دانتوں سے ناخن کترنا ایک نفسیاتی مسئلہ
کترے ہوئے یا کھائے ہوئے ناخنوں کے علاج کے لیے سائیکو تھراپی مفید عمل ہے۔
دانتوں سے ناخن کترنے کی عادت خاصی عام ہے اور اس عادت میں گھر کے تمام افراد بہ یک وقت مبتلا ہوسکتے ہیں۔ یہ عادت زیادہ تر بچپن میں پیدا ہوتی ہے اور پھر عمر بڑھنے کے ساتھ برقرار رہتی ہے۔
طبعی طور پر دیکھا جائے تو عام طور پر ایسی شخصیت غیر متوازن ہوتی ہے اور اس کا خاندانی پس منظر غیر محفوظ پایا جاتا ہے۔ اس مرض سے بہ یک وقت سارے ناخن متاثر ہوتے ہیں اور مریض کے ایک آدھ کے علاوہ تقریباً سارے ہی ناخن کترے ہوئے ہوتے ہیں۔ عموماً ناخن کا بیش تر حصہ بھی کھایا ہوا ہوتا ہے۔ اس کا علاج خاصا مشکل کام ہے اس مرض کی ایک اہم وجہ مریض کا عدم تعاون اور عادت کا ترک نہ کرنا ہے۔
کترے ہوئے یا کھائے ہوئے ناخنوں کے علاج کے لیے سائیکو تھراپی مفید عمل ہے۔ بعض اوقات بد رنگ یا بدہیئت ناخنوں کی شکایت ایسے افراد میں بھی دیکھنے میں آتی ہے جو عادتاً اپنے ناخن دوسرے ہاتھ کی انگلیوں کے سروں پر ملتے رہتے ہیں یا اپنے ناخن کافی گہرائی تک کاٹنے کے عادی ہوتے ہیں اور ناخن کاٹنے کے لیے نیل کٹر اور سیٹ کرنے کے لیے فائل کی بجائے قینچی یا ریزر بلیڈ وغیرہ استعمال کرتے ہیں۔
اس کے علاوہ بعض افراد میں انگوٹھے کے ناخن کو اسی ہاتھ کی انگلی سے شعوری یا لاشعوری طور پر چھیڑتے رہنے کی عادت بھی پائی جاتی ہے، اس طرح بعض افراد ناخنوں کو ضرب لگاتے رہتے ہیں یا ان کے کناروں کو نوچتے رہتے ہیں، اس طرح بھی ناخن پر لمبی دھاریاں اور درمیان میں گڑھا پڑ جاتا ہے۔ یہ عادت بھی ناخن چبانے کی عادت کی طرح ایک بار پڑ جائے تو پھر مشکل ہی سے چھوٹتی ہے۔ اس ضمن میں ایک اور عادت کا ذکر بھی باعث معلومات و دل چسپ ہوگا وہ یہ کہ کچھ افراد کو یہ وہم ہوجاتا ہے کہ ان کے جسم پر کیڑے رینگتے ہیں اپنی اس شکایت کو ثابت کرنے کے لیے وہ اکثر ہاتھ سے نوچے ہوئے ناخن اور اس کے گرد کے گوشت کے چھلکوں کو بھی اپنے ساتھ کلینک پر لاتے ہیں پھر کچھ افراد اپنے سر کے بال جمع کرکے دکھانے لاتے ہیں اور یہ شکایت کرتے ہیں کہ ان کے سر پر کیڑے موجود ہیں۔
انہیں کتنا ہی سمجھایا جائے مگر وہ قائل نہیں ہوتے اور ایک ڈاکٹر سے دوسرے اور ایک اسپتال سے دوسرے اسپتال کے چکر لگاتے رہتے ہیں۔ اسی طرح بعض افراد کو نہ صرف کیڑوں کی شکایت بلکہ نامعلوم قسم کے پیٹ کے درد و سینے کے درد یا پھر کسی اور قسم کی شکایات ہوتی رہتی ہیں جو متعدد ٹیسٹ کرانے کے باوجود گرفت میں نہیں آتیں۔ دراصل ان افراد کی شکایات کے پس منظر میں کسی طرح کے ڈپیرشن یا نامعلوم پریشانی کا عنصر بہرحال موجود رہتا ہے عام طور پر ایسے مریضوں کو نفسیاتی معالج کی ضرورت درپیش ہوتی ہے۔
