا، یہ خوش آئند پیش رفت ہے کہ بابائے قوم کا 140واں یوم ولادت قوم نے ایک طرف عقیدت واحترام سے جب کہ مسیحی برادری نے کرسمس کا تہوار جوش و جذبہ سے منایا۔اس موقع پر پورے ملک میں امن کی مجموعی صورتحال بہت بہتر رہی، مگر دہشتگرد ابھی منظر سے فنا نہیں ہوئے، حکمرانوں کی تن آسانی سے مسائل گھمبیر ہوچکے ہیں ، پی پی اور ق لیگ کے مرکزی رہنماؤں میں طے پایا ہے کہ گرینڈ اپوزیشن الائنس کی تشکیل کے لیے جو طے پایا ہے اسے قومی امنگوں سے ضرور ہم آہنگ ہونا چاہیے۔
ملاقات میں اتفاق کیا گیا کہ حکومت مخالف احتجاج پارلیمنٹ اور عوامی سطح پر کیا جائے گا۔ اس بات کی وضاحت کی گئی کہ اس احتجاج میں کوئی ایسی حکمت عملی شامل نہیں کی جائے گی جس سے جمہوری نظام کو خطرہ لاحق ہو، گرینڈ الائنس کی تشکیل کے لیے جلد رابطوں کا آغاز کیا جائے گا۔ چوہدری شجاعت نے کہا ملک کو اپوزیشن کے مضبوط گرینڈ الائنس کی ضرورت ہے اور اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد ہی ملک کو بچا سکتا ہے۔
آصف زرداری نے کہا کہ ڈاکٹروں کے مشورے پر بیرون ملک علاج کی خاطر گیا تھا، کوئی ڈیل کر کے نہیں بلکہ ڈاکٹروں کے اجازت سے واپس وطن آیا ہوں، حکومت کو گرانا ہمارا ایجنڈا نہیں، ہم جمہوریت کے حامی ہیں۔ تاہم یہ یقین دہانی لائق اعتبار اسی وقت بنے گی جب سیاست دان ملکی مفادات کا مکمل تحفظ کرتے ہوئے سیاست میں شفافیت لائیں، اور ملک کرپشن اور محاذ آرائی کے دلدل سے باہر نکلے۔ سابق صدر کا کہنا تھا کہ مفاہمت ن لیگ سے نہیں جمہوریت سے ہے لیکن اگر 4مطالبات منظورنہ ہوئے تو جمہوری انداز میں سخت احتجاج کیا جائے گا۔
بلاشبہ اس سیاسی حقیقت کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے کہ پاناما لیکس نے ملکی سیاست میں تلاطم خیز صورتحال پیدا کی ہے، ساری سیاسی کشمکش اسی کے محور پر گھوم رہی ہے، لیکن پاناما لیکس جمود شکن تجربہ تاحال نہیں بن سکی ہے، اس ایشو پر جو عدالتی فیصلہ آئے اسے تمام سیاسی جماعتیں کھلے دل سے قبول کریں،عمران خان کا تازہ الٹی میٹم بھی طبل جنگ نہیں اسی سسٹم سے بیزاری کا مظہر ہے ، وہ کرپشن کی بیخ کنی کے لیے جدوجہد کررہے ہیں ، حکمرانوں اور اپوزیشن جماعتوں کے مابین سب سے بڑی لڑائی اسی کرپشن کے خاتمہ کے نکتہ پر ہے، اس لیے گرینڈ الائنس کی تشکیل کا معاملہ ہو یا سیاسی اتحادکوئی مثبت پیش قدمی ، سیاسی جماعتوں کے مابین جمہوریت کے تحفظ کی کمٹمنٹ کمزور نہیں پڑنی چاہیے ۔ جمہوری عمل جس طرح جڑ پکڑ رہا ہے سارے معاملات اسی جمہوری اسپرٹ اور عظیم ترقومی مفاد کے مطابق طے پاجانے چاہئیں۔