نئے دور کے لیے نئی پیپلزپارٹی
پیپلزپارٹی 49 سال قبل ذوالفقار علی بھٹو نے قائم کرکے ملک کی سیاست میں انقلاب پیدا کر کے نئی تبدیلی کا آغاز کیا تھا
پیپلزپارٹی کے نوجوان چیئرمین بلاول زرداری نے اپنی والدہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی نویں برسی کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ملک کے نئے دور کے لیے نئی پیپلزپارٹی پیش کررہا ہوں۔ انھوں نے یہ اشارہ بھی دیا کہ پیپلزپارٹی کے قیام کا مقصد پورا نہیں ہوا۔
پیپلزپارٹی 49 سال قبل ذوالفقار علی بھٹو نے قائم کرکے ملک کی سیاست میں انقلاب پیدا کر کے نئی تبدیلی کا آغاز کیا تھا جس کا مقصد اور نعرہ ملک میں اسلامی سوشلزم کا قیام اور ملک کے عوام کو روٹی، کپڑا اور مکان فراہم کرنا تھا۔ پی پی کے منشور کو عوام نے پسند کرتے ہوئے صرف تین سال بعد 1970ء کے عام انتخابات میں سندھ اور پنجاب میں واضح طور پر اور صوبہ بلوچستان اور سرحد میں عمومی کامیابی عطا کی تھی، جب کہ بڑی آبادی والے صوبے مشرقی پاکستان کے عوام نے پیپلزپارٹی کو مسترد کر کے عوامی لیگ کو بھاری اکثریت سے کامیاب بنایا تھا۔
عوامی لیگ کی واضح اکثریت کے باوجود فوجی صدر جنرل یحییٰ خان نے صدر برقرار رہنے کے لیے عوامی لیگ کو اقتدار نہیں دیا، جس پر بھارت نے عوامی لیگ کی سرپرستی میں مشرقی پاکستان پر حملہ کر کے پاکستان دولخت کرا دیا۔ ملک دولخت ہوئے بغیر پیپلزپارٹی کا حصول اقتدار کا مقصد پورا نہیں ہو رہا تھا جس کی وجہ سے بھٹو صاحب نے وزیراعظم بننے کے لیے بھارتی جارحیت سے قبل ہی ''ادھر ہم ادھر تم'' کی بات کی تھی جو بھارت نے سازش کر کے کامیاب کرائی اور مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا اور قائداعظم کا پاکستان ٹوٹ گیا تھا۔
ملک ٹوٹنے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے اکثریت کے باعث جنرل یحییٰ سے اقتدار حاصل کیا، سندھ اور پنجاب میں پیپلزپارٹی کی اور بلوچستان اور سرحد میں نیپ اور جے یو آئی کی مخلوط حکومتیں قائم ہوئیں اور کچھ عرصے بعد وزیراعظم بھٹو نے گورنر راج کے ذریعے بلوچستان اور سرحد میں بھی پی پی کی حکومتیں قائم کرا دیں اور ملک کو 1973ء میں متفقہ آئین بھی دیا جس کا اب حلیہ بگڑ چکا ہے مگر قائم ہے اور ملک اسی آئین کے تحت چل رہا ہے، جس میں ترامیم بھی پی پی دور میں ہوئیں۔
وزیراعظم بھٹو باقی پارٹیوں کے ساتھ نہیں چلے اور پانچ سال میں عوام کو روٹی، کپڑا، مکان ملا نہ ملک میں اسلامی سوشلزم آیا، بلکہ بھٹو صاحب کے من مانے فیصلوں اور 1977ء کی مبینہ انتخابی دھاندلیوں کی تحریک کے نتیجے میں ملک میں مارشل لا نافذ ہوا۔ ذوالفقار علی بھٹو پھانسی چڑھا دیے گئے۔ 1988ء کے عام انتخابات میں پیپلزپارٹی نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی قیادت میں کامیابی حاصل کی اور محترمہ وزیراعظم منتخب ہوئیں مگر اپنے شوہر پر لگنے والے الزامات کے باعث برطرف ہوئیں۔ دوسری بار بھی وزیراعظم بنیں مگر پھر برطرف ہوئیں مگر مخصوص لوگوں کے علاوہ عوام کو کچھ نہ دے سکیں۔
بے نظیر بھٹو کی زندگی تک پیپلزپارٹی کو تین بار اقتدار ملا، پی پی سوشلزم کو اسلامی بناکر بھٹو دور میں قائم کرنے میں ناکام رہی اور روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ بے نظیر دور میں ہی بے وقعت ہو چکا تھا، کرپشن کے نئے ریکارڈ قائم ہوئے، نظریاتی پی پی رہنما بھٹو دور میں ہی پی پی چھوڑ گئے تھے اور جاگیرداروں اور زمینداروں کو پارٹی میں شامل کیا جاتا رہا اور پی پی نام کی حد تک ہی عوامی پارٹی رہی، پی پی کے عام رہنما بھی عوام سے دور ہوکر کروڑ پتی بن گئے۔
محترمہ نے اپنی حکومتوں میں بھٹو دور کے پارٹی رہنماؤں اور انکلوں کو اہمیت نہ دے کر انھیں پی پی سے دور کردیا اور اپنے مخصوص رہنماؤں کو اعتماد بخشا اور پرانے چہرے دور ہوتے گئے، محترمہ کی شہادت کے بعد ان کے شوہر آصف علی زرداری پارٹی کے سربراہ بن گئے اور پھر چوتھی بار اپنی مفاہمتی پالیسی کے ذریعے پی پی کا یوسف رضا گیلانی کو وزیراعظم بنایا اور بعد میں خود صدر منتخب ہوئے اور محترمہ دور کے پی پی رہنماؤں کو نظر انداز کرکے اپنے اعتماد والوں کو اقتدار میں شامل کرتے رہے محترمہ کے دور میں پی پی میں کسی نے ڈاکٹر عاصم، مظفر اویس ٹپی جیسوں کا نام بھی نہ سنا تھا۔
پی پی کے وفادار جہانگیر بدر جیسے مخلص رہنما کھڈے لائن لگادیے گئے اور چوہدری اعتزاز احسن، خورشید شاہ زرداری صاحب کے نزدیک قابل احترام ٹھہرے اور اپنے پانچ سال مکمل کرنے میں کامیاب رہے اور قاتل لیگ قرار دی گئی مسلم لیگ ق کو بھی حکومت میں شامل کیا اور حکومتی اتحادیوں کو 5 سال تک خوب کھیلنے کا موقع دیا۔ یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف جیسے وزیراعظم زرداری صاحب کے طفیل ملک کا مقدر ٹھہرے اور 2013ء کے عام انتخابات میں سندھ کے علاوہ باقی صوبوں میں پیپلزپارٹی کا صفایا ہو گیا صدر زرداری اپنی مدت مکمل کر کے کچھ عرصے بعد ملک سے باہر چلے گئے اور ڈیڑھ سال بعد وطن واپس آئے ہیں۔
آصف زرداری کی ملک سے غیر حاضری کے دوران حکومتی اداروں نے سابق صدر کے انتہائی قابل اعتماد لوگوں پر گرفت کی تو کچھ ملک سے فرار ہو گئے کچھ پکڑے گئے اور سندھ حکومت ان سب کی مددگار بنی رہی۔ بیرون ملک رہنے سے سندھ کے علاوہ باقی صوبوں میں پیپلزپارٹی ختم ہوتی رہی اور سندھ میں وزیراعظم نواز شریف نے پی پی حکومت کو مکمل من مانی اور اقتدار سے کھیلنے کا موقع دے کر سندھ سے مسلم لیگ ن کا صفایا کرا لیا اور آج سندھ میں پی پی کا کوئی مد مقابل نہیں ہے۔
پی پی پی کے بانی بھٹو صاحب کے بعد بے نظیر بھٹو پارٹی چیئرپرسن اپنی والدہ کو ہٹا کر خود شریک چیئرپرسن بن گئیں اور پارٹی کو بھٹو صاحب کے برعکس اپنی مرضی سے چلایا جن کی شہادت کے بعد آصف علی زرداری پی پی کے سربراہ بنے اور انھوں نے بھی محترمہ کے برعکس پی پی اپنی مرضی سے چلائی جس کے نتیجے میں پی پی شکست سے دو چار ہو کر سندھ کے اقتدار تک محدود ہوگئی جس کا ذمے دار سیاسی حلقے آصف علی زرداری کو قرار دیتے ہیں اپنی خود ساختہ جلاوطنی سے چند ماہ قبل زرداری صاحب بلاول زرداری کو چیئرمین کے اختیارات دے کر اپنے صاحبزادے کو آگے تو کرچکے ہیں مگر پارٹی پر اب تک زرداری صاحب کی گرفت مضبوط اور اہم فیصلے بھی ان ہی کی ہدایت پر ہوتے ہیں۔
بلاول زرداری میں اپنے والد جیسی صلاحیت ہے نہ انھیں پارٹی میں فیصلہ کن ہونے کی طاقت حاصل ہے صرف محترمہ کا بیٹا ہونا ہی کافی نہیں ہے اب پی پی کا مقابلہ ن لیگ سے ہی نہیں پی ٹی آئی سے بھی ہے اور نوجوان نسل عمران خان کے ساتھ کھڑی نظر آرہی ہے۔
بلاول زرداری تجربے کار سیاست دان نہیں ہیں اور عوام کو بھی متاثر نہیں کرسکے ہیں اس لیے وہ پیپلزپارٹی کو نئے دور کی پارٹی بنانے کی بات تو کررہے ہیں عملی طور پر وہ ایسا نہیں کرسکیںگے، روٹی، کپڑا، مکان کا نعرہ پی پی بھول چکی مگر عوام کو یاد ہے جو انھیں نہیں ملا اور پی پی کے قیام کا مقصد بھی اسی لیے پورا نہیں ہوا اور پارٹی کرپشن میں سب سے زیادہ بدنام ہوئی ہے مگر بلاول کو اپنی پارٹی کی نہیں بلکہ ن لیگی حکومت کی کرپشن یاد کرائی گئی ہے جو ان کا خواب پورا نہیں کرسکے گی۔