روس کا شام میں مکمل جنگ بندی کا اعلان

روس، ترکی اور ایران نے شام میں جنگ بندی کے حوالے سے ایک معاہدے پر دستخط کردیے ہیں،غیرملکی خبرایجنسی

داعش، نصرہ فرنٹ کے سابق شدت پسند اور ان سے رابطہ کرنے والے گروپس پر اس معاہدے کا اطلاق نہیں ہوگا، شامی فوج - فوتو: فائل

روس نے شام میں حکومت اور اپوزیشن سمیت تمام گروہوں کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے پر رضامند ہونے کا اعلان کیا ہے۔

غیر ملکی خبررساں ادارے کے مطابق روس، ترکی اور ایران نے شام میں جنگ بندی کے حوالے سے ایک معاہدے پر دستخط کردیے ہیں جس پر شامی حکومت اور اپوزیشن سمیت تمام گروپ متفق ہیں۔ ماسکو سے جاری ایک بیان میں روسی حکام کا کہنا تھا کہ روس، ایران اور ترکی 6 سال سے جاری جنگ کو امن میں تبدیل کرنے کے لیے تیار تھے جب کہ اب انہوں نے شام میں جنگ بندی کی شرائط پر مکمل اتفاق کر لیا ہے.

دوسری جانب شامی فوج نے ملک بھر میں لڑائی روکنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ہم جنگ بندی کے معاہدے پر مکمل عمل درآمد کریں گے لیکن داعش، نصرہ فرنٹ کے سابق شدت پسند اور ان سے رابطہ کرنے والے تمام گروپس پر اس معاہدے کا اطلاق نہیں ہوگا۔ شامی باغی رہنماؤں نے فوج کے اعلان پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ بھی جنگ بندی کے معاہدے پر راضی ہیں تاہم شامی فوج کے اعلان سے غیر یقینی صورتحال پیدا ہوگئی ہے کہ وہ کس گروپ کے خلاف کارروائی نہیں کریں گے۔


ادھر روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے شام میں جنگ بندی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ شامی حکومت و فوج اور اپوزیشن گروپ نے بہت سے معاہدوں پر دستخط کرلیے ہیں جس میں آج رات سے جنگ بندی کا معاہدہ بھی شامل ہے جو خطے میں شامل ہمارے دوست ممالک کی مشترکہ کوششوں کا نتیجہ ہے۔ امریکا نے حالیہ امن مذاکرات میں شرکت ہی نہیں کی جس پر روس کے وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ امریکا نئے صدر کے آفس سنبھالنے تک امن مذاکرات کا حصہ نہیں بن سکتا ۔

اس سے قبل شام میں متعدد بار جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کی گئی ہے جب کہ حال ہی میں جنیوا میں امریکا اور روس نے شام میں 10 روزہ جنگ بندی پر اتقاق کیا تھا تاہم اس دوران روسی اور امریکی افواج نے شام کے شہر ادلب اور حلب میں فضائی حملے کیے جس کے نتیجے میں 100 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

واضح رہے شام میں 2011 سے اپوزیشن نے صدر بشارالاسد کے خلاف احتجاج کا آغاز کیا تھا جس میں روس، ترکی ، ایران اور امریکا بھی شامل ہوگیا تھا جس کے نتیجے میں شام میں اب تک 3 لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
Load Next Story