سٹی کورٹ حوالات کی توسیع کا کام کھٹائی میں پڑگیا
حوالات سے متصل سڑک پر وکلا کے دفاتر اور دکانوں کی تعمیرات کو غیرقانونی قرار دیکر تمام تعمیراتی کام رکوادیا گیا.
سٹی کورٹ میں قیدیوں کی حوالات کی توسیع کا کام دوبارہ کھٹائی میں پڑ گیا ہے۔
کراچی بار کے صدر محمود الحسن نے راجا ریاض شہید ایڈووکیٹ کے نام سے منسوب حوالات سے متصل روڑ پر وکلا کے دفاتر اور دکانوں کی تعمیرات کو غیرقانونی قرار دیکر تمام تعمیراتی کام رکوادیا ہے تفصیلات کے مطابق15اگست 2007کو جسٹس افتخار محمد چوہدری، ہوم سیکریٹری اور دیگر اعلیٰ حکام نے سٹی کورٹ کا دورہ کیا تھا اور اس موقع پر سٹی کورٹ میں واقع حوالات میں قیدیوں کی حالت زار کو دیکھتے ہوئے برہمی کا اظہار کیا تھا اور اس کے فوری توسیع کرنے کی ہدایت کی تھی جبکہ حکومت سندھ نے ایک ہفتے میں توسیع کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی۔
اپریل2011میں لاک اپ سے متصل دکانیں، ہوٹلز ، کینٹینز مسمار کرکے توسیع کے کام آغاز کردیا گیا تھا، اس مقصد کیلیے40ملین روپے کا فنڈ بھی جاری کیا گیا تھا، نومبر 2011 کو کام رکوادیا گیا تھا اور وکلا کے دفاتر، اوتھ کمشنرز آفس سمیت 30دکانوں کو مسمار کرنے سے بھی روک دیا گیا تھا، حکومت نے وکلا کے مطالبے کو تسلیم کرتے ہوئے انھیں متبادل جگہ فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی اور سٹی کورٹ یا اس سے متصل خالی جگہ کے تعین کیلیے سٹی گورنمنٹ کو کہا گیا تھا تاکہ وکلا اور دکانداروں کو جگہ فراہم کی جاسکے۔
25 دسمبر2012کے مو قع پر چھٹی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سٹی کورٹ کے مرکزی دروازے کے سامنے سڑک پر قبضہ کرکے تعمیرات کا کام شروع کردیا گیا تھا، بدھ کو کراچی بار کے صدر محمود الحسن نے روڈ پرتعمیراتی کام کو دیکھا تو فوری طور پر کام رکوایا، اس ضمن میں انھیں بتایا گیا کہ سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس سجاد علی شاہ کے حکم پر تعمیرات کا کام کیا جارہا ہے ، صدر محمودالحسن نے کہا کہ روڑ پر قبضہ کرنا اور دکانوں کی تعمیرات کرنا غیرقانونی ہے جبکہ یہ سٹرک وکلا تحریک کے دوران شہید ہونے والے وکیل کے نام سے منسوب بھی ہے، انکا کہنا تھا کہ سٹی کورٹ میں حوالات کے توسیع کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ انھوں نے متعدد بار حکومت سے جوڈیشل کمپلیکس کے قیام کا مطالبہ کیا ہے اور جس میں حوالات ، مال خانہ وغیرہ موجود ہوں لیکن حکومت نے تاحال کوئی توجہ نہیں دی۔
کراچی بار کے صدر محمود الحسن نے راجا ریاض شہید ایڈووکیٹ کے نام سے منسوب حوالات سے متصل روڑ پر وکلا کے دفاتر اور دکانوں کی تعمیرات کو غیرقانونی قرار دیکر تمام تعمیراتی کام رکوادیا ہے تفصیلات کے مطابق15اگست 2007کو جسٹس افتخار محمد چوہدری، ہوم سیکریٹری اور دیگر اعلیٰ حکام نے سٹی کورٹ کا دورہ کیا تھا اور اس موقع پر سٹی کورٹ میں واقع حوالات میں قیدیوں کی حالت زار کو دیکھتے ہوئے برہمی کا اظہار کیا تھا اور اس کے فوری توسیع کرنے کی ہدایت کی تھی جبکہ حکومت سندھ نے ایک ہفتے میں توسیع کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی۔
اپریل2011میں لاک اپ سے متصل دکانیں، ہوٹلز ، کینٹینز مسمار کرکے توسیع کے کام آغاز کردیا گیا تھا، اس مقصد کیلیے40ملین روپے کا فنڈ بھی جاری کیا گیا تھا، نومبر 2011 کو کام رکوادیا گیا تھا اور وکلا کے دفاتر، اوتھ کمشنرز آفس سمیت 30دکانوں کو مسمار کرنے سے بھی روک دیا گیا تھا، حکومت نے وکلا کے مطالبے کو تسلیم کرتے ہوئے انھیں متبادل جگہ فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی اور سٹی کورٹ یا اس سے متصل خالی جگہ کے تعین کیلیے سٹی گورنمنٹ کو کہا گیا تھا تاکہ وکلا اور دکانداروں کو جگہ فراہم کی جاسکے۔
25 دسمبر2012کے مو قع پر چھٹی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سٹی کورٹ کے مرکزی دروازے کے سامنے سڑک پر قبضہ کرکے تعمیرات کا کام شروع کردیا گیا تھا، بدھ کو کراچی بار کے صدر محمود الحسن نے روڈ پرتعمیراتی کام کو دیکھا تو فوری طور پر کام رکوایا، اس ضمن میں انھیں بتایا گیا کہ سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس سجاد علی شاہ کے حکم پر تعمیرات کا کام کیا جارہا ہے ، صدر محمودالحسن نے کہا کہ روڑ پر قبضہ کرنا اور دکانوں کی تعمیرات کرنا غیرقانونی ہے جبکہ یہ سٹرک وکلا تحریک کے دوران شہید ہونے والے وکیل کے نام سے منسوب بھی ہے، انکا کہنا تھا کہ سٹی کورٹ میں حوالات کے توسیع کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ انھوں نے متعدد بار حکومت سے جوڈیشل کمپلیکس کے قیام کا مطالبہ کیا ہے اور جس میں حوالات ، مال خانہ وغیرہ موجود ہوں لیکن حکومت نے تاحال کوئی توجہ نہیں دی۔