اسرائیلی آباد کاری کے خلاف قرارداد کی منظوری
نیتن یاہو کی یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ اس قرارداد کو ویٹو نہ کرنے کے پیچھے بھی امریکی مفادات پوشیدہ ہیں
مقبوضہ بیت المقدس میں اسرائیلی آبادی کے خلاف پیش کی جانے والی قرارداد کی منظوری نے جہاں دنیائے اسلام کو ایک خوشگوار حیرت میں ڈالا ہے وہیں اسرائیل سراپا احتجاج بنا ہوا ہے۔ اسرائیل کا یہ رویہ چور مچائے شور کے مصداق قرار دیا جاسکتا ہے، مقبوضہ فلسطین میں یہودیوں کی غیر قانونی آبادی کے خلاف سیکیورٹی کونسل کی تاریخی قرارداد پر سیخ پا ہونے کے بعد اسرائیل نے قرارداد کے حق میں ووٹ دینے والے ممالک کے خلاف نہ صرف سفارتی جنگ کا آغاز کردیا ہے بلکہ اپنے دیرینہ رفیق و ہمدم امریکا کی مخالفت بھی شروع کردی ہے۔
واضح رہے کہ سلامتی کونسل نے جمعہ کو ایک قرارداد منظور کی تھی جس میں اسرائیل سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ مغربی کنارے اور مشرقی بیت المقدس میں بستیوں کی تعمیر کی سرگرمیاں فوری طور پر روک دے۔ امریکا کی جانب سے رائے شماری میں حصہ نہ لینے کے بعد سلامتی کونسل میں رکن ممالک قرارداد کو منظور کرانے میں کامیاب ہوگئے۔ 1979ء کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب واشنگٹن نے اپنا ویٹو کا حق استعمال نہیں کیا۔
ہفتے کے روز یہودیوں کے ''ہنوکا'' تہوار کے موقع پر اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے کہا کہ وہ اس قرارداد کو تسلیم نہیں کرتے، انھوں نے وزیرخارجہ اور اقوام متحدہ کے ساتھ روابط پر نظر ثانی کرنے کے لیے بھی کہا ہے۔ نیز اسرائیل نے قرارداد کی منظوری پر اوباما انتظامیہ کو آڑے ہاتھوں لیا۔ نیتن یاہو نے امریکا پر تنقید کرتے ہوئے الزام لگایا کہ اس قرارداد کی محرک اوباما انتظامیہ ہے۔
اسرائیلی وزارت خارجہ کے مطابق انھوں نے قرارداد کے حق میں ووٹ دینے پر اسرائیل میں برطانیہ، چین، روس، فرانس، مصر، جاپان، یوروگوائے، اسپین، یوکرین اور نیوزی لینڈ کے سفیروں کو طلب کیا۔ اسرائیل میں اتوار کو تعطیل نہیں ہوتی تاہم اس کے باوجود کئی سفارتخانے بند ہوتے ہیں اور کرسمس کے روز ان سفیروں کی طلبی ایک غیر معمولی اقدام ہے۔ نیتن یاہو نے یوکرین کے وزیراعظم ولودی میر گروئسمان کا دورۂ اسرائیل بھی منسوخ کروادیا ہے۔ اسرائیل کی شدت پسندی کسی سے مخفی نہیں۔ موجودہ دنیا میں جو بڑے تنازعات موجود ہیں ان میں تنازعہ فلسطین کو بھی خاص اہمیت حاصل ہے۔
1948ء میں برطانیہ اور امریکا سمیت دیگر مغربی ممالک کے ایما پر ہی سرزمین فلسطین پر غاصب ریاست اسرائیل کو وجود میں لایا گیا تھا اور اس ریاست کے وجود کے قیام سے پہلے ہی اس سرزمین پر بسنے والے مسلمانوں پر قیامت ٹوٹ پڑی اور ایک طرف تو ان کو بڑے پیمانے پر قتل کیا جانے لگا تو دوسری طرف ان کے مکانات اور اراضی پر شدت پسند یہودیوں نے قبضہ جمانا شروع کردیا، رفتہ رفتہ ان مظالم کا سلسلہ بڑھنا شروع ہوا جو آج تک جاری ہے۔
صہیونیوں کے ان مظالم کے نتیجے میں لاکھوں فلسطینی اپنے وطن سے جبری طور پر بے گھر کردیے گئے، جلاوطن ہوئے اور آج بھی مہاجرین کی زندگی گزار رہے ہیں۔ دسیوں ہزار فلسطینی صہیونیوں کے مظالم کی زد میں آکر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، لاکھوں ایکڑ فلسطینی اراضی پر بھی ان صہیونیوں نے قبضہ کرلیا۔ غرض گزشتہ 67 سال سے ارض فلسطین پر فلسطینیوں کا بڑے پیمانے پر قتل عام، بے گھر کرنا، تعلیم جیسی سہولت سے محرومی، نوجوانوں کی قید و بند، خواتین کی عصمت دری، گھروں کو مسمار اور زمینوں پر قبضہ جیسے مظالم جاری ہیں۔
1969ء میں جب ایک منظم سازش کے تحت مسجد اقصیٰ کو نذر آتش کیا گیا تو پوری مسلم دنیا میں کھلبلی مچی، اسلامی سربراہی کانفرنس کا قیام بھی عمل میں لایا گیا، جس کے بنیادی مقاصد میں قبلہ اول کا دفاع اور تحفظ کو یقینی بنانا تھا۔ لیکن آج تک وہ اسلامی سربراہی کانفرنس تنظیم کے بنیادی مقاصد کو حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ سلامتی کونسل میں منظور کی جانے والی حالیہ قرارداد کے باوجود بھی اسرائیل اپنی ہٹ دھرمی سے باز نہیں آیا ہے۔ عالمی احتجاج کے باوجود 5600 نئے رہائشی یونٹس کی منظوری پر غور کرنے کا اعلان کردیا۔
اسرائیل نے مشرقی یروشلم کے علاقے میں مزید ہزاروں مکانات تعمیر کرنے کی منصوبہ بندی شروع کردی ہے۔ اسرائیل کی جانب سے مشرقی یروشلم میں رواں سال فلسطینیوں کو بے گھر کرکے ڈیڑھ ہزار سے زائد غیر قانونی مکانات بنائے جاچکے ہیں۔ بظاہر امریکا نے قرارداد کے معاملے میں اپنا ویٹو پاور استعمال نہ کرکے فلسطینی موقف کی حمایت کی ہے کہ لیکن 'ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ' کا معاملہ درپیش ہے، کیونکہ اسرائیلی وزیراعظم نے اتوار کو اپنی کابینہ کے اجلاس کو بتایا کہ کئی دہائیوں سے حکومت اسرائیل اور امریکی انتظامیہ مغربی کنارے اور مشرقی مقبوضہ بیت المقدس میں یہودی بستیوں کی تعمیر پر اتفاق نہیں کرتے، تاہم ہمارے درمیان یہ اتفاق تھا کہ معاملہ ایسا نہیں جسے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی سطح پر حل کیا جاسکے۔
نیتن یاہو کی یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ اس قرارداد کو ویٹو نہ کرنے کے پیچھے بھی امریکی مفادات پوشیدہ ہیں۔ دوسری جانب اسرائیلی انتظامیہ منتظر ہے کہ منتخب امریکی صدر جو 20 جنوری کو عہدہ صدارت سنبھالیں گے، وہ معاملات ان کے حق میں پلٹ دیں گے، جیسا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی اپنے ایک پیغام میں کہا ہے کہ 20 جنوری کے بعد حالات اسرائیل کے حق میں ہوں گے۔ صائب ہوگا کہ اسرائیل اپنی ہٹ دھرمی اور عاقبت نااندیشانہ پالیسیوں سے گریز کرے جو دنیا کو تباہی کی جانب دھکیل رہی ہیں۔