آبی جارحیت میں جوش سے بہتر ہوش ہے
پاک بھارت تعلقات میں اتار چڑھاؤ معمول سا رہا ہے
پاک بھارت تعلقات میں اتار چڑھاؤ معمول سا رہا ہے۔ آزادی کے بعد تعلقات میں اعتدال کی نوبت خال خال ہی آئی۔ اس سال پٹھانکوٹ اور اڑی حملے کے بعد جس سرعت اور شدت سے بغیر ثبوت بھارت نے پاکستان پر الزام لگائے عالمی سفارتی حلقوں میں بھی ان الزامات کی خاص پذیرائی نہ ہوئی۔ اسی دوران سرجیکل اسٹرائیک کا بھارتی اعلان بھی ایک ہرزہ سرائی ثابت ہوا۔
ایسے میں ستمبر کے اواخر میں کسی بزرجمہر نے بی جے پی کی حکومت کو ایک غیر معمولی راستہ سجھایا، سندھ طاس معاہدے کا بطور ہتھیار استعمال۔ یوں بھارت نے یکطرفہ اس معاہدے کو منسوخ کرنے کی دھمکی دے ڈالی۔ بلکہ پہلے سے جاری ان کوششوں کو مزید تیز کر دیا جو پاکستان کے حصے کے پانی کا اپنے ہاں استعمال بڑھانے، پانی روکنے یا اس کا رخ بدلنے پر مبنی تھیں۔ تازہ ترین خبر یہ بھی ہے کہ بھارتی وزیر اعظم نے ایک ٹاسک فورس تشکیل دے دی ہے جو سندھ طاس معاہدے پر اسی روشنی میں غور کر کے حکومت کو مشورہ دے گی۔
معاملات سنگینی کی طرف جا رہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے وزیر خزانہ نے ورلڈ بینک کے صدر سے مداخلت کی درخواست بھی کر دی ہے۔ ملک میں جاری خشک سالی نے گندم کی بوائی کیلیے مشکلات کھڑی کر دی ہیں۔ پانی کی دستیابی اچانک ایک اہم مسئلہ بن کر سامنے آ کھڑی ہے۔ آبی جارحیت کہیے یا آبی دہشتگردی، یہ بد ترین خدشات کسی دور دراز کل کی بجائے آج ہی متشکل ہونے پر تلے ہوئے ہیں۔ ایسے میں ہمارے ہاں میڈیا پر بحثوں کا آغاز ہونا لازمی تھا۔ بحث کی حد تک تو ٹھیک تھا لیکن دیگر سیاسی معاملات کی طرح اس معاملے پر بھی معمول کی سیاسی چاند ماری شروع ہو گئی۔
کچھ پارہ صفت بے چین ہیں کہ حکومت یہ سب کچھ ٹھنڈے پیٹوں کیوں برداشت کر رہی ہے۔ کسی وزیر کے منہ سے بھارت پر تنقید کے نشتر برسے نہ الزامات کی انگار زنی ہوئی۔ وزیر اعظم جو ہر جلسے میں اشارے کنایے سے مخالفین پر چوٹ کرنے سے نہیں چوکتے، ان کے منہ سے بھارت کے ان اقدامات پر تنقید کا ایک لفظ بھی برآمد نہ ہوا۔ سفارتی محاذ پر بھی ایک آدھ وضاحتی بیان کے سوا کچھ قابل ذکر نہ ہوا۔ چند ایک شعلہ صفت اینکرز کو سنا تو اندازہ ہوا کہ ان کے خیال میں اب تک فیصلہ کن معرکے کا بگل بج جانا چاہیے تھا۔
طبل جنگ نہ بجنے کی وجوہات میں کسی یاری واری اور مبینہ تجارتی روابط کا طعنہ بھی بار بار سننے میں آیا۔پانی زندگی ہے۔ تمام عظیم اور قدیم انسانی تہذیبیں دریاؤں اور جھیلوں کے آس پاس پھلی پھولیں۔ دریائے نیل ہو یا دجلہ و فرات، دریائے سندھ یا گنگا جمنا۔ انسانی تہذیبوں اور پانی کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔ دریائی پانی کی تقسیم اور مشترکہ استعمال کا قدیم ترین معاہدہ اسیری تہذیب کی دو شہری ریاستوں لاگاش اور اوما کے درمیان اڑھائی ہزار سال قبل مسیح میں ہوا۔
اس معاہدے کو دنیا کا قدیم ترین انسانی معاہدہ بھی قرار دیا جاتا ہے۔ FAO کیمطابق 805 عیسوی سے لے کر زمانہء حال تک لگ بھگ مختلف اقوام اور ممالک کے درمیان 3600 سے زائد معاہدے طے پائے۔ ایک صدی قبل تک زیادہ تر معاہدے دریائی پانی کے استعمال کے ساتھ ساتھ باہمی حد بندی کیلیے کیے جاتے لیکن بعد ازاں یہ معاہدے پانی کی تقسیم، استعمال، آبی ذخائر کی تعمیر و مرمت ِ حفاظت، بچت او ر بجلی کی پیداوار پر مبنی ہیں۔
ملکوں کی حد بندیاں انسانی ضروریات کے مطابق تاریخ میں بدلتی رہی ہیں دنیا میں کئی ایسے دریا اور جھیلیں ہیں جو کئی کئی ممالک کے درمیان بہتے ہیں۔ یوں ان دریاؤں کے پانی کا مشترکہ استعمال ان ممالک اور اقوام کی ضرورت بھی ہے اور مجبوری بھی۔ دنیا میں تیرہ ایسے دریا ہیں جو پانچ سے آٹھ ممالک کے درمیان مشترک ہیں۔ پانچ دریا ایسے ہیں جو نو سے گیارہ ممالک کے درمیان مشترک ہیں جن میں کونگو، نیگر، نیل، رائن اور زیمبزی شامل ہیں۔ دنیا میں دریائے ڈینیوب واحد دریا ہے جو اٹھارہ اقوام میں مشترک ہے۔
دنیا میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث جھیلیں، دریا اور گلیشیرز سکڑ رہے ہیں۔ بڑھتی ہوئی آبادی، پھیلتے ہوئے شہر، معاشی ترقی، جنگلات میں کمی اور ماحولیاتی تبدیلیوں نے پانی کے ذخائر پر دباؤ بڑھا دیا ہے۔صرف گزشتہ پچاس سال کے دوران مختلف ممالک کے درمیان37 پُر تشدد تنازعات پانی کے استعمال اور اشتراکی حقوق پر ہوئے۔ آبی ذخائر کی اسی اہمیت کے پیش نظر اس دوران آبی وسائل کے اشتراک کے ڈیڑھ سو سے زائد بین الممالک معاہدے طے پائے۔
Strategic Foresight Group کی تین سال قبل ایک طویل اور دقیق تحقیق اس موضوع پر پیش کی گئی جس میں 148 ممالک کے درمیان دریاؤں کے مشترکہ استعمال کے205 معاہدوں کے جائزے سے یہ دلچسپ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ مؤثر اشتراک کی صورت میں معاہدے پر پابند ممالک کے درمیان جنگ کی نوبت نہیں آئی۔ یہ حقیقت بھی سامنے آئی کہ جنگ سے دریائی پانی کے اشتراک کے تنازعات طے نہیں ہوئے بلکہ کامیاب سفارتکاری نے یہ سلگتے مسائل حل کیے۔ دور حاضر کے نمایاں ترین ایسے معاہدوں میں می کانگ ریور کمیشن بھی ہے جو 1957ء میں کمبوڈیا، لاؤس، تھائی لینڈ اور ویت نام کے درمیان طے پایا۔
1955ء میں اردن اور اسرائیل کے درمیان دریائے اردن پر طے پانیوالا معاہدے کا جنگ کے باوجود فریقین نے پاس رکھا۔ دریائے نیل کا معاہدہ دس ممالک کی سولہ کروڑ آبادی کے درمیان کامیابی سے زیر عمل ہے۔ اسی طرح رائن اور ڈینیوب دریا کے علاوہ کولوراڈو دریا پر امریکا اور میکسیکو کا معاہدہ بھی کامیابی سے زیر عمل ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان آبی وسائل کی تقسیم پر سندھ طاس معاہدہ بڑی ردو کد اور سفارتی کوششوں سے 1960ء میں طے پایا۔
تین دریاؤں کے پانی کا حق بھارت کو تفویض کر دیا گیا یعنی راوی، بیاس اور ستلج۔ تین دریاؤں یعنی سندھ، چناب اور جہلم کے پانی پر اسّی فی صد استحقاق پاکستان کا طے ہوا۔ بھارت ان دریاؤں کے پانی پر طے شدہ استعمال کے علاوہ کچھ حدود و قیود کے تحت ہائیڈل بجلی پیدا کر سکتا ہے تاکہ پاکستان اپنے حصے کے پانی سے محروم نہ رکھا جائے۔
سندھ طاس معاہدہ دنیا کے پانی کے کامیاب ترین معاہدوں میں سے ہے جس پر دو باہمی جنگوں کے باوجود عمل جاری رکھا گیا۔ البتہ گزشتہ ایک دہائی کے دوران پاکستان کو بھارت سے شکایات رہیں کہ وہ پانی کے استعمال میں اپنی حدود سے تجاوز کر رہا ہے۔ دریائے چناب پر بگلیہار ڈیم پر پاکستان کے تحفظات پر اس معاہدے کے ثالث اور ضامن ورلڈ بینک نے ایک غیر جاندار ماہر مقرر کیا جس نے بعد ازاں ڈیم کے ڈیزائن میں چند تبدیلیاں تجویز کیں۔
ایسے میں ستمبر کے اواخر میں کسی بزرجمہر نے بی جے پی کی حکومت کو ایک غیر معمولی راستہ سجھایا، سندھ طاس معاہدے کا بطور ہتھیار استعمال۔ یوں بھارت نے یکطرفہ اس معاہدے کو منسوخ کرنے کی دھمکی دے ڈالی۔ بلکہ پہلے سے جاری ان کوششوں کو مزید تیز کر دیا جو پاکستان کے حصے کے پانی کا اپنے ہاں استعمال بڑھانے، پانی روکنے یا اس کا رخ بدلنے پر مبنی تھیں۔ تازہ ترین خبر یہ بھی ہے کہ بھارتی وزیر اعظم نے ایک ٹاسک فورس تشکیل دے دی ہے جو سندھ طاس معاہدے پر اسی روشنی میں غور کر کے حکومت کو مشورہ دے گی۔
معاملات سنگینی کی طرف جا رہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے وزیر خزانہ نے ورلڈ بینک کے صدر سے مداخلت کی درخواست بھی کر دی ہے۔ ملک میں جاری خشک سالی نے گندم کی بوائی کیلیے مشکلات کھڑی کر دی ہیں۔ پانی کی دستیابی اچانک ایک اہم مسئلہ بن کر سامنے آ کھڑی ہے۔ آبی جارحیت کہیے یا آبی دہشتگردی، یہ بد ترین خدشات کسی دور دراز کل کی بجائے آج ہی متشکل ہونے پر تلے ہوئے ہیں۔ ایسے میں ہمارے ہاں میڈیا پر بحثوں کا آغاز ہونا لازمی تھا۔ بحث کی حد تک تو ٹھیک تھا لیکن دیگر سیاسی معاملات کی طرح اس معاملے پر بھی معمول کی سیاسی چاند ماری شروع ہو گئی۔
کچھ پارہ صفت بے چین ہیں کہ حکومت یہ سب کچھ ٹھنڈے پیٹوں کیوں برداشت کر رہی ہے۔ کسی وزیر کے منہ سے بھارت پر تنقید کے نشتر برسے نہ الزامات کی انگار زنی ہوئی۔ وزیر اعظم جو ہر جلسے میں اشارے کنایے سے مخالفین پر چوٹ کرنے سے نہیں چوکتے، ان کے منہ سے بھارت کے ان اقدامات پر تنقید کا ایک لفظ بھی برآمد نہ ہوا۔ سفارتی محاذ پر بھی ایک آدھ وضاحتی بیان کے سوا کچھ قابل ذکر نہ ہوا۔ چند ایک شعلہ صفت اینکرز کو سنا تو اندازہ ہوا کہ ان کے خیال میں اب تک فیصلہ کن معرکے کا بگل بج جانا چاہیے تھا۔
طبل جنگ نہ بجنے کی وجوہات میں کسی یاری واری اور مبینہ تجارتی روابط کا طعنہ بھی بار بار سننے میں آیا۔پانی زندگی ہے۔ تمام عظیم اور قدیم انسانی تہذیبیں دریاؤں اور جھیلوں کے آس پاس پھلی پھولیں۔ دریائے نیل ہو یا دجلہ و فرات، دریائے سندھ یا گنگا جمنا۔ انسانی تہذیبوں اور پانی کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔ دریائی پانی کی تقسیم اور مشترکہ استعمال کا قدیم ترین معاہدہ اسیری تہذیب کی دو شہری ریاستوں لاگاش اور اوما کے درمیان اڑھائی ہزار سال قبل مسیح میں ہوا۔
اس معاہدے کو دنیا کا قدیم ترین انسانی معاہدہ بھی قرار دیا جاتا ہے۔ FAO کیمطابق 805 عیسوی سے لے کر زمانہء حال تک لگ بھگ مختلف اقوام اور ممالک کے درمیان 3600 سے زائد معاہدے طے پائے۔ ایک صدی قبل تک زیادہ تر معاہدے دریائی پانی کے استعمال کے ساتھ ساتھ باہمی حد بندی کیلیے کیے جاتے لیکن بعد ازاں یہ معاہدے پانی کی تقسیم، استعمال، آبی ذخائر کی تعمیر و مرمت ِ حفاظت، بچت او ر بجلی کی پیداوار پر مبنی ہیں۔
ملکوں کی حد بندیاں انسانی ضروریات کے مطابق تاریخ میں بدلتی رہی ہیں دنیا میں کئی ایسے دریا اور جھیلیں ہیں جو کئی کئی ممالک کے درمیان بہتے ہیں۔ یوں ان دریاؤں کے پانی کا مشترکہ استعمال ان ممالک اور اقوام کی ضرورت بھی ہے اور مجبوری بھی۔ دنیا میں تیرہ ایسے دریا ہیں جو پانچ سے آٹھ ممالک کے درمیان مشترک ہیں۔ پانچ دریا ایسے ہیں جو نو سے گیارہ ممالک کے درمیان مشترک ہیں جن میں کونگو، نیگر، نیل، رائن اور زیمبزی شامل ہیں۔ دنیا میں دریائے ڈینیوب واحد دریا ہے جو اٹھارہ اقوام میں مشترک ہے۔
دنیا میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث جھیلیں، دریا اور گلیشیرز سکڑ رہے ہیں۔ بڑھتی ہوئی آبادی، پھیلتے ہوئے شہر، معاشی ترقی، جنگلات میں کمی اور ماحولیاتی تبدیلیوں نے پانی کے ذخائر پر دباؤ بڑھا دیا ہے۔صرف گزشتہ پچاس سال کے دوران مختلف ممالک کے درمیان37 پُر تشدد تنازعات پانی کے استعمال اور اشتراکی حقوق پر ہوئے۔ آبی ذخائر کی اسی اہمیت کے پیش نظر اس دوران آبی وسائل کے اشتراک کے ڈیڑھ سو سے زائد بین الممالک معاہدے طے پائے۔
Strategic Foresight Group کی تین سال قبل ایک طویل اور دقیق تحقیق اس موضوع پر پیش کی گئی جس میں 148 ممالک کے درمیان دریاؤں کے مشترکہ استعمال کے205 معاہدوں کے جائزے سے یہ دلچسپ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ مؤثر اشتراک کی صورت میں معاہدے پر پابند ممالک کے درمیان جنگ کی نوبت نہیں آئی۔ یہ حقیقت بھی سامنے آئی کہ جنگ سے دریائی پانی کے اشتراک کے تنازعات طے نہیں ہوئے بلکہ کامیاب سفارتکاری نے یہ سلگتے مسائل حل کیے۔ دور حاضر کے نمایاں ترین ایسے معاہدوں میں می کانگ ریور کمیشن بھی ہے جو 1957ء میں کمبوڈیا، لاؤس، تھائی لینڈ اور ویت نام کے درمیان طے پایا۔
1955ء میں اردن اور اسرائیل کے درمیان دریائے اردن پر طے پانیوالا معاہدے کا جنگ کے باوجود فریقین نے پاس رکھا۔ دریائے نیل کا معاہدہ دس ممالک کی سولہ کروڑ آبادی کے درمیان کامیابی سے زیر عمل ہے۔ اسی طرح رائن اور ڈینیوب دریا کے علاوہ کولوراڈو دریا پر امریکا اور میکسیکو کا معاہدہ بھی کامیابی سے زیر عمل ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان آبی وسائل کی تقسیم پر سندھ طاس معاہدہ بڑی ردو کد اور سفارتی کوششوں سے 1960ء میں طے پایا۔
تین دریاؤں کے پانی کا حق بھارت کو تفویض کر دیا گیا یعنی راوی، بیاس اور ستلج۔ تین دریاؤں یعنی سندھ، چناب اور جہلم کے پانی پر اسّی فی صد استحقاق پاکستان کا طے ہوا۔ بھارت ان دریاؤں کے پانی پر طے شدہ استعمال کے علاوہ کچھ حدود و قیود کے تحت ہائیڈل بجلی پیدا کر سکتا ہے تاکہ پاکستان اپنے حصے کے پانی سے محروم نہ رکھا جائے۔
سندھ طاس معاہدہ دنیا کے پانی کے کامیاب ترین معاہدوں میں سے ہے جس پر دو باہمی جنگوں کے باوجود عمل جاری رکھا گیا۔ البتہ گزشتہ ایک دہائی کے دوران پاکستان کو بھارت سے شکایات رہیں کہ وہ پانی کے استعمال میں اپنی حدود سے تجاوز کر رہا ہے۔ دریائے چناب پر بگلیہار ڈیم پر پاکستان کے تحفظات پر اس معاہدے کے ثالث اور ضامن ورلڈ بینک نے ایک غیر جاندار ماہر مقرر کیا جس نے بعد ازاں ڈیم کے ڈیزائن میں چند تبدیلیاں تجویز کیں۔