بے نظیر بھٹو …ایک تعارف

بین الاقوامی میگزین نے دنیا کے 50سحرانگیز شخصیت کے حامل افراد میں محترمہ بینظیر بھٹو کو بھی شامل کیا۔


December 27, 2012
بے نظیر بھٹو نے اپنے دور حکومت میں خواتین کی بہبود کے حوالے سے اہم پالیسیاں بنائیں۔ فوٹو : فائل

بے نظیر 21 جون 1953ء کو کراچی میں پیدا ہوئیں۔ ابتدائی تعلیم لیڈی جیننگز نرسری سکول میں حاصل کی۔

اس کے بعد کراچی کے کانونٹ آف جیزز اینڈ میری سکول میں داخل ہوئیں۔ دو سال یہاں پڑھتی رہیں' اس کے بعد وہ راول پنڈی میں کانونٹ سکول میں داخل ہوگئیں۔ بعد ازاں کانونٹ سکول مری چلی گئیں۔ 15 برس کی عمر میں انہوں نے او لیول کا امتحان پاس کیا' اس کے بعد وہ اے لیول کی تعلیم مکمل کرنے کے لیے کراچی کے گرائمر سکول میں داخل ہوگئیں۔ پاکستان میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ مزید علم کے حصول کی خاطر امریکا چلی گئیں۔ 1969ء سے 1973ء تک وہ ریڈکلف کالج اور ہاورڈ یونیورسٹی میں پڑھتی رہیں جہاں سے انہوں نے بی اے کی ڈگری حاصل کی۔

سب سے بڑی بیٹی ہونے کے ناطے وہ اپنے والد کے بہت قریب تھیں۔ بھٹو مرحوم شملہ معاہدہ کے لیے بینظیر بھٹو کو ساتھ لے گئے۔تعلیم کے اگلے مرحلے کے لیے وہ برطانیہ پہنچ گئیں۔ یہاں آکسفورڈ یونیورسٹی سے انہوں نے ''بین الاقوامی قانون اور ڈپلومیسی'' کا ایک کورس کیا۔ 1973ء سے 1977ء تک وہ آکسفورڈ ہی کے ایک کالج ''لیڈی مارگریٹ ہال''سے فلسفہ، سیاسیات اور معاشیات کی تعلیم حاصل کرتی رہیں۔دسمبر 1976ء میں وہ آکسفورڈ یونین کی صدر بھی منتخب ہوئیں۔

5جولائی 1977ء کو فوج کے سربراہ جنرل ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ الٹ دیا جس کے بعد بینظیر کی والدہ نصرت بھٹو نے پارٹی کی قیادت سنبھال لی۔ کچھ عرصے بعد ذوالفقار علی بھٹو کے بیٹے شاہ نواز بھٹو فرانس میں پراسرار طور پر ہلاک ہو گئے۔ اس دوران بینظیر بھٹو نے تعلیم مکمل کی اور پاکستان واپس آگئیں۔ حکومت نے انہیں گھر میں نظر بند کر دیا جس کے بعد 1984ء میں حکومت نے انہیں برطانیہ جانے کی اجازت دے دی۔ اب انہوں نے باقاعدہ پارٹی قیادت سنبھال لی۔ اس دوران کراچی میں آصف علی زرداری سے ان کی شادی ہوئی اور وہ ملک میں جمہوریت کی بحالی کی جدوجہد بھی کرتی رہیں۔جنرل ضیاء الحق کے بعد 16نومبر 1988ء کو پہلے جماعتی انتخابات کے نتیجے میں وہ پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم بنیں۔

اس منصب پر وہ دو بار فائز رہیں۔ انہوں نے پہلی مرتبہ 2دسمبر 1988ء میں وزارت عظمیٰ کا حلف لیا۔ ایک بین الاقوامی میگزین نے دنیا کے 50سحرانگیز شخصیت کے حامل افراد میں محترمہ بینظیر بھٹو کو بھی شامل کیا۔ 1989ء میں ایک بین الاقوامی ادارے ''لبرل انٹرنیشنل'' نے انہیں فریڈم پرائز سے نوازا۔بیس ماہ بعد اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے ان کی حکومت کو کرپشن کے الزامات کے تحت برطرف کر دیا۔ تاہم 1993ء میں وہ دوبارہ انتخابات جیت کر وزیراعظم بنیں۔ ان کے دور حکومت میں صدارتی انتخابات کے نتیجے میں پیپلزپارٹی ہی کے ایک رہنما سردار فاروق احمد خان لغاری نے مختلف الزامات کے تحت ان کی حکومت برطرف کر دی۔ اس سے قبل ان کے بھائی میر مرتضیٰ بھٹو کو کراچی میں ان کے بنگلے سے تھوڑا ہی دور ایک پولیس مقابلے میں قتل کر دیا گیا۔ بینظیر اس قتل کی ذمہ داری پراسرار قوتوں پر ڈالتی تھیں۔