ناخن کترنا ایک نفسیاتی مرض ہے اور اس ضمن میں ہسٹریا اور Malingering کا تذکرہ کرنا بھی بے جا نہ ہوگا کہ ان دونوں میں باریک مگر اہم فرق ہے۔ ہسٹریا کے مرض میں خواتین کو یہ علم نہیں ہوتا کہ وہ کیا کر رہی ہیں اور اس کا حملہ صرف افراد کی موجودگی ہی میں اور بے ساختہ ہوتا ہے۔ تنہائی میں یہ مرض کبھی حملہ آور نہیں ہوتا جبکہ ڈھونگ بازی ایک ایسا نفسیاتی مرض ہے جوکہ صرف خواتین ہی میں پایا جاتا ہے مگر مریضہ کو اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ وہ کیا حرکات کر رہی ہے۔ دونوں امراض کا مقصد اپنی جانب متوجہ کرنا ہوتا ہے۔ مگر ہسٹریا کی مریضہ لاشعوری طور پر جبکہ ملینگرنگ کا عمل خالصتاً شعوری ہوتا ہے۔ کسی حد تک یہ مرض بچوں میں بھی پایا جاتا ہے۔ جس کا فوری اور کارگر علاج مریض کی علامات کو نظرانداز کرنا ہے۔
کچھ افراد اپنے چہرے یا ناخن پر دانستہ خراشیں ڈالتے رہتے ہیں یا انہیں نوچتے رہتے ہیں۔ بعض افراد بلیڈ کی مدد سے بھی اپنے ناخنوں پر لکیریں ڈالتے ہیں۔ اس کی وجہ لاشعور میں کوئی شخصی گرہ ہوتی ہے۔ ایسے مریض بھی نفسیاتی مدد کے مستحق ہوتے ہیں کیونکہ ان کا یہ فعل زیادہ تر اپنی جانب متوجہ کرنے کا ایک حربہ ہوسکتا ہے۔
زندگی کے مسائل سے نپٹنے کے لیے متوازن شخصیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ متلون مزاج اور جذباتی لوگ پریشانیوں کا حل تلاش کرنے میں مشکل محسوس کرتے ہیں تو اکثر خود آزاری میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور اپنے آپ ہی کو نشانہ بناتے رہتے ہیں اور ایسے ہی افراد ناخن خوری شروع کردیتے ہیں یا پھر اپنے ہونٹوں کو چباتے رہتے ہیں۔ دیگر عادات میں سر پر خارش یا جسم کے کسی بھی حصے پر خارش کرتے رہنا بھی شامل ہیں۔ ایسا کرنے سے وہ سکون محسوس کرتے ہیں۔ اس حوالے سے ایک نہایت دل چسپ بات یہ ہے کہ اس طرح کے افراد اپنی اس عادت سے تسکین حاصل کرتے ہیں اور ان پر کسی نصیحت کا اثر نہیں ہوتا اور نہ ہی اپنی اس بیماری سے وہ کچھ زیادہ پریشان نظر آتے ہیں۔
بعض مریض تو ایسے بھی دیکھنے میں آتے ہیں جو اپنی جلد کو خارش کرکے ادھیڑ ڈالتے ہیں۔ ان ہی عادات سے ملتی جلتی کیفیت بسیار خوری کی بھی ہے۔ یہ بات مستند ہے کہ معمول سے زیادہ کھانے والا شخص اندرونی خلفشار یا ڈپریشن میں مبتلا ہوتا ہے یا دوسرے الفاظ میں اپنا غم غلط کرنے کے لیے کھانے کا سہارا لیتا ہے۔ بسیار خوری، ناخن خوری یا دیگر ایسے تمام امراض پریشانیوں سے ذہنی فرار اور شخصی کمزوری کا برملا اظہار ہیں۔ ایسے افراد عملاً ناکام، خوفزدہ یا حاسد مزاج ہوتے ہیں۔ ان کے لیے نفسیاتی معالج سے رجوع کرنا بہت ضروری ہے۔ ایسے افراد اگر خود چاہیں تو باآسانی ان تکالیف و عادات سے نجات حاصل کرسکتے ہیں۔ لیکن معالج کے سمجھانے اور علاج طے کرنے سے جلد افاقے کی توقع ہے۔
طبعی طور پر دیکھا جائے تو عام طور پر ایسی شخصیت غیر متوازن ہوتی ہے اور اس کا خاندانی پس منظر غیر محفوظ پایا جاتا ہے۔ اس مرض سے بہ یک وقت سارے ناخن متاثر ہوتے ہیں اور مریض کے ایک آدھ کے علاوہ تقریباً سارے ہی ناخن کترے ہوئے ہوتے ہیں۔ عموماً ناخن کا بیش تر حصہ بھی کھایا ہوا ہوتا ہے۔ اس کا علاج خاصا مشکل کام ہے اس مرض کی ایک اہم وجہ مریض کا عدم تعاون اور عادت کا ترک نہ کرنا ہے۔
کترے ہوئے یا کھائے ہوئے ناخنوں کے علاج کے لیے سائیکو تھراپی مفید عمل ہے۔ بعض اوقات بد رنگ یا بدہیئت ناخنوں کی شکایت ایسے افراد میں بھی دیکھنے میں آتی ہے جو عادتاً اپنے ناخن دوسرے ہاتھ کی انگلیوں کے سروں پر ملتے رہتے ہیں یا اپنے ناخن کافی گہرائی تک کاٹنے کے عادی ہوتے ہیں اور ناخن کاٹنے کے لیے نیل کٹر اور سیٹ کرنے کے لیے فائل کی بجائے قینچی یا ریزر بلیڈ وغیرہ استعمال کرتے ہیں۔
اس کے علاوہ بعض افراد میں انگوٹھے کے ناخن کو اسی ہاتھ کی انگلی سے شعوری یا لاشعوری طور پر چھیڑتے رہنے کی عادت بھی پائی جاتی ہے، اس طرح بعض افراد ناخنوں کو ضرب لگاتے رہتے ہیں یا ان کے کناروں کو نوچتے رہتے ہیں، اس طرح بھی ناخن پر لمبی دھاریاں اور درمیان میں گڑھا پڑ جاتا ہے۔ یہ عادت بھی ناخن چبانے کی عادت کی طرح ایک بار پڑ جائے تو پھر مشکل ہی سے چھوٹتی ہے۔ اس ضمن میں ایک اور عادت کا ذکر بھی باعث معلومات و دل چسپ ہوگا وہ یہ کہ کچھ افراد کو یہ وہم ہوجاتا ہے کہ ان کے جسم پر کیڑے رینگتے ہیں اپنی اس شکایت کو ثابت کرنے کے لیے وہ اکثر ہاتھ سے نوچے ہوئے ناخن اور اس کے گرد کے گوشت کے چھلکوں کو بھی اپنے ساتھ کلینک پر لاتے ہیں پھر کچھ افراد اپنے سر کے بال جمع کرکے دکھانے لاتے ہیں اور یہ شکایت کرتے ہیں کہ ان کے سر پر کیڑے موجود ہیں۔
انہیں کتنا ہی سمجھایا جائے مگر وہ قائل نہیں ہوتے اور ایک ڈاکٹر سے دوسرے اور ایک اسپتال سے دوسرے اسپتال کے چکر لگاتے رہتے ہیں۔ اسی طرح بعض افراد کو نہ صرف کیڑوں کی شکایت بلکہ نامعلوم قسم کے پیٹ کے درد و سینے کے درد یا پھر کسی اور قسم کی شکایات ہوتی رہتی ہیں جو متعدد ٹیسٹ کرانے کے باوجود گرفت میں نہیں آتیں۔ دراصل ان افراد کی شکایات کے پس منظر میں کسی طرح کے ڈپیرشن یا نامعلوم پریشانی کا عنصر بہرحال موجود رہتا ہے عام طور پر ایسے مریضوں کو نفسیاتی معالج کی ضرورت درپیش ہوتی ہے۔
ناخن کترنا ایک نفسیاتی مرض ہے اور اس ضمن میں ہسٹریا اور Malingering کا تذکرہ کرنا بھی بے جا نہ ہوگا کہ ان دونوں میں باریک مگر اہم فرق ہے۔ ہسٹریا کے مرض میں خواتین کو یہ علم نہیں ہوتا کہ وہ کیا کر رہی ہیں اور اس کا حملہ صرف افراد کی موجودگی ہی میں اور بے ساختہ ہوتا ہے۔ تنہائی میں یہ مرض کبھی حملہ آور نہیں ہوتا جبکہ ڈھونگ بازی ایک ایسا نفسیاتی مرض ہے جوکہ صرف خواتین ہی میں پایا جاتا ہے مگر مریضہ کو اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ وہ کیا حرکات کر رہی ہے۔ دونوں امراض کا مقصد اپنی جانب متوجہ کرنا ہوتا ہے۔ مگر ہسٹریا کی مریضہ لاشعوری طور پر جبکہ ملینگرنگ کا عمل خالصتاً شعوری ہوتا ہے۔ کسی حد تک یہ مرض بچوں میں بھی پایا جاتا ہے۔ جس کا فوری اور کارگر علاج مریض کی علامات کو نظرانداز کرنا ہے۔
کچھ افراد اپنے چہرے یا ناخن پر دانستہ خراشیں ڈالتے رہتے ہیں یا انہیں نوچتے رہتے ہیں۔ بعض افراد بلیڈ کی مدد سے بھی اپنے ناخنوں پر لکیریں ڈالتے ہیں۔ اس کی وجہ لاشعور میں کوئی شخصی گرہ ہوتی ہے۔ ایسے مریض بھی نفسیاتی مدد کے مستحق ہوتے ہیں کیونکہ ان کا یہ فعل زیادہ تر اپنی جانب متوجہ کرنے کا ایک حربہ ہوسکتا ہے۔
زندگی کے مسائل سے نپٹنے کے لیے متوازن شخصیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ متلون مزاج اور جذباتی لوگ پریشانیوں کا حل تلاش کرنے میں مشکل محسوس کرتے ہیں تو اکثر خود آزاری میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور اپنے آپ ہی کو نشانہ بناتے رہتے ہیں اور ایسے ہی افراد ناخن خوری شروع کردیتے ہیں یا پھر اپنے ہونٹوں کو چباتے رہتے ہیں۔ دیگر عادات میں سر پر خارش یا جسم کے کسی بھی حصے پر خارش کرتے رہنا بھی شامل ہیں۔ ایسا کرنے سے وہ سکون محسوس کرتے ہیں۔ اس حوالے سے ایک نہایت دل چسپ بات یہ ہے کہ اس طرح کے افراد اپنی اس عادت سے تسکین حاصل کرتے ہیں اور ان پر کسی نصیحت کا اثر نہیں ہوتا اور نہ ہی اپنی اس بیماری سے وہ کچھ زیادہ پریشان نظر آتے ہیں۔
بعض مریض تو ایسے بھی دیکھنے میں آتے ہیں جو اپنی جلد کو خارش کرکے ادھیڑ ڈالتے ہیں۔ ان ہی عادات سے ملتی جلتی کیفیت بسیار خوری کی بھی ہے۔ یہ بات مستند ہے کہ معمول سے زیادہ کھانے والا شخص اندرونی خلفشار یا ڈپریشن میں مبتلا ہوتا ہے یا دوسرے الفاظ میں اپنا غم غلط کرنے کے لیے کھانے کا سہارا لیتا ہے۔ بسیار خوری، ناخن خوری یا دیگر ایسے تمام امراض پریشانیوں سے ذہنی فرار اور شخصی کمزوری کا برملا اظہار ہیں۔ ایسے افراد عملاً ناکام، خوفزدہ یا حاسد مزاج ہوتے ہیں۔ ان کے لیے نفسیاتی معالج سے رجوع کرنا بہت ضروری ہے۔ ایسے افراد اگر خود چاہیں تو باآسانی ان تکالیف و عادات سے نجات حاصل کرسکتے ہیں۔ لیکن معالج کے سمجھانے اور علاج طے کرنے سے جلد افاقے کی توقع ہے۔