رواں سال ٹارگٹ کلنگ دھماکوں اور دیگر واقعات میں 2ہزار 183افراد ہلاک
پولیس افسران اجلاسوں میں مصروف ، رینجرز کو پولیس کے مساوی اختیارات ملنے کے باوجود ملزمان ا ہداف کو نشانہ بناتے رہے.
رواں سال شہر میں ٹارگٹ کلنگ ، اغوا کے بعد قتل کر کے لاشیں پھینکنے اور دیگر قتل و غارت گری کی وارداتوں میں 2 ہزار 183 افراد اپنی زندگی کی بازی ہار گئے۔
پولیس کے اعلیٰ افسران کے امن و امان کے حوالے سے رواں سال میںدرجنوں اجلاس اور رینجرز کو پولیس کے مساوی اختیارات دیے جانے کے باوجود ٹارگٹ کلرز اور دہشت گرد شہر میں آزادانہ طور دندناتے رہے اور اپنے ہدف کو نشانہ بنا کر پولیس کی آنکھوں میں دھول جھونکتے رہے جبکہ پولیس لاشیں اٹھا کر اسپتال پہنچانے کا کام انجام دیتی رہی۔
رواں سال کے دوران ٹارگٹ کلنگ ، قتل و غارت گری اور بم دھماکوں میں زندگی کی بازی ہارنے والوں میں رینجرز افسران و جوان ، پولیس افسران و اہلکار ، فرنٹیئر کانسٹیبلری افسر ، ایکسائز پولیس ، ٹریفک پولیس ، خواتین ، مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں کے رہنما ، عہدیداران اور کارکنان بھی شامل ہیں جنھیں سر عام نشانہ بنایا گیا ، شہری حلقوں کا کہنا ہے کہ سال 2012 گزرنے کو ہے اور اس دوران شہر کے مختلف علاقوں سے درجنوں افراد کو اغوا کے بعد قتل کر کے ان کی لاشیں پھینکیں گئیں لیکن پولیس کسی بھی ایک ملزم کو رنگے ہاتھوں پکڑنے میں ناکام رہی۔
اعداد و شمار کے مطابق جنوری میں 6 پولیس اہلکار ، 5 وکلا اور 2 ڈاکٹر سمیت 126 افراد کو زندگی سے محروم کر دیا گیا ، فروری میں 3 خواتین اور 2 پولیس اہلکار سمیت 106 افراد ہلاک اس کے علاوہ کینٹ اسٹیشن کے قریب عسکری اپارٹمنٹ میں رہائش پذیر باوانی خاندان کے 5 افراد کی لاشیں فلیٹ سے ملی تھیں ، مارچ میں بھی 3 خواتین ، 2 اے ایس آئی ، 4 کانسٹیبلز ، وکیل باپ اور بیٹا سمیت 134 افراد سے جینے کا حق چھین لیا گیا ، اپریل میں 2 اے ایس آئی ، 6 کانسٹیبلز اور ایک رینجرز کے سب انسپکٹر سمیت 174 افراد زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ لیاری آپریشن 27 اپریل سے 4 مئی تک جاری رہا جس میں ایس ایچ او سول لائن فواد اخوند اور 6 پولیس اہلکار سمیت 34 افراد زندگی کی بازی ہار گئے ، مئی میں ایس پی ، سب انسپکٹر ، اے ایس آئی اور رینجرز کے افسر سمیت 156 افراد جبکہ محبت ریلی میں فائرنگ کے واقعات میں 14 افراد اپنی زندگی سے محروم ہوگئے۔
مجموعی طور پر مئی میں 170 افراد اپنی زندگی گنوا بیٹھے ، جون میں سب انسپکٹر ، 2 اے ایس آئی ، 3 ہیڈ کانسٹیبلز ، 2 کانسٹیبلز اور ایک فوجی جوان سمیت 190 افراد زندگی کی بازی ہار گئے جبکہ اس ماہ میں 5 دستی بم حملوں میں خاتون سمیت 3 افراد بھی جان سے مارے گئے ، جولائی میں انسپکٹر ، سب انسپکٹر ، 2 ہیڈ کانسٹیبلز ، 6 کانسٹیبلز ، ایک ڈاکٹر اور خواتین سمیت 192 افراد زندگی کی بازی ہار گئے جبکہ جولائی میں 4 بم دھماکے ہوئے جس میں 11 جولائی کو سعید آباد میں سپارکو کی بس کو نشانہ بنایا گیا ، 13جولائی کو قائد آباد میں رینجرز کی موبائل کو نشانہ بنایا گیا ، 18 جولائی کو تیموریہ بفرزون کے بی آر سوسائٹی میں رینجرز کی موبائل کو نشانہ بنایا گیا جبکہ 23 جولائی کو بوٹ بیسن چینی قونصل خانے کے قریب موٹر سائیکل نصب بم دھماکا ہوا۔
جولائی میں دستی بموں سے 8 حملے کیے گئے جس میں یکم جولائی کو کو لانڈھی ریلوے ٹریک پر ، 8 جولائی کو پی آئی بی پولیس چوکی اور ڈیفنس میں بلڈر کے گھر پر ، 12 جولائی کو یوسف پلازہ سیمنٹ ڈپو اور پی آئی بی میں کالعدم امن کمیٹی کے دفتر پر ، 19 جولائی کو اقبال مارکیٹ اورنگی ٹاؤن میں طوری بنگش پولیس چوکی پر ، 21 جولائی کو ڈیفنس میں بلڈر کے کار پر جبکہ 27 جولائی کو گلشن اقبال نیپا چورنگی کے قریب ڈپارٹمنٹل اسٹور پر دستی بم سے حملہ کیا گیا ، جولائی میں بم دھماکوں میں ایک شخص ہلاک جبکہ بم دھماکوں اور دستی بم حملوں میں 55 سے زائد افراد زخمی ہوئے ، اگست میں 2 اے ایس آئی ، 2 کانسٹیبلز ، رینجرز کا جوان اور خواتین سمیت 188 افراد زندگی سے محروم کر دیے گئے جبکہ 17 اگست کو یوم القدس ریلی کی بس کو یونیورسٹی روڈ سفاری پارک کے قریب بم دھماکے کے زریعے نشانہ بنایا گیا جس میں 2 افراد جاں بحق جبکہ 17 زخمی ہوگئے۔
ستمبر میں فائرنگ ، بم دھماکے اور دستی بم حملوں میں رکن صوبائی اسمبلی ، سابق ٹاؤن ناظم لیاقت آباد ، پولیس افسران و اہلکار اور خواتین سمیت 272 افراد کی زندگی کو چھین لیا گیا جبکہ 18 ستمبر کو نارتھ ناظم آباد تھانے کے قریب بوہری برادری کو نشانہ بنانے کے لیے کھڑی کی جانے والی موٹر سائیکل میں نصب بم دھماکے میں میاں بیوی اور شیر خوار بچے سمیت 8 افراد جبکہ 21 ستمبر کو گستاخانہ فلم کے خلاف نکالی جانے والی ریلی کے شرکا پر پولیس فائرنگ کے بعد ہونے والی ہنگامہ آرائی میں خاتون سمیت 26 افراد زندگی سے محروم ہوگئے ، ستمبر میں سرجانی ٹاؤن ، پی آئی بی ، پیر آباد ، گلستان جوہر اور بلدیہ ٹاؤن میں 5 دستی بم حملوں میں ایک شخص ہلاک جبکہ ایک درجن سے زائد زخمی ہوگئے۔
اکتوبر میں ٹارگٹ کلنگ اور قتل و غارت گری کے دوران 252 افراد زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے جس میں 2 اے ایس آئی سمیت 17 پولیس اہلکار اور ایف سی کا جوان بھی شامل ہے ، اکتوبر میں شہر کے مختلف علاقوں میں 6 دستی بم حملے ہوئے تاہم خوش قسمتی سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ، نومبر میں 187 افراد لقمہ اجل بن گئے جبکہ خودکش دھماکے اور دیگر بم دھماکوں میں رینجرز کے 3 اہلکاروں سمیت 8 افراد جاں بحق ہوگئے ، نومبر میں مجموعی طور پر 195 افراد زندگی کی بازی ہار گئے جس میں 29 نومبر کو مہاجر قومی موومنٹ کے چیئرمین ظفر قائمخانی سمیت 3 رہنما ، ٹریفک پولیس افسر ، باپ بیٹا ، ایکسائز پولیس اہلکار اور خواتین شامل ہیں ، نومبر میں نارتھ ناظم آباد میں رینجرز کمپلیکس پر خودکش حملے میں رینجرز کے 3 اہلکار جبکہ عباس ٹاؤن ، اورنگی ٹاؤن اور سعود آباد محبت نگر میں موٹر سائیکل اور سیمنٹ بلاک میں نصب بم دھماکوں میں 5 افراد جاں بحق ہوئے۔
یکم دسمبر سے 25 دسمبر تک شہر کے مختلف علاقوں میں پولیس افسران و اہلکاروں سمیت 179 افراد کو زندگی سے محروم کر دیا گیا ، دسمبر میں سب سے زیادہ ہلاکتیں 25 دسمبر کو ہوئیں جس میں اہلسنت و الجماعت کے مرکزی رہنما مولانا اورنگزیب فاروقی پر قاتلانہ حملے میں ان کا زاتی محافظ ، ڈرائیور ، 4 پولیس اہلکار کے علاوہ دیگر واقعات میں ڈی ایس پی کا بیٹا ، اہلسنّت و الجماعت کے 3 کارکنان اور متحدہ قومی موومنٹ کے کارکن سمیت 20 افراد کو زندگی سے محروم کر دیا گیا۔
پولیس کے اعلیٰ افسران کے امن و امان کے حوالے سے رواں سال میںدرجنوں اجلاس اور رینجرز کو پولیس کے مساوی اختیارات دیے جانے کے باوجود ٹارگٹ کلرز اور دہشت گرد شہر میں آزادانہ طور دندناتے رہے اور اپنے ہدف کو نشانہ بنا کر پولیس کی آنکھوں میں دھول جھونکتے رہے جبکہ پولیس لاشیں اٹھا کر اسپتال پہنچانے کا کام انجام دیتی رہی۔
رواں سال کے دوران ٹارگٹ کلنگ ، قتل و غارت گری اور بم دھماکوں میں زندگی کی بازی ہارنے والوں میں رینجرز افسران و جوان ، پولیس افسران و اہلکار ، فرنٹیئر کانسٹیبلری افسر ، ایکسائز پولیس ، ٹریفک پولیس ، خواتین ، مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں کے رہنما ، عہدیداران اور کارکنان بھی شامل ہیں جنھیں سر عام نشانہ بنایا گیا ، شہری حلقوں کا کہنا ہے کہ سال 2012 گزرنے کو ہے اور اس دوران شہر کے مختلف علاقوں سے درجنوں افراد کو اغوا کے بعد قتل کر کے ان کی لاشیں پھینکیں گئیں لیکن پولیس کسی بھی ایک ملزم کو رنگے ہاتھوں پکڑنے میں ناکام رہی۔
اعداد و شمار کے مطابق جنوری میں 6 پولیس اہلکار ، 5 وکلا اور 2 ڈاکٹر سمیت 126 افراد کو زندگی سے محروم کر دیا گیا ، فروری میں 3 خواتین اور 2 پولیس اہلکار سمیت 106 افراد ہلاک اس کے علاوہ کینٹ اسٹیشن کے قریب عسکری اپارٹمنٹ میں رہائش پذیر باوانی خاندان کے 5 افراد کی لاشیں فلیٹ سے ملی تھیں ، مارچ میں بھی 3 خواتین ، 2 اے ایس آئی ، 4 کانسٹیبلز ، وکیل باپ اور بیٹا سمیت 134 افراد سے جینے کا حق چھین لیا گیا ، اپریل میں 2 اے ایس آئی ، 6 کانسٹیبلز اور ایک رینجرز کے سب انسپکٹر سمیت 174 افراد زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ لیاری آپریشن 27 اپریل سے 4 مئی تک جاری رہا جس میں ایس ایچ او سول لائن فواد اخوند اور 6 پولیس اہلکار سمیت 34 افراد زندگی کی بازی ہار گئے ، مئی میں ایس پی ، سب انسپکٹر ، اے ایس آئی اور رینجرز کے افسر سمیت 156 افراد جبکہ محبت ریلی میں فائرنگ کے واقعات میں 14 افراد اپنی زندگی سے محروم ہوگئے۔
مجموعی طور پر مئی میں 170 افراد اپنی زندگی گنوا بیٹھے ، جون میں سب انسپکٹر ، 2 اے ایس آئی ، 3 ہیڈ کانسٹیبلز ، 2 کانسٹیبلز اور ایک فوجی جوان سمیت 190 افراد زندگی کی بازی ہار گئے جبکہ اس ماہ میں 5 دستی بم حملوں میں خاتون سمیت 3 افراد بھی جان سے مارے گئے ، جولائی میں انسپکٹر ، سب انسپکٹر ، 2 ہیڈ کانسٹیبلز ، 6 کانسٹیبلز ، ایک ڈاکٹر اور خواتین سمیت 192 افراد زندگی کی بازی ہار گئے جبکہ جولائی میں 4 بم دھماکے ہوئے جس میں 11 جولائی کو سعید آباد میں سپارکو کی بس کو نشانہ بنایا گیا ، 13جولائی کو قائد آباد میں رینجرز کی موبائل کو نشانہ بنایا گیا ، 18 جولائی کو تیموریہ بفرزون کے بی آر سوسائٹی میں رینجرز کی موبائل کو نشانہ بنایا گیا جبکہ 23 جولائی کو بوٹ بیسن چینی قونصل خانے کے قریب موٹر سائیکل نصب بم دھماکا ہوا۔
