وقت بڑا قیمتی ہے
ہم نے بزرگوں سے سنا تھا کہ علم بڑی دولت ہے
ہم نے بزرگوں سے سنا تھا کہ علم بڑی دولت ہے، ہوش سنبھالا دنیا دیکھی تو لگا کہ علم نہیں روپیہ، پیسا سب سے قیمتی ہے لیکن اورغورکیا تو معلوم ہوا کہ اس دور میں سب سے قیمتی وقت ہے۔ آپ ٹریفک سگنل پر دیکھ لیں لوگ ٹریفک لائٹ کے سبزہونے کا بھی انتظار نہیں کرتے اور محض چند سیکنڈ بچانے کے لیے اپنی گاڑی بھگانے کی کوشش کرتے ہیں چاہے ان کا ایکسڈنٹ ہی کیوں نہ ہوجائے، موٹرسائیکل سوار بڑی بڑی گاڑیوں کے درمیان ، تنگ جگہوں سے ایسے نکالتے ہیں کہ ان کی زندگی سے زیادہ قیمتی چند سیکنڈ ہیں۔
حالانکہ حقیقتاً ایسا ہوتا نہیں ہے،اس کوشش میں جس کا ''گیم اوور'' ہوتا ہے اس کواسپتال جاکر دیکھیں اگر صرف ایک ٹانگ میں معمولی سا فریکچر بھی ہوجائے تو کم از کم پانچ ، چھ ماہ کا بیڈ ریسٹ لازمی کرنا پڑجاتا ہے،گویا چند سیکنڈ کی بچت کی غلط حکمت عملی کے سبب آدھا سال بستر پر اوردوسروں کے سہارے گزارنا پڑتا ہے جس میں اپنا اورگھر والوں کا بے شمار وقت ضایع ہوتا ہے۔
بات تو بہت معمولی مگرغور طلب ہے کہ ہم میں سے بیشتر لوگ جو روزانہ چند سیکنڈ تک کی بچت کے چکر میں جان کا خطرہ بھی مول لیتے ہیں ، وہ آخر اپنے چند سیکنڈ یا منٹ بچا کر کرتے کیا ہیں؟ طوفانی انداز میں موٹرسائیکل چلانے کے بعد بیشترنوجوان یا تو ٹی وی اور نیٹ پر تفریح لے رہے ہوں گے یا پھرکسی کیرم بورڈ۔ اسنوکر یا پھر اپنے دوستوں کے ساتھ ہوٹل پرگپے ہانک رہے ہوتے ہیں، ان کے نزدیک یہ بہت عمدہ موضوع تو ضرور ہوگا ، مگر ان کی گفتگو میں کسی کتاب کا کوئی تذکرہ نہیں ہوگا نہ ہی ملک وقوم کا کوئی ایسا موضوع ہوگا جس سے اندازہ ہو کہ یہ واقعی پڑھے لکھے نوجوان ہیں، غرض کوئی بامقصد گفتگوکم ہی سننے کو ملے گی۔
جو ذرا سا ڈگری یافتہ یا نئی ٹیکنالوجی کے حامل ہوں گے اور اپنے آپ کو قدرے دانشور بھی سمجھتے ہونگے وہ فیس بک، چیٹنگ یا پھر موبائل پر بنے گروپ میں ایسے موضوعات پر اپنی دانشوری جھاڑ رہے ہونگے کہ گویا وہ اس دنیا میں کوئی بڑا نیک، اچھا اورانقلابی کام کررہے ہیں مگر ان میں سے بھی بیشتر ایسے ملیں گے کہ ان کا یہ قیمتی وقت اس قسم کی ''پوسٹ'' یا پیغام آگے دوسروں تک پہنچنے میں صرف ہوتا ہے کہ یہ پیغام 'فارورڈ' کرکے نیکی کمائیں ، یعنی یہ کام ماضی کے اس کام کی جدید شکل ہے کہ جس میں بعض احمق قسم کے لوگ کسی پرچے کو پڑھ کر اس کی چالیس، چالیس فوٹوکاپیاں کراکے لوگوں میں مفت تقسیم کرتے تھے کہ اگر ایسا نہ کیا تو نقصان ہوگا۔
ہم لوگ اپنے چند سیکنڈ کوکس قدر بچانے کی کوشش میں رہتے ہیں اس کا مظاہرہ کسی بھی جگہ جہاں رش ہو یا قطار لگی ہو، بخوبی ہوتا ہے، دودھ کی دکان ہو یا گوشت والے کی، بعد میں آنے والا ہر بندہ چاہتا ہے کہ کسی طرح اس کو پہلے مل جائے، ڈاکٹر کے کلینک پر سارے مریض ہی آتے ہیں مگر وہاں بھی ہرکوئی چاہتا ہے کہ کسی طرح قریب کا نمبر مل جائے، اور بعض تو ایسی مسکین اورعجیب وغریب شکل بناتے ہیں کہ انتظار میں بیٹھے دوسرے لوگ خود ہی کہہ دیں، بھائی ! پہلے آپ دکھا دو، ہمارے ایک جاننے والے جب کبھی اپنے چھوٹے بچے کو ڈاکٹر کے لے کر جاتے ہیں تو خاموشی سے بچے کی چٹکی بھر لیتے ہیں کہ بچہ روئے گا تو دوسرے مریض نہ سہی ، ڈاکٹر ہی پریشان ہوکر بلالے کہ بھئی پہلے آپ آجائیں۔
وقت کا یہ مسئلہ کسی ایک سمیت نہیں ہے، ہماری اکثریت جو مساجد میں خدا کا شکر ادا کرنے جاتی ہے وہ بھی کوشش کرتی ہے کہ جب ا مام صاحب نیت باندھ لیں تب جائیں تاکہ سلام پھیر تے ہی فوراً واپس بھاگنے میں آسانی ہوگویا خدا کا شکر ادا کرنے کے لیے بھی ہمارے پاس وقت نہیں۔ اب وہ وقت گیا جب ہمارے پاس پڑوسیوں کے لیے بھی وقت ہوتا ہے، پڑوسیوں سے بھی عموماً چھٹی والے دن ہے دور سے 'ہیلو اور ہائے' ہوتی ہے ۔ یہ بھی بڑی فراغ دلی ہے ورنہ تو اب یہ تکلف بھی کم ہی ہوتا ہے۔
افسوس ناک صورتحال یہ ہے کہ اب بعض والدین کے پاس اولاد کے لیے وقت نہیں ہوتا، کچھ تو بچے کی پیرنٹس میٹنگ تک میں نہیں جاتے۔ دوسری جانب اس سے بھی بڑی تکلیف دہ صورتحال یہ ہے کہ اولاد اپنے والدین اور بزرگوں کو بھی وقت نہیں دیتی۔ یہی وہ تکلیف دہ صورتحال ہے کہ جس کی وجہ سے راقم نے آج کے کالم کا یہ موضوع منتخب کیا۔یہ ایک بہت بڑا معاشرتی مسئلہ بن چکا ہے جس میں کچھ والدین کی کوتاہی بھی شامل ہوتی ہے، یعنی بعض والدین اپنی اولاد کے ذہن میں یہ بات بٹھا دیتے ہیں کہ دولت کمانا ہی زندگی کا سب سے اہم اور ضروری کام ہے، یوں اولاد دن رات ملازمت یا کاروبار میں لگ جاتی ہے اور وہ اپنے بزرگ والدین کو چھٹی کے دن بھی وقت دینے کو دستیاب نہیں ہوتی۔
ہم میں سے اکثر پیسہ کمانے کے لیے باہر چلے جاتے ہیں اور برسوں واپس نہیں آتے کہ کچھ اور کما کر پیسہ جوڑ لیں، بعض تو اپنے بیوی بچے بھی باہر اپنے پاس بلا لیتے ہیں اور والدین وہی تنہا رہ جاتے ہیں، بعض اولادیں جو اپنے آپ کو بڑا نیک اور والدین کا نمک خوار سمجھتی ہیں باہر سے پیسہ بھیج کر یہ سمجھتی ہیں کہ انھوں نے والدین کو علاج معالجے کے اور کھانے پینے کے لیے ایک بڑی رقم بھیج کر اپنا حق ادا کردیا اور والدین کوخوش کردیا، وہ اس حقیقت سے ناواقف ہیں کہ بڑھاپے میں انسان کو روپے پیسے سے زیادہ کسی ایسے انسان کی ضروت ہوتی ہے جو انھیں وقت دے سکے،ان کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کرسکے، کچھ ان کے دل کی سن سکے۔
