ادھورے انسان اور آخری مقام
جب تک ہم انہیں اپنے معاشرےمیں فٹ نہیں کریںگےتب تک انکی زندگیاں بھی ہنسی مذاق کیساتھ مختلف حادثات کا شکار ہوتی رہیں گی
دونوں نے میرے چیمبر میں آتے ہی میرے منشی کو پانی کا گلاس اور پھر چائے لانے کا کہا اور ساتھ ہی آنے کا مقصد بیان کیا کہ پریس کلب کے باہر اُن کا ایک احتجاج ہورہا ہے اور بطور سول سوسائٹی رکن وہ مجھے دعوت دینے آئی ہیں۔ اُن کے آئے دن احتجاج ہوتے رہتے تھے اور وہاں جانے کا انہیں تو شاید کچھ فائدہ حاصل نہ ہوتا مگر جب اگلے دن کے مقامی اخبارات میں اِس سرگرمی کی کوئی تصویر لگی ہوتی تو مجھے کافی فون کالز آتی۔ اُن میں ایک آدھ کال کو چھوڑ کر جس میں اظہارِ ہمدردی یا اظہارِ یکجہتی کے کردار کو سراہا ہوتا، باقی کی بے شمار فون کالز مضحکہ خیز ہوتیں بلکہ کئی ایک میں اُن کے فون نمبرز کی ڈیمانڈ ہوتی تو کسی میں کچھ، اور یوں کچھ دنوں تک میرا اپنا وجود بھی زیرِ بحث ہونے کے ساتھ ساتھ باعث تفریح بن جاتا۔
اب ہم چائے کے انتظار میں تھے کہ اُس نے خود ہی بولنا شروع کردیا۔ اب ہمیں معاشرے میں کوئی مقام، روزگار، تحفظ اور بیماری کی صورت میں علاج کی سہولت نہیں چاہیئے۔ ہم میں صبر کا مادہ بہت ہے کیونکہ ہمارے وجود میں ایک حصہ عورت کے وجود کا بھی پوشیدہ ہے جو ہر زیادتی اور جبر کو تقدیر کا لکھا جان کر بیٹھی رہتی ہے، مگر ہمارے وجود میں دوسرا حصہ مرد کا بھی ہے جسے جب تکلیف پہنچتی ہے تو وہ اُٹھ کر کھڑا ہوجاتا ہے۔ ہم مان چکے ہیں کہ ہماری زندگی حادثات کا ایک مجموعہ ہونے کے ساتھ ساتھ تفریح کا ذریعہ بھی ہے۔
میڈیا بھی ہمارے درد سے پوری طرح آشنا نہیں ہے جب کوئی جان لیوا حادثہ ہوتا ہے اور ہم سڑکوں پر نکل کر احتجاج کرتے ہیں تو تب جا کر اُس کی نظر عارضی طور پر ہم پر پڑتی ہے اور یوں ہمارا حادثہ ایک خبر بن کر ٹی وی کی اسکرین پر کچھ دیر کے لئے چلنے لگتا ہے۔ ہم زندگی بھر مذاق بن کر دن رات گزارتے ہیں، اور ایک دن مرجاتے ہیں لیکن ہمارا مطالبہ اب یہ نہیں کہ ہمیں معاشرے میں کوئی مقام، روزگار، تحفظ اور بیماری کی صورت میں علاج کی سہولیات دی جائیں۔ ہمیں تو میاں ساب نے ہیلتھ کارڈ اسکیم سے بھی باہر ہی رکھا، ہم تو کسی فارم میں بھی فِٹ نہیں بیٹھتے ہیں۔ ہمیں انسانوں میں تو فِٹ کر نہیں کرسکتے جانور ہی سمجھتے ہوئے کسی جانوروں کے اسپتال کا کارڈ بنا دیتے۔
