چین کا انقلابی انجن ’’ایم ڈرائیو‘‘ بنانے کی دوڑ میں آگے نکل جانے کا دعویٰ
ایم ڈرائیو یک ایسا انجن ہے جسے چلانے کے لیے الیکٹرومیگنیٹک ریڈی ایشن یعنی برقیاتی تاب کاری درکار ہوتی ہے
الیکٹرومیگنیٹک ڈرائیو جسے مختصراً ایم ڈرائیو (EmDrive ) کہا جاتا ہے، ایک ایسا انجن ہے جسے چلانے کے لیے پیٹرول، ڈیزل، گیس اور بجلی کے بجائے الیکٹرومیگنیٹک ریڈی ایشن یعنی برقیاتی تاب کاری درکار ہوگی۔
روایتی انجن قانون بقائے معیارحرکت کے تحت کام کرتے ہیں جس میں مادّہ کی ایک حالت سے دوسری حالت میں تبدیلی کے ذریعے میکانی عمل یا مکینیکل ری ایکشن پیدا کیا جاتا ہے۔ یہ ری ایکشن انجن کو چلنے کی قوت فراہم کرتا ہے۔ اس کے برعکس ایم ڈرائیو میں ری ایکشن پیدا نہیں ہوگا۔ یہ انجن ایک مائیکرو ویو کیویٹی میں مقید برقیاتی تاب کاری سے طاقت حاصل کرے گا۔ نیوٹن کے تیسرے قانون کے مطابق ہر عمل کا ایک ردعمل ہوتا ہے، اور ردعمل کی قوت عمل کرنے والی قوت کے مساوی ہوتی ہے، مگر ایم ڈرائیو اس قانون کی نفی کرتا ہے۔
2010ء میں اس انقلابی انجن کی تیاری پر امریکا اور چین نے بہ یک وقت کام شروع کیا تھا۔ چھے برس گزرنے کے بعد اب چین نے ایم ڈرائیو تخلیق کرلینے کا دعویٰ کردیا ہے۔ کمرشل سیٹیلائٹ ٹیکنالوجی فار دی چائنا اکیڈمی آف اسپیس اینڈ ٹیکنالوجی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر چن یو نے دس دسمبر کو اعلان کیا کہ چین نے تجربہ گاہوں میں ایم ڈرائیوز ٹیکنالوجی کی کام یاب آزمائش کرلی ہے اور اب اس کی عملی آزمائش خلا میں کی جارہی ہے۔ ارضی مدار میں چین کی تجربہ گاہ تیانگ گونگ ٹو ستمبر میں پہنچائی گئی تھی۔ ایم ڈرائیو کی آزمائش اسی میں کی جارہی ہے۔
ایم ڈرائیو کی تخلیق کا تصور برطانوی موجود راجر شویئر نے پیش کیا تھا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ بیشتر سائنس داں اس نوع کے انجن کی تخلیق کو ناممکن قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ طبیعیات کے بنیادی قوانین سے متصادم کوئی بھی ایجاد کرنا ممکن نہیں۔ سائنس دانوں کے مطابق اس طرح کے آلات نظری طور پر تیار کیے جاسکتے ہیں مگر انھیں حقیقت میں ڈھالنا ناممکن ہے۔ اسی تناظر میں جہان سائنس میں چین کے اس دعوے کے حوالے سے تجسس پایا جارہا ہے۔ سائنس دانوں کے علاوہ سائنس کے عام طالب علم بھی جاننے کے لیے بے چین ہیں کہ اس دعوے میں کتنی سچائی ہے۔
اگر چین کا دعویٰ درست ہے تو پھر ایم ڈرائیو کی تخلیق تسخیر کائنات میں ایک نئے باب کی بنیاد بنے گی، کیوں کہ نظری طور پر یہ انجن خلائے بسیط میں سفر کے لیے سب سے موزوں ہیں۔ ایندھن کی ضرورت نہ ہونے کی وجہ سے کم وزن خلائی جہازوں کی تیاری ممکن ہوجائے گی۔ ایم ڈرائیو چوں کہ خود توانائی کا ماخذ ہوگا، لہٰذا ایک بجلی گھر کی طرح یہ خلائی گاڑیوں اور دوسرے آلات کو توانائی فراہم کرسکے گا۔ ایم ڈرائیو ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے چھوٹی جسامت کے مگر زیادہ کارآمد مصنوعی سیارے بھی بنائے جاسکیں گے۔ مگر ایم ڈرائیو انجن کی سب سے خاص بات یہ ہوگی کہ اس کا استعمال کرتے ہوئے اتنے تیز رفتار ایئر کرافٹ بنائے جاسکیں گے جو زمین سے مریخ تک صرف دس دنوں میں پہنچ جائیں گے۔
روایتی انجن قانون بقائے معیارحرکت کے تحت کام کرتے ہیں جس میں مادّہ کی ایک حالت سے دوسری حالت میں تبدیلی کے ذریعے میکانی عمل یا مکینیکل ری ایکشن پیدا کیا جاتا ہے۔ یہ ری ایکشن انجن کو چلنے کی قوت فراہم کرتا ہے۔ اس کے برعکس ایم ڈرائیو میں ری ایکشن پیدا نہیں ہوگا۔ یہ انجن ایک مائیکرو ویو کیویٹی میں مقید برقیاتی تاب کاری سے طاقت حاصل کرے گا۔ نیوٹن کے تیسرے قانون کے مطابق ہر عمل کا ایک ردعمل ہوتا ہے، اور ردعمل کی قوت عمل کرنے والی قوت کے مساوی ہوتی ہے، مگر ایم ڈرائیو اس قانون کی نفی کرتا ہے۔
2010ء میں اس انقلابی انجن کی تیاری پر امریکا اور چین نے بہ یک وقت کام شروع کیا تھا۔ چھے برس گزرنے کے بعد اب چین نے ایم ڈرائیو تخلیق کرلینے کا دعویٰ کردیا ہے۔ کمرشل سیٹیلائٹ ٹیکنالوجی فار دی چائنا اکیڈمی آف اسپیس اینڈ ٹیکنالوجی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر چن یو نے دس دسمبر کو اعلان کیا کہ چین نے تجربہ گاہوں میں ایم ڈرائیوز ٹیکنالوجی کی کام یاب آزمائش کرلی ہے اور اب اس کی عملی آزمائش خلا میں کی جارہی ہے۔ ارضی مدار میں چین کی تجربہ گاہ تیانگ گونگ ٹو ستمبر میں پہنچائی گئی تھی۔ ایم ڈرائیو کی آزمائش اسی میں کی جارہی ہے۔
ایم ڈرائیو کی تخلیق کا تصور برطانوی موجود راجر شویئر نے پیش کیا تھا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ بیشتر سائنس داں اس نوع کے انجن کی تخلیق کو ناممکن قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ طبیعیات کے بنیادی قوانین سے متصادم کوئی بھی ایجاد کرنا ممکن نہیں۔ سائنس دانوں کے مطابق اس طرح کے آلات نظری طور پر تیار کیے جاسکتے ہیں مگر انھیں حقیقت میں ڈھالنا ناممکن ہے۔ اسی تناظر میں جہان سائنس میں چین کے اس دعوے کے حوالے سے تجسس پایا جارہا ہے۔ سائنس دانوں کے علاوہ سائنس کے عام طالب علم بھی جاننے کے لیے بے چین ہیں کہ اس دعوے میں کتنی سچائی ہے۔
اگر چین کا دعویٰ درست ہے تو پھر ایم ڈرائیو کی تخلیق تسخیر کائنات میں ایک نئے باب کی بنیاد بنے گی، کیوں کہ نظری طور پر یہ انجن خلائے بسیط میں سفر کے لیے سب سے موزوں ہیں۔ ایندھن کی ضرورت نہ ہونے کی وجہ سے کم وزن خلائی جہازوں کی تیاری ممکن ہوجائے گی۔ ایم ڈرائیو چوں کہ خود توانائی کا ماخذ ہوگا، لہٰذا ایک بجلی گھر کی طرح یہ خلائی گاڑیوں اور دوسرے آلات کو توانائی فراہم کرسکے گا۔ ایم ڈرائیو ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے چھوٹی جسامت کے مگر زیادہ کارآمد مصنوعی سیارے بھی بنائے جاسکیں گے۔ مگر ایم ڈرائیو انجن کی سب سے خاص بات یہ ہوگی کہ اس کا استعمال کرتے ہوئے اتنے تیز رفتار ایئر کرافٹ بنائے جاسکیں گے جو زمین سے مریخ تک صرف دس دنوں میں پہنچ جائیں گے۔