ہمارے ایک دوست کے پانچ بھائی ہیں،ان کی والدہ تمام اولادوں میں سب سے زیادہ تعریف ہمارے دوست کی کرتی ہیں۔ ایک روز ہم نے ان سے پوچھا کہ تمہارے سارے بھائی تمہارے مقابلے میں تمہاری والدہ کا زیادہ خیال کرتے ہیں بلکہ بہت حد تک وہ والدہ پر پیسہ بھی خرچ کرتے ہیں لیکن کیا وجہ ہے کہ والدہ تمہاری تعریف سب سے زیادہ کرتی ہیں اورمحسوس ہوتا ہے کہ وہ محبت بھی سب سے زیادہ تم سے ہی کرتی ہیں، اس کی کیا وجہ ہے؟
ہمارے دوست نے جواب دیا کہ تمام بھائیوں میں والدہ کو میں ہی سب سے زیادہ وقت دیتا ہو، ان کے پاس بیٹھ کر دیر تک باتیں کرتا ہوں جب کہ دوسرے بھائی آتے جاتے سلام کرتے ہیں،خیریت پوچھتے رہتے ہیں۔ مگر میں جانتا ہوں کے بزرگی کی عمر میں پہنچ کر ایک انسان کو سب سے زیادہ جس چیزکی ضرورت ہوتی ہے وہ دوسرے انسان کا وقت ہوتا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ وقت میرے لیے جس قدر قیمتی ہے اس سے کہی زیادہ میرے بزرگوں کے لیے قیمتی ہے، اس لیے میں صرف اپنی ماں کو ہی نہیں کوشش کرتا ہوں کے اپنے آس پاس کے بزرگوں کو بھی کچھ وقت دوں۔
میرے دوست کے اس جواب میں سوچنے کے لیے بہت کچھ رکھا ، آیے غور کریں یہ وقت واقعی بہت قیمتی ہے دولت سے بھی زیادہ اور ہمارے بزرگوں کو دولت سے زیادہ وقت کی ضرورت ہے جسے ہم یوں ہی ضایع کررہے ہیں۔
حالانکہ حقیقتاً ایسا ہوتا نہیں ہے،اس کوشش میں جس کا ''گیم اوور'' ہوتا ہے اس کواسپتال جاکر دیکھیں اگر صرف ایک ٹانگ میں معمولی سا فریکچر بھی ہوجائے تو کم از کم پانچ ، چھ ماہ کا بیڈ ریسٹ لازمی کرنا پڑجاتا ہے،گویا چند سیکنڈ کی بچت کی غلط حکمت عملی کے سبب آدھا سال بستر پر اوردوسروں کے سہارے گزارنا پڑتا ہے جس میں اپنا اورگھر والوں کا بے شمار وقت ضایع ہوتا ہے۔
بات تو بہت معمولی مگرغور طلب ہے کہ ہم میں سے بیشتر لوگ جو روزانہ چند سیکنڈ تک کی بچت کے چکر میں جان کا خطرہ بھی مول لیتے ہیں ، وہ آخر اپنے چند سیکنڈ یا منٹ بچا کر کرتے کیا ہیں؟ طوفانی انداز میں موٹرسائیکل چلانے کے بعد بیشترنوجوان یا تو ٹی وی اور نیٹ پر تفریح لے رہے ہوں گے یا پھرکسی کیرم بورڈ۔ اسنوکر یا پھر اپنے دوستوں کے ساتھ ہوٹل پرگپے ہانک رہے ہوتے ہیں، ان کے نزدیک یہ بہت عمدہ موضوع تو ضرور ہوگا ، مگر ان کی گفتگو میں کسی کتاب کا کوئی تذکرہ نہیں ہوگا نہ ہی ملک وقوم کا کوئی ایسا موضوع ہوگا جس سے اندازہ ہو کہ یہ واقعی پڑھے لکھے نوجوان ہیں، غرض کوئی بامقصد گفتگوکم ہی سننے کو ملے گی۔
جو ذرا سا ڈگری یافتہ یا نئی ٹیکنالوجی کے حامل ہوں گے اور اپنے آپ کو قدرے دانشور بھی سمجھتے ہونگے وہ فیس بک، چیٹنگ یا پھر موبائل پر بنے گروپ میں ایسے موضوعات پر اپنی دانشوری جھاڑ رہے ہونگے کہ گویا وہ اس دنیا میں کوئی بڑا نیک، اچھا اورانقلابی کام کررہے ہیں مگر ان میں سے بھی بیشتر ایسے ملیں گے کہ ان کا یہ قیمتی وقت اس قسم کی ''پوسٹ'' یا پیغام آگے دوسروں تک پہنچنے میں صرف ہوتا ہے کہ یہ پیغام 'فارورڈ' کرکے نیکی کمائیں ، یعنی یہ کام ماضی کے اس کام کی جدید شکل ہے کہ جس میں بعض احمق قسم کے لوگ کسی پرچے کو پڑھ کر اس کی چالیس، چالیس فوٹوکاپیاں کراکے لوگوں میں مفت تقسیم کرتے تھے کہ اگر ایسا نہ کیا تو نقصان ہوگا۔
ہم لوگ اپنے چند سیکنڈ کوکس قدر بچانے کی کوشش میں رہتے ہیں اس کا مظاہرہ کسی بھی جگہ جہاں رش ہو یا قطار لگی ہو، بخوبی ہوتا ہے، دودھ کی دکان ہو یا گوشت والے کی، بعد میں آنے والا ہر بندہ چاہتا ہے کہ کسی طرح اس کو پہلے مل جائے، ڈاکٹر کے کلینک پر سارے مریض ہی آتے ہیں مگر وہاں بھی ہرکوئی چاہتا ہے کہ کسی طرح قریب کا نمبر مل جائے، اور بعض تو ایسی مسکین اورعجیب وغریب شکل بناتے ہیں کہ انتظار میں بیٹھے دوسرے لوگ خود ہی کہہ دیں، بھائی ! پہلے آپ دکھا دو، ہمارے ایک جاننے والے جب کبھی اپنے چھوٹے بچے کو ڈاکٹر کے لے کر جاتے ہیں تو خاموشی سے بچے کی چٹکی بھر لیتے ہیں کہ بچہ روئے گا تو دوسرے مریض نہ سہی ، ڈاکٹر ہی پریشان ہوکر بلالے کہ بھئی پہلے آپ آجائیں۔
وقت کا یہ مسئلہ کسی ایک سمیت نہیں ہے، ہماری اکثریت جو مساجد میں خدا کا شکر ادا کرنے جاتی ہے وہ بھی کوشش کرتی ہے کہ جب ا مام صاحب نیت باندھ لیں تب جائیں تاکہ سلام پھیر تے ہی فوراً واپس بھاگنے میں آسانی ہوگویا خدا کا شکر ادا کرنے کے لیے بھی ہمارے پاس وقت نہیں۔ اب وہ وقت گیا جب ہمارے پاس پڑوسیوں کے لیے بھی وقت ہوتا ہے، پڑوسیوں سے بھی عموماً چھٹی والے دن ہے دور سے 'ہیلو اور ہائے' ہوتی ہے ۔ یہ بھی بڑی فراغ دلی ہے ورنہ تو اب یہ تکلف بھی کم ہی ہوتا ہے۔
افسوس ناک صورتحال یہ ہے کہ اب بعض والدین کے پاس اولاد کے لیے وقت نہیں ہوتا، کچھ تو بچے کی پیرنٹس میٹنگ تک میں نہیں جاتے۔ دوسری جانب اس سے بھی بڑی تکلیف دہ صورتحال یہ ہے کہ اولاد اپنے والدین اور بزرگوں کو بھی وقت نہیں دیتی۔ یہی وہ تکلیف دہ صورتحال ہے کہ جس کی وجہ سے راقم نے آج کے کالم کا یہ موضوع منتخب کیا۔یہ ایک بہت بڑا معاشرتی مسئلہ بن چکا ہے جس میں کچھ والدین کی کوتاہی بھی شامل ہوتی ہے، یعنی بعض والدین اپنی اولاد کے ذہن میں یہ بات بٹھا دیتے ہیں کہ دولت کمانا ہی زندگی کا سب سے اہم اور ضروری کام ہے، یوں اولاد دن رات ملازمت یا کاروبار میں لگ جاتی ہے اور وہ اپنے بزرگ والدین کو چھٹی کے دن بھی وقت دینے کو دستیاب نہیں ہوتی۔
ہم میں سے اکثر پیسہ کمانے کے لیے باہر چلے جاتے ہیں اور برسوں واپس نہیں آتے کہ کچھ اور کما کر پیسہ جوڑ لیں، بعض تو اپنے بیوی بچے بھی باہر اپنے پاس بلا لیتے ہیں اور والدین وہی تنہا رہ جاتے ہیں، بعض اولادیں جو اپنے آپ کو بڑا نیک اور والدین کا نمک خوار سمجھتی ہیں باہر سے پیسہ بھیج کر یہ سمجھتی ہیں کہ انھوں نے والدین کو علاج معالجے کے اور کھانے پینے کے لیے ایک بڑی رقم بھیج کر اپنا حق ادا کردیا اور والدین کوخوش کردیا، وہ اس حقیقت سے ناواقف ہیں کہ بڑھاپے میں انسان کو روپے پیسے سے زیادہ کسی ایسے انسان کی ضروت ہوتی ہے جو انھیں وقت دے سکے،ان کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کرسکے، کچھ ان کے دل کی سن سکے۔
ہمارے ایک دوست کے پانچ بھائی ہیں،ان کی والدہ تمام اولادوں میں سب سے زیادہ تعریف ہمارے دوست کی کرتی ہیں۔ ایک روز ہم نے ان سے پوچھا کہ تمہارے سارے بھائی تمہارے مقابلے میں تمہاری والدہ کا زیادہ خیال کرتے ہیں بلکہ بہت حد تک وہ والدہ پر پیسہ بھی خرچ کرتے ہیں لیکن کیا وجہ ہے کہ والدہ تمہاری تعریف سب سے زیادہ کرتی ہیں اورمحسوس ہوتا ہے کہ وہ محبت بھی سب سے زیادہ تم سے ہی کرتی ہیں، اس کی کیا وجہ ہے؟
ہمارے دوست نے جواب دیا کہ تمام بھائیوں میں والدہ کو میں ہی سب سے زیادہ وقت دیتا ہو، ان کے پاس بیٹھ کر دیر تک باتیں کرتا ہوں جب کہ دوسرے بھائی آتے جاتے سلام کرتے ہیں،خیریت پوچھتے رہتے ہیں۔ مگر میں جانتا ہوں کے بزرگی کی عمر میں پہنچ کر ایک انسان کو سب سے زیادہ جس چیزکی ضرورت ہوتی ہے وہ دوسرے انسان کا وقت ہوتا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ وقت میرے لیے جس قدر قیمتی ہے اس سے کہی زیادہ میرے بزرگوں کے لیے قیمتی ہے، اس لیے میں صرف اپنی ماں کو ہی نہیں کوشش کرتا ہوں کے اپنے آس پاس کے بزرگوں کو بھی کچھ وقت دوں۔
میرے دوست کے اس جواب میں سوچنے کے لیے بہت کچھ رکھا ، آیے غور کریں یہ وقت واقعی بہت قیمتی ہے دولت سے بھی زیادہ اور ہمارے بزرگوں کو دولت سے زیادہ وقت کی ضرورت ہے جسے ہم یوں ہی ضایع کررہے ہیں۔