توہین عدالت بلاسمبلی میں احتجاج کیا اورکیاکرسکتے تھےنثار

90 رکنی اپوزیشن کیسے بل کی منظوری روک سکتی ہے،کیابل وزرا سے لے کرپھاڑدیتے؟


News Agencies July 27, 2012
90 رکنی اپوزیشن کیسے بل کی منظوری روک سکتی ہے،کیابل وزرا سے لے کرپھاڑدیتے؟۔ فوٹو ایکسپریس

قائدحزب اختلاف چوہدری نثارعلی خان نے توہین عدالت کے ترمیمی بل کی منظوری کے وقت اپوزیشن کے کردارسے متعلق بعض فاضل ججز کے ریمارکس پر افسوس اورتشویش کااظہار کرتے ہوئے کہاکہ فاضل ججز کوریمارکس دیتے وقت یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ 342رکنی ایوان میں90 ارکان پرمشتمل اپوزیشن کیسے بل کی منظوری روک سکتی ہے سوائے اس کے وزیروں کے ہاتھ سے بل چھین کر پھاڑ دیے جاتے اورپارلیمنٹ میں ایک تشدد آمیزمنظرپیدا کرادیا جاتا۔

جمعرات کو پارلیمنٹ ہائوس سے جاری ایک بیان میں قائد حزب اختلاف نے ایک فاضل جج کے ان ریمارکس پر کس اپوزیشن نے عوامی مینڈیٹ سے انحراف کیا پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ن لیگ ن نے توہین عدالت قانون کی منظوری کے حکومتی اقدامات کے خلاف پارلیمانی، سیاسی اور قانونی ہر سطح پر بھرپور مزاحمتی آوازبلندکی اورحکومتی رویے کیخلاف اسمبلی میں بھرپور احتجاج کیا اس سے زیادہ اورکیا ہم کرسکتے تھے اور کیا ہم اسمبلی میں ڈنڈے لیکرچلے جاتے؟

قائد حزب اختلاف نے کہا کہ فاضل جج صاحبان کو اپوزیشن کے خلاف جذبات کااظہارکرتے وقت یہ بھی بتانا چاہیے کہ اپوزیشن نے کہاں غلطی کی اوراس سے وابستہ توقعات کیاتھیں جو پوری نہ ہوسکیں انھوں نے کہاکہ حکومت کو ایوان میں200 ارکان کی حمایت حاصل ہے اور وہ قانون سازی کیلیے کوئی بھی بل آسانی سے بلڈوزکرکے منظورکراسکتی ہے اورایسے میں اپوزیشن واک آئوٹ کرکے اپنا احتجاج ریکارڈکراتی ہے۔

چوہدری نثارعلی خان نے یاد دلایا کہ پارلیمانی روایات میں کسی معاملے پرواک آئوٹ، احتجاج کاانتہائی حربہ تصورکیاجاتا ہے اور مہذب ملکوں میں اپوزیشن کے واک آئوٹ کے دوران حکومت قانون سازی موخر کرادیتی ہے مگر یہاں صورتحال ہی برعکس تھی چوہدری نثارعلی خان نے کہا کہ پارلیمانی روایات سمجھے بغیر اپوزیشن کے واک آئوٹ پر فاضل ججز کی غیرحقیقت پسندانہ تبصرہ آرائی مناسب نہیں ہے انہیں خیال رکھناچاہیے کہ حکومت نے عدلیہ کیخلاف بھرپور پروپیگنڈہ مہم شروع کررکھی ہے اورتنہااپوزیشن حکومتی اقدامات کے سامنے ڈٹی ہوئی ہے انہوں نے کہا کہ ایسی بیان بازی سے عدلیہ کاوقارمتاثر ہوسکتا ہے تاہم ہمیں ہرحال میں انصاف کے تقاضے پورے کرنے چاہئیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں