توہین عدالت کیس کسی نے کہا قانون ختم کرنے سے بحران پیدا ہوگا چیف جسٹس
یہ نہیں کہہ سکتے کہ پارلیمنٹ ہماری اور ہم پارلیمنٹ کی فیور کریں، آئین کے مطابق فیصلے کرتے ہیں، ریمارکس
KARACHI:
سپریم کورٹ میں توہین عدالت قانون سازی پر پارلیمانی بحث کا ریکارڈ پیش کر دیا گیا جبکہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ پارلیمانی بحث کی دستاویزات قانون کی تشریح میں مددگار ثابت ہوں گی، یہ نہیں کہتے کہ پارلیمنٹ ہماری اور ہم پارلیمنٹ کی فیور کرتے ہیں، کس نے کہہ دیا ہے قانون کالعدم قراردینے سے آئینی بحران پیدا ہوجائے گا۔
جمعرات کو چیف جسٹس کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے توہین عدالت کے نئے قانون کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کی۔ لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن راولپنڈی بینچ کے صدر اور درخواست گزار شیخ احسن الدین نے عدالت کو بتایا کہ پارلیمنٹ نے توہین عدالت کے خلاف قانون عجلت میں پاس کیا۔ انھوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کو عدلیہ کی آزادی پر قدغن لگانے کا اختیار نہیں۔ ارکان پارلیمان نے ایک نیا قانون منظورکرکے اپنے حلف سے انحراف کیاکیونکہ حکومت نے 12 جولائی کو سپریم کورٹ میں جواب داخل کرنا تھا اور یہ قانون نئے وزیراعظم کوتوہین عدالت کی سزا سے بچانے کیلیے بنایا گیا جس میں توہین عدالت کی کارروائی سے بچنے کے طریقے بتائے گئے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ کیپٹن صفدر نے قومی اسمبلی میں تجویز دی تھی کہ حکومت عدلیہ سے رابطہ کرتی اور اسے خط لکھتی اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم لوگ کوئی ان کے منشی تو نہیں، پارلیمنٹ اپنا کام کرتی ہے اورعدالتیں اپنا، ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم پارلیمنٹ کی فیورکرتے ہیں اورپارلیمنٹ ہماری کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں نہیں معلوم کہ عدالت کے دروازے کے باہرکیا ہو رہا ہے۔ یہ کس نے کہہ دیا کہ قانون کالعدم قراردینے سے آئینی بحران پیدا ہوجائے گا؟۔
سماعت کے دور ان نئے قانون پر پارلیمنٹ میں ہونے والی بحث سپریم کورٹ میں پیش کی گئی جسے درخواست گزار احسن الدین نے عدالت میں پڑھ کر سنایا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ پارلیمانی بحث کی دستاویز قانون کی تشریح میں مدد گار ثابت ہوں گی۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہاکہ آئین کے آرٹیکل 69 کے تحت پارلیمنٹ کی کارروائی کو تحفظ حاصل ہوتا ہے اور پارلیمانی کارروائی عدالت میں چیلنج نہیں ہوسکتی تاہم بحث کو عدالت دیکھ سکتی ہے۔ یہ کارروائی ہمارے لیے کسی مقدمے میں تشریح کا ایک ذریعہ ہے۔
نمائندہ ایکسپریس کے مطابق فاضل وکیل نے بتایا کہ بینچ کی تشکیل چیف جسٹس کا صوابدیدی ا ختیار ہے لیکن اس قانون کے ذریعے ان سے یہ اختیار لیا گیاہے۔ انھوں نے پارلیمنٹ کے کنڈکٹ کو دیکھنے کی درخواست کی جس پر جسٹس جواد نے کہا پارلیمنٹ کا اپنا دائرہ اختیار ہے اس میں مداخلت نہیں کی جا سکتی ججوں کا کام فیصلے کر نا ہے۔
فا ضل وکیل نے بتایا کہ اٹارنی جنرل نے میڈیا میں بیان دیا تھا کہ پارلیمنٹ عدالت کو تالا لگا سکتی ہے جس پر جسٹس جواد نے کہا کہ عدالت کے باہر کیا ہوتا ہے اس سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے۔ شیخ احسن الدین نے کہا کہ عدلیہ پارلیمنٹ کو تقویت دے رہی ہے اور پارلیمنٹ عدلیہ کی ٹانگیں کھینچ رہی ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا ہم کسی کی فیور نہیں کر رہے ہیں، آئین و قانون کو دیکھ کر فیصلے کرتے ہیں۔ مقدمے کی سماعت آج پھر ہوگی۔
سپریم کورٹ میں توہین عدالت قانون سازی پر پارلیمانی بحث کا ریکارڈ پیش کر دیا گیا جبکہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ پارلیمانی بحث کی دستاویزات قانون کی تشریح میں مددگار ثابت ہوں گی، یہ نہیں کہتے کہ پارلیمنٹ ہماری اور ہم پارلیمنٹ کی فیور کرتے ہیں، کس نے کہہ دیا ہے قانون کالعدم قراردینے سے آئینی بحران پیدا ہوجائے گا۔
جمعرات کو چیف جسٹس کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے توہین عدالت کے نئے قانون کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کی۔ لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن راولپنڈی بینچ کے صدر اور درخواست گزار شیخ احسن الدین نے عدالت کو بتایا کہ پارلیمنٹ نے توہین عدالت کے خلاف قانون عجلت میں پاس کیا۔ انھوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کو عدلیہ کی آزادی پر قدغن لگانے کا اختیار نہیں۔ ارکان پارلیمان نے ایک نیا قانون منظورکرکے اپنے حلف سے انحراف کیاکیونکہ حکومت نے 12 جولائی کو سپریم کورٹ میں جواب داخل کرنا تھا اور یہ قانون نئے وزیراعظم کوتوہین عدالت کی سزا سے بچانے کیلیے بنایا گیا جس میں توہین عدالت کی کارروائی سے بچنے کے طریقے بتائے گئے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ کیپٹن صفدر نے قومی اسمبلی میں تجویز دی تھی کہ حکومت عدلیہ سے رابطہ کرتی اور اسے خط لکھتی اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم لوگ کوئی ان کے منشی تو نہیں، پارلیمنٹ اپنا کام کرتی ہے اورعدالتیں اپنا، ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم پارلیمنٹ کی فیورکرتے ہیں اورپارلیمنٹ ہماری کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں نہیں معلوم کہ عدالت کے دروازے کے باہرکیا ہو رہا ہے۔ یہ کس نے کہہ دیا کہ قانون کالعدم قراردینے سے آئینی بحران پیدا ہوجائے گا؟۔
سماعت کے دور ان نئے قانون پر پارلیمنٹ میں ہونے والی بحث سپریم کورٹ میں پیش کی گئی جسے درخواست گزار احسن الدین نے عدالت میں پڑھ کر سنایا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ پارلیمانی بحث کی دستاویز قانون کی تشریح میں مدد گار ثابت ہوں گی۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہاکہ آئین کے آرٹیکل 69 کے تحت پارلیمنٹ کی کارروائی کو تحفظ حاصل ہوتا ہے اور پارلیمانی کارروائی عدالت میں چیلنج نہیں ہوسکتی تاہم بحث کو عدالت دیکھ سکتی ہے۔ یہ کارروائی ہمارے لیے کسی مقدمے میں تشریح کا ایک ذریعہ ہے۔
نمائندہ ایکسپریس کے مطابق فاضل وکیل نے بتایا کہ بینچ کی تشکیل چیف جسٹس کا صوابدیدی ا ختیار ہے لیکن اس قانون کے ذریعے ان سے یہ اختیار لیا گیاہے۔ انھوں نے پارلیمنٹ کے کنڈکٹ کو دیکھنے کی درخواست کی جس پر جسٹس جواد نے کہا پارلیمنٹ کا اپنا دائرہ اختیار ہے اس میں مداخلت نہیں کی جا سکتی ججوں کا کام فیصلے کر نا ہے۔
فا ضل وکیل نے بتایا کہ اٹارنی جنرل نے میڈیا میں بیان دیا تھا کہ پارلیمنٹ عدالت کو تالا لگا سکتی ہے جس پر جسٹس جواد نے کہا کہ عدالت کے باہر کیا ہوتا ہے اس سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے۔ شیخ احسن الدین نے کہا کہ عدلیہ پارلیمنٹ کو تقویت دے رہی ہے اور پارلیمنٹ عدلیہ کی ٹانگیں کھینچ رہی ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا ہم کسی کی فیور نہیں کر رہے ہیں، آئین و قانون کو دیکھ کر فیصلے کرتے ہیں۔ مقدمے کی سماعت آج پھر ہوگی۔