تنازع فلسطین اور جان کیری کی تشویش
نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی اسرائیل کی بے جا حمایت کا فریضہ نبھا رہے ہیں
اسرائیلی آباد کاری کے خلاف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں منظور ہونے والی قرارداد کے بعد اسرائیل کی جانب سے امریکا کو سخت تنقید کا سامنا ہے۔ گزشتہ روز امریکی محکمہ خارجہ میں اسرائیل فلسطین تنازع پر پالیسی خطاب کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے گزشتہ سلامتی کونسل میں پیش ہونے والی قرارداد ویٹو نہ کرنے کے امریکی فیصلے کا دفاع کیا اور اس بارے میں اسرائیلی حکومت کی تنقید مسترد کردی ہے۔
کاش امریکی وزیر خارجہ تنازعہ فلسطین پر بھی اسی قدر تشویش کا اظہار کرتے جو اسرائیل کی چیرہ دستیوں کا شکار ہے، لیکن امریکی پالیسی بیان سے مترشح ہے کہ امریکا کو فلسطینیوں سے زیادہ اسرائیل سے تعلقات کی زیادہ فکر ہے، یہی وجہ ہے کہ بدھ کے روز جان کیری نے امریکی فیصلے کے دفاع سے زیادہ وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ سلامتی کونسل میں پیش ہونے والی قرارداد مشرق وسطیٰ میں دو ریاستی حل کو بچانے کا ایک راستہ تھا، جسے ویٹو نہ کرنے کا فیصلہ ان اقدار کے عین مطابق تھا جن پر امریکا یقین رکھتا ہے، بدقسمتی سے کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ امریکا کی ان سے دوستی کا مطلب یہ ہے کہ وہ ان کی ہر پالیسی کو تسلیم کرلے گا، جو درست نہیں۔
اگر اسرائیل سمجھتا ہے کہ فلسطین کا مسئلہ صرف ایک ریاست کے قیام سے حل ہوسکتا ہے تو اسرائیل صرف جمہوریت سے محروم ایک یہودی ریاست کے طور پر ہی باقی رہ پائے گا۔ امریکی وزیر خارجہ شاید یہ بھول بیٹھے ہیں کہ اسرائیل کو یہ شہ امریکی تعاون اور پالیسیوں کی بنیاد پر ہی مل پائی ہے، ورنہ مسئلہ فلسطین کب کا حل ہوچکا ہوتا۔ جان کیری کا یہ اقرار بھی حقیقت حال کو واضح کرنے کیلیے کافی ہے کہ جس میں انھوں نے کہا ہے کہ اسرائیل کے دوست ہیں اور اس کی سلامتی چاہتے ہیں، اوبامہ انتظامیہ نے اسرائیل کی سلامتی کے لیے سب سے زیادہ اقدامات کیے، دنیا میں اسرائیل کی قانونی حیثیت چیلنج کرنے والے اقدام کی مخالفت کی، اسرائیل اور فلسطین کو مل کر ساتھ رہنا ہوگا، خطے میں تصادم اور کشیدگی کسی کے مفاد میں نہیں۔
دوسری جانب نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی اسرائیل کی بے جا حمایت کا فریضہ نبھا رہے ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ نے خبردار کیا کہ اسرائیل کی مخالفت کرنے والے میرے مقابلے میں جنگ کیلیے تیار ہوجائیں۔ انھوں نے اسرائیلی حکومت کو آگاہ کیا کہ میرے عہدہ سنبھالنے تک اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔ نئے امریکی صدر کو باور رہنا چاہیے کہ ان کے غیر ذمے دارانہ بیانات پہلے ہی کافی آگ بھڑکا چکے ہیں۔
اسرائیلی ہٹ دھرمی اس بات سے بھی واضح ہے کہ اس نے مقبوضہ مشرقی بیت المقدس میں 5600 مکانات کی تعمیر کا منصوبہ جاری رکھنے کا اعلان کردیا ہے۔ بیت المقدس کے ڈپٹی میئر کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل ہمیں ڈکٹیشن نہیں دے سکتی۔ صائب ہوگا کہ سلامتی کونسل اپنی قراردادوں کو لاگو بھی کروائے۔