لوڈ شیڈنگ کے خاتمہ کی طرف پیش رفت
پاکستان اٹامک انرجی کمیشن نے جوہری ایندھن میں خود انحصاری کیلیے بہت کام کیا ہے
DELHI:
وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ دھرنے اور احتجاج ملکی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں، ایسا کرنیوالے ملک پر رحم کریں، وطن عزیز سے لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ہماری اولین ترجیح ہے۔ وہ چین کے تعاون سے چشمہ تھری ایٹمی پاور پلانٹ کی افتتاحی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ 2018 تک نہ صرف ملک میں لوڈ شیڈنگ نہیں ہوگی بلکہ بجلی سستی بھی دستیاب ہوگی۔ قبل ازیں وزیراعظم نے تختی کی نقاب کشائی کر کے 340میگاواٹ کے چشمہ تھری جوہری بجلی گھر کا افتتاح کیا۔ چائنہ نیشنل نیوکلیئر کارپوریشن کے نائب صدر یوٹیکن نے چشمہ منصوبے کی تکمیل پر پاکستان کو مبارکباد پیش کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ جوہر ی تعاون پاک چین تذویراتی تعلقات کا عکاس ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ موجودہ ملکی صورتحال اگرچہ توانائی کے اعصاب شکن بحران سے کبھی الگ نہیں رہی ہے لیکن حکومت کے احساس زیاں نے اس شعبہ میں مزید غفلت سے خبردار رہ کر صائب پیش رفت کی ہے، اور اسی لیے وزیراعظم نواز شریف قوم کو مسلسل اس بات کا یقین دلارہے ہیں کہ 2018 ء میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم ہوگی۔ ان کے اس یقین کی بنیاد وہ ہمہ جہت توانائی منصوبے ہیں جو پاک چین دوستی اور اقتصادی معاونت کی مثالی شکل میں جاری ہیں، چشمہ تھری اسی تعاون کی ایک کڑی ہے۔
ان منصوبوں کی تکمیل اگر وقت مقررہ پر ہوجائے تب اس خواب کو عملی تعبیر ملے گی اور عوام کو اطمینان ہوگا کہ انہیں لوڈ شیڈنگ سے واقعی نجات مل گئی ہے ، حکومت کے اس وعدہ فردا کی جزوی تکمیل کا اندازہ رواں سردی کے موسم میں نہیں ہوگا، جب موسم گرما ہوگا تب لوڈ شیڈنگ کے خاتمہ کے یقین کو سند تصدیق مل سکے گی ، جب کہ اصل مسئلہ ملک میں بجلی کی پیداوار اور طلب کے درمیان بڑھتا ہوا ہوشربا فرق اور مہنگی بجلی کی رسد ہے نیز بجلی کی تقسیم سمیت اس کے فرسودہ تکنیکی نظام میں فالٹس کے باعث ہونے والے غیر معمولی لائن لاسز کا سدباب بھی لازم ہے۔
وزیراعظم نے کہا ہم جب اقتدار میں آئے تو ملک کو دہشتگردی کے مسئلے کا سامنا تھا۔ معیشت کا برا حال تھا۔ 18،18گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ہوتی تھی۔ ہم نے قوم کو لوڈ شیڈنگ سے نجات دلانے کیلیے جس سفر کا آغاز کیا تھا اﷲ کا شکر ہے کہ اس سلسلے میں آج ایک اور سنگ میل عبور کرلیا۔ چشمہ تھری نیوکلیئر پاور پلانٹ کی تکمیل سے 340 میگاواٹ بجلی قومی گرڈ میں شامل ہوگی ۔ بلاشبہ یہ منصوبہ نیوکلیئر سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں پاک چین تعاون کا منہ بولتا ثبوت اور خطے میں ایک نئے دور کا آغاز بھی ہے۔
امید کرنی چاہیے کہ چشمہ فور نیوکلیئر پلانٹ بھی مقررہ مدت سے قبل یعنی 2017ء کے وسط سے پہلے بجلی کی پیداوار شروع کردیگا۔ اس کے علاوہ کے ٹو اور کے تھری پاور پلانٹس کی تعمیر سے جہاں توانائی کے حصول کی جانب ایک اہم قدم ہوگا وہیں یہ باہمی تعلقات کو بھی مزید مستحکم کریگا۔ چینی ساختہ پہلے پاور پلانٹ چشمہ یونٹ ون کی تعمیر کا معاہدہ بھی ن لیگ کے پہلے دور حکومت میں طے پایا تھا اور اسی نے دونوں ملکوں کے مابین نیوکلیئر توانائی کے شعبہ میں تعاون کی بنیاد فراہم کی تھی ۔ بین الاقوامی مدد کے بغیر چار دہائیوں سے زائد عرصہ پر محیط کینپ کی پیداواری صلاحیت ایک اہم کامیابی ہے۔
پاکستان اٹامک انرجی کمیشن نے جوہری ایندھن میں خود انحصاری کیلیے بہت کام کیا ہے۔ انھوں نے اس موقع پر چینی حکومت کے ساتھ ساتھ چائنا نیشنل نیوکلیئر کارپوریشن، ایگزم بینک اور چینی کمپنیوں کا بھی شکریہ ادا کیا جنہوں نے اس منصوبے کیلیے تکنیکی و مالی معاونت فراہم کی۔ دریں اثنا چین نے کہا ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری(سی پیک) کے منصوبوں کی مکمل تکمیل کے لیے ہرطرح سے پاکستان سے ساتھ کھڑے ہیں۔ دریں اثنا چینی وزارت خارجہ کی ترجمان ہوا چھون اینگ نے بدھ کو معمول کی پریس بریفنگ میں کہا کہ سی پیک منصوبوں کی تعمیر و ترقی کے لیے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرتے رہیں گے۔
یہ منصوبہ صرف چین اور پاکستان کو معاشی اور سماجی طور پر فوائد فراہم نہیں کرے گا بلکہ علاقائی رابطہ سازی ، معاشی اور تجارتی تعاون میں بھی کارآمد ہوگا۔وزیراعظم نے ہدایت کی کہ نیوکلیئر پاور پلانٹس کی تنصیب پر کام کو تیز کیا جائے اور ماہرین اہداف سے زیادہ بجلی پیدا کر کے ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں۔
وزیراعظم نے اس موقع پر چینی کمپنیوں کو نیوکلیئر پاور پلانٹس کے شعبے میں سرمایہ کاری کی دعوت دی اور یقین دلایا کہ حکومت پاکستان اس سلسلے میں ہر طرح کا تعاون اور مدد فراہم کریگی۔ اس سے قبل پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے چیئرمین محمد نعیم نے استقبالہ کلمات میں کہا کہ وسط مدت میں پی اے ای سی کو 8800 میگاواٹ جوہری توانائی پیدا کرنیکا ہدف دیا گیا ہے اور کمیشن یہ ہدف پورا کریگا۔اب بنیادی حقیقت جو لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے سامنے آئی ہے وہ بجلی کی قلت یا اس کا بار بار تعطل ہے۔ قدرت نے پاکستان کو منفرد جغرافیائی محل وقوع عطا کیا ہے، بس ضرورت اس بات کی ہے کہ توانائی بحران کا جلد خاتمہ ہو تاکہ ملکی معیشت ترقی کرے اور عوام آسودہ حال ہوں۔
وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ دھرنے اور احتجاج ملکی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں، ایسا کرنیوالے ملک پر رحم کریں، وطن عزیز سے لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ہماری اولین ترجیح ہے۔ وہ چین کے تعاون سے چشمہ تھری ایٹمی پاور پلانٹ کی افتتاحی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ 2018 تک نہ صرف ملک میں لوڈ شیڈنگ نہیں ہوگی بلکہ بجلی سستی بھی دستیاب ہوگی۔ قبل ازیں وزیراعظم نے تختی کی نقاب کشائی کر کے 340میگاواٹ کے چشمہ تھری جوہری بجلی گھر کا افتتاح کیا۔ چائنہ نیشنل نیوکلیئر کارپوریشن کے نائب صدر یوٹیکن نے چشمہ منصوبے کی تکمیل پر پاکستان کو مبارکباد پیش کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ جوہر ی تعاون پاک چین تذویراتی تعلقات کا عکاس ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ موجودہ ملکی صورتحال اگرچہ توانائی کے اعصاب شکن بحران سے کبھی الگ نہیں رہی ہے لیکن حکومت کے احساس زیاں نے اس شعبہ میں مزید غفلت سے خبردار رہ کر صائب پیش رفت کی ہے، اور اسی لیے وزیراعظم نواز شریف قوم کو مسلسل اس بات کا یقین دلارہے ہیں کہ 2018 ء میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم ہوگی۔ ان کے اس یقین کی بنیاد وہ ہمہ جہت توانائی منصوبے ہیں جو پاک چین دوستی اور اقتصادی معاونت کی مثالی شکل میں جاری ہیں، چشمہ تھری اسی تعاون کی ایک کڑی ہے۔
ان منصوبوں کی تکمیل اگر وقت مقررہ پر ہوجائے تب اس خواب کو عملی تعبیر ملے گی اور عوام کو اطمینان ہوگا کہ انہیں لوڈ شیڈنگ سے واقعی نجات مل گئی ہے ، حکومت کے اس وعدہ فردا کی جزوی تکمیل کا اندازہ رواں سردی کے موسم میں نہیں ہوگا، جب موسم گرما ہوگا تب لوڈ شیڈنگ کے خاتمہ کے یقین کو سند تصدیق مل سکے گی ، جب کہ اصل مسئلہ ملک میں بجلی کی پیداوار اور طلب کے درمیان بڑھتا ہوا ہوشربا فرق اور مہنگی بجلی کی رسد ہے نیز بجلی کی تقسیم سمیت اس کے فرسودہ تکنیکی نظام میں فالٹس کے باعث ہونے والے غیر معمولی لائن لاسز کا سدباب بھی لازم ہے۔
وزیراعظم نے کہا ہم جب اقتدار میں آئے تو ملک کو دہشتگردی کے مسئلے کا سامنا تھا۔ معیشت کا برا حال تھا۔ 18،18گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ہوتی تھی۔ ہم نے قوم کو لوڈ شیڈنگ سے نجات دلانے کیلیے جس سفر کا آغاز کیا تھا اﷲ کا شکر ہے کہ اس سلسلے میں آج ایک اور سنگ میل عبور کرلیا۔ چشمہ تھری نیوکلیئر پاور پلانٹ کی تکمیل سے 340 میگاواٹ بجلی قومی گرڈ میں شامل ہوگی ۔ بلاشبہ یہ منصوبہ نیوکلیئر سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں پاک چین تعاون کا منہ بولتا ثبوت اور خطے میں ایک نئے دور کا آغاز بھی ہے۔
امید کرنی چاہیے کہ چشمہ فور نیوکلیئر پلانٹ بھی مقررہ مدت سے قبل یعنی 2017ء کے وسط سے پہلے بجلی کی پیداوار شروع کردیگا۔ اس کے علاوہ کے ٹو اور کے تھری پاور پلانٹس کی تعمیر سے جہاں توانائی کے حصول کی جانب ایک اہم قدم ہوگا وہیں یہ باہمی تعلقات کو بھی مزید مستحکم کریگا۔ چینی ساختہ پہلے پاور پلانٹ چشمہ یونٹ ون کی تعمیر کا معاہدہ بھی ن لیگ کے پہلے دور حکومت میں طے پایا تھا اور اسی نے دونوں ملکوں کے مابین نیوکلیئر توانائی کے شعبہ میں تعاون کی بنیاد فراہم کی تھی ۔ بین الاقوامی مدد کے بغیر چار دہائیوں سے زائد عرصہ پر محیط کینپ کی پیداواری صلاحیت ایک اہم کامیابی ہے۔
پاکستان اٹامک انرجی کمیشن نے جوہری ایندھن میں خود انحصاری کیلیے بہت کام کیا ہے۔ انھوں نے اس موقع پر چینی حکومت کے ساتھ ساتھ چائنا نیشنل نیوکلیئر کارپوریشن، ایگزم بینک اور چینی کمپنیوں کا بھی شکریہ ادا کیا جنہوں نے اس منصوبے کیلیے تکنیکی و مالی معاونت فراہم کی۔ دریں اثنا چین نے کہا ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری(سی پیک) کے منصوبوں کی مکمل تکمیل کے لیے ہرطرح سے پاکستان سے ساتھ کھڑے ہیں۔ دریں اثنا چینی وزارت خارجہ کی ترجمان ہوا چھون اینگ نے بدھ کو معمول کی پریس بریفنگ میں کہا کہ سی پیک منصوبوں کی تعمیر و ترقی کے لیے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرتے رہیں گے۔
یہ منصوبہ صرف چین اور پاکستان کو معاشی اور سماجی طور پر فوائد فراہم نہیں کرے گا بلکہ علاقائی رابطہ سازی ، معاشی اور تجارتی تعاون میں بھی کارآمد ہوگا۔وزیراعظم نے ہدایت کی کہ نیوکلیئر پاور پلانٹس کی تنصیب پر کام کو تیز کیا جائے اور ماہرین اہداف سے زیادہ بجلی پیدا کر کے ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں۔
وزیراعظم نے اس موقع پر چینی کمپنیوں کو نیوکلیئر پاور پلانٹس کے شعبے میں سرمایہ کاری کی دعوت دی اور یقین دلایا کہ حکومت پاکستان اس سلسلے میں ہر طرح کا تعاون اور مدد فراہم کریگی۔ اس سے قبل پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے چیئرمین محمد نعیم نے استقبالہ کلمات میں کہا کہ وسط مدت میں پی اے ای سی کو 8800 میگاواٹ جوہری توانائی پیدا کرنیکا ہدف دیا گیا ہے اور کمیشن یہ ہدف پورا کریگا۔اب بنیادی حقیقت جو لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے سامنے آئی ہے وہ بجلی کی قلت یا اس کا بار بار تعطل ہے۔ قدرت نے پاکستان کو منفرد جغرافیائی محل وقوع عطا کیا ہے، بس ضرورت اس بات کی ہے کہ توانائی بحران کا جلد خاتمہ ہو تاکہ ملکی معیشت ترقی کرے اور عوام آسودہ حال ہوں۔