اپنی حکومت کے دوران انہوں نے خواتین کی بہبود بالخصوص ان کی صحت کے حوالے سے اہم پالیسیاں بنائیں۔ انہوں نے عورتوں کے خلاف کئی ایک امتیازی قوانین بھی ختم کیے۔ وہ خواتین کے لیے الگ سے پولیس سٹیشن، عدالتیں اور ترقیاتی بینک قائم کرنے کا منصوبہ رکھتی تھیں، تاہم اپنے ادوار میں وہ اس منصوبے کے تمام پہلوئوں پر عملدرآمد نہ کروا سکیں۔ان کے دور حکومت، 1996ء میں ہمسایہ ملک افغانستان میں طالبان نے ملک کا کنٹرول سنبھال لیا۔ کہا جاتا ہے کہ طالبان کے قیام میں بینظیر بھٹو کا اہم کردار تھا۔ ان کے خیال میں صرف طالبان جیسی قوت ہی برسوں کی جنگ اور خانہ جنگی کے نتیجے میں تباہ حال ملک میں امن و امان قائم کر سکتی تھی۔ اسی طرح ان کا خیال تھا کہ طالبان کے اقتدار کی صورت میں پاکستان کے وسط ایشیائی ریاستوں تک روابط مستحکم ہوں گے۔ بینظیر بھٹو کا دعویٰ تھا کہ ان کی حکومت طالبان کی مالی اور عسکری مدد کرتی رہی حتیٰ کہ پاکستانی فوج بھی افغانستان میںبھیجی گئی۔

میاںنوازشریف کے دوسرے دور حکومت میں وہ قائد حزب اختلاف کا کردار ادا کرتی رہیں۔ اس دوران ان پر کرپشن سمیت کئی مقدمات قائم ہوئے۔ 1998ء میں وہ دبئی چلی گئیں جہاں انہوں نے جلاوطنی کی زندگی گزارنا شروع کر دی۔ اس دوران وزیراعظم نوازشریف کی حکومت برطرف کر دی گئی۔ برطرفی کے بعد نوازشریف بھی سعودی عرب جلاوطنی کی زندگی بسر کرنے لگے۔ اس دوران بینظیر بھٹو اور میاں نوازشریف کے درمیان پاکستان کی عسکری حکومت کے خلاف جدوجہد پر اتفاق ہو گیا۔ دو دو بار ملک کے وزیراعظم رہنے والے دونوں قائدین کے درمیان ''میثاق جمہوریت'' کے نام سے ایک معاہدہ بھی طے پایا۔اگرچہ 2002ء کے انتخابات میں بینظیر بھٹو ملک میں آکر اپنی پارٹی کی قیادت نہ کر سکیں، تاہم ان کی غیر موجودگی میں ان کی پارٹی نے 28.42فیصد ووٹ حاصل کیے۔ 18اکتوبر 2007ء کو بینظیر بھٹو پاکستان واپس آگئیں۔ قومی مفاہمتی آرڈیننس کے مطابق ان کے خلاف کرپشن سمیت دیگر تمام مقدمات واپس ہو گئے۔ وطن واپسی پر کراچی میں ان پر قاتلانہ حملہ ہوا جس میں وہ بچ گئیں۔ 2008ء کے عام انتخابات میں وہ بھرپور انداز میں شرکت کا ارادہ رکھتی تھیں۔ ان کی جماعت نے پورے ملک میں سب سے زیادہ امیدوار کھڑے کیے۔ انہیں بھرپور یقین تھا کہ وہ اگلی حکمران ہوں گی۔ 27دسمبر 2007ء کو راولپنڈی میں ایک جلسے کے دوران خودکش بم دھماکے اور گولیاں لگنے کے نتیجے میں وہ جاں بحق ہو گئیں۔ ان کا ایک بیٹا، بلاول اور دو بیٹیاں، آصفہ اور بختاور ہیں۔ انہیں مختلف اعزازات بھی ملے، ٹکٹ شائع ہوئے اور یادگاری سکہ بھی جاری ہوا۔ بلاول بھٹو نے اقوام متحدہ کی جانب سے انہیں دیا جانے والا انسانی حقوق کا عالمی ایوارڈ وصول کیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں