ایم کیو ایم کا جمعہ بازار

ہر ادارے کو اپنے وجود کو متعارف کروانے کے لیے عملی طور پر اس ضرورت کا احساس دلانا ایک قدرتی امر ہے


Kishwar Zohra December 29, 2016

بظاہر معاملات جس تیزی سے کبھی متزلزل اور کبھی بہتری کی طرف جاتے نظر آ رہے ہیں ان کو سمجھنے کے لیے MQM کی تاریخ کا ابتدائی سرا ہاتھ میں لے کر آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تو جو منظرنامہ سامنے آ رہا ہے اس میں ہر طرح کے نشیب و فراز اور ہچکولوں کے باوجود اس تحریک سے جڑے کارکن اور ہمدرد عوام ایک دھکے میں بکھرتے اور دوسرے دھچکے میں سنبھلتے رہے ہیں۔ اس کی وجہ ممکن یہ بھی ہو کہ وہ زمینی حقائق پر یقین کے ساتھ گہری نظر رکھتے ہیں اور روز اول سے اپنے آباؤ اجداد کی جدوجہد اور قربانیوں سے حاصل کیے ہوئے اس خطہ زمین پر اپنا بھی اتنا ہی حق محسوس کرتے ہیں جتنا کہ پہلے سے بسے ہوئے لوگوں کو حاصل ہوا۔

بے شک ہجرت ان کے آباؤ اجداد نے کی تھی لیکن جنھوں نے سرزمین پاکستان پر ہی آنکھ کھولی ہے انھیں اس زمین کا نہ بیٹا بیٹی ہونے پر کوئی شبہ تھا اور نہ ہی اپنے پاکستانی ہونے پر کوئی شک ہے اور یہ ہی وہ یقین پیہم ہے جو ان ارادوں کو مصمم اور منظم کیے ہوئے ہے کہ ہم بھی برابر کے شہری ہیں، لیکن ان کی اس فکر کی نفی کرنے والوں کے تیور اور رویوں نے ایسے حالات پیدا کردیے کہ اپنے حق کو حاصل کرنے کے لیے ہی APMSO یعنی طلبا کی تنظیم آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن وجود میں آئی۔

ذہنوں میں جب پختگی بڑھی تو اسی محروم طبقے نے لفظ مہاجر، جو گالی بنتا جا رہا تھا، فخر کا جامع پہنا کر مہاجر قومی موومنٹ کے نام سے تحریک کو آگے بڑھایا اور پھر بنیادی حقوق سے محروم دوسری تمام تر قوموں نے اپنی شمولیت ڈال کر متحدہ بنا دیا اور یوں یہ طاقت اس نظام کے خلاف چیلنج بن گئی جو انصاف دینے کو تیار نہ تھا۔ محروم اور مظلوم طبقے تو بہت تھے لیکن ایم کیو ایم نے انھیں نظم و ضبط کا سلیقہ دے دیا تھا جس کے ذریعے پاکستان کو مضبوط کرنے کے لیے منصفانہ حقوق درکار تھے۔ مہاجروں نے ایسے کسی اور بڑے المیے سے بچنے کے لیے تگ و دو بڑھا دی، جو سب کو برابری کا درجہ دے کیونکہ حقوق سے محرومی نے ہی مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش میں بدل کر رکھ دیا تھا، جو ایک بڑا سانحہ اور المیہ ہے۔

ہر ادارے کو اپنے وجود کو متعارف کروانے کے لیے عملی طور پر اس ضرورت کا احساس دلانا ایک قدرتی امر ہے، جیساکہ سیاسی، سماجی اور معاشی ضروریات کے ساتھ پاکستان کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے افواج پاکستان کو 1948ء میں ہی تدبر سے اپنے وجود کی اہمیت کی داغ بیل ڈالنی پڑی، کیونکہ تقسیم ہند کے موقع پر طے شدہ معاملات کی روگردانی کی گئی، ہندوستان جو کہ نہ صرف رقبے کے لحاظ سے بڑا تھا جب کہ دیگر معاملات میں بھی غیر منصفانہ تقسیم میں بدعہدی کی گئی، جیسے حیدرآباد، جونا گڑھ اور کشمیر جو پاکستان کا حصہ تھے، نہ دیے گئے اور ابتدا ہی سے اکھنڈ بھارت کا راگ الاپنا شروع کر دیا، جو پاکستان کے وجود کے لیے خطرہ تھا، جس کے لیے افواج پاکستان کو اپنے وجود کا احساس دلانا پڑا۔

یہاں پر ان قوتوں کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے جو پاکستان بنانے کے حق میں نہ تھیں اور جب قائداعظم اور ان کے ہم نواؤں کی کاوشوں سے پاکستان معرض وجود میں آ گیا تو اسے بکھیرنے کے لیے اس کی روشن خیالی کو مذہب کے نام پر بندش باندھ کر اسلام جیسے پرامن دین کو ایک سخت گیر صورت میں پیش کرنا شروع کر دیا، جس نے بعد میں انتہاپسندی کی مکروہ صورت اختیار کر لی۔

ہندوستان سے ہجرت کر کے آنے والوں کی ایک بڑی تعداد جس نے صوبہ سندھ، کراچی، حیدرآباد، نواب شاہ اور سکھر وغیرہ میں سکونت اختیار کی اور ہندو جو تعلیم یافتہ اور کاروباری طبقے سے تعلق رکھتے تھے جب ہندوستان چلے گئے تو ہجرت کر کے آنے والوں نے اس خلا کو پر کیا اور جب کلاچی جو پاکستان کا دارالحکومت نہ تھا، اس کو شہر کراچی بنا دیا اور جب وہ ایک معروف شہر کی صورت میں ابھر کر سامنے آیا تو دارالحکومت تبدیل کرکے یہاں کی آبادی کو پہلا دھچکا دیا اور جیساکہ میں نے مضمون کی ابتدا میں ذکر کیا تھا کہ یہاں پر بسنے والے لوگ ایک دھچکے میں بکھرتے اور دوسرے دھچکے میں سنبھلتے ہیں، انھوں نے پھر ایک بار اپنے آپ کو سنبھالا لیکن ان علاقوں میں بسنے والوں نے حوصلے اور ہمت کو مجتمع رکھتے ہوئے ان قوتوں کو جو بحیرۂ عرب میں غرق ہونے کا راستہ دکھا رہی تھیں، بتا دیا کہ نہ غرق ہوں گے نہ کہیں واپس جائیں گے، اسی سرزمین کے سپوت ہیں یہیں جیئں گے اور یہیں مریں گے اور دفن بھی یہیں ہوں گے۔ اور ہوا بھی یہی کہ یہاں بسنے والے یہیں دفن ہو رہے ہیں۔

صنعتی شہر ہونے کے سبب جو صرف روزگار کی تلاش میں دوسرے علاقوں سے آتے ہیں ان کی میتیں اپنے اپنے گاؤں جاتی ہیں۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جو جہاں پیدا ہوتا ہے وہیں کی مٹی اسے پکارتی ہے۔ جس پیدا ہونے والے نے یہ طے کر لیا کہ وہ اس زمین کا سپوت ہے تو وہ اپنے حق کی آواز یوں ہی بلند کرتا رہے گا، ایسی ہی صورتحال سندھ میں بسنے والے اکثریتی طبقے کی ہے ان کے حقوق سے صرف نظر یا ان کو منتشر کردینا مسائل کا حل نہیں جو انرجی یا فکر ان کو بکھیرنے میں خرچ کی جائے، اس انرجی کا مثبت پہلو تو یہ ہوگا کہ وہ عوامل بروئے کار لائے جائیں جو ان کے احساس محرومی کو مٹا سکیں ورنہ یہ توڑ جوڑ محض راہ فرار ہی رہے گا اور مسئلہ اپنی جگہ جوں کا توں برقرار رہے گا۔

حالیہ ہونے والے بلدیاتی انتخابات اور ان منتخب نمایندوں کے ساتھ ہونے والی آنکھ مچولی بھی ایسے رویوں کا کھلا ثبوت ہے فنڈز اور اختیارات کی رسہ کشی صرف منتخب نمایندوں کا ہی امتحان نہیں بلکہ برسہا برس سے منتخب کرنے والی عوام کو بھی سزا دی جا رہی ہے شہر کی گندگی بڑھ رہی ہے، تعفن سے بیماریاں پھوٹ رہی ہیں جب کہ ایم کیو ایم کے ایک نہیں سات حصے نظر آرہے ہیں۔

ایم کیو ایم حقیقی، ایم کیو ایم پاک سرزمین، ایم کیو ایم پاکستان، ایم کیو ایم لندن، ایم کیو ایم حیدر آباد اور اندرون سندھ کی ایم کیو ایم الگ اور سابق آرمی چیف جنرل مشرف کے ساتھ ایک اور ایم کیو ایم کا پیوند، سو کتنی بھی ایم کیو ایم ہی نہ بن جائیں ان کا جمعہ بازار ہی کیوں نہ لگ جائے، ان سب میں شامل ہر نفس کا مسئلہ ایک ہی ہے کہ ہمیں جانو، سمجھو اور مانو کہ ہم تم ہی میں سے ہیں۔

یہ تم نے کیسا رابطہ رکھا
نہ قریب آئے نہ فاصلہ رکھا

لہٰذا اسی مسئلے کے حل کے لیے میں ایک محب وطن پاکستانی ہونے کی حیثیت سے اس سرزمین سے محبت کرنے والوں کو دعوت فکر دیتی ہوں کہ جس تحریک نے غریب اور متوسط طبقے سے جنم لیا اپنی قوم کی بقا کے لیے ایک نسل کو داؤ پہ لگا یا، گوکہ اس بات سے بھی انکار نہیں کہ جب کسی تحریک کا دائرہ وسیع ہوتا ہے تو اس میں نیلی، پیلی، کالی بھیڑیں بھی شامل ہوجاتی ہیں لیکن اس کی سزا پوری قوم کو نہیں دی جانی چاہیے، جو خطاکار ہو اس کے لیے خطا کے مطابق سزا ضروری ہے، لیکن جو بے گناہ ہو وہ جزا کا حقدار ہے اور پوری قوم کے لیے جزائے خیر یہی ہے کہ زمینی حقائق کو سمجھتے ہوئے ان محرومیوں کا شکار لوگوں کو صدق دل سے تسلیم کیا جائے اور ان توانائیوں کو منتشر کرنے کے بجائے یکجا کرکے پاکستان کی طاقت میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