سوچ کو بدلنا ہوگا

خام تیل میں مسلسل کمی کے باوجود پاکستان کے عوام کو مہنگائی کا سامنا ہے۔

mohsin014@hotmail.com

QUETTA:
کیا جمہوریت اسی کا نام ہے کہ کچھ سیاستدان مال و زر، شہرت اور مقبولیت کو بنیاد بنا کر کسی سیاسی جماعت کے سربراہ بن جانے اور اپنے جیالوں اور چاہنے والوں کو جلسہ، جلوس، ریلی، احتجاج کے بطور ٹولز استعمال کریں، اور جب اقتدار ہاتھ آئے تو شطرنج کی چالوں کی طرح بیوروکریسی سے وابستہ اداروں کے سربراہوں کو ادھر ادھر کرکے اپنے مفاد کی راہ ہموار کریں؟ کیا یہی جمہوریت ہے، جس میں متوسط طبقہ بلند ہونے کے بجائے غریب ترین طبقے میں شمار ہونے لگے؟

کیا یہ جمہوریت ہے کہ کچھ سیاستدان اپنی سیاسی قوت اور مال و زر کی بنیاد پر اپنی ہی سیاسی جماعت کو لونڈی بنا کر اسے اپنی ذاتی ہوس کی خاطر آگے بڑھائیں۔ حالانکہ جمہوریت کا مزاج یہ ہے کہ وہ سب سے پہلے سیاستدانوں میں سیاسی مزاج کو قبول کرنے کی صلاحیت اور اس جمہوریت کا مظاہرہ اپنی پارٹی کے تمام منصب جو اعلیٰ سے ادنیٰ ہوں، ایک انتخابی طرز سے وجود میں لایا جائے۔ اس ملکوتی سوچ کو ختم کیا جائے کہ کل جو اس پارٹی کا منصب اعلیٰ پر بیٹھے ہوئے شخص کی موت یا کسی اور وجہ سے اس کی قیادت کی کر سی خالی ہو تو اس کی اولاد، اس کے شوہر، اس کے بہن بھائی کو بھی قیادت سونپی جائے، جیسا کہ وطن عزیزمیں ہو رہا ہے۔

اس طرح ملک میں اقتدار کا کھیل میوزیکل چیئر کا کھیل ہو کر رہ گیا ہے، جس میں چند مفاد پرست ٹولے، خاندان، ہر حال میں پارٹی اور ملکی اقتدار سے چپکے رہتے ہیں۔ اس طرح کسی ملک میں جمہوریت و فوائد جو عوام الناس تک پہنچنے چاہئیں، وہ نہیں پہنچتے اور نہ ہی اس طرح برسر اقتدار سیاسی جماعت اپنے منشور پر عمل کرنے کو ترجیح دے گی۔ اگر باقاعدہ ہر جماعت میں انتخابی عمل جاری رہے اور منشور پر عمل کو ترجیح دی جائے اور بیوروکریسی کو بااختیار بنایا جائے تو ہمارا وطن بہت بلندیوں کو چھو سکتا ہے۔

خام تیل میں مسلسل کمی کے باوجود پاکستان کے عوام کو مہنگائی کا سامنا ہے۔ وہائٹ کالر طبقہ بہت زیادہ معاشی دباؤ میں ہے اور ہمارے حکمراں بیرون ملک سے قرضہ لے کر نظام حکومت چلاتے ہیں۔ پارلیمنٹ کے گونگے بہرے ممبران نہ احتجاج کرتے ہیں، نہ اعتراض۔ اس طرح دنیا میں کوئی ملک ترقی نہیں کرسکتا۔ یہ ہماری خداداد مملکت اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے بھری ہوئی ہے، زمین میں سونا بھی ہے، تانبا بھی ہے، جواہرات بھی ہیں، کوئلہ بھی ہے، تیل بھی ہے، مگر سلیقے سے حکمرانی کرنے والا رہنما نہیں ہے، ورنہ آج اس ملک میں اگر ذوالفقار علی بھٹو جیسی قیادت ہوتی تو پاکستان کا شہر کراچی، دبئی بن چکا ہوتا۔


اگر ہمیں اچھے منصوبہ ساز مل جائیں تو اس ملک کی آمدنی میں قدرتی ذرایع کی وسعت میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ 18 کروڑ عوام بہت زیادہ نہیں ہیں، مگر منصوبہ بندی پائیدار نہیں کی جاتی۔ اسی آمدنی میں ملک میں سستی بجلی، پانی، گیس مہیا ہوسکتی ہے اور کم سے کم ہر سرکاری ملازم ادنیٰ سے اعلیٰ تک سرکاری مکانوں اور ان کے بچے سرکاری تعلیمی اداروں میں مفت تعلیم حاصل کر سکتے ہیں، ان کو معقول معاوضہ دیا جا سکتا ہے۔ پورا ملک میں انفرااسٹرکچر کا جال بچھایا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ سب جب ہی ممکن ہے جب ہمارے رہنماؤں میں قوم و ملت و ملک کے لیے کچھ کرنے کا عزم ہو، منصوبہ ہو، اور بیوروکریٹس کو بااختیار بنانے کے لیے سیاستدان راضی ہوں۔

وطن عزیز کو وجود میں آئے ہوئے 69 سال ہوگئے مگر ترقی کا پہیہ 1977ء کے بعد آگے جانے کے بجائے پیچھے جا رہا ہے اور ریاست کو دہشتگردوں کے ہاتھوں گروی رکھا جا رہا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے پاکستان کے کروڑوں عوام کم سے کم اس نکتے پر جمع ہو جائیں کہ آیندہ انتخابات میں ووٹ برادری، مسلکی یا مذہبی اور لسانی بنیاد پر نہ دیا جائے گا بلکہ صرف اور صرف اہلیت اور ملکی ترقیاتی منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے والے کو دیا جائے اور کم سے کم یہ تو طے کر لیں کہ کسی بھی ایسی پارٹی کو ووٹ نہ دیں جس کو تین تین دفعہ حکومت کرنے کا موقع ملا اور وہ ملک کو ترقی کی طرف نہ لے جا سکے۔ بہتر ہے نئے سیاستدانوں کو آزمایا جائے۔

نئی جماعتوں کو اقتدار میں آنے کا مو قع دیا جائے، مثلاً کراچی سے اٹھنے والی نئی سیاسی جماعت پی ایس پی، جس کی قیادت مصطفیٰ کمال کر رہے ہیں، جس میں رضا ہارون، وسیم آفتاب، ڈاکٹر صغیر اور انیس قائم خانی جیسے تنظیمی امور کے ماہر موجود ہیں، ان سے امید ہے کم سے کم سندھ میں تیزی سے ترقی لا سکتے ہیں اور انفرااسٹرکچر کو بہتر بنا سکتے ہیں۔

مصطفیٰ کمال کا ماضی بحیثیت میئر کراچی ان کے کارناموں کو دیکھنے کے لیے کافی ہے۔ انھوں نے کم سے کم یہ تو کیا کہ اپنی پرانی جماعت سے علیحدگی اختیار کی، پھر اپنی جماعت بنائی ہے۔ اسی طرح پی ٹی آئی کو بھی موقع ملے اور جو نئی جماعت آئے اس پر توجہ دیں۔ آزمائے ہوئے کو مزید موقع دینے کا مقصد تو یہ ہے ملک میں کرپشن، بدعنوانی، دہشتگردی کا راج ہے۔ جو ہم نے حال ہی میں دیکھا یہ کریڈٹ پاک فوج کے سابق سربراہ جنرل راحیل شریف کو جاتا ہے، جنھوں نے پورے پاکستان میں فوج، رینجرز، ایف سی کے ذریعے کافی حد تک دہشتگردی کو ختم کیا ہے، مگر معاشی دہشتگرد آج بھی بڑے طمطراق کے ساتھ گرج رہے ہیں۔ کوئی پوچھنے والا نہیں۔

رینجرز کے اختیارات ہوں یا فوجی عدالتوں کی مدت، ان سب کو جاری رکھنا بے حد ضروری ہے۔ کیونکہ پاکستان میں سی پیک کا انقلاب جب ہی کامیاب ہو گا جب یہ وطن بدعنوان، رشوت خور، بھتہ خور سیاستدانوں سے پاک کر دیا جائے۔ عوام کو جتنی امید اعلیٰ عدالتوں اور عسکری قیادتوں سے ہے، اتنی کسی اور سے نہیں۔ وقت کا تفاضا ہے کہ سیاستدانوں کا کڑا احتساب ہو تا کہ 2018ء کے انتخابات میں صاف ستھرے لوگ امیدوار ہوں۔
Load Next Story