زرداری صاحب والا سندھ
بالآخرزرداری صاحب کراچی پہنچ گئےاینٹ سے اینٹ بجاتے بجاتے بجھ گئی شمعیں اور پھرجب منور ہوئیں توانور مجید پر تھم سی گئیں
بالآخر زرداری صاحب کراچی پہنچ گئے اینٹ سے اینٹ بجاتے بجاتے بجھ گئی شمعیں اور پھر جب منور ہوئیں تو انور مجید پر تھم سی گئیں۔ اب کون جانے یہ کس کا کرشمہ تھا۔ چوہدری نثار کی چوہدراہٹ تھی یا یہ کہ فرد چلے جاتے ہیں اور ادارے وہیں رہ جاتے ہیں۔ زرداری صاحب نے اپنے آنے کو جنرل راحیل کے جانے سے منسوب کر دیا مگر جو عام میسج گیا کہ آپ کی مونو پلی سندھ میں پانی کے بلبلے کی مانند ہے جسے کسی وقت بھی پھوڑنے والے پھوڑ سکتے ہیں۔
بنیادی طور پر میں جمہوریت کا طالب ہوں۔ جمہوریت سے زیادہ انسانی حقوق کا طالب ہوں اور جس زمان و مکاں میں، میں رہتا ہوں جس زمیں کا میں بیٹا ہوں وہاں جمہوریت اور انسانی حقوق تصادم میں ہیں کہ یہ جمہوریت ہے یا شرفاء کا کلب یا بزم یاراں ہے۔ اب تو سنا ہے گیارہ سال گورنر رہنے کے بعد عشرت العباد پیپلز پارٹی کی طرف رخ کر رہے ہیں۔ گیارہ سال گورنر کیسے رہے کیوں رہے؟ پھر ایک دن مصطفیٰ کمال یوں پھٹ پڑے کہ گورنر ہاؤس کی دیواریں ایسے لرزنے لگیں کہ گیارہ سال کے گورنر کی چھٹی ہوگئی۔
یوں تو گورنر کا فیصلہ وفاق ہی کر سکتا ہے اور وفاق میں اب سول حکومت ہے۔ نا جانے کیوں مصطفیٰ کمال کو یہ پہلے ہی سے پتہ تھا کہ گورنر کی چھٹی ہونے والی ہے۔ کیونکہ جو الزامات گورنر پر انھوں نے لگائے ان کی صداقت کی تصدیق کے لیے عدالت چاہیے۔ ہاں مگر دال میں کچھ کالا ضرور تھا۔
ایک بات تو واضح ہے کہ دیہی اور شہری فرق اب ختم ہونا چاہیے۔ اس کے لیے پیپلز پارٹی میں شہری سیاست کرنے والے بھی جانے چاہئیں مگر عشرت العباد کیوں، قیصر بنگالی کیوں نہیں؟ اور اگر یہ ڈوری آپ سلجھائیں گے تو آپ یہ سمجھ پائیں گے کہ انور مجید اور تاج حیدر میں کیا فرق ہے؟ ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور کھانے کے اور۔ زرداری صاحب کی پارٹی آہستہ آہستہ ''پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا'' کی طرح مسلم لیگ بنتی جا ر ہی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ یہ پارٹی براہ راست آمریتوں کے ساتھ گٹھ جوڑ تو نہیں کرے گی مگر بالواسطہ یہ کرے گی، یہ اسی کی ہرزہ سرائی ہے کہ جو آپ آئے تو آپ کی دہلیز پر چوہدری شجاعت آئے۔
ہم سمجھتے تھے کہ آپ آئیں ہیں تو بے نظیر کی طرح کارکنوں کے گھروں میں جائیں گے۔ ستم رسیدہ و برباد لیاری جائیں گے، شہداء کی بیواؤں کے پاس جائیں گے مگر یہ نہ ہو اور جفاکشان محبت پہ جو ہوا سو ہوا۔ آپ کی پارٹی ہے آمریتوں کی دور دور تک کوئی خبر نہیں اور سندھ کے سارے وڈیرے سہم گئے کہ اب کے اقتدار میں آنے کے لیے زرداری صاحب کے نیلام گھر کے سوا کوئی اور گھر نہیں۔ یہ ہے کہ جمہوریت اور اس کی بساط تو کیا اپنے کواڑوں کو اب مقفل کر دیں کہ اب یہاں کوئی نہیں آئے گا۔ سندھ میں جی ایم سیّد رہا نہ حیدر بخش جتوئی، نا شاگرد، سیاست رہی نا دہقانوں کی جدوجہد، نہ ذوالفقار علی بھٹو رہے نہ بے نظیر بھٹو رہیں۔کوئی ویرانی سی ویرانی ہے۔
بلاول بھٹو بھلے ہی کہے کو وہ بھٹو ہے مگر زرداری صاحب کے سائے تلے وہ چھوٹے صاحب ہی رہیں گے۔ کوئی مجھ کو بتلائے کہ یہ کیا ہے۔ آمریت ہے تو بھی غریب، غریب تر اور جمہوریت ہے تو بھی غریب، غریب تر اور شرفا ہیں جو بھلے داڑھیاں رکھیں یا نہ رکھیں جو شہری ہوں یا دیہی ہوں جو پنجابی ہو یا سندھی ہوں امیر سے امیر تر۔
اب کی پیپلز پارٹی کی سیاست عوامی حوالے سے 27 دسمبر کے گرد گھومتی ہے پھر اللہ اللہ خیر صلا۔ زرداری صاحب دبئی چلے جائیں گے۔ بلاول صاحب خوبصورت تقریریں کرتے رہیں گے۔ نہ ایجوکیشن ایمرجنسی کے گل کھلے، نہ وزیر اعلیٰ کے صبح سویرے دفتر آنے سے چوں بھی ہوئی۔ اب تو یوں ہے جس طرح فیض کہتے ہیں
''جب سے بے نور ہوئیں ہیں شمعیں
خاک میں ڈھونڈتا پھرتا ہوں
کھو گئیں جانے کس جا میری دونوںآنکھیں''
اِس میں قصور زرداری صاحب کا نہیں ہے، قصور اس تا ریخ میں ہے کہ 15 اگست کو ہندوستان کو کانگریس کی قیادت جو کہ مڈل کلاس تھی اس نے بنایا تھا اور یہ کہ چودہ اگست کو پاکستان کو مسلم لیگ کی قیادت جو جاگیر دار تھے اس نے بنایا۔
سندھ میں جب بھٹو نہ تھے تو مسلم لیگ تھی تو بھی وڈیرے تھے اور جب بھٹو آئے تو جو مزے وڈیروں کو بھٹو کے دور میں نصیب ہوئے وہ مسلم لیگ کے دور میں نہ تھے۔
سندھ میں کوئی نئی کلاس ابھرے تو بات بنے، وہی دہقان وہی وڈیرے اور چھوٹی موٹی مڈل کلاس اگر بنی بھی تو اس کی ماہیت اسی کمدار کی طرح یعنی افسر شاہی، ایک لاکھ اساتذہ ہونگے جو اسکولوں میں نہیں پڑھاتے، ان میں سے آدھے اسکول جاتے ہی نہیں ہیں اور باقی اگر اسکول جاتے ہیں تو کلاسوں میں اونگھتے رہ جاتے ہیں۔ اس افسر شاہی میں ایک لاکھ ڈاکٹر و میڈیکل اسٹاف بھی ہوگا جو اپنے پرائیوٹ اسپتالوں میں تو بھرپور محنت کرتے ہیں اور سرکاری اسپتالوں میں وہی کچھ کرتے ہیں جو اساتذہ اسکول میں کرتے ہیں اور یہ سب اپنے تبادلے اور پروموشنز کروانے کے لیے انھی شر فاء کے محتاج ہیں۔
تالی ہمیشہ دو ہاتھ سے بجتی ہے جب نیب چوروں کے اوپر مور کی طرح بیٹھتی ہو تو پھر اے ڈی خواجہ کو گھر جانا پڑے گا۔ اس کا قصور یہ ہے کہ اس نے زرداری صاحب کی شوگر ملوں پر گنّا پہنچانے کے لیے دوسری شوگر ملوں کے راستے بند نہ کیے۔ اس نے پولیس کے محکمے میں تبادلے و پروموشنز میرٹ پر کیے تو پھر کیوں نہ قائم علی شاہ ہو یا مراد علی شاہ سندھ یہی ہے جو آپ کے سامنے ہے۔ آٹھ سالوں میں کراچی، حیدرآباد اور سکھر کے باہر چھوٹی و میڈیم صنعتوں کا جال نہ بچھا سکے نہ چھوٹے ہنر دینے والے ادارے بنائے۔
مجموعی طور پر جو بھی ترقیاتی اسکیمیں بنیں اس میں آدھی پر آدھی بھی کرپشن۔ پہلے لوکل باڈیز نہیں تھیں توT-M-O کی نگرانی میں سارے پیسے ہڑپ اور جب سپریم کورٹ نے مجبور کیا کہ لوکل باڈیز کے الیکشن کروائیں تو انھوں نے لوکل باڈی ایکٹ بنا کر ان کا بجٹ محدود کر دیا اور بہت سارے اختیارات چھین لیے۔ ستر سال ہو گئے ایک بھی سندھی انتخابی حلقے مڈل کلاس کی حیثیت میں جیت کر اسمبلی نہ پہنچا۔ جو سندھی جیت کر اسمبلی پہنچا وہ وڈیرے و دہقان کے سوشل کانٹریکٹ کی شکل تھی۔ نیم غلامانہ سندھ کا ثمر ہے جو اسمبلی میں امر ہے اور زرداری صاحب اس سندھ کے بے تاج بادشاہ ہیں۔ عام فہم انداز میں اسے یہ کہیے کہ جمہوریت کا دور دورہ ہے۔ کیا بات ہے؟
یاں وہی ہے جو اعتبار کیا
بنیادی طور پر میں جمہوریت کا طالب ہوں۔ جمہوریت سے زیادہ انسانی حقوق کا طالب ہوں اور جس زمان و مکاں میں، میں رہتا ہوں جس زمیں کا میں بیٹا ہوں وہاں جمہوریت اور انسانی حقوق تصادم میں ہیں کہ یہ جمہوریت ہے یا شرفاء کا کلب یا بزم یاراں ہے۔ اب تو سنا ہے گیارہ سال گورنر رہنے کے بعد عشرت العباد پیپلز پارٹی کی طرف رخ کر رہے ہیں۔ گیارہ سال گورنر کیسے رہے کیوں رہے؟ پھر ایک دن مصطفیٰ کمال یوں پھٹ پڑے کہ گورنر ہاؤس کی دیواریں ایسے لرزنے لگیں کہ گیارہ سال کے گورنر کی چھٹی ہوگئی۔
یوں تو گورنر کا فیصلہ وفاق ہی کر سکتا ہے اور وفاق میں اب سول حکومت ہے۔ نا جانے کیوں مصطفیٰ کمال کو یہ پہلے ہی سے پتہ تھا کہ گورنر کی چھٹی ہونے والی ہے۔ کیونکہ جو الزامات گورنر پر انھوں نے لگائے ان کی صداقت کی تصدیق کے لیے عدالت چاہیے۔ ہاں مگر دال میں کچھ کالا ضرور تھا۔
ایک بات تو واضح ہے کہ دیہی اور شہری فرق اب ختم ہونا چاہیے۔ اس کے لیے پیپلز پارٹی میں شہری سیاست کرنے والے بھی جانے چاہئیں مگر عشرت العباد کیوں، قیصر بنگالی کیوں نہیں؟ اور اگر یہ ڈوری آپ سلجھائیں گے تو آپ یہ سمجھ پائیں گے کہ انور مجید اور تاج حیدر میں کیا فرق ہے؟ ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور کھانے کے اور۔ زرداری صاحب کی پارٹی آہستہ آہستہ ''پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا'' کی طرح مسلم لیگ بنتی جا ر ہی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ یہ پارٹی براہ راست آمریتوں کے ساتھ گٹھ جوڑ تو نہیں کرے گی مگر بالواسطہ یہ کرے گی، یہ اسی کی ہرزہ سرائی ہے کہ جو آپ آئے تو آپ کی دہلیز پر چوہدری شجاعت آئے۔
ہم سمجھتے تھے کہ آپ آئیں ہیں تو بے نظیر کی طرح کارکنوں کے گھروں میں جائیں گے۔ ستم رسیدہ و برباد لیاری جائیں گے، شہداء کی بیواؤں کے پاس جائیں گے مگر یہ نہ ہو اور جفاکشان محبت پہ جو ہوا سو ہوا۔ آپ کی پارٹی ہے آمریتوں کی دور دور تک کوئی خبر نہیں اور سندھ کے سارے وڈیرے سہم گئے کہ اب کے اقتدار میں آنے کے لیے زرداری صاحب کے نیلام گھر کے سوا کوئی اور گھر نہیں۔ یہ ہے کہ جمہوریت اور اس کی بساط تو کیا اپنے کواڑوں کو اب مقفل کر دیں کہ اب یہاں کوئی نہیں آئے گا۔ سندھ میں جی ایم سیّد رہا نہ حیدر بخش جتوئی، نا شاگرد، سیاست رہی نا دہقانوں کی جدوجہد، نہ ذوالفقار علی بھٹو رہے نہ بے نظیر بھٹو رہیں۔کوئی ویرانی سی ویرانی ہے۔
بلاول بھٹو بھلے ہی کہے کو وہ بھٹو ہے مگر زرداری صاحب کے سائے تلے وہ چھوٹے صاحب ہی رہیں گے۔ کوئی مجھ کو بتلائے کہ یہ کیا ہے۔ آمریت ہے تو بھی غریب، غریب تر اور جمہوریت ہے تو بھی غریب، غریب تر اور شرفا ہیں جو بھلے داڑھیاں رکھیں یا نہ رکھیں جو شہری ہوں یا دیہی ہوں جو پنجابی ہو یا سندھی ہوں امیر سے امیر تر۔
