ایک میٹنگ کے 50 ہزار روپے

ایسے لوگوں کو گورننگ بورڈ میں لایا جائے جو اپنے مفادات پس پشت رکھ کر کھیل کی بہتری کیلیے بات کریں

اگر آپ اس کام کیلیے درخواستیں طلب کریں تو مجھے یقین ہے کہ لاکھوں افراد ضرور اپلائی کریں گے۔ فوٹو: فائل

اگر آپ سے کوئی کہے کہ سال میں بس چار میٹنگز کیلیے لاہور یا کسی دوسرے شہر آنا ہے، جہاز کا ٹکٹ،20 ہزار روپے ڈیلی الاؤنس، فائیو اسٹار ہوٹل میں تمام سہولتوں کے ساتھ قیام دیا جائے گا، اس کے علاوہ غیرملکی دورے و دیگر مراعات بھی ملیں گی تو کیا انکار کریں گے؟ میرے خیال میں شاید ہی کوئی بے وقوف ہو گا جو ایسی کسی پیشکش پر ناں کہے،مفت کی چھٹیاں اور کچھ پیسے بھی مل جائیں تو کیا بُرے ہیں، بدلے میں بس ''ہاں ہوں'' کر کے لنچ وغیرہ سے لطف اندوز ہو کر واپس ہی تو آنا ہوتا ہے۔

اگر آپ اس کام کیلیے درخواستیں طلب کریں تو مجھے یقین ہے کہ لاکھوں افراد ضرور اپلائی کریں گے، لوگ کہتے ہیں کہ پی سی بی کے چیئرمین، ایگزیکٹیو کمیٹی چیف یا کوئی بھی دوسرا عہدہ پانے والے افراد کے بڑے مزے ہیں، میں تو کہتا ہوں گورننگ بورڈ ارکان بھی پیچھے نہیں ہیں، ان کا کام پی سی بی میں فرد واحد یا مخصوص لوگوں کو من پسند فیصلوں سے روکنا ہے، اگر بورڈ میں کوئی بات غلط لگے تو میٹنگ میں فوراً مخالفت کر دینا ہے، مگر جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے چند برس کے دوران کوئی ایسی میٹنگ نہیں ہوئی جس میں ارکان نے کسی مسئلے پر آواز اٹھائی ہو، حکام جو تجویز لائیں ''یس سر'' کہہ کر سرخم تسلیم کر لیا جاتا ہے، حالانکہ ارکان اپنے شعبوں کی ماہر شخصیات ہیں وہ اگر چاہیں تو بورڈ حکام کو ٹکردے سکتے ہیں مگر سب مصلحتوں کا شکار ہیں، کسی کو اپنے کسی رشتہ دار کو ٹیم میں کھلانا ہے، کوئی ٹورز و دیگر مراعات لینا چاہتا ہے۔

عرض یہ ہے کہ جس مقصد کیلیے گورننگ بورڈ کو تشکیل دیا گیا وہ کب کا فوت ہو چکا، اب بس ارکان میٹنگ میں آ کر گپ شپ لگاتے اور فیصلوں پرربڑ اسٹیمپ لگا کر چلے جاتے ہیں، شاید اسی لیے بورڈ کو من چاہے فیصلوں میں مکمل چھوٹ ملی، اب جمعے کو گورننگ بورڈ کا کراچی میں اجلاس ہوگا جس کے ایجنڈے میں سب سے مضحکہ خیز بات یہ نکتہ ہے جس کے تحت ارکان کی مراعات کیلیے میجر (ر) سید نعیم اختر گیلانی کی تجاویز پر بات ہوگی، پی سی بی میٹنگز سے ہٹ کر گورننگ بورڈ ارکان کے دوروں پر گائیڈ لائن پر تبادلہ خیال بھی ایجنڈے کا حصہ ہے، یہ کیا مذاق ہے، گورننگ بورڈ کو کھلاڑیوں اور دیگر کیلیے بات کرنی چاہیے الٹا وہ اپنے فوائد بڑھانے کیلیے شور مچا رہے ہیں،گذشتہ میٹنگ میں تو یہاں تک کہا گیا کہ ارکان کی ماہانہ تنخواہ مقرر کر دینی چاہیے، کس بات کی؟ وہ ایسے کیا کام کر رہے ہیں؟