خیر ہم تو اب صرف یہ چاہتے ہیں کہ مرنے کے بعد کسی قبرستان کے کونے میں دفنانے کی جگہ ہمیں بھی دی جائے۔ وہاں ہمارے لاشے اِرد گِرد کے باسیوں کے جذبات میں ہیجان پیدا نہیں کریں گے۔ ہم رات کی تاریکی میں چوروں کی طرح اپنے ساتھیوں کو قبرستان میں لاکر دفناتے ہیں، گورکن ہم سے منہ مانگے پیسے الگ وصول کرتا ہے کیونکہ اُس کے نزدیک یہ ایک جرم ہے کہ وہ انسانوں کے قبرستان میں ہمیں جگہ دے رہا ہے۔
ہم بھی مسلمان ہیں مگر ہماری آخری رسومات میں کوئی مذہبی پیشوا آنا گناہ سمجھتا ہے، جبکہ میں خود گواہ ہوں کہ فنکشنز میں یہی حضرات کاغذوں پر لکھ کر اپنے فرمائشی گانوں پر ہمارے رقص سے نہ صرف محضوظ ہوتے ہیں بلکہ نوٹ بھی نچھاور کرتے ہیں۔
خیر اب میں چلتی ہوں، مہربانی فرما کر آپ ضرور آئیے گا، ہم نے ہمیشہ جمہوری طریقہ ہی اختیار کیا ہے۔ ہر بار کسی نہ کسی ظلم کا شکار ہونے کے بعد اتنا تو حق ہے کہ ہائے ہائے کرسکیں کہ ہمیں انسان تو تسلیم کرو۔ اُس پر اُس کی دوسری ساتھی نے پہلی بار زبان کھولی اور کہا،
اُس نے اپنا ہینڈ بیگ اٹھایا اور اپنی ساتھی کو بھی اُٹھنے کو کہا جو میز پر پڑے پرانے اخبارات میں جانے کیا تلاش کررہی تھی۔ وہ جس طرح آئیں تھیں اُسی طرح چلی گئی۔ اُن کے جانے کے بعد مجھے معاشرے میں بے شمار خالی خانے دکھائی دئیے مگر اُن میں کسی ایک میں بھی جگہ حاصل کرنے کے لئے خواجہ سراؤں کو ایک طویل جنگ لڑنی ہوگی۔ یہ اپنی شناخت کی جنگ کبھی عدالتوں کا رخ کرتے ہیں تو کبھی سڑکوں پر لڑتے ہیں۔
جب تک ہم اُنہیں اپنے معاشرے کے کسی خالی خانے میں فِٹ نہیں کریں گے تب تک اُن کی زندگیاں بھی ہنسی مذاق کا شکار ہونے کے ساتھ ساتھ مختلف حادثات کا شکار ہوتی رہیں گی۔ کبھی اسپتالوں کی راہداریوں میں اُن کے اسٹریچر مردانہ وارڈ یا زنانہ وارڈ کے درمیان ہی اِدھر اُدھر دھکیلے جاتے رہیں گے، اگر قتل ہوجائیں تو ایف آئی آر اول تو درج ہی نہیں ہوتی اگر میڈیا کے دباؤ کی وجہ سے ہو بھی جائے تو اُس کا شکنجہ اتنا ڈھیلا ڈھالا رکھا جاتا ہے کہ ملزم دوسری پیشی پر ہی باہر ہوتا ہے۔
اُن کو جنم دینے والے بھی اُن کے ادھورے پن سے اِس قدر خوفزدہ ہوتے ہیں کہ کسی بھی حادثے کی صورت میں وہ قانونی تقاضوں میں اپنا نام تک زبان پر نہیں لاتے، مگر جائیداد کے معاملات میں بھائی، بہن، ماں باپ نہ صرف سامنے آجاتے ہیں بلکہ ڈٹ کر اپنا حصہ وصول کرتے ہیں۔ قانونی اعتبار سے اگر اُن کا اندراج بطور عورت یا مرد کے ہو تو پھر وراثتی قانون کے تحت ان میں جائیداد تقسیم ہوسکتی ہے۔ ہم نے اُنہیں معاشرے سے ہی نہیں بلکہ مذہبی عبادات و رسومات سے بھی دور پھینک دیا ہے اب اگر حکمرانِ وقت اور بلدیاتی ادارے اپنے ہنی مون پیریڈ سے باہر نکل کر قبرستانوں میں ہی اُن کا کوئی کونہ مختص کردیں تو یہی آخری مقام ان کے لئے اعلیٰ ترین ہوگا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اب ہم چائے کے انتظار میں تھے کہ اُس نے خود ہی بولنا شروع کردیا۔ اب ہمیں معاشرے میں کوئی مقام، روزگار، تحفظ اور بیماری کی صورت میں علاج کی سہولت نہیں چاہیئے۔ ہم میں صبر کا مادہ بہت ہے کیونکہ ہمارے وجود میں ایک حصہ عورت کے وجود کا بھی پوشیدہ ہے جو ہر زیادتی اور جبر کو تقدیر کا لکھا جان کر بیٹھی رہتی ہے، مگر ہمارے وجود میں دوسرا حصہ مرد کا بھی ہے جسے جب تکلیف پہنچتی ہے تو وہ اُٹھ کر کھڑا ہوجاتا ہے۔ ہم مان چکے ہیں کہ ہماری زندگی حادثات کا ایک مجموعہ ہونے کے ساتھ ساتھ تفریح کا ذریعہ بھی ہے۔
میڈیا بھی ہمارے درد سے پوری طرح آشنا نہیں ہے جب کوئی جان لیوا حادثہ ہوتا ہے اور ہم سڑکوں پر نکل کر احتجاج کرتے ہیں تو تب جا کر اُس کی نظر عارضی طور پر ہم پر پڑتی ہے اور یوں ہمارا حادثہ ایک خبر بن کر ٹی وی کی اسکرین پر کچھ دیر کے لئے چلنے لگتا ہے۔ ہم زندگی بھر مذاق بن کر دن رات گزارتے ہیں، اور ایک دن مرجاتے ہیں لیکن ہمارا مطالبہ اب یہ نہیں کہ ہمیں معاشرے میں کوئی مقام، روزگار، تحفظ اور بیماری کی صورت میں علاج کی سہولیات دی جائیں۔ ہمیں تو میاں ساب نے ہیلتھ کارڈ اسکیم سے بھی باہر ہی رکھا، ہم تو کسی فارم میں بھی فِٹ نہیں بیٹھتے ہیں۔ ہمیں انسانوں میں تو فِٹ کر نہیں کرسکتے جانور ہی سمجھتے ہوئے کسی جانوروں کے اسپتال کا کارڈ بنا دیتے۔
خیر ہم تو اب صرف یہ چاہتے ہیں کہ مرنے کے بعد کسی قبرستان کے کونے میں دفنانے کی جگہ ہمیں بھی دی جائے۔ وہاں ہمارے لاشے اِرد گِرد کے باسیوں کے جذبات میں ہیجان پیدا نہیں کریں گے۔ ہم رات کی تاریکی میں چوروں کی طرح اپنے ساتھیوں کو قبرستان میں لاکر دفناتے ہیں، گورکن ہم سے منہ مانگے پیسے الگ وصول کرتا ہے کیونکہ اُس کے نزدیک یہ ایک جرم ہے کہ وہ انسانوں کے قبرستان میں ہمیں جگہ دے رہا ہے۔
ہم بھی مسلمان ہیں مگر ہماری آخری رسومات میں کوئی مذہبی پیشوا آنا گناہ سمجھتا ہے، جبکہ میں خود گواہ ہوں کہ فنکشنز میں یہی حضرات کاغذوں پر لکھ کر اپنے فرمائشی گانوں پر ہمارے رقص سے نہ صرف محضوظ ہوتے ہیں بلکہ نوٹ بھی نچھاور کرتے ہیں۔
خیر اب میں چلتی ہوں، مہربانی فرما کر آپ ضرور آئیے گا، ہم نے ہمیشہ جمہوری طریقہ ہی اختیار کیا ہے۔ ہر بار کسی نہ کسی ظلم کا شکار ہونے کے بعد اتنا تو حق ہے کہ ہائے ہائے کرسکیں کہ ہمیں انسان تو تسلیم کرو۔ اُس پر اُس کی دوسری ساتھی نے پہلی بار زبان کھولی اور کہا،
''ہائے ہائے کی کرنی باجی، ساڈے حکمران تے اپنے مال نُوں اپنا مال نہیں مندے، سانوں کِتھے انسان منن گے (ہائے ہائے کیا کرنی ، ہمارے حکمراں تو اپنی ہی دولت کو تسلیم نہیں کر رہے ہیں ہمیں کہاں سے انسان تسلیم کریں گے)''
اُس نے اپنا ہینڈ بیگ اٹھایا اور اپنی ساتھی کو بھی اُٹھنے کو کہا جو میز پر پڑے پرانے اخبارات میں جانے کیا تلاش کررہی تھی۔ وہ جس طرح آئیں تھیں اُسی طرح چلی گئی۔ اُن کے جانے کے بعد مجھے معاشرے میں بے شمار خالی خانے دکھائی دئیے مگر اُن میں کسی ایک میں بھی جگہ حاصل کرنے کے لئے خواجہ سراؤں کو ایک طویل جنگ لڑنی ہوگی۔ یہ اپنی شناخت کی جنگ کبھی عدالتوں کا رخ کرتے ہیں تو کبھی سڑکوں پر لڑتے ہیں۔
جب تک ہم اُنہیں اپنے معاشرے کے کسی خالی خانے میں فِٹ نہیں کریں گے تب تک اُن کی زندگیاں بھی ہنسی مذاق کا شکار ہونے کے ساتھ ساتھ مختلف حادثات کا شکار ہوتی رہیں گی۔ کبھی اسپتالوں کی راہداریوں میں اُن کے اسٹریچر مردانہ وارڈ یا زنانہ وارڈ کے درمیان ہی اِدھر اُدھر دھکیلے جاتے رہیں گے، اگر قتل ہوجائیں تو ایف آئی آر اول تو درج ہی نہیں ہوتی اگر میڈیا کے دباؤ کی وجہ سے ہو بھی جائے تو اُس کا شکنجہ اتنا ڈھیلا ڈھالا رکھا جاتا ہے کہ ملزم دوسری پیشی پر ہی باہر ہوتا ہے۔
اُن کو جنم دینے والے بھی اُن کے ادھورے پن سے اِس قدر خوفزدہ ہوتے ہیں کہ کسی بھی حادثے کی صورت میں وہ قانونی تقاضوں میں اپنا نام تک زبان پر نہیں لاتے، مگر جائیداد کے معاملات میں بھائی، بہن، ماں باپ نہ صرف سامنے آجاتے ہیں بلکہ ڈٹ کر اپنا حصہ وصول کرتے ہیں۔ قانونی اعتبار سے اگر اُن کا اندراج بطور عورت یا مرد کے ہو تو پھر وراثتی قانون کے تحت ان میں جائیداد تقسیم ہوسکتی ہے۔ ہم نے اُنہیں معاشرے سے ہی نہیں بلکہ مذہبی عبادات و رسومات سے بھی دور پھینک دیا ہے اب اگر حکمرانِ وقت اور بلدیاتی ادارے اپنے ہنی مون پیریڈ سے باہر نکل کر قبرستانوں میں ہی اُن کا کوئی کونہ مختص کردیں تو یہی آخری مقام ان کے لئے اعلیٰ ترین ہوگا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