اب کی پیپلز پارٹی کی سیاست عوامی حوالے سے 27 دسمبر کے گرد گھومتی ہے پھر اللہ اللہ خیر صلا۔ زرداری صاحب دبئی چلے جائیں گے۔ بلاول صاحب خوبصورت تقریریں کرتے رہیں گے۔ نہ ایجوکیشن ایمرجنسی کے گل کھلے، نہ وزیر اعلیٰ کے صبح سویرے دفتر آنے سے چوں بھی ہوئی۔ اب تو یوں ہے جس طرح فیض کہتے ہیں
''جب سے بے نور ہوئیں ہیں شمعیں
خاک میں ڈھونڈتا پھرتا ہوں
کھو گئیں جانے کس جا میری دونوںآنکھیں''
اِس میں قصور زرداری صاحب کا نہیں ہے، قصور اس تا ریخ میں ہے کہ 15 اگست کو ہندوستان کو کانگریس کی قیادت جو کہ مڈل کلاس تھی اس نے بنایا تھا اور یہ کہ چودہ اگست کو پاکستان کو مسلم لیگ کی قیادت جو جاگیر دار تھے اس نے بنایا۔
سندھ میں جب بھٹو نہ تھے تو مسلم لیگ تھی تو بھی وڈیرے تھے اور جب بھٹو آئے تو جو مزے وڈیروں کو بھٹو کے دور میں نصیب ہوئے وہ مسلم لیگ کے دور میں نہ تھے۔
سندھ میں کوئی نئی کلاس ابھرے تو بات بنے، وہی دہقان وہی وڈیرے اور چھوٹی موٹی مڈل کلاس اگر بنی بھی تو اس کی ماہیت اسی کمدار کی طرح یعنی افسر شاہی، ایک لاکھ اساتذہ ہونگے جو اسکولوں میں نہیں پڑھاتے، ان میں سے آدھے اسکول جاتے ہی نہیں ہیں اور باقی اگر اسکول جاتے ہیں تو کلاسوں میں اونگھتے رہ جاتے ہیں۔ اس افسر شاہی میں ایک لاکھ ڈاکٹر و میڈیکل اسٹاف بھی ہوگا جو اپنے پرائیوٹ اسپتالوں میں تو بھرپور محنت کرتے ہیں اور سرکاری اسپتالوں میں وہی کچھ کرتے ہیں جو اساتذہ اسکول میں کرتے ہیں اور یہ سب اپنے تبادلے اور پروموشنز کروانے کے لیے انھی شر فاء کے محتاج ہیں۔
تالی ہمیشہ دو ہاتھ سے بجتی ہے جب نیب چوروں کے اوپر مور کی طرح بیٹھتی ہو تو پھر اے ڈی خواجہ کو گھر جانا پڑے گا۔ اس کا قصور یہ ہے کہ اس نے زرداری صاحب کی شوگر ملوں پر گنّا پہنچانے کے لیے دوسری شوگر ملوں کے راستے بند نہ کیے۔ اس نے پولیس کے محکمے میں تبادلے و پروموشنز میرٹ پر کیے تو پھر کیوں نہ قائم علی شاہ ہو یا مراد علی شاہ سندھ یہی ہے جو آپ کے سامنے ہے۔ آٹھ سالوں میں کراچی، حیدرآباد اور سکھر کے باہر چھوٹی و میڈیم صنعتوں کا جال نہ بچھا سکے نہ چھوٹے ہنر دینے والے ادارے بنائے۔
مجموعی طور پر جو بھی ترقیاتی اسکیمیں بنیں اس میں آدھی پر آدھی بھی کرپشن۔ پہلے لوکل باڈیز نہیں تھیں توT-M-O کی نگرانی میں سارے پیسے ہڑپ اور جب سپریم کورٹ نے مجبور کیا کہ لوکل باڈیز کے الیکشن کروائیں تو انھوں نے لوکل باڈی ایکٹ بنا کر ان کا بجٹ محدود کر دیا اور بہت سارے اختیارات چھین لیے۔ ستر سال ہو گئے ایک بھی سندھی انتخابی حلقے مڈل کلاس کی حیثیت میں جیت کر اسمبلی نہ پہنچا۔ جو سندھی جیت کر اسمبلی پہنچا وہ وڈیرے و دہقان کے سوشل کانٹریکٹ کی شکل تھی۔ نیم غلامانہ سندھ کا ثمر ہے جو اسمبلی میں امر ہے اور زرداری صاحب اس سندھ کے بے تاج بادشاہ ہیں۔ عام فہم انداز میں اسے یہ کہیے کہ جمہوریت کا دور دورہ ہے۔ کیا بات ہے؟
یاں وہی ہے جو اعتبار کیا