مصنوعی ریٹینا

نابینا دیکھ سکیں گے، سائنس داں پُرامید


نابینا دیکھ سکیں گے، سائنس داں پُرامید۔ فوٹو : فائل

حال ہی میں سائنسی جریدے سائنٹفک امریکن میں نیچر میگزین کے حوالے سے شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق ماہرین اس امر پر خصوصی توجہ دے رہے ہیں کہ بینائی سے محروم افراد بھی زندگی کے حسین اور پر لطف نظاروں سے محظوظ ہو سکیں۔

رپورٹ کے مطابق دو ماہرین اعصابی نظام نے ایک ایسا مصنوعی ریٹینا ( prosthetic retina ) تخلیق کیا ہے جس کی وجہ سے نابینا چوہوں کی بینائی جزوی طور پر بحال ہوگئی۔ اس بات کے روشن امکانات ہیں کہ آئندہ چند سال میں اس مصنوعی ریٹینا کو انسانی آنکھوں میں استعمال کے قابل بنالیا جائے۔ دنیا میں اس وقت تقریباََ 20 ملین افراد ایسے ہیںجو ریٹینا کی خرابیdegeneration) (کے سبب بینائی سے محروم ہیں۔

ریٹینا باریک اور نازک بافت ہے جو آنکھ کی پشت پر واقع ہوتی ہے اور روشنی کو اعصابی سگنل میں تبدیل کرنے کا کام انجام دیتی ہے۔ ریٹینا کے علاج میں صرف ایک آلہ استعمال ہوتا ہے۔ اس آلے کے ذریعے ریٹینا میں برقیروں کی پیوندکاری کے ذریعے اسے مضبوط کیا جاتا ہے۔ یہ برقیرے براہ راست بصری اعصابی خلیات کو تحریک دیتے ہیں۔ تاہم اس علاج کے بعد بھی متاثرہ شخص لائنوں اور حروف پہچاننے کے قابل نہیں ہوتا البتہ چیزوںکو شناخت کرسکتا ہے اور روزمرہ امور کام یابی سے سر انجام دے سکتا ہے۔

ویل میڈیکل کالج (کورنیل یونیورسٹی ۔ نیویارک) کی فزیا لوجسٹ شیلا نیرنبرگ( Sheila Nirenberg) کہتی ہیں کہ اصل مسئلہ صرف کوڈنگ کا جزوی ترجمہ ہے حالاں کہ ریٹینا ایک باریک ٹشو پیپر کی مانند ہے اس کے باوجوداس میںعصبی خلیات کی کئی تہیں موجود ہوتی ہیں جو روشنی کو اعصابی سگنل میں ترجمہ کرتی ہیں ۔ شیلا نیرنبرگ کا خیال ہے کہ کوئی بھی مصنوعی بصری آلہ کوڈ کے بغیر کوئی ایسی شبیہہ نہیں بناسکتا جس کو دماغ آسانی سے شناخت کر سکے اور یہ کتنی حیران کن بات ہے کہ کوئی بھی کوڈ کے متعلق نہیں سوچتا۔

حال ہی میں شیلا نیرنبرگ اور اس کی شاگرد چیتھین پانڈیرینتھ(Chethan Pandarinath) نے ایک کوڈ متعارف کروایا ہے۔ دوسرے الفاظ میں انھوں نے ایک آلہ بنایا ہے جو نابینا چوہوں میں جزوی طور پر بینائی بحال کر سکتا ہے۔ اس آلے کے ذریعے چوہوں کے ریٹینا میں اعصابی خلیات کے ساتھ جینیاتی انجنیئرنگ سے تیار کردہ ایسا وائرس داخل کیا گیا جو اعصابی خلیات کو یہ تحریک دیتا ہے کہ وہ دماغ کو سگنل بھیجیں۔ یہ وائرس وہ حساس پروٹین پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جو کائی میں عام طور پر پایا جاتا ہے۔ جب روشنی آنکھ پر پڑتی ہے تو یہ پروٹین اعصابی خلیات کو تحریک دیتا ہے کہ وہ دماغ کو سگنل بھیجیں، بالکل اسی طرح جیسے ایک صحت مند شخص کے پردۂ چشم میں واقع باریک مخروطی خلیات (cone cell) اور کم سے کم روشنی کو شناخت کرنے والے اعضاء انجام دیتے ہیں۔

3

نیرنبرگ اور پانڈیرینتھ نے اپنی تحقیق اور تجربات کومزیدآگے بڑھاتے ہوئے نظری سگنل کو براہ راست آنکھ میں پہنچانے کے بجائے، اسے ایک کوڈ میں محفوظ کیا اور ایک عینک نما جوڑا (pair) بنا کر مشاہدہ کیا کہ ریٹینا ملنے والی ہدایت پر کس طرح عمل کرتا ہے۔ کوڈ میں محفوظ کی گئی معلومات ترجمہ ہونے کی صورت میں چوہوں نے لکیروں اور نشانات کی سمت حرکت شروع کی ، جو وہ پہلے نہیں کر سکتے تھے ۔

چوہوں پر نیرنبرگ اور پانڈیرینتھ کے کام یاب تجربے کے بعد ریٹینا پر تحقیق کرنے والے سائنس دانوں میں یہ موضوع زیربحث ہے کہ ترجمہ شدہ معلومات کو دماغ کس طرح قبول کرے گا۔ ان کے بقول یہ انتہائی مشکل کام ہے لیکن نیرنبرگ پر امید ہیں اور کہتی ہیں کہ انسانوں میںتجربات کے بعد ہی اس امر کا درست تعین ہو سکے گا۔

ان کوڈنگ(Encoding) بہت سادہ عمل ہے۔ اس عمل کے دوران ایک مائیکروچپ کو ایک چھوٹے ویڈیو کیمرے کے ساتھ منسلک کیا جائے گا۔ کیمرا سگنل کو ریکارڈ کرے گا اور ان کوڈر (Encoder) سگنل کو براہ راست بصری اعصاب کو بھیجے گا جن میں وائرس کی مدد سے جین داخل کیا گیا ہے۔ اگر یہ تیکنیک کام کرنے لگے تو یہ ایک نہایت ہی سادہ تیکنیک ہوگی جسے ڈاکٹر اپنے کلینک پر بھی سر انجام دے سکیں گے۔ سائنسدان اس کوشش میں ہیں کہ اس تکنیک کا جلد انسانوں میں بھی تجربہ کریں۔ اگر یہ تجربات کام یاب ہو گئے توبینائی سے محروم افراد دیکھنے کے قابل ہوسکیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں