متضاد زمانہ شخصیتوں کی یکساں کوششیں آخری حصہ
کیا صدام حسین کو اقتدار سے ہٹانا واقعی بہت ضروری تھا؟
سیکولر خوش اخلاقی کی یقین دہانیاں اپنی جگہ ویدر فورڈ کی اس کتاب کے بارے میں جو بات سب سے زیادہ چونکا دینے والی ہے وہ ان کا یہ مرکزی دعویٰ ہے کہ چنگیز کا سب سے اہم ورثہ یہ تھا کہ انھوں نے چرچ اور اسٹیٹ کو بالکل الگ کر رکھا تھا جو امریکی آئیڈیا بھی ہے اس طرح امریکا کی ''فرسٹ امینڈمینٹ'' جس کا بڑا چرچا کیا جاتا ہے در حقیقت اس کی اصلیت منگول فلسفہ ہی ہے۔ یہ بات کچھ دل کو لگنے لگتی ہے جب ہمیں بتایا جاتا ہے کہ اٹھارویں صدی میں امریکی نو آبادیوں میں بیسٹ سیلر ایک فرینچ رائٹر پیٹس ڈی لاکرائکس کی تحریر کردہ ہسٹری بک چنگیز دی گریٹ تھی جسے بنجامن فرینکلن اور تھامس جیفرسن دونوں نے ہڑپ کر جانے کی کوشش کی تھی۔
دوسری باتوں کے علاوہ منگول قانون میں سختی سے اس بات کو ممنوع قرار دیا گیا تھا کہ کسی شخص کو بھی مذہب کی بنیاد پر نقصان پہنچایا جائے، فرسٹ امینڈمینٹ کی پیش بندی کی تھی کہ کوئی شخص بھی اپنی مذہبی رائے یا عقیدے کی بنیاد پر کسی امتیازی سلوک یا نقصان کا سامنا نہیں کرے گا، چنگیز خان اور جیفرسن کا کوئی لنک ڈھونڈنا بے شک پاگل پن پر مبنی ہو۔ مگر ویدر فورڈ نے اپنا کیس بڑے طاقت ور انداز میں پیش کیا ہے اور اس حقیقت کو تقویت پہنچائی ہے کہ مغرب جن کارناموں پر بغلیں بجاتا ہے وہ در حقیقت مشرق کی دین ہیں اور منگولیا جیسے ملکوں کی وہ گئی گزری حیثیت نہیں جیسا کہ برطانوی سفارت کار سمجھتے رہے ہیں یہ ملک کرۂ ارض کے سرے پر نہیں بلکہ سینٹر میں ہے اور ایک اعتبار سے ہم سب منگول نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔
صدام حسین: سابق عراقی صدر کے بارے میں کتاب ''ڈی بریفنگ دی پریذیڈنٹ انٹیروگیشن آف صدام حسین'' کے عنوان سے سی آئی اے کے ایک افسر جون نکسن نے لکھی ہے جو بقول ان کے پہلے سی آئی اے آفیشل تھے جنھوں نے سابق صدر صدام حسین سے پوچھ گچھ کی تھی۔
مسٹر نکسن کی سب سے چونکا دینے والی ڈسکوری یہ تھی کہ جب مارچ 2003ء میں امریکا کی قیادت میں عراق پر قبضہ کیا گیا تو اس وقت تک صدام حسین امور ریاست چلانے کے زیادہ تر کام اپنے مشیروں کو سونپ چکے تھے اور خود اپنا زیادہ تر وقت ایک ناول لکھنے میں صرف کر رہے تھے اسی لیے انھوں نے خود کو مسٹر جون نکسن کے سامنے عراق کے صدر اور رائٹر کے طور پر پیش کیا اور شکایت کی کہ امریکی فوج ان کا رائٹنگ میٹریل لے گئی ہے اور وہ اپنی کتاب مکمل نہیں کر سکے ہیں۔
صدام حسین بے شک ایک ظالم ڈکٹیٹر تھے مگر جیسا کہ مسٹر نکسن نے بیان کیا کہ اب ایسی بات بھی نہیں تھی کہ وہ دنیا کو تباہ کرنے کے مشن پر نکلے ہوئے تھے جیسا کہ مسٹر بش کی ایڈمنسٹریشن نے ان کی نقشہ کشی کی تا کہ قبضے کا جواز پیدا کیا جائے۔
کیا صدام حسین کو اقتدار سے ہٹانا واقعی بہت ضروری تھا؟ جیساکہ مسٹر نکسن کہتے ہیں۔ میرے نزدیک اس سوال کا جواب نفی میں ہے صدام حسین 2003ء میں ناولیں لکھ رہے تھے وہ امور حکومت نہیں چلا رہے تھے۔ حیرت انگیز طور پر سی آئی اے کے پاس اس کا ثبوت موجود تھا۔ مگر سی آئی اے کا یہ موقف پالیسی میکرز تک نہیں پہنچایاگیا بلکہ جنگ چھڑ جانے کے بعد منظر عام پر آیا۔ 2003ء میں عراق کے اندر جو کچھ ہو رہا تھا اس سے صدام حسین بھی اتنے ہی لاعلم تھے جتنے کہ ان کے برطانوی اور امریکی دشمن تھے۔
جہاں تک عوامی تباہی (MASS DESTRUCTION) کے ہتھیاروں کا تعلق ہے صدام حسین نے مسٹر نکسن کے سامنے اپنی اس غلطی کا اعتراف کیا کہ وہ یہ بات واضح کرنے میں ناکام رہے کہ وہ جنگ سے پہلے ہی ان ہتھیاروں سے جان چھڑا چکے ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ امریکا کو یہ غلط فہمی کیسے ہو گئی ہے تو صدام حسین نے قدرے فلسفیانہ انداز سے کہاکہ ہم دونوں (امریکا اور میں) ایک دوسرے کو سننے سمجھنے کا جذبہ نہیں رہا۔
11 ستمبر کے حملوں کے بعد صدام حسین بہت بری طرح اس بات سے لاعلم رہے کہ امریکا کا رد عمل کیا ہو گا وہ تو سمجھ رہے تھے کہ انتہا پسندوں سے مل کر لڑنے کے لیے امریکا اور عراق ایک دوسرے کے قریب آ جائیںگے کیونکہ وہ دونوں ملکوں کو فطری پارٹنرز سمجھتے تھے۔
صدام حسین کی پوچھ گچھ سے مسٹرنکسن نے جو نتائج اخذ کیے تھے اس نے بش انتظامیہ کے جنگ کے کھڑاگ میں پڑنے کے جواز کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کر دیے تھے مگر صدام حسین کے بارے میں مسٹر نکسن کے زائچے کو سی آئی اے کے سینئر حکام اور وہائش ہاؤس نے نظر انداز کر دیا بقول ان کے وہائٹ ہاؤس کے پالیسی میکرز اور سی آئی اے کی ساتویں منزل پر بیٹھنے والی لیڈر شپ یہ سننے کو تیار ہی نہیں تھے کہ صدام حسین کے درپے ہونے کے اسباب جھوٹے تانوں بانوں پر مبنی تھے۔
مسٹر نکسن مزید لکھتے ہیں ایجنسی غلامانہ انداز میں پریذیڈنٹ کی BIDDING کرتی رہی جیساکہ عام طور پر کرتی ہے اس کوشش میں کہ اقتدار کے مرکز کے قریب کوئی جگہ مل جائے اور بجٹ کا جواز پیدا ہو سکے۔ سچی بات یہ ہے کہ یہ انسٹیٹیوشن کے مفاد کا تقاضا تھا۔
اب مسٹر ٹرمپ کو بہت جلد اندازہ ہو جائے گا کہ سی آئی اے نے عراق جیسے المیوں سے کوئی سبق سیکھے ہیں یا نہیں۔