عیش و آرام کی سرکاری ملازمتیں

سرکاری ملازمتیں پہلے عوام کی خدمت اوران کے کام آنے کے لیے کی جاتی تھیں

SEHWAN:
سرکاری ملازمتیں پہلے عوام کی خدمت اوران کے کام آنے کے لیے کی جاتی تھیں اور سرکاری ملازمین اپنے فرائض کی ادائیگی پابندی وقت، غیرجانبداری اور ایمانداری سے کیا کرتے تھے جس کی وجہ سے سرکاری محکموں سے عوام کی شکایات نہ ہونے کے برابر ہوتی تھیں، سرکاری اداروں کی بھی کوشش ہوتی تھی کہ ان کی شکایات نہ ان کے اعلیٰ افسران تک جائیں اورنہ اخبارات میں شایع ہوں۔

سابق صدر جنرل ایوب خان کے دور تک اخبارات میں شایع ہونے والی شکایات اور عوامی مسائل کے حل نہ ہونے پر متعلقہ افسران سے جواب طلبی کی جاتی تھی اور محکمہ اطلاعات اخبارات میں ایسی خبروں کی کٹنگ محکموں کے سربراہوں اور متعلقہ افسروں کو بھیجتے تھے جن کے جوابات ملنے کے بعد شکایات کا ازالہ ہوجاتا تھا اور لوگوں کو موجودہ دورکی طرح متعلقہ دفتروں میں پریشان ہونا پڑتا تھا نہ دھکے کھانے پڑتے تھے۔

ہر سرکاری محکموں میں افسران سمیت نچلے عملے کی تعداد مقرر ہوتی تھی، ملک کی آبادی بڑھنے کے ساتھ ساتھ سرکاری محکموں میں کام بڑھتا گیا اور آسامیوں کی تعداد بڑھتی گئی اور شکایات بھی بڑھتی گئیں، سرکاری اداروں کے طریقہ کار مقرر تھے سرکاری اداروں میں سیاسی مداخلت نہیں تھی۔ تنخواہیں کم اور ڈیوٹی مقرر ہونے کے بعد لوگوں میں سرکاری ملازمتوں کے حصول کا رجحان کم تھا۔ مقررہ مدت پر سرکاری ملازم ریٹائر ہوتے تھے، قواعد کے تحت نئی بھرتیاں ہوتی تھیں اور سن کوٹہ پر ریٹائر ہونے والوں کی اولاد بھرتی ہوجاتی تھی۔

سرکاری محکموں میں بھرتی کے ذمے دار افسرسفارش سے میرٹ اور قابلیت پرکسی لالچ اور دباؤ کے بغیر ملازمتیں دیتے تھے اور اصولوں اور مقررہ سرکاری طریقہ کار پر سختی سے عمل کیا جاتا تھا اور رشوت لے کر یا مقررہ طریقہ کار کے برعکس ملازمتیں دینے کو غلط سمجھا جاتا تھا۔1971 میں ملک دولخت ہوگیا جس کی اہم وجہ مشرقی پاکستان کے لوگوں کے ساتھ کی جانے والی نا انصافیاں قراردی جاتی ہیں۔

1969 میں ایوب خان کی حکومت کے بعد فوجی صدر جنرل یحییٰ نے عوامی مطالبوں پر ون یونٹ ختم کرکے مغربی پاکستان میں چار صوبے بحال کردیے اور مغربی پاکستان کے لوگوں کو اس وقت کے صوبائی دارالحکومت لاہور آنے جانے سے نجات ملی اور لاہورکے علاوہ کراچی، پشاور اور کوئٹہ مغربی پاکستان میں صوبائی دارالحکومت بنائے گئے۔ جب کہ مشرقی پاکستان صوبہ اور ڈھاکا اس کا دارالحکومت تھا اور مشرقی پاکستان ملک کے دولخت ہونے پر برقرار رہا۔

ملک دولخت ہونے کے بعد فوجی حکومت ختم ہوئی اور 1970 کے عام انتخابات میں کامیاب ہونے والی سیاسی جماعتوں کی وفاق اور چاروں صوبوں میں حکومتیں قائم ہوئیں اور پہلی بار سندھ سے تعلق رکھنے والے ذوالفقارعلی بھٹو وزیراعظم بنے اور سندھ و پنجاب میں پیپلزپارٹی کی اور بلوچستان اور سابق سرحد صوبے میں نیپ اور جے یو آئی کی مخلوط حکومتیں قائم ہوئیں اور طویل مارشل لا کے خاتمے، بڑھتی آبادی میں بڑھی بے روزگاری اور ضرورت کے مطابق سیاسی حکومتوں نے اپنے اپنے کارکنوں کو سرکاری ملازمتیں دینا شروع کیں، تو نہ قابلیت دیکھی گئی نہ میرٹ پر عمل رہا اور دیگر صوبوں کے مقابلے میں صرف سندھ میں پی پی کی وفاقی حکومت نے کوٹہ سسٹم نافذ کیا اور بے روزگاری ختم کرنے کے نام پر سندھ میں دیہی اور شہری کی تقسیم کیا عمل میں آئی۔


میرٹ کا جنازہ نکل گیا اور نا انصافیاں جان بوجھ کر بڑھائی گئیں جس کی بنیاد پر سندھ کے شہری حلقوں میں ایم کیو ایم پروان چڑھی اور سندھ کی دوسری سیاسی قوت بن کر ابھری اور اس نے بھی حکومتوں میں شامل ہوکر اپنے کارکنوں کو ملازمتیں فراہم کیں اور پیپلزپارٹی کے نقش قدم پر چل کر صرف اپنوں کو نوازا ۔ سیاسی ادوار میں سندھ میں زیادہ تر سرکاری ملازمتیں دونوں پارٹیوں نے اپنے کارکنوں میں تقسیم کیں۔

سیاسی بنیاد پر ملازمتیں دیتے وقت اپنوں کو غیر قانونی سفارش بھی ماننا پڑتی ہے اور میرٹ اور اہلیت کی بجائے وفاداری دیکھی جاتی ہے اور سیاسی کارکنوں سے ڈیوٹی لینے کی بجائے سیاسی کام لیے جاتے ہیں اورانھیں اپنے سیاسی مفادات کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔پہلے محکمہ تعلیم، پولیس، پوسٹ آفس جیسے محکموں کے لیے ملازم نہیں ملتے تھے کیونکہ ان محکموں میں رشوت کم تھی، سیاسی ادوار میں محکمہ تعلیم میں آنے والوں نے اسکولوں میں پڑھانے کی بجائے گھر بیٹھے تنخواہیں لینا شروع کیں۔

خالی اسکولوں کی شکایتیں کم ملتی ہیں جس سے گھوسٹ اسکول قائم ہوئے اورگھر بیٹھے تنخواہیں وصول کرنے کے لیے ایجوکیشن افسروں کو حصہ دینا پڑتا تھا جس سے ایجوکیشن افسران نے کمائی کا ذریعہ بنالیا اور رشوت لے کر ملازمتیں دینی شروع کیں۔ رشوت دے کر نوکریاں لینے والوں نے کئی کئی جگہوں پر نوکریاں کیں پھر رشوت دے کر اچھے محکموں میں تبادلہ کرالیا اور ترقیاں حاصل کیں کیونکہ اسکولوں کی ملازمت میں ترقی تھی نہ اوپرکی کمائی محکمہ تعلیم میں امتحانی نتائج فروخت ہوئے، نقل کا رجحان خود سرکاری اساتذہ نے پیدا کیا۔ نئی نسل نے نقل کرکے ڈگریاں لے کر سیاسی اثر سفارش اور رشوت دے کر سرکاری نوکریاں حاصل کیں اور رشوت عام کردی۔