بورڈ حکام خود تو دونوں ہاتھ سے دولت لٹا رہے ہیں اب انھوں نے فیصلے تسلیم کرانے کیلیے دوسروں کو بھی حصہ دینا شروع کر دیا جس سے خزانے مزید خالی ہوںگے،اس وقت میٹنگ کے دن 20 اور ایک دن پہلے یا بعد میں 10 ہزار روپے گورننگ بورڈ ارکان کو بطور ڈیلی الاؤنس دیے جاتے ہیں، اب اسے 50 ہزار یومیہ کرنے کی تجویز ہے، کچھ تو خدا کا خوف کریں، ایک اچھا خاصا پڑھا لکھا شخص پورے ماہ محنت کر کے جو رقم کماتا ہے وہ بغیرکچھ کیے ایک دن کیلیے دینے کی باتیں ہو رہی ہیں، اسی طرح ٹورز کے حوالے سے جو بات ہوئی اس کے تحت سال میں ایک دورہ ہو گا۔


پی ایس ایل کیلیے5 دن یو اے ای یا دیگر کسی دوسری سیریز کیلیے10روزکیلیے دوسرے ممالک جانے کا آپشن ملے گا، اس میں ارکان اہلیہ کو بھی ساتھ لے جا سکیں گے، انھیں بزنس کلاس کا فضائی ٹکٹ و دیگر سہولتیں بھی ملیں گی،غیرایشیائی ممالک میں 300ڈالر یومیہ الاؤنس ہوگا، یہ ٹورز نئی بات نہیں،گذشتہ2 برس میں پی سی بی گورننگ بورڈ ممبرز کے غیرملکی دوروں پر71 لاکھ سے زائد روپے خرچ ہو چکے ہیں، بس اب انھیں مستقل کیا جا رہا ہے، ارکان کا نیا مطالبہ اپنے لیے لیپ ٹاپ کمپیوٹر اور موبائل فون ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ پہلے پی سی بی نے اپنے ملازمین کیلیے یہ دونوں چیزیں ہم سے ہی منظور کرائیں تو ہمیں بھی دیں، اسی طرح جب سے چیئرمین نے انگلینڈ میں آپریشن کرانے کیلیے 65 لاکھ روپے کا بل منظور کرایا گورننگ بورڈ کے بعض ارکان اپنے لیے بھی ایسی سہولت لینا چاہتے ہیں، اب آپ اسی سے اندازہ لگا لیں کہ کیوں ہر گورننگ بورڈ میٹنگ خاموشی سے ختم ہو جاتی ہے، کیوں کسی معاملے پر آواز نہیں اٹھائی جاتی؟ کیوں پی ایس ایل کو کمپنی بنانے جیسے فیصلے آسانی سے تسلیم ہو جاتے ہیں۔

بورڈ آفیشلز کی مراعات ہو یا دیگر من پسند فیصلے کسی میں بھی گورننگ بورڈ ارکان کچھ نہیں کہتے ، اب جواب میں انھیں بھی تو کچھ چاہیے، حیرانی کی بات یہ ہے کہ ان میں سے کئی لوگ اعلیٰ عہدوں پر فائز امیر کبیر شخصیات ہیں لیکن پھر اپنے شہریارخان اور نجم سیٹھی بھی تو کم نہیں، ایسے تو وہ بھی ''رئیس'' ہونے کے باوجود بورڈ سے کروڑوں کے فائدے لے رہے ہیں، یہاں میں یہ بات بھی واضح کرنا چاہتا ہوں کہ بعض گورننگ بورڈ ارکان ٹورز وغیرہ کے مخالف اور مراعات سے انکار بھی کر دیتے ہیں لیکن ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسے لوگوں کو گورننگ بورڈ میں لایا جائے جو اپنے مفادات پس پشت رکھ کر کھیل کی بہتری کیلیے بات کریں، اس وقت بورڈ میں نجم سیٹھی پی ایس ایل سمیت تمام معاملات میں من مانیاں کر رہے ہیں مگر وزیر اعظم نواز شریف کی سپورٹ کے سبب کوئی انھیں کچھ نہیں کہہ سکتا،شہریارخان بھی بالکل بیک فٹ پر ہیں، گوکہ ان کی باتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ پی ایس ایل کمپنی و بعض دیگر معاملات سے خوش نہیں، مگر ساتھ ان کی بے بسی بھی نمایاں ہو جاتی ہے، ایسے میں مضبوط گورننگ بورڈ ہوتا تو حکام سے متنازع امور پرکچھ تو بازپرس ہوتی، اگر سب کچھ ایسا ہی چلتا رہا تو ملکی کرکٹ مزید زوال کی جانب گامزن ہو جائے گی، صورتحال کا جلد کنٹرول ہونا لازمی ہے، ویسے نیب اور ایف آئی اے نے بعض معاملات کی تحقیقات تو شروع کر دی ہیں آگے آگے دیکھیں ہوتا ہے کیا۔
Load Next Story