جولائی میں دستی بموں سے 8 حملے کیے گئے جس میں یکم جولائی کو کو لانڈھی ریلوے ٹریک پر ، 8 جولائی کو پی آئی بی پولیس چوکی اور ڈیفنس میں بلڈر کے گھر پر ، 12 جولائی کو یوسف پلازہ سیمنٹ ڈپو اور پی آئی بی میں کالعدم امن کمیٹی کے دفتر پر ، 19 جولائی کو اقبال مارکیٹ اورنگی ٹاؤن میں طوری بنگش پولیس چوکی پر ، 21 جولائی کو ڈیفنس میں بلڈر کے کار پر جبکہ 27 جولائی کو گلشن اقبال نیپا چورنگی کے قریب ڈپارٹمنٹل اسٹور پر دستی بم سے حملہ کیا گیا ، جولائی میں بم دھماکوں میں ایک شخص ہلاک جبکہ بم دھماکوں اور دستی بم حملوں میں 55 سے زائد افراد زخمی ہوئے ، اگست میں 2 اے ایس آئی ، 2 کانسٹیبلز ، رینجرز کا جوان اور خواتین سمیت 188 افراد زندگی سے محروم کر دیے گئے جبکہ 17 اگست کو یوم القدس ریلی کی بس کو یونیورسٹی روڈ سفاری پارک کے قریب بم دھماکے کے زریعے نشانہ بنایا گیا جس میں 2 افراد جاں بحق جبکہ 17 زخمی ہوگئے۔
ستمبر میں فائرنگ ، بم دھماکے اور دستی بم حملوں میں رکن صوبائی اسمبلی ، سابق ٹاؤن ناظم لیاقت آباد ، پولیس افسران و اہلکار اور خواتین سمیت 272 افراد کی زندگی کو چھین لیا گیا جبکہ 18 ستمبر کو نارتھ ناظم آباد تھانے کے قریب بوہری برادری کو نشانہ بنانے کے لیے کھڑی کی جانے والی موٹر سائیکل میں نصب بم دھماکے میں میاں بیوی اور شیر خوار بچے سمیت 8 افراد جبکہ 21 ستمبر کو گستاخانہ فلم کے خلاف نکالی جانے والی ریلی کے شرکا پر پولیس فائرنگ کے بعد ہونے والی ہنگامہ آرائی میں خاتون سمیت 26 افراد زندگی سے محروم ہوگئے ، ستمبر میں سرجانی ٹاؤن ، پی آئی بی ، پیر آباد ، گلستان جوہر اور بلدیہ ٹاؤن میں 5 دستی بم حملوں میں ایک شخص ہلاک جبکہ ایک درجن سے زائد زخمی ہوگئے۔
اکتوبر میں ٹارگٹ کلنگ اور قتل و غارت گری کے دوران 252 افراد زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے جس میں 2 اے ایس آئی سمیت 17 پولیس اہلکار اور ایف سی کا جوان بھی شامل ہے ، اکتوبر میں شہر کے مختلف علاقوں میں 6 دستی بم حملے ہوئے تاہم خوش قسمتی سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ، نومبر میں 187 افراد لقمہ اجل بن گئے جبکہ خودکش دھماکے اور دیگر بم دھماکوں میں رینجرز کے 3 اہلکاروں سمیت 8 افراد جاں بحق ہوگئے ، نومبر میں مجموعی طور پر 195 افراد زندگی کی بازی ہار گئے جس میں 29 نومبر کو مہاجر قومی موومنٹ کے چیئرمین ظفر قائمخانی سمیت 3 رہنما ، ٹریفک پولیس افسر ، باپ بیٹا ، ایکسائز پولیس اہلکار اور خواتین شامل ہیں ، نومبر میں نارتھ ناظم آباد میں رینجرز کمپلیکس پر خودکش حملے میں رینجرز کے 3 اہلکار جبکہ عباس ٹاؤن ، اورنگی ٹاؤن اور سعود آباد محبت نگر میں موٹر سائیکل اور سیمنٹ بلاک میں نصب بم دھماکوں میں 5 افراد جاں بحق ہوئے۔
یکم دسمبر سے 25 دسمبر تک شہر کے مختلف علاقوں میں پولیس افسران و اہلکاروں سمیت 179 افراد کو زندگی سے محروم کر دیا گیا ، دسمبر میں سب سے زیادہ ہلاکتیں 25 دسمبر کو ہوئیں جس میں اہلسنت و الجماعت کے مرکزی رہنما مولانا اورنگزیب فاروقی پر قاتلانہ حملے میں ان کا زاتی محافظ ، ڈرائیور ، 4 پولیس اہلکار کے علاوہ دیگر واقعات میں ڈی ایس پی کا بیٹا ، اہلسنّت و الجماعت کے 3 کارکنان اور متحدہ قومی موومنٹ کے کارکن سمیت 20 افراد کو زندگی سے محروم کر دیا گیا۔