میاں صاحب کراچی آپ کو پکار رہا ہے

کبھی کراچی اس خطے کے ماتھے کا جھومر تھا۔ ایک قدرتی بندرگاہ

ISLAMABAD:
اِس کے خمیر میں گندھی عظمت بے معنی ہوئی ،اس کا تابناک ماضی گہنا گیا، آج یہ ایک لاوارث شہر ہے۔

کبھی کراچی اس خطے کے ماتھے کا جھومر تھا۔ ایک قدرتی بندرگاہ۔اس کی تاریخ قدیم دستاویزات میں بکھری پڑی ہے۔کہتے ہیں، جب سکندر اعظم سندھ کی مہم سے لوٹا ، ''توکروکولا'' میں خیمہ زن ہوا۔ عرب اِسے دیبل کہہ کر پکارتے ، اور اس سے عشق کرتے تھے۔ اٹھارویں صدی کے آخر میں اس کے گرد ایک پرشکوہ فصیل تعمیر ہوئی۔ سمندر کی اُور کھلنے والا دروازہ کھارا در کہلایا، ندی کی سمت جانے والا میٹھا در۔۔۔ہاں، یہ خطے کا دل تھا۔ کبھی خان آف قلات کے زیر تسلط رہا۔کبھی تالپور اِس کے حکمراں بنے۔

انگریز ادھر آئے، تو اُنھوں نے اِس بستی کے بیل بوٹوں سے پھوٹتی اُس خوشبو کوپلوں میںپہچان لیا، جو عظیم شہروں کا خاصا ہے۔ وہ اس کی تعمیر و ترقی میں جٹ گئے۔ اِس کا نقشہ بدل دیا۔۔۔ لیکن آج اِس پر نگاہ ڈالیں، تو دل کٹ جاتا ہے کہ اسے لسانیت کا داغ لگ گیا۔ اس کی سڑکیں تباہ ہوئیں، مکانات دھول سے اٹ گئے، پیڑ مرجھا گئے، پانی کم یاب ہوا، اور فاصلے بڑھنے لگے۔ مسافر ہمہ وقت سفر میں رہتے ہیں، مگر منزل پر نہیں پہنچ پاتے۔ قابل اجمیری کا شعر ہے:

راستہ ہے کہ کٹتا جاتا ہے
فاصلہ ہے کہ کم نہیں ہوتا

عظیم ریاستوں کی تاریخ درحقیقت عظیم شہروں کی تاریخ ہے۔ بڑے شہرہی بڑی سلطنتوں کی بنیاد بنتے ہیں۔ مورخ ان ہی شہروں کے حکمرانوں، سورماؤں، داناؤں تذکرہ کرتا ہے۔ آپ ان شہروں کے گرد و نواح کا،آس پاس کی بستیوں، وہاں کے باسیوں کا تذکرہ نہیں سنیں گے۔ مورخ ہمیشہ بڑے شہر کی کہانی قلم بند کریگا۔وجہ ان کی تاریخ، ان کی جغرافیائی اہمیت۔ ان کی علمی، ادبی، ثقافتی زرخیزی۔ ماضی میں جھانکنے کی ضرورت نہیں۔ حال پر نگاہ ڈالیے۔


لندن، پیرس، نیویارک،برلن، ٹوکیو، روم جیسی مثالیںہمارے سامنے ہیں جن کی تعمیرات، ترقی، طرز فکر اورطرز حیات میں ہم نہ صرف برطانیہ، فرانس، امریکا، جرمنی، جاپان اور اٹلی کے روشن حال، بلکہ درخشاں ماضی کی بھی تصویر دیکھ سکتے ہیں مگر کراچی پر نگاہ ڈالیں تو آپ کو فقط دھول دکھائی دیگی جس نے اِس کی عظمت کو چاٹ لیا۔ گرد کا طوفان جس میںایک تابناک ماضی گم ہوا، اب فقط شکست و ریخت، تقسیم، تکالیف اور تاریکی نظر آئیگی۔اِس دشت میں ایک شہر تھا وہ کیا ہوا آوارگی! رینجرز کے آپریشن کی افادیت سے انکار نہیں۔ وہ ایک حقیقت مگر اِسے کچھ دیر کو بھول جائیں تو کراچی ایک لاوارث شہر ہے، شہری وقعت کھو بیٹھے، بے نشان ہوئے۔

سبب یہ رہا کہ سیاسی جماعتوں نے انھیں فقط اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا۔گذشتہ تین عشروں میںکراچی سے کامیاب ہونے والی جماعتیںاِسے سنبھالنے میں ناکام رہیں یہ دن بہ دن بڑھتا گیا، پھیلتا گیا اوربکھرتا گیا۔ آبادی کے ساتھ مصائب بڑھے۔ اب یہ ایک چیستان ہے۔دو ہزار سے زاید کچی بستیاں جن کا نہ تو مکمل ریکارڈ نہ ہی ترقیاتی منصوبوں میں کوئی تنظیم مگر گریہ کیسا ۔ جو یہاں پکی بستیاں ہیںآج وہ بھی بدحال۔ کراچی کے کرب کی کہانی دراصل تاریخ کی سلوٹوں میں چھپی ہے۔ اس کے مسائل کا حل نئے منصوبوں، ارادوں، اعلانوں میں نہیں، بلکہ ایک غلطی کی درستی میں مضمر میں ہے۔

نکتہ ذہن میں رکھیں، عظیم شہر وفاق کی علامت ہوتے ہیں، طاقت کا مرکز ٹھہرتے ہیں مگر کراچی کو علاقائیت ، لسانیت کے جھگڑوں میں دھکیل دیا گیا اپنی تمام تر اہمیت کے باوجود یہ ریاست کا کنارہ قرار پایا۔ آئیں ماضی میں پلٹتے ہیں۔۔۔1936 میںجب سندھ صوبہ بنا، تو یہ شہر مرکز ٹھہرا۔ بٹوارے کے بعد اِسے نئی مملکت کا دارالحکومت بنایا گیا تو اس فیصلے کے پیچھے قائد اعظم کی سیاسی بصیرت، وسیع تجربہ اور تاریخ کا مطالعہ تھا۔اُنکی نگاہیں کراچی کو پاکستان کا اقتصاری اور ثقافتی حب بنتے دیکھ رہی تھیں مگر پھر ایک آمر نے،کچھ جواز گھڑ کے، دارالحکومت منتقل کرنے کا فیصلہ کر ڈالا۔ ایک نیا شہر تو بسا لیا مگر ایک قدیم شہر سے اُس کی روح چھین لی۔

وفاقی ادارے دھیرے دھیرے منتقل ہوتے گئے۔ پہلے پہل تو یہ کیپٹل کے زیر نگرانی رہا مگر ون یونٹ ختم ہوا، تب 68-69 میں سندھ کی حدود آیا۔ آگے جو ہوا، وہ تاریخ کا حصہ آیا۔ پی پی کبھی وفاق کی علامت تھی۔ شہید بینظیر بھٹو نے اِس تاثر کو قوی کرنے کی بھرپور کوشش کی مگر ضیا دور کے جبر، بھٹو صاحب کی پھانسی اور سیاسی کارکنوں پر ہونے والے مظالم نے سندھی اور غیرسندھیوں میںجو تقسیم پیدا کی ، پی پی اِس سے کبھی پوری طرح نہیں نمٹ سکی۔

دوسری طرف ایم کیو ایم تھی، جو ابھری ہی اردو بولنے والوں کے حقوق کی علم بردار کے طوراور مستقبل میں اپنی چند عارضی کوششوں کے باعث اردو بولنے والے حلقوں تک محدود رہی۔ کراچی کے تناظر میں دیگر جماعتوں کا تذکرہ بے معنی ہے۔ یہاں تک کہ جماعت اسلامی کا بھی۔ تحریک انصاف نے 2013 میں جو حیران کن کامیابی حاصل کی تھی، اُسے عمران اسماعیل، عارف علوی، علی زیدی، فیصل واوڈا کی '' متاثر کن ''کارکردگی لے بیٹھی۔ اب کراچی میں اِس کا کوئی کردار دکھائی نہیں دیتا تو موجودہ حالات میں۔۔۔ مجھے کہنے دیجیے، ن لیگ کے لیے میدان کھلا ہے۔

میاں صاحب کراچی میں اپنی جماعت کو منظم کرکے نہ صرف اگلے انتخابات میں اپنی موجودگی کا بھرپور احساس دلا سکتے ہیں بلکہ احساس کمتری میں مبتلا، شکستگی کے شکار اِس شہر کی عظمت کی بحالی میں بھی موثر کردار ادا کرسکتے ہیں۔فقط پنجاب میں جیت کر وفاق میں حکومت بنانے کا نسخہ ہمیشہ کارگر نہیں رہے گا پہلا قدم ہے ؛مردم شماری۔ کیسا المیہ ہے کہ آج ملک میں قومی اسمبلی کا ایک حلقہ تین لاکھ ووٹرز پر مشتمل ہے اور دوسرا تیس ہزارووٹرز پر۔ مردم شماری کے بعد کراچی میں نئی حلقہ بندیاں ہی وہ قدم جو شہر کو دوبارہ ترقی کی راہ پر گامزن کرسکتا ہے۔ دو کروڑ سے زاید آبادی والا یہ شہر قومی اسمبلی کی کم از کم 35 نشستوں کا حقدار ہے۔

دوسرا قدم کراچی کو سندھ سے الگ کرنا نہیں بلکہ بلدیاتی اداروں کو بااختیار بنانا اور اُنھیں مطلوبہ فنڈز اور مشینری فراہم کرنا ہے۔ لاہور تو بلدیاتی نظام کے بغیر بھی ترقی کرسکتا ہے کہ ادھر میاں شہباز شریف وزیر اعلیٰ۔مخلص بھی ہیں اورپھر لاہور سے اُنکے سیاسی مفادات بھی وابستہ مگر کراچی کے حالات دیگر۔ اب یہ شہر بلدیاتی اداروں کے بغیر ایک انچ آگے نہیں بڑھ سکتا۔ تیسرا قدم ہے ایک حقیقی وفاقی جماعت کی کراچی کی سیاست میں آمد اور نواز لیگ اکلوتا آپشن ہے میاں صاحب، کراچی جس کی سڑکیں تباہ ہوئیں، مکانات دھول سے اٹ گئے، پیڑ پودے مرجھا گئے، آپ کو پکار رہا ہے۔۔۔اس کی پکار سنیے۔
Load Next Story