سرکاری ملازمتوں میں قیام پاکستان کے بعد انگریزوں نے جو اصول وضع کیے تھے آزادی کے بعد سرکاری افسروں نے انگریز افسروں کے ٹھاٹ باٹ کو اپنا فرض اولین بنالیا۔ انگریزوں نے اپنے گورنروں، کلیکٹروں اور اعلیٰ پولیس کے رعب ودبدبے کے لیے انھیں وسیع رہائش گاہیں خدمت کے لیے نوکر چاکر اور دوروں کے لیے سرکاری گاڑیاں دی تھیں۔

انگریز افسر اپنی حکومت کے احکام پر چلتے تھے اور انھیں عوام میں اپنی عزت اور بھرم قائم رکھنا ہوتا تھا اس لیے وہ قانون پر عمل کرتے تھے اور کراتے تھے، جب کہ آزادی کے بعد ہمارے کالے انگریزوں نے سرکاری رہائش گاہوں اور دفاتر کے ٹھاٹ باٹ نہ صرف قائم رکھے بلکہ ان میں مزید اضافہ کرلیا اور اعلیٰ عہدوں پر اپنی اپنی حاکمیت اور عیش و آرام بنالیا جنھیں دیکھ کر دوسرے کیوں پیچھے رہتے، انھوں نے بھی اپنے بڑے افسروں کی عیش و عشرت کی زندگی کو دیکھ کر صرف اور صرف کمائی کو اپنا اصول بنالیا اور ہر غیر قانونی طریقہ اختیار کرکے دولت جمع کرنا شروع کردی۔

سرکاری ملازمین جان چکے تھے کہ وہ جتنا چاہیں ابھی کمالیں کیونکہ انھیں ریٹائر ہونا ہے جس کے بعد حاصل سرکاری مراعات واپس لے لی جائیںگی، بڑے سرکاری افسروں کو دیکھ کر چھوٹے افسروں نے اور انھیں دیکھ کر ان کے ماتحتوں نے عزم کرلیا کہ سرکاری ملازمتیں ہوتی ہی کمائی کے لیے ہیں جہاں انھیں کچھ نہ کرنے کی صورت میں مقررہ کمیشن گھر بیٹھے مل جاتا ہے۔ لوگ اپنے قانونی کاموں کے لیے بھی رشوت دینے پر مجبور ہیں جب کہ ہر سرکاری کام میں رکاوٹ ڈالنے اور تاخیر کرنے سے رشوت بغیر مانگے ملتی ہے اور شکایت بھی نہیں ہوتی۔سرکاری کاموں کے ٹھیکے، سرکاری دفاتر کے لیے خریداریاں، ترقی حاصل کرنے کے خواہش مندوں سے رقم وصولی سمیت تقریباً ہر سرکاری معاملے میں مال ملتا ہو عوام کو تنگ کرکے لوٹنے کے ساتھ حکومت کو بھی نقصان پہنچانے میں ذاتی فائدہ ہو تو سرکاری ملازمت کو کون نعمت نہیں سمجھے گا۔

سرکاری ملازمت میں ملازمین کو پتا ہے کہ لے کر رشوت اگر پھنس جائے تو رشوت دے کر چھوٹا جاسکتا ہے اور رقم بھی محفوظ رہتی ہے۔ اس بات پر حیرانی ہے کہ ایک کروڑ رشوت میں پکڑے جانے والے کو دو لاکھ روپے وصول کرکے بغیر کسی سزا کے چھوڑ دیا جاتا ہے اور وہ عہدے پر واپس آکر پہلے سے زیادہ کمانے کی کوشش کرتا ہے۔سرکاری ملازمتیں اکثر عیش وآرام کی زندگی اور دولت کمانے کا سنہری موقع بن چکی ہیں اور جو موقع ملے اور نہ کمائے وہ اپنے خاندان میں بھی احمق سمجھا جاتا ہے اور ریٹائر ہوکر پچھتانا اور دوسروں کے طعنے بھی سننے پڑتے ہیں۔
Load Next Story